دودھ کا دودھ اور پانی کا پانی ایک مشہور پرانی کہاوت ہے اور ایسے موقع پر سنی جاتی ہے، جب کسی کا پول کھل کر سامنے آجائے۔
اس مشہور کہاوت کا ایک قصہ سننے کو ملتا ہے جو بہت دلچسپ ہے۔
ایک گوالا تھا جو زیادہ سے زیادہ دولت جمع کرنے کی خبط میں مبتلا ہو گیا ۔ وہ لالچ میں بری طرح اندھا ہو چکا تھا اور پیسے جمع کرنے میں لگا رہتا تھا۔
گوالے کے ذہن میں دولت کمانے کے لئے سیدھا اور آسان طریقہ یہ آیا کہ وہ دودھ میں پانی کی ملاوٹ شروع کرے۔ شہر میں رہ کر اس نے ناجائز طریقے سے بہت جلد مال بنا لیا ۔ جب اس نے خوب ساری دولت اکھٹا کرلی تو وہ اپنے گاؤں جانے کی تیاری کرنے لگا۔
اس کے بعد گوالے نے اپنی ساری رقم ایک تھیلی میں ڈال لی اور گاؤں کی طرف چل دیا۔ ان دنوں شدید گرمی کا موسم تھا اور پسینہ چوٹی سے ایڑی تک بہہ رہا تھا۔
گوالا بھی گرمی کی وجہ سے نڈھال تھا۔ پھر اسے راستے میں ایک دریا نظر آیا تو اس نے نہانے کا ارادہ کیا اور پیسوں کی تھیلی ایک درخت کے نیچے رکھ دی اور دوسروں سے چھپانے کی غرض سے اس پر کپڑے ڈال دیا۔ اس طرف سے مطمئن ہونے کے بعد اس نے لنگوٹ کس لیا اور دریا میں نہانے کے لئے کود گیا۔
گوالا جس علاقے میں نہانے کے لئے ٹہرا ہوا تھا ، وہاں کئی بندر ہوا کرتے تھے۔ اتفاق یہ ہوا کہ اس نے جس درخت کے نیچے رقم کی تھیلی رکھی ہوئی تھی ،بندر بھی اسی درخت پر موجود تھا ۔ بندر بہت شراتی تھا اور اس نے یہ سب ماجرا دیکھ لیا تھا۔ بندر نے گوالے کو دریا میں نہاتے دیکھ رہا تھا تو اسی دوران درخت سے اتر کر اس نے رقم کی وہ تھیلی اٹھائی اور درخت کی سب سے اونچی شاخ پر جا بیٹھا۔
گوالا جب پانی سے باہر آیا تو دیکھا کہ رقم کی تھیلی اپنی جگہ پر موجود نہیں پھر اس کی نظر بندر پر پڑی جس کے ہاتھ میں رقم والی تھیلی تھی۔ اس نے بندر کو ڈرانے کی کوشش کی کہ کسی طرح وہ تھیلی نیچے پھینک دے، لیکن بندر کو کوئی فرق نہ پڑا۔ اس نے تھیلی کھولی اور نوٹوں کو ایک ایک کر کے ہوا میں اڑانے لگا، پیسے اڑ کر زمین پر گرے تو کچھ دریا میں گرنے لگے۔ گوالا رُپوں کو پکڑنے کی کوشش کرتا رہا، لیکن یہ اس کے لئے بہت مشکل رہا۔
اسی دوران لوگ بھی وہاں جمع ہوگئے اور یہ مناظر دیکھنے لگے۔ ان میں چند وہ لوگ بھی تھے جو اس گوالے کی بے ایمانی سے واقف تھے۔ انھوں نے جب گوالے کو روتا اور پریشان حالت میں دیکھا تو کہنے لگے، ‘‘دودھ کا دودھ پانی کا پانی ہوگیا۔’’
یعنی گوالے نے جو مال دودھ میں پانی ملا کر ناجائز طریقے سے کمایا تھا وہ سب پانی میں ہی مل گیا تھا۔