BBC
کرسمس کے تہوار پر اکثر لوگ نیک نیتی اور بھلائی کے کئی کام کرنے کو ترجیح دیتے ہیں لیکن پچاس سال پہلے ایک نوجوان برطانوی جوڑے نے کرسمس کے موقع پر ایک ایسا مہربانی کا عمل کیا جس نے ان کی زندگی ہمیشہ کے لیے بدل دی۔
یہ 23 دسمبر 1975 کا دن تھا جب روب پارسنز اور ان کی اہلیہ ڈیان، کارڈف میں اپنے گھر میں کرسمس کی تیاری میں مصروف تھے جب انھیں دروازے پر دستک سنائی دی۔
ان کے دروازے پر ایک شخص کھڑا تھا جس کے ایک ہاتھ میں تھیلا تھا جس میں اس کا سامان تھا اور دوسرے ہاتھ میں ایک فروزن مرغی۔
روب نے اس شخص کے چہرے کو بغور دیکھا تو انھیں ہلکا سا یاد آنا شروع ہوا کہ ان کے سامنے رونی لاک ووڈ کھڑے ہیں جنھیں وہ بچپن میں کبھی کبھار اتوار کے روز سکول میں دیکھتے تھے اور جس کے بارے میں انھیں کہا گیا تھا کہ وہ ’کچھ مختلف‘ ہیں، اس لیے ہمیشہ ان کے ساتھ مہربانی اور پیار سے پیش آئیں۔
روب نے ان سے سوال کیا کہ ’رونی، یہ مرغ کیوں لائے ہو؟‘ تو رونی نے جواباً کہا کہ ’کسی نے مجھے کرسمس کے لیے دی ہے۔‘
اور پھر روب نے وہ دو الفاظ کہے جنھوں نے ان کی زندگی بدل دی۔ وہ کہتے ہیں کہ ’میں نے ان سے کہا کہ اندر آئیں، مجھے بالکل اندازہ نہیں کہ میں نے بے اختیار یہ کیوں کہا۔‘
روب اور ان کی اہلیہ ڈیان اس وقت 26 اور 27 سال کے تھے لیکن ان کے اندر شدت سے احساس جاگا کہ انھیں آٹزم سے متاثر رونی کو اپنی سرپرستی میں لینا چاہیے۔
دونوں میاں بیوی نے رونی کو نہانے کے لیے غسل خانے بھیجا، اس دوران مرغ کو پکایا اور پھر کرسمس پر رونی کو اپنے ساتھ رکھنے کا ارادہ کر لیا۔
یہ عمل جو ایک ہمدردی کے احساس سے شروع ہوا وہ محبت اور سمجھوتے پر مبنی ایک منفرد اور پیارے رشتے میں بدل گیا اور یوں 45 سال کے عرصے تک قائم رہنے والا یہ رشتہ رونی کی موت کے ساتھ ختم ہوا۔
روب کی عمر اب 77 سال جبکہ ڈیان 76 سال کی ہو چکی ہیں تاہم جس وقت انھوں نے رونی کو اپنے گھر میں خوش آمدید کہا تھا اس وقت ان کی شادی کو محض چار سال ہوئے تھے۔
جس وقت رونی اس جوڑے کے ساتھ رہنا شروع ہوئے اس وقت خود ان کی عمر تقریباً 30 سال تھی۔
رونی 15 سال کی عمر سے بے گھر تھے۔ وہ کارڈف کے اندر اور اردگرد رہتے اور ہر کچھ عرصے بعد ایک نئی ملازمت اختیار کرتے۔ روب انھیں کبھی کبھار اپنے زیر انتظام چلنے والے یوتھ کلب میں دیکھا کرتے۔
دونوں میاں بیوی نے رونی کو زیادہ سے زیادہ بہتر محسوس کروانے کے لیے اپنے خاندان والوں سے کہا کہ وہ کرسمس پر رونی کو کوئی تحفہ دیں، چاہے وہ موزوں کا ایک جوڑا ہو یا کچھ خوشبو دار چیزوں پر مبنی تحائف۔
ڈیان کہتی ہیں کہ ’مجھے آج بھی یاد ہے۔ رونی کرسمس کی میز پر بیٹھے تھے اور ان کے سامنے یہ تحائف تھے، جنھیں دیکھ کر وہ رو پڑے کیونکہ انھیں کبھی محبت کا اس طرح کا احساس نہیں ملا تھا۔
