ہماری ویب | Oct 18, 2014
کراچی (اسٹاف رپورٹر)آرٹس کونسل کی ساتویں عالمی اردو کانفرنس کے دوسرے روز’’اردو زبان کو درپیش مسائل اور اس کا مستقبل ‘‘پر اظہار خیال کرتے ہوئے اردو دنیا کے مایہ ناز افسانہ نگار انتظار حسین نے کہا کہ اردو کے سلسلے میں گلو بلا ئزیشن واقعی ایک مسئلہ ہے لیکن اردو کو فروغ پانے سے کوئی نہیں روک سکتا۔اردو کے سب سے زیادہ خطاکاراس کے اپنے لوگ ہیں۔جب بنگالی زبان کا مسئلہ کھڑا ہوا تو انہوں نے پھر بھی اپنے موقف میں لچک پیدا کرنے کی بالکل کوشش نہیں کی ۔ ان لوگوں نے اردو کو قومی زبان تو قراردیا مگر بعد میں اسے اس کے حال پر چھوڑ دیا۔ بابائے اردو مولوی عبدالحق جب پاکستان آ گئے تو انڈیا والے پریشان ہوگئے کہ ہماری اردو کا اب کیا بنے گا ۔تویہاں لوگوں نے برجستہ کہا کہ فکر کی بات نہیں وہاں اردو کیلئے لتا منگشیگتر موجود ہیں۔ انہوں نے کہا کہ حکومت کو زبان کے سلسلے میں قطعی فیصلہ کرلینا چاہئے کیونکہ یہاں ہر مسئلہ کالا باغ ڈیم کا مسئلہ بن جاتا ہے۔ ممتاز اسکالر اور سنیئر براڈ کاسٹر ر ضا علی عابدی نے کہا کہ خزاں رسید ہ پتوں سے جب کونپلیں پھوٹتی ہیں تو اردو مجھے لند ن میں یاد آجاتی ہے ۔ اردو عجیب سی زبان ہے یہ کسی کی بھی نہیں ہے لیکن سب کی ہے ۔رضا علی عابدی نے مزید کہا کہ اردو عجیب و غریب زبان ہے جب تک ہر گھر میں تین تین پانچ پانچ بچے پیدا ہورہے ہیں اردو قائم رہے گی ۔ڈاکٹر قاضی افضال حسین نے کہا کہ ہم نے یہ تصور کر لیا ہے کہ گلوبلائزیشن پر گرفت کرلیں گے مگر ہم نہیں جانتے کہ ہم گلو بلائزیشن کا شکار ہو گئے ہیں ۔ یہ عالم کاری امپریل ازم کے فروغ کیلئے ہے جن کی توپ اچھی جن کی ریل اچھی ان کا ادب بھی اچھا ۔حکومتیں اقدامات ایک دوسرے سے مفاد کے حصول کیلئے کرتی ہیں زبان کے فروغ کیلئے یہ بالکل نہیں سوچتیں ۔پچھلے پانچ برسوں سے ہمارے ہاں (انڈیامیں) کا کوئی طالب علم بے کار نہیں ہے ۔ڈاکٹر انعام الحق جاوید نے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ اردو کی طاقت ہے کہ ہم اردو بولتے ہیں سیاست دان سب اردو بولتے ہیں ۔یہ نظریہ ضرورت کے تحت پھیلائی جارہی ہے ۔قومی زبان ،رابطے کی زبان ،ذریعہ تعلیم ، سرکاری زبان یہ سب اردو ہے ۔بدقسمتی سے ذریعہ تعلیم ابھی تک سو فیصد اردو میں نہ ہوسکا۔ہر زبان کی ایک کلا س ہوتی ہے ۔ہمارے یہاں انگریزی چھائی ہوئی ہے ۔ذریعہ تعلیم اردو ،دفتری زبان اردو کے امکانات مسلسل مسترد ہورہے ہیں جس پر فکر کرنے کی ضرورت ہے ۔ڈاکٹر ناصر عباس نیئر نے موضوع پر اظہار خیال کرتے ہوئے کہا کہ ہر دوہفتے میں بقول یونیسکو ایک زبان مر رہی ہے ۔انگریزی اس میں Killer Languageکا کردار اداکررہی ہے ۔اردو کو بعض حقیقی چیلنجز کا سامنا ہے اکنامک اور نالج کا گہرا تعلق ہے ۔اردو کو اپنی بقاء اس گلوبلائزیشن میں قائم رکھنے کیلئے اپنی اتھارٹی بنانا ہوگی ۔انگریزی میں علم پیدا ہوتا ہے تو فورانیٹ کے ذریعے دنیا بھر میں پھیل جاتا ہے اردو میں اس طرح ہر شعبے میں علم و تخلیق ہونا چاہئے ۔جیسا کہ انگریز ی زبا ن میں ہوتا ہے ۔اردو میں تراجم بہت زیادہ ہونا چاہئے ۔قومی سطح پر تراجم کا شعبہ ہونا چاہئے ۔اور اردو ان تراجم کے ذریعے اس گلوبلائزیشن کا ساتھ دے ۔ڈاکٹر فاطمہ حسن نے اپنے موضوع اردو کی ترویج میں غیر سرکاری اداروں کا کردار پہ گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ آرٹس کونسل اس موضوع کے تناظر میں ایک اہم کردار ادا کررہی ہے ۔انجمن ترقی اردو پاکستان کو دو برس سے کو ئی سرکاری امداد نہیں مل رہی ہے ۔ہم 650سے زیادہ کتابیں شائع کرچکے ہیں زبان قائم رہے گی تو ثقافت قائم رہے گی ۔غیرسرکاری ادارے جہاں اپنا اپنا کام اپنے اپنے حدود میں رہ کر کررہے ہیں وہاں سرکاری سطح پر ان اداروں کی بھر پور توجہ ہونی چاہئے ۔ ڈاکٹرنجیبہ عارف نے اپنے موضوع اردو زبان کے عصر ی مسائل اور جامعات کا کردار پربات کرتے ہوئے کہا کہ اردو ادب کو ہم اپنی تہذیبی اور ثقافتی شناخت قراردیتے ہیں ۔اردو کے بدلتے ہوئے لہجوں پہ کون توجہ دے رہا ہے ۔لسانی ارتکاد کا عمل اور اسکی تشریح و ترویج تو ماہرین کا کام ہے۔ سرکاری سطح پر یہ سب کچھ ناپید ہے ۔اور بالخصوص جامعات کا کردار اس ضمن میں بے حد کم ہے ۔جامعات کے فارغ التحصیل درست اردو میں درخواست تک نہیں لکھ پاتے ۔بولی جانے والی زبان کسی بھی زبان کا اس کا اصل چہر ہ ہوتی ہے۔ زبان کی معیاد صدی میں اس کا املا اور لہجہ بڑی اہمیت رکھتے ہیں ۔اردو کیلئے ایک کسوٹی قائم ہوجانا چاہئے جو اس کی معیار بندی کیلئے مثبت انداز اداکرے اور جامعات اس ضمن میں اہم کردار ادا کرسکتی ہیں ۔
Disclaimer: Urduwire.com is only the source of Urdu Meta News (type of Google News) and display news on “as it is” based from leading Urdu news web based sources. If you are a general user or webmaster, and want to know how it works? Read More