Getty Images
پاکستان کی وزارتِ خارجہ نے تصدیق کی ہے کہ پاکستان میں ناروے کے سفیر کی جانب سے عدالتی کارروائی میں ’غیر ضروری‘ حاضری پر اُنھیں جمعرات کو طلب کر کے ’ڈیمارش‘ کیا گیا۔
وزارتِ خارجہ کی جانب سے جاری بیان میں کہا گیا کہ ناروے کے سفیر کا یہ اقدام ’سفارتیپروٹوکول،‘ متعلقہ بین الاقوامی قانون کی خلاف ورزی اور پاکستان کے اندرونی معاملات میں مداخلت کے مترادف ہے۔
وزارتِ خارجہ کے مطابق پاکستان کے ایڈیشنل سکریٹری خارجہ برائے یورپ نے پاکستان میں ناروے کے سفیر کو دفتر خارجہ طلب کیا اور اُنھیں باور کرایا کہ وہ صرف سفارتی مصروفیات کے قائم کردہ اصولوں پر عمل کریں، جیسا کہ ویانا کنونشن کے متعلقہ مضامین میں بیان کیا گیا ہے۔
یاد رہے کہ ناروے کے سفیر جمعرات کو اُس وقت سپریم کورٹ آف پاکستان پہنچ گئے تھے، جب انسانی حقوق کی کارکن ایمان مزاری اور اُن کے شوہر ہادی چٹھہ ایڈووکیٹ کی جانب سے دائر کی گئی درخواست پر سماعت جاری تھی۔
ناروے کے سفیر کی عدالت آمد پر بعض قانونی ماہرین اور سوشل میڈیا صارفین نے اسے پاکستان کے اندرونی معاملات میں مداخلت قرار دیا تھا۔
دریں اثنا جمعرات کو سپریم کورٹ نے ایمان مزاری اور ہادی چٹھہ کی درخواست منظور کرتے ہوئے متنازع ٹویٹس کیس میں اُن کا ٹرائل روکنے کا حکم دیا۔
سپریم کورٹ کے جج جسٹس ہاشم کاکڑ نے اپنے فیصلے میں کہا کہ اسلام آباد ہائی کورٹ کے فیصلے تک ٹرائل روک دیا جائے۔
جسٹس ہاشم کاکڑ کا مزید کہنا تھا کہ وہ توقع کرتے ہیں کہ اسلام ہائی کورٹ اپیل پر جلد از جلد فیصلہ کرے گی۔
جسٹس ہاشم کاکڑ نے ریمارکس دیے کہ ٹرائل کے دوران ایمان مزاری اور ہادی علی چٹھہ کا برتاؤ بھی اچھا نہیں تھا اور دونوں وکلا ٹرائل کے دوران احتجاج کرتے رہے۔
جسٹس ہاشم کا مزید کہنا تھا کہ کسی صورت بھی ماتحت عدلیہ کے ججز کو بے توقیر نہیں ہونے دیں گے جبکہ حکومت کو بھی اجازت نہیں دے سکتے کہ جسے دل چاہے سزا دے۔
’مجھے پتہ ہے آپ سات سال قید کی سزا سنائیں گے‘
واضح رہے کہ نیشنل سائبر کرائم انویسٹیگیشن اتھارٹی کے سب انسپیکٹر کی مدعیت میں ایمان مزاری، ان کے شوہر ہادی علی چٹھہ اور چند دیگر افراد کے خلاف مقدمہ 22 اگست کو درج کیا گیا تھا جس میں کہا گیا کہ ملزمان سوشل میڈیا پر ریاستی اداروں کو نشانہ بنا رہے ہیں اور ان کا یہ عمل ریاست مخالف ہے۔
اس مقدمے میں کہا گیا کہ ملزمان سوشل میڈیا پر کالعدم تنظیموں کے بیانیے کی ترویج کر رہے ہیں۔
اس مقدمے میں یہ بھی کہا گیا کہ ملزمانسوشل میڈیا پر منصوبہ بندی کے تحت ریاستی اداروں پر عوام کے اعتماد کو ختم کرنے اور ملک میں بدامنی پیدا کرنا چاہتے ہیں۔
