الیکٹرا میٹرو: پاکستان میں سستی الیکٹرک ’گاڑیوں‘ کے خریداروں کو کِن چیزوں پر سمجھوتہ کرنا ہو گا؟

بی بی سی اردو  |  Dec 08, 2025

’موٹر سائیکل سے موٹر کار۔‘

اِس نعرے نے حال ہی میں اس وقت پاکستانی صارفین کی توجہ حاصل کی جب ’الیکٹرا‘ نامی کمپنی نے ایک ایسی الیکٹرک کار کی بُکنگ کا آغاز کیا جس کی قیمت تقریباً 11 لاکھ روپے سے شروع ہوتی ہے۔

’الیکٹرا‘ کے جنرل مینیجر احمد کمال نے بی بی سی کو بتایا کہ اب تک تقریباً 200 صارفین نے اس کار کی بُکنگ کروائی ہے اور پہلے مرحلے میں چین سے درآمد کیے جانے والے سی بی یو یونٹس کی ڈیلیوری آئندہ برس مارچ سے شروع ہو گی۔

انھوں نے بتایا کہ کار میں ٹو ڈور اور فور ڈور کے علاوہ بیٹری کے اعتبار سے تین آپشنز ہیں۔ ’اوسطاً اس کی بیٹری چارج ہونے میں پانچ سے چھ گھنٹے لیتی ہے اور ویریئنٹ کے حساب سے اِس کی رینج 100 سے 180 کلومیٹر تک ہے۔‘

کئی لوگوں نے قیمت اور خصوصیات کے اعتبار سے اس الیکٹرک کار کا موازنہ پاکستان میں پہلے سے موجود بجٹ کاروں سے کیا ہے تاہم بعض صارفین نے اس میں حفاظتی فیچرز کی عدم موجودگی کی بھی نشاندہی کی ہے۔

پاکستان میں ’نورا‘ نامی کمپنی نے بھی اِسی طرح کی ایک ’مائیکرو کار‘ متعارف کروائی ہے۔

ہم نے یہ جاننے کی کوشش کی ہے کہ آیا مڈل کلاس کو ٹارگٹ کرنے والی یہ الیکٹرک وہیکلز کسی عام چھوٹی کار کا نعم البدل ہو سکتی ہیں اور صارفین کو ایسی آپشنز کو خریدتے وقت کن چیزوں کا خیال رکھنا چاہیے۔

رکشتہ یا کار: ’الیکٹرا میٹرو‘ آخر ہے کیا؟

بی بی سی سے گفتگو کرتے ہوئے الیکٹرا کے جنرل مینیجر احمد کمال کا کہنا تھا کہ ’یہ سمجھنا ضروری ہے کہ یہ گاڑی نہیں بلکہ کواڈری سائیکل ہے۔‘

اُن کا کہنا تھا کہ جنوبی ایشیائی ممالک میں رکشے جیسی کواڈری سائیکل بہت عام ہیں اور یہ ٹُک ٹُک کے نام سے چلتی ہیں مگر الیکٹرا میٹرو اس کی چار پہیوں والی جدید قسم ہے جس میں سٹیئرنگ وہیل، ای سی ہیٹر اور ریورس کیمرا بھی ہے۔ ’اس کے تمام فیچر گاڑی والے ہی ہیں، مگر یہ گاڑی نہیں ہے۔‘

وہ کہتے ہیں کہ کمپنی نہیں چاہتی کہ صارفین کی اس کے حوالے سے توقعات گاڑی جیسی ہوں۔

افغان طالبان ٹویوٹا کی گاڑیاں کیوں خریدنا چاہتے ہیں؟لاہور میں ’ٹیسٹ ڈرائیو کے بہانے‘ کار چوری: آن لائن اشتہار کے ذریعے گاڑی فروخت کرتے وقت اِن چیزوں کا خیال رکھیں!برطانیہ سے ’چوری شدہ‘ رینج روور کی کراچی میں موجودگی کا انکشاف: ’یہ گاڑی یقینی طور پر زمینی راستے سے تو آئی نہیں ہو گی‘انڈیا میں تیار کردہ سوزوکی کی پہلی الیکٹرک کار جو ’جاپان سمیت 100 ملکوں میں ایکسپورٹ ہو گی‘

مگر احمد کمال کا کہنا تھا کہ کئی اعتبار سے یہ موٹر سائیکل سے بہتر اور محفوظ ہے۔ ’آپ بچوں کو موٹر سائیکل کی ٹینکی پر بٹھانے کی بجائے اس کواڈری سائیکل میں بٹھائیں اور انھیں سکول چھوڑیں یا سودا سلف خریدیں۔‘

