Getty Images
بسنت پالا اڑنت!
روایتی طور پر تو بسنت برصغیر میں موسمِ سرما کے خاتمے اور موسمِ بہار کی آمد پر خوشیاں منانے کا تہوار رہا ہے لیکن پنجاب میں یہ تہوار گذشتہ چند دہائیوں سے پتنگ بازی کے گرد ہی گھومتا رہا ہے یعنی پتنگ بازی نہیں تو کیا بسنت؟
پنجاب کے بڑے شہروں بالخصوص صوبائی دارالحکومت لاہور میں بسنت کے اس تصور نے پتنگ کی صنعت کو جنم دیا لیکن اس میں استعمال ہونے والے سامان کے انسانی جان کے لیے خطرہ بننے کی وجہ کر پتنگ بازی پنجاب میں تقریباً ڈھائی دہائیوں سے پابندی کا شکار رہی ہے۔
پنجاب میں پتنگ بازی کے سبب ببنے والے جان لیوا واقعات کے بعد حکومت نے 2001 کے بعد سے اس پر وقتاً فوقتاً پابندی کیں اور کچھ عرصہ قبل تو پتنگ بازی کو قابلِ سزا جرم قرار دیا گیا۔
اس صورتحال میں گذشتہ کئی برسوں سے مختلف حلقوں کی یہ کوشش رہی ہے کہ پنجاب کے تقافت سے جڑے اس تہوار اور پتنگ بازی کی روایت کو دوبارہ سے زندہ کیا جائے اور اب تقریباً 25 سال کے بعد پنجاب حکومت نے پتنگ بازی کی مشروط اجازت دے دی ہے۔
اس سلسلے میں یکم دسمبر کو پنجاب کے گورنر سلیم حیدر کی جانب سے جاری کیے گئے پنجاب کائٹ فلائنگ آرڈینس 2025 کےتحت حکام عوام کے جان و مال کے تحفظ کو یقینی بناتے ہوئے پتنگ بازی کی مشروط اجازت دے سکتے ہیں۔
گذشتہ کئی برسوں سےپنجاب میں بسنت کے تہوار اور پتنگ بازی کی ثقافتی اہمیت کے حامیوں کا کہنا ہے کہ آرڈینس کے اجرا کے بعد بسنت اور پتنگ بازی کی روایت بحال ہونے کا امکان پیدا ہوا ہے۔
کائٹ فلائنگ آرڈینس میں کیا ہے؟
کائٹ فلائنگ آرڈینس 2025 کے تحت حکومت کا کہنا ہے کہ اب مخصوص ایام اور مقامات پر قواعد و ضوابط کے تحت پتنگ اڑنے کی اجازت ہو گی۔
حکومت کا کہنا ہے کہ پتنگ اڑانے کے لیے استعمال ہونی والی ڈور دھاگے کی بنی ہونی چاہیے اور کیمیکل یا دھاتی ڈور کے استعمال پر مکمل ممانعت ہو گی۔
آرڈینس کے تحت اجازت کے باوجود بھی پتنگ بازی میں کیمیکل یا دھاتی ڈور استعمال کرنے والوں کو بھاری جرمانہ اور سزائیں ہوں گی۔
اس آرڈینس کے تحت پتنگ سازوں، پتنگ بازی میں استعمال ہونے والا سامان فروخت کرنے والوں، خریداروں اور کائٹ فلائینگ ایسوسی ایشن کو پابند بنایا گیا ہے کہ وہ اپنی رجسٹریشن کروائیں اور اس کی خلاف ورزی کرنے والوں کے خلاف سخت سزائیں تجویز کی گئی ہیں۔
آرڈیننس میں کہا گیا ہے کہ 18 سال سے کم عمر بچوں کی پتنگ بازی کرنے کی اجازت نہیں ہو گی اور کم عمر بچوں کو پتنگ اڑانے پر پہلی مرتبہ پچاس ہزار روپے جرمانہ ہو گا اور اگر انھوں نے ایسا دوبارہ کیا تو انھیں ایک لاکھ روپے جرمانہ ادا کرنا پڑے گا۔
