فیض حمید کی سزا کے اعلان کا آخری پیراگراف کیا معنی رکھتا ہے؟

بی بی سی اردو  |  Dec 11, 2025

پاکستان کی خفیہ ایجنسی انٹر سروسز انٹیلیجنس کے سابق سربراہ لیفٹیننٹ جنرل (ر) فیض حمید کو فوجی عدالت کی جانب سے 14 سال قید بامشقت کی سزا ملنے کو بعض ماہرین پاکستان کی سیاسی اور عسکری تاریخ کے بڑے واقعات میں سے ایک قرار دے رہے ہیں۔

پاکستان میں سب سے طاقتور سمجھی جانے والی خفیہ ایجنسی کے سربراہ کو ملنے والی اس غیر معمولی سزا کے بعد ملک میں فوج کی سیاست میں مداخلت کی تاریخ اور موجودہ حالات میں اس کی اہمیت پر بھی بات ہو رہی ہے۔

بعض ماہرین کا کہنا ہے کہ لیفٹیننٹ جنرل (ر) فیض حمید کو ’سیاسی سرگرمیوں، آفیشل سیکرٹ ایکٹ کی خلاف ورزی‘ سمیت چار الزامات پر 14 سال قید بامشقت کی سزا کے دُور رس نتائج مرتب ہوں گے۔

فوج کے شعبہ تعلقات عامہ کی جانب سے جمعرات کو جاری کردہ ایک پریس ریلیز کے مطابق آئی ایس آئی کے سابق سربراہ کو یہ سزا 12 اگست 2024 کو پاکستان آرمی ایکٹ کے تحت شروع ہونے والے فیلڈ جنرل کورٹ مارشل کی 15 ماہ کی کارروائی کے بعد سنائی گئی۔

فوج کی جانب سے جاری بیان میں لیفٹیننٹ جنرل (ر) فیض حمید پر عائد کیے گئے الزامات کی تفصیلات ظاہر نہیں کی گئیں تاہم ماہرین سنہ 2018 کے عام انتخابات، ملک میں ہونے والے احتجاجی مظاہروں اور پھر نو مئی سنہ 2023 کے واقعات کی طرف اشارہ کر رہے ہیں۔

ایسے میں آئی ایس پی آر کی جانب سے جاری اعلامیے کے آخری حصے پر بھی بات ہو رہی ہے جس میں کہا گیا ہے کہ ’سیاسی عناصر کے ساتھ مل کر انتشار اور عدم استحکامپھیلانے سمیت دیگر معاملات میں مداخلت کے پہلو علیحدہ طور پر دیکھے جا رہے ہیں۔‘

پاکستان کے وفاقی وزیرِ دفاعخواجہ آصف، وزیرِ اطلاعات عطا تارڑ اور مختلف سیاسی تجزیہ کاروںکی جانب سے اس سزا پر آنے والے ردِعمل میں سابق آرمی چیف جنرل قمر جاوید کا نامبھی لیا جا رہا ہے۔

خواجہ آصف نے ایکس پر اپنے بیان میں کہا کہ ’قوم برسوں فیض حمید صاحب اور جنرل باجوہ کے بوئے بیجوں کی فصل کاٹے گی۔ اللہ ہمیں معاف کرے، طاقت اور اقتدار کو اللہ کی عطا سمجھ کر اس کی مخلوق کے لیے استعمال کی توفیق عطا فرمائے۔ خوف خدا حکمرانوں کا شیوہ بنے۔‘

وفاقی وزیر اطلاعات عطا اللہ تارڑ نے کہا کہ ’آج ریڈ لائن کراس کرنے والے شخص کو سزا ہوئی۔‘

بی بی سی نے تجزیہ کاروں اور پاکستان فوج کے سابق افسران سے بات کر کے یہ جاننے کی کوشش کی ہے کہ یہ سزا پاکستان کی فوج اور سیاست دانوں کے لیے کیا معنی رکھتی ہے؟ ماضی قریب میں پاکستانی سیاست میں فوج کی مداخلت کے کب کب الزامات لگتے رہے اور فوجی ترجمان کے بیان کے آخری پیرے کا کیا مطلب ہے؟