’یہ دیکھنا واقعی ناقابلِ یقین تھا۔‘
Rob Parsons
اس جوڑے نے سوچا تھا کہ وہ رونی کو صرف کرسمس کے اگلے دن تک اپنے پاس رکھیں گے لیکن جب وہ دن آیا تو وہ رونی کو گھر سے جانے کا کہنے کی ہمت نہ کر سکے اور پھر انھوں نے حکام سے مشورہ لیا۔
روب نے بتایا کہ بے گھر افراد کے مرکز نے انھیں بتایا کہ رونی کو نوکری حاصل کرنے کے لیے ایک رہائشی پتہ چاہیے لیکن ملازمت ہو گی تو پتہ مل سکتا ہے۔
’یہی وہ مشکل مرحلہ ہے جس میں لاتعداد بے گھر لوگ پھنسے ہوتے ہیں۔‘
Rob Parsons
روب کا کہنا ہے کہ جب رونی صرف آٹھ سال کے تھے تو اس وقت انھیں ایک کیئر ہوم میں رکھا گیا تاہم 11 سال کی عمر میں وہ کارڈف سے غائب ہو گئے۔
روب جب اپنی کتاب ’اے ناک آن دا ڈور‘ (A Knock on the Door) کے لیے تحقیق کر رہے تھے تو اس وقت انھیں پتا چلا کہ رونی کے ساتھ کیا ہوا تھا۔
انھیں 200 میل دور ایک سکول بھیج دیا گیا تھا جسے ایک رپورٹ میں ’ذہنی طور پر کمزوربچوں کا سکول‘ کہا گیا تھا۔ رونی وہاں پانچ سال تک رہے۔
روب کے مطابق ’رونی کے وہاں کوئی دوست نہیں تھے۔ کوئی سماجی کارکن اور استاد نہیں تھا جو انھیں جانتا ہو۔‘
روب نے کہا کہ رونی اکثر پوچھتے کہ ’کیا میں نے کچھ برا کام کیا؟‘
روب کے خیال میں انھوں نے سکول کے وقت کچھ ایسے تجربات میں یہ سیکھ لیا کہ شاید ان کی کوئی غلطی ہے۔
’وہ ہمیشہ فکر مند رہتے تھے کہ کہیں اس نے آپ کو ناراض نہ کر دیا ہو یا کوئی غلطی نہ کر دی ہو اور پھر بلاوجہ 15 سال کی عمر میں رونی کو واپس کارڈف بھیج دیا گیا۔‘
Rob and Dianne Parsons
روب اور ڈیانا کے مطابق شروع شروع میں رونی کچھ بے چین رہتے۔ انھیں دیکھنے میں مشکل ہوتی تھی اور بات چیت بھی بہت کم کر پاتے۔
’لیکن پھر ہم نے انھیں جان لیا اور سچ یہ ہے کہ ہم ان سے محبت کرنے لگے۔‘
انھو ں نے رونی کو کچرا جمع کرنے کی نوکری دلائی اور انھیں نئے کپڑے خریدنے کے لیے لے گئے تب انھیں پتا چلا کہ وہ اب تک وہی کپڑے پہنے ہوئے تھے جو انھیں سکول میں نوجوانی کے آغاز میں میں دیے گئے تھے۔
روب نے کہا کہ ’ہمارے اپنے بچے نہیں تھے، یہ بالکل ایسے تھا جیسے اپنے بچوں کو سکول کے لیے تیار کرنا، ہمیں ان کے والدین بننے پر فخر ہونے لگا۔‘
روب نے ہنستے ہوئے بتایا کہ ’جب ہم دکان سے باہر نکلے تو ڈیان نے مجھ سے کہا کہ رونی کو کچرا اٹھانے کی نوکری ملی ہے لیکن ہم نے اسے ایسے تیار کر دیا، جیسے وہ ڈورچیسٹر ہوٹل (برطانیہ کا تاریخی فائیو سٹار ہوٹل) کا فرنٹ مین ہو۔‘
روب پیشے کے اعتبار سے وکیل تھے۔ وہ رونی کو کام پر چھوڑنے کے لیے روز اپنے وقت سے ایک گھنٹے پہلے اٹھتے اور اس کے بعد ہی خود اپنے دفتر جاتے۔
روب نے بتایا کہ جب وہ گھر واپس آتے تو رونی اکثر وہاں بیٹھا مسکرا رہا ہوتا اور ایک رات انھوں نے پوچھا کہ ’رونی، تمہیں اتنی خوشی کس بات کی ہے؟‘
