Getty Imagesکلدیپ سنگھ سینگر کو ریپ کا الزام ثابت ہونے پر عمر قید کی سزا سُنائی گئی تھی
انڈیا کی سپریم کورٹ نے ہائیکورٹ کے ایک ایسے متنازع حکم پر عملدرآمد روک دیا ہے جس کے تحت ایک سابق رُکن پارلیمان کو ایک کم عمر لڑکی کے ریپ کے جرم میں دی گئی عمر قید کی سزا کو معطل کر دیا گیا تھا۔
کلدیپ سنگھ سینگر، جو حکمران بھارتیہ جنتا پارٹی (بی جے پی) سے تعلق رکھتے تھے، کو سنہ 2019 میں ریپ کا مجرم قرار دیتے ہوئے عمر قید کی سزا سنائی گئی تھی۔
گذشتہ ہفتے دہلی ہائیکورٹ نے ریپ کے جرم میں دی گئی عمر قید کی سزا معطل کرتے ہوئے اُن کی مشروط ضمانت منظور کر لی تھی۔ تاہم سابق رُکن پارلیمان جیل سے باہر اس لیے نہیں آ سکے تھے کیونکہ وہ ایک اور مقدمے، جو ریپ کا شکار ہونے والی لڑکی کے والد کی موت سے متعلق ہے، میں بھی سزا یافتہ ہیں۔
دلی ہائیکورٹ کے اس متنازع فیصلے پر ناصرف شدید غم و غصے کا اظہار کیا گیا بلکہ اس معاملے پر احتجاج بھی ہوئے، جس میں متاثرہ لڑکی اور اُن کی والدہ بھی شامل ہوئیں۔
ریپ کا یہ واقعہ ریاست اُتر پردیش کے ضلع اُناؤ میں 17 سالہ لڑکی کے ساتھ پیش آیا تھا اور انڈیا میں حالیہ برسوں کے بدترین واقعات میں شمار ہوتا ہے۔
متاثرہ لڑکی، جن کا نام انڈیا کے قوانین کے تحت ظاہر نہیں کیا جا سکتا، نے الزام عائد کیا تھا کہ وہ جون 2017 میں نوکری کے حصول کی غرض سےکلدیپ سنگھ سینگرکے پاس گئی تھیں، جہاں سے انھیں اغوا کر لیا گیا اور اگلے ایک ہفتے سے زیادہ عرصے تک کلدیپ سنگھ اور دیگر افراد نے انھیں ریپ کیا۔
یہ معاملہ سنہ 2018 میں اُس وقت قومی سطح پر سامنے آیا جب متاثرہ لڑکی نے اس واقعے کے خلاف پولیس کی مبینہ بے عملی کے خلاف خود کو آگ لگانے کی کوشش کی تھی۔ اُس وقت کلدیپ سنگھ بی جے پی کے ایک بااثر سیاستدان تھے، اور بی جے پی اترپردیش اور مرکز میں برسراقتدار تھی۔ بعدازاں کلدیپ کو پارٹی سے نکال دیا گیا تھا۔
دسمبر 2019 میں کلدیپ سنگھ کو ریپ کیس میں عمر قید کی سزا سنائے جانے سے چند ماہ قبل، متاثرہ لڑکی ایک ایسے مشکوک کار حادثے میں زندہ بچ گئی تھیں جس میں اُن کی دو رشتہ دار خواتین ہلاک ہو گئی تھیں جبکہ اُن کا وکیل شدید زخمی ہوا تھا۔
Getty Imagesدلی ہائیکورٹ کے فیصلے کے خلاف احتجاج بھی کیا گیا ہے (فائل فوٹو)
خاندان نے یہ الزام بھی لگایا تھا کہ اپریل 2018 میں کلدیپ سنگھ اور اُس کے ساتھیوں نے متاثرہ لڑکی کے والد پر حملہ کیا۔ اس حملے کے بعد پولیس نے پانچ افراد کے خلاف مقدمہ درج کیا لیکن ساتھ ہی متاثرہ لڑکی کے والد کو غیر قانونی اسلحہ رکھنے کے الزام میں گرفتار کر لیا۔ والد بعدازاں جیل میں وفات پا گئے۔