Getty Imagesنو مئی کے واقعات اور جنرل باجوہ کا تذکرہ

سینیئر صحافی اور تجزیہ کار مظہر عباس کہتے ہیں کہ ابھی فی الحال فیصلہ سامنے آیا ہے، فیصلے کی تفصیل نہیں۔

’جنرل فیض پر سیاسی سرگرمیوں میں ملوث ہونے اور اختیارات کے ناجائز استعمال کا جرم ثابت ہونے کا بتایا گیا لیکن یہ نہیں بتایا گیا کہ کب کب وہ سیاست میں ملوث ہوئے۔‘

بی بی سی سے گفتگو کرتے ہوئے مظہر عباس کا کہنا تھا کہ سیاسی مداخلت کی بات کی جائے تو جنرل فیض پر سنہ 2018 کے انتخابات میں مداخلت کا الزام عائد کیا جاتا رہا جبکہ اس کے بعد ہونے والے متعدد واقعات میں بھی اُن کی جانب اُنگلیاں اُٹھائی جاتی رہی ہیں۔

مظہر عباس کہتے ہیں کہ ان الزامات کی تفصیلات اُس وقت سامنے آئیں گی، جب جنرل فیض اس فیصلے کے خلاف اپیل دائر کریں گے۔

اُن کے بقول فیض حمید کے پاس ہائی کورٹ اور سپریم کورٹ میں بھی اپیل دائر کرنے کا حق ہے۔ لہذا جب ہائی کورٹ اور سپریم کورٹ میں یہ معاملہ آئے گا تو اس وقت ان الزامات کی تفصیلی فہرست بھی منظرعام پر آ جائے گی۔

مظہر عباس کہتے ہیں کہ سنہ 2018 کے بعد کے سیاسی حالات دیکھیں تو دو کردار اُبھر کر سامنے آتے ہیں، ان میں جنرل باجوہ اور جنرل فیض حمید سرفہرست ہیں۔ ’دونوں کے تعلقات کے معاملات بھی سامنے آتے رہے ہیں۔‘

اُن کے بقول اکتوبر 2021 میں جب اُس وقت کے آرمی چیف، جنرل فیض حمید کو کور کمانڈر پشاور لگانا چاہتے تھے تو اُس وقت کے وزیر اعظم عمران خان نے اس کی مخالفت کرتے ہوئے اُنھیں ڈی جی آئی ایس آئی کے عہدے پر برقرار رکھنے پر زور دیا تھا۔

واضح رہے کہ سابق وزیر اعظم عمران خان آن دی ریکارڈ یہ کہہ چکے ہیں کہ اُن کے جنرل فیض حمید کے تبادلے کے معاملے پر جنرل قمر جاوید باجوہ سے اختلافات تھے کیونکہ وہ چاہتے تھے کہ افغانستان کے حالات کے پیش نظر جنرل فیض کو ڈی جی آئی ایس آئی کے عہدے پر برقرار رہنا چاہے۔

مظہر عباس کہتے ہیں کہ اس معاملے میں جنرل باجوہ اپنی بات منوانے میں کامیاب ہو گئے تھے اور جنرل فیض حمید کو کور کمانڈر پشاور تعینات کر دیا گیا تھا۔

اُن کے بقول اس سے ظاہر ہوتا ہے کہ جنرل فیض حمید کے اُس وقت کے وزیر اعظم سے کس نوعیت کے تعلقات تھے۔

جنرل باجوہ سے متعلق وزرا کے بیان پر ڈاکٹر حسن عسکری رضوی کا کہنا تھا کہ ’اگر فوج کے اندر کسی اور کے خلاف بھی کارروائی کی گئی تو یہ سلسلہ فوج کے اندر بے چینی کا باعث بن سکتا ہے۔‘