رونی نے جواب دیا کہ ’روب، جب آپ صبح مجھے کام پر لے جاتے ہیں تو دوسرے لوگ پوچھتے ہیں کہ یہ کون ہے جو تمہیں اس کار میں کام پر لے کر آتا ہے؟ اور میں کہتا ہوں کہ یہ میرا وکیل ہے۔‘
روب نے مزید بتایا کہ ’ہمارا نہیں خیال کہ وہ اس بات پر فخر کرتے تھے کہ انھیں ایک وکیل کام پر لے کر جاتا ہے لیکن شاید اس کے ساتھ کبھی ایسا نہیں ہوا تھا کہ کوئی اسے سکول کے پہلے دن بھی ساتھ لے کر گیا ہو اور اب وہ تقریباً 30 سال کے تھے۔‘
Rob Parsons
رونی کی بہت سی عادات تھیں، جیسے ہر صبح ڈش واشر خالی کرنا اور روب روزانہ حیران ہونے کی ایکٹنگ کرتے۔
روب نے ہنستے ہوئے بتایا کہ ’یہ مشکل ہے کہ آپ حیران نظر آئیں جب آپ کو منگل کو وہی سوال ملے جو پیر کو ملا تھا لیکن یہ رونی تھا۔ ہم نے یہ 45 سال تک کیا۔‘
ڈیان نے مزید کہا کہ ’اسے پڑھنے اور لکھنے میں واضح طور پر مشکل ہوتی تھی لیکن وہ ہر روز ساوتھ ویلز ایکو اخبار خریدتا تھا۔‘
رونی ہر کرسمس پر انھیں مارکس اینڈ سپینسر کے وہی گفٹ کارڈ خرید کر دیتا تھا لیکن ہر سال وہ ان کے ردِعمل کے لیے اسی جوش و خروش سے بھرا ہوتا تھا۔
Rob Parsons
رونی اپنا زیادہ تر فارغ وقت اپنی مقامی چرچ میں گزارتے جہاں وہ بے گھر افراد کے لیے عطیات جمع کرتے اور عبادت کے لیے انتظامات کرتے، کرسیوں کو نہایت نفاست سے ترتیب دیتے۔
ڈیان نے یاد کیا کہ ایک دن وہ گھر آئے تو ان کے پاؤں میں مختلف جوتے تھے۔ ’میں نے پوچھا کہ تمہارے جوتے کہاں ہیں۔ اس نے جواب دیا کہ ایک بے گھر آدمی کو ان کی ضرورت تھی۔ یہی ان کی شخصیت تھی۔ وہ حیرت انگیز انسان تھے۔‘
ان کے سب سے مشکل وقتوں میں سے ایک وہ تھا جب ڈیان بیمار تھیں اور ایسے دن بھی آئے جب وہ بستر سے اٹھ نہیں پاتی تھیں۔
ڈیان نے کہا کہ ’میری ایک تین سالہ بیٹی تھی، روب کام کے سلسلے میں باہر تھے۔ رونی نے اپنی ذمہ داری نبھائی، بیٹے لائیڈ کے لیے دودھ کی بوتلیں تیار کیں، گھر کے کاموں میں مدد کی اور میری بیٹی کیٹی کے ساتھ کھیلتے رہے۔‘
Rob and Dianne Parsons
اگرچہ وہ مانتے ہیں کہ اس تعلق میں بہت مشکلات بھی تھیں، جن میں رونی کی 20 سالہ جوئے کی لت سے نمٹنا بہت مشکل تھا تاہم وہ اپنی زندگی اس کے بغیر سوچ بھی نہیں سکتے تھے۔
روب نے کہا کہ ’یہ کوئی ایسی حکمتِ عملی نہیں جس کی میں سفارش کروں لیکن رونی نے ہماری زندگی کو کئی طریقوں سے خوشیوں سے مالا مال کیا۔‘
ڈیان کے مطابق ’رونی کا دل بہت بڑا تھا۔ وہ مہربان تھے۔ کبھی میں اس کی ماں تھی، کبھی اس کی سماجی کارکن اور کبھی اس کی دیکھ بھال کرنے والی۔‘
کسی نے ایک دن روب اور ڈیانا کے بچوں سے کہا کہ ’جب تمہارے دوست گھر آتے تھے تو تم رونی کے ساتھ کیسے ڈیل کرتے ہو‘ اور بچوں نے کہا کہ ’ہم نے کبھی اس بارے میں سوچا ہی نہیں، وہ تو بس رونی ہیں۔‘
