آمدن چار سال پرانے والی ہے٬ سال پہلے مالک مکان نے کرایہ 10 فیصد بڑھایا اب کہہ رہا ہے ڈبل کرو یا خالی کرو کم میں وارا نہیں٬ اسکول والوں نے بھی فیس بڑھا دی ہے- اس قسم کے جملے ہمیں اب اپنے اردگرد عام سنائی دیتے ہیں جو کہ آہستہ آہستہ ہماری زندگیوں کا حصہ بنتے جارہے ہیں- مہنگائی نے عوام کا کمر ہی نہیں توڑی بلکہ اسے زندہ لاش بھی بنا دیا ہے- حکمران اور سیاستدان سے صرف سیاسی پینتروں میں مصروف ہیں اور انہیں صرف یہ فکر ہے کہ ملک ڈیفالٹ ہے یا نہیں- لیکن حقیقت یہ ہے کہ ملک ڈیفالٹ ہوا ہو یا نہیں پاکستان کی عوام ضرور ڈیفالٹ کر گئی ہے٬ یقین نہ آئے تو مندرجہ ذیل فہرست پر نظر ڈالیں خود ہی ظلم کا احساس ہوجائے گا-
4000 والا بجلی بل 9000 روپیے
1000 والا آٹا 1600 روپے
400 والا گھی 600 روپے
10 والی روٹی 20 روپے
15 والا نان 30
80 والی چنے کی پلیٹ 160 روپے
350 والی بائیک ٹیوب 550 روپے
150 والا پٹرول 272 روپے
20 والا چنگچی کرایہ 40 روپے
200 والا ڈاکٹر 500 روپے
150 والا چاول 400 روپے
90 والی ڈیڑھ لیٹر کوک بوتل 180 روپے
80 والی چینی 160 روپے
3500 والا پنکھا 8 ہزار روپے
50 والا صابن 200 روپے
20 والا ریمورٹ سیل اب 40 روپے
20 روپے والا سوپر بسکٹ 40 روپے
ایک روپے والی کینڈی اب 5 روپے
30 والا باریک سیویاں پیکٹ اب 50 روپے
یہ تو صرف چند چیزوں کی فہرست ہیں جبکہ ایسی لاتعداد چیزیں اور بھی ہیں جن کی قیمتوں میں دگنا یا اس سے بھی کئی زیادہ اضافہ ہوچکا ہے- سوال یہ ہے کہ حکومت کی اس معاشی بربریت میں سفید پوش انسان ماہانہ 30000 کمانے والا کیا کرے کہاں جائےگا؟ غریب کے پاس خودکشی یا جرم کرنے کے علاوہ کوئی راستہ ہے؟