Getty Images

دفاعی اُمور کے تجزیہ کار بریگیڈیئر (ر) حارث نواز کہتے ہیں کہ جنرل فیض حمید کو جن الزامات کے تحت سزا دی گئی وہ اُن کی ریٹائرمنٹ کے بعد کی سرگرمیاں تھیں اور وہ آفیشل سیکرٹ ایکٹ اور ریٹائرمنٹ کے بعد سیاسی سرگرمیوں میں حصہ لینے جیسے معاملات تھے۔

بی بی سی سے گفتگو کرتے ہوئے اُن کا کہنا تھا کہ ’آخری پیرا گراف کا مطلب ممکنہ طور پر نو مئی سے متعلقہ واقعات ہیں، جن میں اُن پر یہ الزام لگ سکتا ہے کہ اُنھوں نے ایک سیاسی جماعت کی رہنمائی کی۔ لوگوں کو اُکسایا کہ ایسا کرنے سے انتشار ہو گا۔‘

بریگیڈیئر (ر) حارث نواز کے مطابق یہ معاملہ صرف جنرل فیض تک محدود نہیں رہے گا بلکہ اس میں پاکستان تحریک انصاف کے رہنماؤں کے نام بھی آئیں گے۔

بریگیڈیئر (ر) حارث نواز کہتے ہیں کہ اُنھیں نہیں لگتا کہ جنرل باجوہ کے خلاف بھی کارروائی ہو گی۔ وہ کہتے ہیں کہ گو کہ آئی ایس آئی کے سربراہ، آرمی چیف کی کمانڈ کے نیچے ہوتے ہیں لیکن بہت سے معاملات میں وہ اپنے طور پر بھی فیصلے کرتے ہیں۔

بریگیڈیئر (ر) حارث نواز کہتے ہیں کہ کوئی بھی فوجی افسر ریٹائرمنٹ کے بعد دو سے تین سال تک کسی بھی قسم کی سیاسی سرگرمی میں حصہ نہیں لے سکتا لیکن اس کورٹ مارشل کی کارروائی میں یہ ثابت ہوا کہ جنرل فیض حمید سیاسی سرگرمیوں میں حصہ لے رہے تھے اور ایک مخصوص جماعت کو مشورے دے رہے تھے۔

لاہور کی لمز یونیورسٹی میں پولیٹیکل سائنس ڈیپارٹمنٹ سے منسلک پروفیسر رسول بخش رئیس کہتے ہیں کہ فوج پر سیاست میں مداخلت کے الزامات کی طویل تاریخ رہی ہے لیکن کسی بڑے فوجی افسر کو ان الزامات کے تحت سزا سنانے کی شاید پاکستان کی تاریخ میں یہ پہلی مثال ہے۔

فیض حمید: ایک ’متحرک جنرل‘ جن کا کریئر تنازعات میں گِھرا رہاجنرل فیض حمید کا دورۂ کابل نامناسب اور غیرضروری تھا: اسد درانیفیض حمید کی تبدیلی سے حکومت کی تبدیلی کے منصوبے تک: عمران خان کی پوڈکاسٹ سوشل میڈیا پر زیرِ بحثآئی ایس آئی کے سابق سربراہ اسد درانی پر انڈین خفیہ ادارے را سے تعلق کا الزامفوجی ترجمان کے اعلامیے کا آخری ’پیرا گراف‘ کتنا اہم؟

مظہر عباس کہتے ہیں کہ فوجی ترجمان کے اعلامیے کے آخری پیرا گراف کا بظاہر تعلق نو مئی کے واقعات سے ہی ہے۔

اُن کا کہنا تھا کہ پاکستان کی فوج نو مئی کے واقعات کا بار بار ذکر کرتی ہے اور اس میں ملوث کرداروں کو سامنے لانے کا اعلان کر چکی ہے۔ لہذا اس آخری پیرا گراف سے تاثر یہی ملتا ہے کہ اس میں نو مئی کے واقعات سے متعلق ابھی کچھ فیصلے ہونا باقی ہیں۔

مظہر عباس کہتے ہیں کہ اگر ان واقعات میں بھی جنرل فیض حمید کا ملوث ہونا ثابت ہو گیا تو پھر یہ ٹرائل مزید سخت ہو گا لیکن یہ کہنا ابھی قبل ازوقت ہو گا۔

