بیوی کی دوست سے مل کر شوہر کو مارنے کی ناکام کوشش: ’وہ بس جھوٹ بول رہی تھی، اُس کا ہر لفظ دھوکہ تھا‘

بی بی سی اردو  |  Dec 25, 2025

جب دو مسلح نقاب پوش افراد نے اُس گاڑی میں کرسٹوفر ملز کی جان لینے کی کوشش جس میں وہ اپنی اہلیہ کے ساتھ موجود تھے، تو کرسٹوفر نے اپنی جان بچانے اور اپنی بیوی کی حفاظت کی غرض سے بھرپور مزاحمت کی۔

چند منٹوں تک جاری رہنے والے اس قاتلانہ حملے کے نتیجے میں کرسٹوفر بندوق کے بٹ لگنے سے بُری طرح زخمی ہوئے مگر اُن کی جان بچ گئی اور پھر حملہ آور اندھیرے میں فرار ہونے میں کامیاب ہو گئے۔

جان سے مارنے کی اِس ناکام کوشش کے چند دنوں بعد کرسٹوفر پر یہ انتہائی تکلیف دہ حقیقت کُھلی کہ اُن پر یہ قاتلانہ حملہ اُن کی اپنی ہی بیوی مشیل نے کروایا تھا۔

مشیل اور اُن کے ’خفیہ عاشق‘ جیرینٹ بیری یہ چاہتے تھے کہ کرسٹوفر ہمیشہ کے لیے راستے سے ہٹ جائیں تاکہ وہ دونوں ایک نئی زندگی کا آغاز کر سکیں۔

55 سالہ کرسٹوفر سابق فوجی ہیں۔ انھوں نے کہا کہ ’یہ سب کچھ کسی فلمی کہانی جیسا ہے۔ میں کبھی سوچ بھی نہیں سکتا تھا کہ میری اپنی بیوی اس سب میں شامل ہو سکتی ہیں۔‘

کرسٹوفر کی اہلیہ مشیل اور اُن کے ساتھ (مشیل کے دوست) بیری کو ستمبر 2024 میں قتل کی سازش کے جرم میں 19 برس قید کی سزا سنائی گئی ہے۔

مشیل اور بیری، جو ایک فلاحی تنظیم میں کام کے دوران ایک دوسرے کے قریب آئے، نے اپنے تین ماہ کے خفیہ تعلق میں ایک دوسرے کو ایسے میسجز کیے کہ جن میں کرسٹوفر کے منھ پر تکیہ رکھ کر مارنا یعنی دم گھونٹ کر مارنا یا اُن کو زہر دے کر مارنے جیسے منصوبے شامل تھے۔

عدالت میں دائر مقدمے میں ان دونوں کو قتل کی سازش کا مجرم قرار دیا گیا۔

ایک تیسرے شخص کو اگرچہ قتل کی سازش کے الزام سے تو بری کر دیا گیا، مگر جعلی اسلحہ رکھنے کے جرم میں انھیں 12 ماہ قید کی سزا سنائی گئی۔ عدالت کو بتایا گیا کہ بیری نے اس تیسرے شخص کو اس منصوبے میں شامل کیا تھا تاکہ یہ ظاہر کیا جا سکے کہ کرسٹوفر نے خودکشی کی ہے۔

پولیس نے اس مقدمے کو ’ٹی وی ڈرامے جیسا‘ قرار دیا ہے لیکن کرسٹوفر کے لیے یہ حقیقت کسی ڈراؤنے خواب سے کم نہ تھی۔

کرسٹوفر کے مطابق انھیں ہمیشہ اِس بات کا یقین تھا کہ اُن کا اپنی اہلیہ سے تعلق مثالی اور خوشگوار ہے۔ 20 ستمبر 2024 کی اُس رات سے پہلے، جب اُن پر حملہ ہوا، اُن کے دل میں کوئی خوف یا اپنی بیوی سے متعلق کوئی ابہام نہ تھا۔

وہ یاد کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ ’سب کچھ ٹھیک ٹھاک لگ رہا تھا، کوئی بھی ایسی بات نہیں تھی کہ جس پر شک کیا جا سکتا۔‘

’ہم تقریباً دس برس سے ساتھ تھے جبکہ ہماری شادی کو چھ برس ہو چُکے تھے اور زندگی سکون سے گزر رہی تھی۔‘