بسنت کی واپسی ’یہ شہر دوبارہ جی اٹھے گا‘
اس آرڈینس کے اجرا پر سوشل میڈیا پر کئی صارفین نے خوشی کا اظہار کیا ہے۔ سوشل میڈیا سائٹ ایکس پر کئی افراد #BasantReturns کے ہیش ٹیگ سے اپنے پیغامات پوسٹ کر رہے ہیں۔
صحافی منیب فاروق کا کہنا ہے کہ 25 سال بعد بسنت واپس آئی ہے۔ ایکس پر جاری بیان میں انھوں نے کہا کہ ہماری زندگی میں خوشی اور روایت کو زندہ کرنے میں پنجاب حکومت کا شکریہ۔
انھوں نے کہا کہ بسنت اب غیر محفوظ نہیں ہو گی۔
ایکس پر ایک صارف زارا بلال نے لاہور کی خوبصورت تصاویر شائع کیں اور ایکس پر جاری اپنے بیان میں کہا کہ 25 سال کے بعد لاہور کا آسمان دوبارہ زندہ ہو گا۔
ایکس پر ایک صارف صفدر لغاری نے لکھا کہ25سال بعد بسنت کے رنگوں بھرے تہوار کی مشروط واپسی! پنجاب ایک بار پھر ثقافتی خوبصورتی اور روایتی جشن سے جگمگا اٹھے گا
انھوں نے اپنی ٹویٹ میں وزیراعلی پنجاب مریم نوازشریف کا شکریہ ادا کیا۔
ایک پر ایک صارف مریم محمود نے لکھا کہ 25 سال کے بعد لاہور دوبارہ سانس لے گا۔
انھوں نے لکھا کہ بسنت اپنے رنگوں، حوصلے اور ثقافتی دھڑکن کے ساتھ واپس آ رہی ہے، یہ شہر دوبارہ جی اٹھے گا۔
بسنت: اندرون لاہور میں گونجتی ’بو کاٹا‘ کی آوازیں جو کیمیکل ڈور کی نذر ہو گئیںپتنگ بازی پر پابندی کے باوجود ڈور پھرنے سے اموات: موٹرسائیکل سوار خود کو کیسے محفوظ رکھ سکتے ہیں؟بسنت کی خاطر ’موٹر سائیکل روکے نہیں جا سکتے؟‘کیا پنجاب میں اگلے سال بسنت منائی جائے گی؟پتنگ بازی کی مشروط اجازت، قواعد پر کیسےعمل درآمد ہو گا؟
جہاں حکومت نے پتنگ بازی کی مشروط اجازت دی ہے وہیں کئی حلقوں کا کہنا ہے کہ ضرورت ہے کہ حکومت اس بات کو یقینی بنائے کہ قواعد و ضوابط کے تحت پتنگ بازی ہو۔
ماضی میں بھی حکومت نے پتنگ بازی پر پابندی کو یقینی بنانے کے لیے سخت اقدامات کیے تھے۔
اس پر پابندی کے قانون کی منظوری کے بعد لاہور سمیت صوبہ بھر میں انسداد پتنگ بازی ایکٹ کی خلاف ورزیپر درجنوں مقدمات درج کیے گئے اور پتنگ فروخت کرنے پر والوں کے گوداموں پر چھاپے مارے۔
اس مرتبہ بھی حکومت کا کہنا ہے کہ مشروط اجازت کے تحت اب بھی پتنگ بازی کے قواعد کی خلاف ورزی کو ناقابل ضمانت جرم قرار دیا گیا ہے۔
آرڈینس کے تحت بغیر حکومتی اجازت کے پتنگ اڑانے پر تین سے پانچ سال قید ہو سکتی ہے جبکہ جیل کے ساتھ زیادہ سے زیادہ بیس لاکھ تک جرمانہ بھی ہو سکتا ہے۔