مارچ 2020 میں کلدیپ سنگھ کو والد کے غیر ارادی قتل کا مجرم قرار دیتے ہوئے 10 سال قید کی سزا سنائی گئی تھی۔
گذشتہ ہفتے دلی ہائیکورٹ نے ریپ کے مقدمے میں کلدیپ سنگھ سینگر کو رہا کرنے کا فیصلہ اِس بنیاد پر کیا کہ آیا اُن کا جرم ’شدید نوعیت‘ کا شمار ہو گا یا نہیں۔
انڈیا میں رائج پوکسو (پروٹیکشن آف چلڈرن فرام سیکشوئل اوفینسیس) ایکٹ کے مطابق اگر جرم کسی ایسے شخص کے ہاتھوں سرزد ہوا ہو جو ’اعتماد یا اختیار کی پوزیشن‘ رکھتا ہو، جیسا کہ سرکاری ملازم، پولیس اہلکار، فوجی یا ہسپتال و جیل کا عملہ، تو اسے شدید نوعیت کا جرم سمجھا جاتا ہے اور زیادہ سخت سزا دی جاتی ہے۔
کلدیپ سنگھ کے وکلا نے دلی ہائیکورٹ میں دلیل دی کہ جب یہ جرم سرزد ہوا تو اُس وقت اُن کے مؤکل ایک رُکن اسمبلی تھے، جو پوکسو ایکٹ میں درج ’اختیار کی پوزیشن‘ کی فہرست میں شامل نہیں ہے۔ دہلی ہائیکورٹ نے یہ دلیل قبول کر لی اور کہا کہ چونکہ جرم شدید نوعیت کا شمار نہیں ہوتا، اس لیے قانون کے مطابق انھیں کم از کم سات سال کی سزا دی جا سکتی ہے، جو وہ پہلے ہی کاٹ چکے ہیں۔ یوں اُن کی باقی کی سزا معطل کر کے ضمانت دے دی گئی، جس پر ملک بھر میں شدید ردعمل سامنے آیا۔
متاثرہ لڑکی، اُس کا خاندان اور سماجی کارکنان دہلی کے انڈیا گیٹ پر احتجاج کے لیے جمع ہوئے اور متاثرہ لڑکی نے کہا کہ اگر کلدیپ سنگھ رہا ہوتے ہیں تو اُن کی جان کو خطرہ ہو گا۔
کلدیپ سنگھ کے خلاف ریپ کے مقدمے کی تحقیقات کرنے والے ادارے ’سی بی آئی‘ نے دلی ہائیکورٹ کے فیصلے کو سپریم کورٹ میں چیلنج کر دیا ہے اور یہ مؤقف اختیار کیا ہے کہ کلدیپ سنگھ ، بطور منتخب رُکن اسمبلی، ایک ’آئینی، اعتماد اور اختیار والی پوزیشن‘ رکھتے تھے۔
پیر کے روز سپریم کورٹ نے ہائی کورٹ کے حکم پر عملدرآمد عارضی طور پر روک دیا ہے۔
چیف جسٹس سوریا کانت کی سربراہی میں سپریم کورٹ کے بنچ نے کہا کہ عام طور پر عدالت ضمانت کے حکم کو ملزم یا زیرِ سماعت فرد کو سُنے بغیر نہیں روکتی، لیکن اس معاملے میں ’حقائق اور حالات غیر معمولی نوعیت کے ہیں کیونکہ ملزم متاثرہ لڑکی کے والد کے قتل کے مقدمے میں بھی سزا یافتہ ہے اور اسی کیس میں زیرِ حراست ہے۔‘
’کیس نمبر 9‘ اور ریپ کے مقدمات میں متاثرہ خواتین سے پریشان کُن سوالات: ’مجھ سے پوچھا گیا شلوار کس نے اُتاری اور قمیض کس نے‘ریپ کے نتیجے میں پیدا ہونے والے بچے کا ڈی این اے نامزد ملزم سے نہ ملنے پر پولیس اصل والد تک کیسے پہنچی؟پاکستان میں ریپ اور سنگین جرائم میں ملوث زیر حراست ملزمان ’ٹھوس شواہد اور اعترافِ جرم‘ کے باوجود پراسرار حالات میں مارے کیوں جاتے ہیں؟راولپنڈی میں سات سالہ بچی کے مبینہ ریپ اور قتل کے الزام میں ماموں کی گرفتاری اور پراسرار حالات میں ہلاکت