وہ کہتے ہیں کہ اس واقعے سے کچھ عرصہ پہلے اُنھوں نے محسوس کیا تھا کہ اُن کی اہلیہ کا رویہ اُن کے ساتھ کُچھ اُکھڑا اُکھڑا رہتا ہے اور وہ اُن سے دور رہنے لگی ہیں، لیکن اُن کے مطابق وہ کبھی سوچ بھی نہیں سکتے تھے کہ یہ خاموشی کس طوفان کا پیش خیمہ ثابت ہو گی۔

اُن کا کہنا تھا کہ ’جب میں گاڑی میں اُن دو نقاب پوشوں سے لڑ رہا تھا تو میں اپنی اور اپنی بیوی کو بچانے کی خاطر لڑ رہا تھا۔‘

’میں نے سمجھا یہ محض ایک مسلح ڈکیتی ہے، لیکن پھر یہ جاننا کہ اس سب کی منصوبہ بندی میری بیوی نے خود کی تھی، یہ کسی ڈراؤنے خواب سے کم نہیں تھا۔‘

’میں نے کبھی نہیں سوچا تھا کہ وہ میرے ساتھ یہ سب کُچھ کرے گی۔‘

’پانچ گھنٹے موبائل بند اور سرکاری گاڑی میں خون کے دھبے‘: بیوی اور بیٹی کے قتل کے ملزم ڈی ایس پی پر لاہور پولیس کو شک کیسے ہوا؟’تین کروڑ روپے کی انشورنس‘: سکول میں لیبارٹری اسسٹنٹ کی سانپ کے کاٹنے سے موت مگر بیٹے گرفتارڈاکٹر وردہ کے قتل میں ملوث مرکزی ملزم ’اپنے ہی ساتھیوں کی فائرنگ سے‘ ہلاک، ایبٹ آباد پولیس کا دعویٰقدموں کے نشانات سے ملزموں کی شناخت کرنے والے ’کھوجی‘: قتل کی واردات جس میں ’کھرا‘ مقتولہ کے شوہر کی حویلی پر جا رکا

حملے کی رات کرسٹوفر اور مشیل اپنی گاڑی (کاروان) میں سونے کی تیاری کر رہے تھے کہ رات 11:30 بجے گاڑی کے دروازے پر دستک ہوئی۔

وہ کہتے ہیں کہ ’میں نے دروازہ کھولا اور سامنے ایک نقاب پوش شخص موجود تھا۔‘

’اس نے سیدھا میرے چہرے پر بندوق سے وار کیا۔ وہ بڑی، بھاری اور دھات کی چیز تھی۔ مجھے ایسے لگا جیسے مجھے ہتھوڑے سے مارا گیا ہو۔‘

میں نے مزاحمت کی اور پھر وہ دونوں نقاب پوش بھاگ گئے، میں شدید تکلیف اور صدمے کی حالت میں تھا۔‘

اہلیہ مشیل کی جانب سے 999 (پولیس ایمرجنسی) کال میں اُن کے شوہر کو یہ کہتے ہوئے سُنا جا سکتا تھا کہ ’ہمیں مدد کی ضرورت ہے، ہماری مدد کریں۔‘

انھوں نے اس کال میں پولیس کو بتایا کہ ’میں سابق فوجی ہوں، میں نے حملہ آوروں سے بندوقیں چھین لی ہیں۔ وہ شاید ابھی بھی یہاں ہی ہوں گے۔ یہاں بالکل اندھیرا ہے۔‘

آرگوئیڈ میڈو کاروان پارک کی مالک ریٹا اووینز جلد ہی موقع پر ’شدید گھبراہٹ‘ کی حالت میں پہنچ گئیں۔

BBCوہ لمحہ کہ جب پولیس قتل کی سازش میں کردار ادا کرنے والے گیرائنٹ بیری کو گرفتار کرنے کے لیے پہنچی

اُن کا کہنا تھا کہ ’جب میں وہاں پہنچی تو کرسٹوفر بُری طرح زخمی تھے، خون میں لت پت۔‘

اووینز نے بتایا کہ ’میں نے اہلیہ مشیل سے پوچھا کہ کیا ہوا ہے؟ لیکن انھیں نے کوئی تسلی بخش جواب نہیں دیا اور بس ایک جانب جا کر میسج کرنے لگیں۔‘