مظہر عباس کہتے ہیں کہ آنے والے دنوں میں اس فیصلے کے سیاسی مضمرات سامنے آئیں گے۔

اُن کا کہنا تھا کہ نو مئی کے واقعات سے متعلق یہ سوالات اُٹھائے جاتے رہے ہیں کہ کیا صرف اس میں پاکستان تحریکِ انصاف کے لوگ ملوث تھے یا اس کے پیچھے بھی کوئی خفیہ ہاتھ تھا کیونکہ اس روز کور کمانڈر ہاؤس، میانوالی اور پشاور میں فوجی تنصیبات کو نشانہ بنایا گیا۔

دفاعی اُمور کے ماہر ڈاکٹر حسن عسکری رضوی کہتے ہیں کہ ’پاکستان میں فوج کی سیاست میں مداخلت کی طویل تاریخ رہی ہے اور یہ ساٹھ کی دہائی سے ہی شروع ہو گیا تھا۔‘

اُن کے بقول فوجی اسٹیبلشمنٹ خود یہ طے کرتی ہے کہ سیاست میں مداخلت کیا ہے اور کیا نہیں۔

بی بی سی سے گفتگو کرتے ہوئے ڈاکٹر حسن عسکری رضوی کا کہنا تھا کہ ’فوج کی کمانڈ سیاست میں مداخلت کا فریم ورک طے کرتی ہے اور بظاہر ایسا لگتا ہے کہ جنرل فیض حمید اس فریم ورک سے باہر نکلے۔‘

پاکستانی خفیہ ادارے آئی ایس آئی کے ایک سابق سربراہ نے نام نہ ظاہر کرنے کی شرط پر بی بی سی کو بتایا کہ بعض اوقات ادارے کا سربراہ اپنی کسی سرگرمی کی پیشگی اطلاع اپنے حکام بالا کو نہیں دیتا۔

انھوں نے اپنی بات کی مزید وضاحت کرنے کے لیے ماضی میں اپنی ایک میٹنگ کا بھی حوالہ دیا جس کی پیشگی اطلاع انھوں نے اپنے باسز کو نہیں دی تھی۔

وفاقی وزرا کی جانب سے جنرل فیض حمید کے ساتھ جنرل قمر جاوید باجوہ کا نام لینے پر مظہر عباس کا کہنا تھا کہ حکومتی وزرا متعدد مواقع پر جنرل باجوہ کا نام لے چکے ہیں لیکن حکومت ان کے خلاف خود کارروائی کرنے سے ہچکچاتی ہے۔

وہ کہتے ہیں کہ سنہ 2018 سے سنہ 2024 کے واقعات کا جائزہ لیں تو ہمیں جنرل فیض اور جنرل باجوہ کے کردار ہی نظر آتے ہیں۔

مظہر عباس کہتے ہیں کہ جنرل فیض نے کورٹ مارشل کی کارروائی کے دوران کیا موقف اپنایا، اس کی تفصیلات بھی سامنے نہیں آئیں، لہذا جب یہ معاملہ سول عدالتوں میں آئے گا تو پھر جنرل فیض حمید کا موقف بھی سب کے سامنے آ جائے گا۔

اس فیصلے میں فوج اور سیاست دانوں کے لیے کیا پیغام ہے؟

مظہر عباس کہتے ہیں کہ یہ پاکستان میں سنہ 2025 کی سب سے بڑی خبر ہے اور گذشتہ چند ماہ میں پاکستان میں جو تبدیلیاں رُونما ہوئی ہیں، اس تناظر میں یہ فیصلہ بہت اہم ہے۔

اُن کے بقول ’اگر اس فیصلے میں پیغام یہ ہے کہ کوئی بھی قانون سے بالاتر نہیں تو پھر تو یہ بہت اچھی بات ہے کیونکہ یہ فوج کے اندر کا خود احتسابی کا نظام ہے۔ دیکھنا یہ ہو گا کہ ملکی سطح پر سب کے لیے احتساب کا کون سا کڑا نظام بنایا جاتا ہے۔‘

