یہ بہت عام سی بات ہے کہ صرف آپ یا ہم ہی نہیں دنیا میں ہر دوسرا فون اٹھانے پر سب سے ہیلو کہتا ہے۔
کیونکہ پتہ نہیں، سب نے اپنے بڑوں کو دیکھا ہیلو کرتے ہوئے سنا تو خود بھی کر بیٹھے اور یہ روایت آجکل کی نہیں برسوں سے چلی آرہی ہے۔
کیا آپ جانتے ہیں کہ ہیلو کا لفظ کہاں سے آیا اور خصوصاً فون اٹھانے پر ہی کیوں اس کا استعمال زیادہ پایا جاتا ہے؟
آپ کو معلوم تو ہوگا ہی کہ ٹیلی فون کے موجد الیگزینڈر گراہم بیل ہیں۔ ان کے خیال میں بہتر لفظ ahoy تھا جو کہ ڈچ لفظ hoi سے ماخذ تھا اور اس کا مطلب بھی ہیلو ہی ہوتا ہے۔
اس زمانے میں ٹیلیفون کو ماڈرن واک ٹاک سمجھا جاتا تھا ، جو کہ کاروباری مفاد کے لئے استعمال ہوتی تھی۔
اس وجہ سے ٹیلی فون کی لائن ہمیشہ ہی آن ہوتی تھی، جس کو جس سے کال ہے بات کرلے اور فون کو بند نہ کرے بلکہ آن ہی رہنے دیں لیکن اس وجہ سے مسئلہ یہ پیدا ہوا کہ جب فون کے دوسری طرف بیٹھے بندے کو آپ سے بات کرنی ہے اور وہ کام کی حد سے آپ کو جانتا بھی نہ ہو تو کیسے اس کو مخاطب کیا جائے تو اس کے حل کے طور پر مشہور سائنسدان تھامسن ایڈیسن نے ہیلو کا لفظ کہنے کی تجویز پیش کی تاکہ ہیلو کہتے ہی سامنے والے الرٹ ہوجائیں کہ اب کوئی بات کرنے والا ہے۔
اس تجویز سے دنیا بھر میں فون پر مخاطب کرنے والے حضرات کے لیئے ہیلو کا لفظ وصف کردیا گیا، یوں آج تک یہ روایت چلی آرہی ہے کہ فون اٹھائیں تو پہلے ہیلو کہہ دیں۔