انھوں نے مزید کہا کہ ’میں نے سمجھا تھا کہ وہ ایک خوش و خرم رہنا والا شادی شدہ جوڑا ہیں، لیکن بعد میں پتہ چلا کہ ایسا نہیں تھا۔‘

واقعے کے 40 منٹ بعد پولیس موقع پر پہنچی اور ایک پولیس ہیلی کاپٹر نے دونوں نقاب پوش حملہ آوروں، بیری اور تھامس، کو قریب ہی ایک کان میں جھاڑیوں کے اندر چھپے ہوئے دیکھ لیا۔

اُن کے بیگ میں گیس ماسک اور کیبل ٹائیز تھے اور بیری کے پاس ایک جعلی خودکشی کا نوٹ تھا، جو بظاہر کرسٹوفر نے اپنی بیوی کے نام لکھا تھا۔

’میرا دل بیٹھ گیا، مجھے اس بات کا یقین ہو گیا کہ مشیل اس سب میں شامل ہیں‘

اس واقعے کے اگلے ہی دن زخمی کرسٹوفر کو پولیس نے گھریلو تشدد کے الزام میں گرفتار کر کیا اور ان پر یہ جھوٹا الزام اُن کی اہلیہ کی جانب سے ہی عائد کیا گیا تھا۔ کرسٹوفر کے مطابق اس کے بعد انھیں اس بات کا احساس ہوا کہ اُن کے ساتھ جو کچھ ہوا اُس سب میں اُن کی اہلیہ شامل تھیں۔

اُن کا کہنا تھا کہ ’یہ وہ لمحہ تھا، جی بالکل وہی لمحہ، جب مجھے یقین ہو گیا کہ مشیل اس میں شامل ہیں اور وہ مجھے راستے سے ہٹانا چاہتی ہے۔‘

’میں نے کبھی کسی پر گھریلو تشدد نہیں کیا، خاص طور پر مشیل پر۔ میرا دل بیٹھ گیا۔ میں نے سوچا یہ پاگل پن ہے، اس کے علاوہ اور کُچھ نہیں۔‘

اُسی روز پولیس نے انھیں بتایا کہ اُن کی اہلیہ کا کسی اور کے ساتھ تعلق تھا اور انھیں (اہلیہ مشیل کو) قتل کی اس سازش میں ملوث ہونے پر گرفتار کر لیا گیا ہے۔

اُن کا کہنا ہے کہ ’میں بالکل ٹوٹ گیا تھا۔ یہ سب کچھ بہت اچانک ہوا۔‘

’میں نے جون 2024 میں اپنی اہلیہ کے رویے میں تبدیلی محسوس کی تھی تب جب وہ مجھ سے کچھ زیادہ دور اور کچھ زیادہ سرد مزاج ہو گئی تھی۔‘

جب کرسٹوفر نے اپنی اہلیہ سے پوچھا کہ سب ٹھیک ہے یا نہیں، تو مشیل نے کہا کہ ان کی نوکری یعنی کام کی وجہ سے ایسا ہے اور انھیںیقین دلایا کہ ان کا رشتہ بالکل ٹھیک ہے۔

گرفتاری کے بعد کرسٹوفر نے اپنی اہلیہ کو پہلی بار اُس وقت دیکھا جب وہ اکتوبر میں مقدمے کے دوران کٹہرے میں پیش ہوئیں۔

وہ خود گواہی دینے کے لیے عدالت میں آئے۔

اُن کا کہنا تھا کہ ’یہ وہ مشیل نہیں تھیں جسے وہ جانتے تھے اور جو ان کی اہلیہ تھیں۔‘

’وہ بس جھوٹ بول رہی تھیں، عدالت میں اُن کے ہر لفظ میں دھوکہ تھا۔‘

مشیل نے عدالت کو بتایا کہ وہ اس سازش کو محض ایک ’خیالی دنیا‘ اور ’حقیقت سے فرار‘ سمجھتی تھیں، کیونکہ اُن کے شوہر ’کنٹرول کرنے والا شخص‘ تھا۔

کرسٹوفر نے مزید کہا ’اُس وقت تک، میرا مشیل کے لیے سارا پیار ختم ہو چکا تھا۔‘

’میں کبھی اُنھیں اُن کے کیے پر معاف نہیں کر سکتا۔ یہ ایک ڈراؤنا خواب ہے اور یہ کبھی ختم نہیں ہو سکتا۔‘