وہ کہتے ہیں کہ اس ای وی (الیکٹرک وہیکل) کے خریدار وہ لوگ بھی ہو سکتے ہیں جو سیکنڈ یا تھرڈ کار کے طور پر چھوٹے موٹے کاموں کے لیے اسے استعمال کرنا چاہتے ہیں۔ ’کئی لوگوں نے اپنے ڈرائیور کو دینے کے لیے اس کار کی بُکنگ کروائی ہے، جو نہیں چاہتے کہ ان کا ڈرائیور 50، 60 لاکھ روپے کی گاڑی پر اُن کے لیے سبزی لے کر آئے۔‘

مگر کیا یہ محفوظ ہے؟

کئی لوگوں نے الیکٹرا میٹرو اور اس جیسے کواڈری سائیکل یا ’مائیکرو کار‘ میں سیفٹی فیچرز نہ ہونے کی شکایت کی ہے۔

اس بارے میں احمد کمال کا کہنا تھا کہ کوراڈی سائیکل ایک بین الاقوامی سطح پر پہچانی جانے والی وہیکل کلاس ہے اور یہ چین میں اپنی کیٹگری کے انٹرنیشنل سیفٹی سٹینڈرڈز کلیئر کر کے پاکستان آتی ہے اور پاکستانی کسٹم حکام بھی اس کی سیفٹی رپورٹ کی جانچ کرتے ہیں۔

وہ صارفین کو آگاہ کرتے ہیں کہ اس ای وی پر ’ہائی سپیڈ روڈز پر پابندی ہے، جیسے موٹروے، جی ٹی روڈ، رِنگ روڈ یا ہائی وے۔ آپ اسے وہاں نہیں لے جا سکتے۔ اگر آپ ایسے کرتے ہیں تو حکام بھاری چالان کر سکتے ہیں۔ یہ صرف سوسائیٹیز، محلوں اور شہر کے اندر سفر کرنے کے لیے ہے۔‘

اُن کا کہنا تھا کہ اس کی زیادہ سے زیادہ رفتار 45 سے 50 کلومیٹر فی گھنٹہ ہے۔ ’سیفٹی کے خدشات اُس وقت آتے ہیں جب آپ بہت زیادہ رفتار پر سفر کریں۔‘

اُن کا کہنا تھا کہ ’اس کا محدود استعمال ہے، یہ ہر کسی کے لیے نہیں ہے۔ یہ ہر بندے کی ضرورت نہیں ہے اور انھی لوگوں کو یہ ای وی لینی چاہیے جنھیں اس کی ضرورت ہے۔‘

سستی ای وی خریدتے وقت کن چیزوں کا خیال رکھنا چاہیے؟

آل پاکستان موٹر ڈیلرز ایسوسی ایشن کے سربراہ ایچ ایم شہزاد کہتے ہیں کہ اہم بات یہ ہے کہ ایک الیکٹرک وہیکل، چاہے وہ 10 لاکھ روپے کی ہے یا ایک کروڑ روپے کی، اس کی چارجنگ میں کتنا وقت لگتا ہے اور ایک بار فُل چارج ہونے پر یہ کتنے کلومیٹر تک چل سکتی ہے۔

وہ کہتے ہیں کہ جب تک ملک میں ای ویز کے لیے سپر چارجرز کی عدم دستیابی رہے گی اور ان کی بیٹریاں معیاری نہیں ہوں گی تب تک ’یہ صرف کھلونا ہیں۔‘

وہ کہتے ہیں کہ کِم بجٹ میں صارفین کے پاس پہلے ہی محدود آپشنز ہوتے ہیں مگر مہنگی ای ویز بھی چارجنگ میں زیادہ وقت لے سکتی ہیں۔ ’مڈل کلاس کا جو فرد ایسی کار خریدے گا اس کے گھر تو ویسے بھی آٹھ گھنٹے بجلی نہیں آ رہی ہو گی۔ وہ چارج کرے گا کیسے؟‘

اُن کی رائے ہے کہ الیکٹرک گاڑیوں کی قیمت میں بڑا حصہ بیٹری کی لاگت کا ہوتا ہے، یعنی صارفین کو اس بارے میں بھی دھیان رکھنا چاہیے کہ بیٹری معیاری ہو۔ ’اگر ایک کار کی بیٹری کسی بھی وجہ سے خراب ہو جائے تو کیا آپ 10 لاکھ روپے والی گاڑی میں چھ لاکھ روپے کی بیٹری افورڈ کر پائیں گے؟۔۔۔ یہ دیکھنا ضروری ہے کہ کیا بیٹری کی وارنٹی ہے؟‘