مظہر عباس کہتے ہیں کہ ماضی میں ہم یہ دیکھتے رہے ہیں کہ احتساب کو سیاسی مقاصد کے لیے استعمال کیا جاتا رہا ہے۔

ڈاکٹر حسن عسکری رضوی کہتے ہیں کہ اس فیصلے سے پہلے بھی فوج کی سیاسی سرگرمیوں میں مداخلت کا تاثر موجود تھا اور اس فیصلے کے بعد بھی یہ تاثر موجود رہے گا لیکن اتنی طاقتور خفیہ ایجنسی کے سربراہ کو یہ سزا دے کر بہرحال فوج کی جانب سے ایک سخت پیغام تو دیا گیا۔

اُن کے بقول اس فیصلے سے یہ بھی ظاہر ہوتا ہے کہ اگر کوئی فوجی افسر فوجی اسٹیبلشمنٹ کے ’فریم ورک‘ سے باہر نکلے گا تو وہ مشکل میں پھنسے گا۔

بریگیڈیئر (ر) حارث نواز کہتے ہیں کہ اس فیصلے سے فوج کے اندر یہ پیغام دیا گیا کہ جو بھی پاکستان آرمی ایکٹ کی خلاف ورزی کرے گا، اس کے خلاف بلاامتیاز کارروائی ہو گی۔

اُن کے بقول جب ایک کو سزا دی جاتی ہے تو دوسروں کو بھی یہ پیغام جاتا ہے کہ وہ اس طرح کی سرگرمیوں سے دُور رہیں۔

بریگیڈیئر (ر) حارث نواز کے بقول اس میں سیاست دانوں کے لیے بھی یہ پیغام ہے کہ وہ اپنے معاملات خود حل کریں اور سیاسی معاملات کے لیے فوج کو استعمال نہ کریں۔

پروفیسر رسول بخش رئیس کہتے ہیں کہ اس فیصلے سے یہ سبق ملتا ہے کہ ملک میں اس وقت جو ’ہائبرڈ پلس‘ نظام ہے، وہ کافی مضبوط ہے۔

بی بی سی سے گفتگو کرتے ہوئے اُن کا کہنا تھا کہ ملک میں حالیہ عرصے میں جو آئینی اور قانونی معاملات ہوئے، اس کے بعد موجودہ نظام مزید مضبوط ہوا۔

اُن کے بقول گو کہ اس فیصلے کا براہ راست پاکستان تحریک انصاف سے تعلق نہیں لیکن اس سے یہ تاثر ضرور ملتا ہے کہ پارٹی کے لیے راستے بتدریج بند ہو رہے ہیں۔

وہ کہتے ہیں کہ اس فیصلے سے یہ پیغام بھی ملتا ہے کہ اس نظام کے خلاف، جو بھی مزاحمت ہو گی، تمام ادارے اور قانون حرکت میں آئے گا۔

فیض حمید: آئی ایس آئی کے سابق سربراہ کو ’سیاسی سرگرمیوں، آفیشل سیکرٹ ایکٹ کی خلاف ورزی‘ سمیت چار الزامات پر 14 سال قید بامشقت کی سزاجاسوسی کا الزام: عمرقید کی سزا پانے والے سابق لیفٹیننٹ جنرل جاوید اقبال کی رہائی کیسے ممکن ہوئی؟آئی ایس آئی کے سابق سربراہ اسد درانی پر انڈین خفیہ ادارے را سے تعلق کا الزامجاسوسی کا الزام: عمرقید کی سزا پانے والے سابق لیفٹیننٹ جنرل جاوید اقبال کی رہائی کیسے ممکن ہوئی؟را کے سابق سربراہ آئی ایس آئی کے مداح کیوں؟
مزید خبریں

Disclaimer: Urduwire.com is only the source of Urdu Meta News (type of Google News) and display news on “as it is” based from leading Urdu news web based sources. If you are a general user or webmaster, and want to know how it works? Read More