کرسٹوفر نے کہا کہ ’وہ طلاق چاہتے ہیں لیکن اپنی بیوی کے جیل میں ہونے کی وجہ سے کوئی پیش رفت کرنا مشکل ہے۔‘

اُن کا کہنا تھا کہ ’میں سو نہیں پا رہا، میں اب اکیلا باہر نہیں جاتا۔‘

’مجھے صرف اُس دن کا انتظار ہے جب میں اس باب کو ہمیشہ کے لیے بند کر سکوں۔ لیکن یہ سفر ابھی بہت طویل ہے۔‘

’مشیل نے اپنے محبوب کو بھیجے ہوئے میسجز ڈیلیٹ کرنے کا کہا‘

عدالت کو مشیل اور بیری کے درمیان میسجز پر ہونے والی بات چیت دکھائی گئی۔

بیری نے ایک میسج میں لکھا ’ہم اسے مرتے ہوئے دیکھیں گے اور پھر گھر آ کر ویک اینڈ سکون سے گزاریں گے اور بس انتظار کریں گے کہ کوئی اُسے ڈھونڈ لے۔‘

حملے سے چند گھنٹے پہلے مشیل نے بیری کو لکھا کہ ’معاف کرنا، تم جانتے ہو کہ تم کیا کر رہے ہو اور مجھے تم پر بھروسہ ہے۔‘

اور حملے کے بعد اُن کا آخری میسج یہ تھا کہ ’پولیس کو اطلاع دے دی گئی ہے، تمام میسجز ڈیلیٹ کر دو، میں تم سے محبت کرتی ہوں۔۔۔‘

پولیس انسپکٹر سیم گریگری نے اس کیس کی تفتیش کو ’پیچیدہ‘ قرار دیا ہے۔

انھوں نے کہا کہ ’ایک لمحہ آپ سمجھتے ہیں کہ آپ ایک معمولی جرم کی تفتیش کر رہے ہیں اور اگلے ہی لمحے یہ سب سے سنگین جرم میں بدل جاتا ہے۔‘

’اس سازش میں موجود سنسنی اور اُلجھنیں بالکل ٹی وی ڈرامے جیسی ہیں۔‘

انھوں نے مزید کہا کہ اس طرح کا جرم ’مغربی ویلز میں نہیں ہوتا۔‘ انھوں نے مزید کہا کہ ’یہ معاملہ نہایت سنگین تھا۔ خواب سی نظر آنے والی ایک تکلیف دہ حقیقت۔‘

’پانچ گھنٹے موبائل بند اور سرکاری گاڑی میں خون کے دھبے‘: بیوی اور بیٹی کے قتل کے ملزم ڈی ایس پی پر لاہور پولیس کو شک کیسے ہوا؟ڈاکٹر وردہ کے قتل میں ملوث مرکزی ملزم ’اپنے ہی ساتھیوں کی فائرنگ سے‘ ہلاک، ایبٹ آباد پولیس کا دعویٰقدموں کے نشانات سے ملزموں کی شناخت کرنے والے ’کھوجی‘: قتل کی واردات جس میں ’کھرا‘ مقتولہ کے شوہر کی حویلی پر جا رکاایم بی اے کی طالبہ کا 15 سال پرانا ریپ اور قتل کا معمہ جو ایک دوسرے قتل کی تفتیش کے دوران حل ہوا’پانچ گھنٹے موبائل بند اور سرکاری گاڑی میں خون کے دھبے‘: بیوی اور بیٹی کے قتل کے ملزم ڈی ایس پی پر لاہور پولیس کو شک کیسے ہوا؟نو سال سے فرار بیوی کا قاتل جسے پولیس نے ایک بسکٹ کے پیکٹ کی مدد سے پکڑا’تین کروڑ روپے کی انشورنس‘: سکول میں لیبارٹری اسسٹنٹ کی سانپ کے کاٹنے سے موت مگر بیٹے گرفتار’مجھ پر ہوئے جنسی حملے کی لفظ بہ لفظ تفصیلات اخبارات میں شائع ہوئیں‘: جب ایک متاثرہ لڑکی نے سچ جاننے کے لیے صحافی بننے کی ٹھانی
مزید خبریں

Disclaimer: Urduwire.com is only the source of Urdu Meta News (type of Google News) and display news on “as it is” based from leading Urdu news web based sources. If you are a general user or webmaster, and want to know how it works? Read More