وہ کہتے ہیں کہ ایسی صورت میں آپ پیٹرول کے خرچے پر بچت کرنے کی بجائے نقصان جھیل رہے ہوں گے۔

آٹو سیکٹر کے ماہر مشہود خان اس بات سے متفق ہیں کہ ای وی کے صارفین کے لیے سب سے بڑا چیلنج انفراسٹرکچر اور سیفٹی کا ہو گا۔ ’پاکستان میں ای وی کا انفراسٹرکچر نہیں۔۔۔ ای وی بائیکس یا بسوں کے مقابلے فور وہیلز کا مکمل انحصار چارجنگ کی سہولیات پر ہو گا۔‘

وہ کہتے ہیں کہ کمپنی چاہے جتنی مرضی سستی ای وی متعارف کرائے مگر صارف کو سیفٹی پر دھیان چاہیے کہ اس میں ان کی فیملی کتنی محفوظ ہو گی۔ ’مڈل کلاس کی مجبوری ہے اور وہ اس سے متوجہ ہو سکتے ہیں لیکن اہم بات سیفٹی کی ہے۔‘

وہ کہتے ہیں کہ یہ دیکھنا ضروری ہے کہ بیٹری کتنی ہیٹ اپ ہو رہی ہے۔ ’چین ایک بڑی ای وی مارکیٹ ہے جہاں یہ تبدیلیاں نظر آ رہی ہیں لیکن ہماری ملک میں یہ صارف کے لیے چیلنج ہے۔‘

وہ مثال دیتے ہیں کہ ’کسی حادثے کی صورت میں ایسی کار سے نکلنا کتنا آسان ہو گا۔‘

ایچ ایم شہزاد کہتے ہیں کہ صارفین کو یہ بھی مدنظر رکھنا چاہیے کہ آیا اِن کِم بجٹ کی گاڑیوں میں سیفٹی فیچرز موجود ہیں یا نہیں۔ ’10 لاکھ روپے کی گاڑی میں آپ کو کون ایئر بیگز دے گا؟‘

وہ مزید کہتے ہیں کہ فی الحال بیٹری یا موٹر کو ٹھیک کرنے کے لیے ای وی ٹیکنیشنز کی بھی قلت ہے۔ ’ملک میں اس وقت اس ٹیکنالوجی کے ٹیکنیشن موجود نہیں ہیں۔ عام مکینک اس گاڑی کو ٹھیک نہیں کر پائے گا۔‘

مشہود خان کہتے ہیں کہ پاکستان کو ای ویز کے لیے اپنی سٹینڈرڈز پر عملدرآمد کرانا ہو گا اور تمام الیکٹرک وہیکلز کی روڈ سیفٹی کا جائزہ لینا ہو گا۔ 'میں ایسی گاڑیاں خریدنا چاہتا ہوں، لیکن مگر مجھے اس کی سیفٹی پر اعتماد نہیں۔ اس کے باوجود اگر میرا بجٹ ہی یہی ہے تو میں شاید لے بھی لوں۔‘

افغان طالبان ٹویوٹا کی گاڑیاں کیوں خریدنا چاہتے ہیں؟کرکٹر صہیب مقصود کی لگژری کار جو پولیس ریڈ کے بعد واپس مل گئی: گاڑیوں کے لین دین میں کن چیزوں کا خیال رکھنا ضروری ہے؟برطانیہ سے ’چوری شدہ‘ رینج روور کی کراچی میں موجودگی کا انکشاف: ’یہ گاڑی یقینی طور پر زمینی راستے سے تو آئی نہیں ہو گی‘استعمال شدہ کاروں کی کمرشل بنیادوں پر درآمد کی اجازت: ’اب پاکستان میں گاڑیاں پروڈکشن لائن سے نہیں، بندرگاہ کے ذریعے آئیں گی‘انڈیا میں تیار کردہ سوزوکی کی پہلی الیکٹرک کار جو ’جاپان سمیت 100 ملکوں میں ایکسپورٹ ہو گی‘
مزید خبریں

Disclaimer: Urduwire.com is only the source of Urdu Meta News (type of Google News) and display news on “as it is” based from leading Urdu news web based sources. If you are a general user or webmaster, and want to know how it works? Read More