پانچ دسمبر کو ٹرائل کورٹ میں اس کیس کی سماعت کے دوران ایمان مزاری اور اُن کے شوہر ہادی علی چٹھہ نے جج افضل مجوکا کو مخاطب کرتے ہوئے کہا تھا کہ انھیں معلوم ہے کہ ان کے خلاف مقدمہ یکطرفہ طور پر چلایا جا رہا ہے جس میں انھوں نے نہ صرف پراسیکیوشن پر اعتراض اٹھایا بلکہ انھوں نے عدالت پر عدم اعتماد کرتے ہوئے اس مقدمے کو کسی دوسری عدالت میں منتقل کرنے کی درخواست دی تھی۔
اس دوران ایمان مزاری کا کہنا تھا کہ انھیں معلوم ہے کہ انھیں اس مقدمے میں سزا دی جائے گی اور وہ بھی سات سال ہو گی لیکن وہ یہ سزا بھگتنے کے لیے تیار ہیں۔
اس پر جج افضل مجوکا مسکرا دیے اور پراسیکیوٹر کو کہا کہ وہ اس مقدمے سے متعلق حتمی دلائل دیں۔
Getty Imagesسپریم کورٹ نے ایمان مزاری اور ہادی چٹھہ کی درخواست منظور کرتے ہوئے متنازع ٹویٹس کیس میں اُن کا ٹرائل روکنے کا حکم دیا
ملزم ہادی علی چٹھہ نے اس دوران عدالت کو بتایا تھا کہ انھیں ضابطہ فوجداری کی دفعہ 342 کے تحت بیان داخل کروانے اور اپنی صفائی میں گواہ لانے کی اجازت دی جائے، جس پر عدالت نے پراسیکیوشن کو نوٹس جاری کیا تھا۔
ملزم ہادی چٹھہ نے اپنی درخواست کے حق میں خود ہی دلائل دیے تھے اور کہا تھا کہ 342 کا بیان اصل میں ملزم کا ہوتا ہے۔
انھوں نے کہا کہ ہماری معلومات کے مطابق سٹیٹ کونسل نے 342 کا جواب دیا اور وہ 342 کا جواب سٹیٹ کونسل کاہے ملزمان کا نہیں۔
ہادی چٹھہ نے کہا کہ جب اس مقدمے کی کارروائی کے دوران گواہان پر جرح ہوئی تو سٹیٹ کونسل کو سوالنامہ دے دیا گیا اور پراسیکیوشن نے سٹیٹ کونسل کو سوالنامہ دیا، جس پر ملزم نے انحصار نہیں کیا۔
انھوں نے عدالت کو بتایا کہ انھیں سوالنامہ نہیں دیا گیا جس پر عدالت نے 33 سوالات پر مشتمل سوالنامہ انھیں دیا۔
ہادی چٹھہ کا کہنا تھا کہ ہم سٹیٹ کونسل کے خلاف عدم اعتماد کی درخواست عدالت کو دے چکے ہیں۔
انھوں نے کہا تھا کہ وہ اپنا 342 کا جواب دینا چاہتے ہیں اور اس کے ساتھ ساتھ گواہان کی بھی فہرست ہے اور ان گواہان میں صحافی احمد نورانی کی والدہ، صحافی مدثر نارو کی والدہ، سردار اختر مینگل، شاعر احمد فرہاد، عارفہ نور ودیگر گواہان میں شامل ہیں۔
ہادی چٹھہ نے کہا تھا کہ عدالت اگر چاہے تو گواہان کو سمن بھی کر سکتی ہے۔
ایمان مزاری اور ان کے شوہر کی ضمانت منظور: کیا کارِ سرکار میں مداخلت پر دہشتگردی کا مقدمہ بنتا ہے؟’والدہ کی گرفتاری کی وجہ سے سٹریس میں تھی، بیانات کا مقصد فوج میں انتشار پھیلانا نہیں تھا‘اعلیٰ فوجی افسران کو ’سٹریٹیجی‘ پڑھانے والی شیریں مزاری سیاست دان کیسے بنیں؟