روب نے مزید کہا کہ ’ہمارے بچوں نے کبھی رونی کے بغیر زندگی کا تصور نہیں کیا۔ وہ اس وقت بھی تھا جب وہ پیدا ہوئے اور اس وقت بھی جب وہ اپنے بچوں کے ساتھ گھر چھوڑ گئے۔‘
Rob Parsons
روب اور ڈیان کے مطابق جب ان کو ساتھ رہتے کچھ سال بیت گئے تب انھوں نے صرف ایک بار سوچا کہ رونی کو آزادانہ طور پر رہنے میں مدد دی جائے۔
اور یہ خیال ان کو جب آیا جب ان کے دو بچے بڑے ہو رہے تھے اور ایک باتھ روم والے گھر میں جگہ کم محسوس ہونے لگی تو وہ رونی کے کمرے میں گئے تاکہ انھیں گھر کے قریب ایک فلیٹ لینے پر آمادہ کر سکیں۔
لیکن جیسے ہی وہ اندر گئے رونی نے وہی مانوس سوال دہرایا کہ ’کیا میں نے کچھ برا کام کیا؟‘
یہ سن کر ڈیان روب کو اپنے ساتھ کمرے سے باہر لے گئیں اور پھوٹ پھوٹ کر رو دیں۔ ڈیان نے کہا کہ ’میں یہ نہیں کر سکتی۔‘
چند دن گزر گئے تو رونی ان کے کمرے میں آیا اور پوچھا کہ ’ہم تینوں پکے دوست ہیں ناں؟
’تو میں نے کہا ہاں رونی ہم تینوں پکے دوست ہیں۔ اس نے پوچھا اور ہم ہمیشہ کے لیے ساتھ رہیں گے ناں؟‘
روب کے مطابق ’ایک لمحے کے لیے گہری خاموشی چھا گئی، میں نے ڈیان کی طرف دیکھا اور کہا کہ ہاں رونی، ہم ہمیشہ ساتھ رہیں گے اور پھر ایسا ہی ہوا ہم ہمیشہ ساتھ رہے۔‘
رونی 2020 میں 75 سال کی عمر میں فالج کے باعث وفات پا گئے اور تب سے روب اور ڈیان ان کو دن میں کئی بار یاد کرتے ہیں۔
BBC
رونی کی وفات کے وقت کووڈ کی عالمی وبا تھی لہذا صرف 50 افراد کو ان کے جنازے میں جانے کی اجازت دی گئی۔
روب کو رونی کے لیے کم از کم 100 تعزیتی کارڈ موصول ہوئے جن میں آکسفورڈ یونیورسٹی کے پروفیسروں سے لے کر سیاستدانوں اور بے روزگار افراد تک کے پیغام شامل تھے۔
رونی کے مرنے کے بعد کارڈف میں گلین ووڈ چرچ کے ساتھ منسلک ایک نیا فلاحی مرکز قائم ہوا جس کا نام رونی کے نام پر ’لاک ووڈ ہاؤس‘ رکھا گیا۔
لیکن پرانی عمارت اور نئی عمارت بالکل میل نہیں کھا رہی تھیں اور انھیں تزئین و آرائش مکمل کرنے کے لیے اضافی فنڈنگ کی ضرورت تھی۔
روب نے کہا کہ ’مجھے فکر کرنے کی ضرورت نہیں تھی۔ تقریباً اتنی ہی رقم رونی کی اپنی وصیت میں مل گئی۔‘
ڈیان کہتی ہیں کہ ’آخرکار، ایک بے گھر آدمی نے ہم سب کے سروں پر چھت ڈال دی۔ کیا یہ حیرت انگیز نہیں۔ مجھے لگتا ہے کہ یہ سب ہونا ہی تھا۔‘
’لوگ ہم سے کہتے ہیں کہ یہ کیسے ہوا، 45 سال۔۔۔ لیکن سچی بات یہ ہے کہ کچھ لحاظ سے ہمیں یہ سب ایک پل یا ایک دن کی کہانی لگتی ہے۔ رونی نے ہماری زندگیوں میں دولت بھر دی۔‘
‘میں ڈوب رہا ہوں، مجھے بچا لو‘، بے گھر امریکی شہری پولیس کی نظروں کے سامنے ڈوب گیاکروڑوں کی لاٹری جیتنے والا جوڑا جس کے اکاؤنٹ میں صرف دو پاؤنڈ تھے پہلی نظر میں محبت، شادی کے بغیر حمل اور 40 برس کی دُوری: ایک جوڑے کا دہائیوں بعد ملاپ جو کسی فلم کی کہانی سے کم نہیں