آرڈینس کے تحت تیر دھار منجھا یا ڈور جیسے عموماً کیمیکل اور شیشہ پیس کر بنایا جاتا سے اُس کے استعمال کو ممنوع قرار دیا گیا ہے اور خلاف ورزی کرنے والوں کو کم سے کم پانچ اور زیادہ سے زیادہ سات سال قید کی سزا سنائی گئی ہے جبکہ پچاس لاکھ جرمانہ بھی ادا کرنا پڑے گا۔
بغیر اجازت یا ری جسٹریشن کروائی بغیرپتنگ بازی، تیاری، فروخت، نقل و حمل پر 5 لاکھ سے 50 لاکھ تک جرمانہ ہو گا۔
Getty Imagesپتنگ بازی پر پابندی کیوں عائد کی گئی تھی؟
پاکستان میں پتنگ بازی کی مخالفت میں اضافہ اُس وقت شروع ہوا جب جدت اور مقابلے بازی کی دوڑ نے اس شوق کو باقاعدہ ٹورنامنٹس میں تبدیل کر دیا۔
ایسے میں جب آپس کے مقابلے سخت ہوئے تو پھر زور آزمائی کے لیے تکنیک سے زیادہ جدت پر انحصار کرتے ہوئے ایسی ڈور بنائی گئیں اور استعمال کی گئیں جن میں دھاگے کے بجائے کیمیل دھات اور شیشے استعمال ہونے لگی اور پھر یہی پتنگ بازی کی پابندی کی وجہ بنے۔
جان لیوا حادثات کے سبب حکومتِ وقت نے بسنت کا تہوار منانے کی حوصلہ شکنی کرتے ہوئے پتنگ بازی پر سختی سے پابندی عائد کر دی۔
پنجاب میں سنہ 2006 میں اس وقت کی صوبائی حکومت نے پہلی مرتبہ پتنگ بازی اور بسنت منانے پر پابندی عائد کی اور اسے بعد ازیں 2007 میں قانونی شکل دی گئی اور چند برس قبل حکومت پنجاب نے پتنگ بازی کے قوانین میں مزید سختی کرتے ہوئے پتنگ بازی اور پتنگ سازی کو قانوناً جرم قرار دے دیا ہے۔
اس حوالے سے پنجاب اسمبلی سے پتنگ بازی کی ممانعت کا ترمیمی بل 2024 منظور ہونے سے صوبے میں پتنگ بازی پر مکمل پابندی عائد ہو گئی ہے۔
اس قانون میں ترمیم کے بعد پتنگ بازی کو ناقابل ضمانت جرم قرار دیا گیا ہے۔ پتنگ اڑانے والے کو تین سے پانچ سال قید یا 20 لاکھ جرمانہ یا دونوں کی سزا ہو گی۔
اسی طرح پتنگ بازی، تیاری، فروخت، نقل و حمل پر 5 لاکھ سے 50 لاکھ تک جرمانہ عائد کیا گیا۔ پابندی کا اطلاق پتنگوں ، دھاتی تاروں، نائلون کی ڈوری، تندی، پتنگ بازی کے لیے تیز دھار مانجھے کیساتھ تمام دھاگوں پر ہو گا۔
Getty Imagesپاکستان میں دو نمبر، سات نمبر اور نو نمبر کا دھاگہ استعمال کیا جاتا تھا۔ جس پر چاول اور آٹے کی لیوی میں ٹیوب لائٹ اور عام شیشہ بوتلوں کو توڑ کر پاؤڈر اور رنگ ملا 380 میش کا مانجھا بنایا جاتا اور ڈور تیار کی جاتی تھیبرصغیر میں بسنت کا تہوار
بسنت رُت کے بدلنے کی نوید ہے۔
کھیتوں میں سرسوں جب پھولتی ہے اور ہریالی کے پس منظر میں پیلے پھولوں کی بہار دکھاتی ہے تو اس کھلتے موسم کو خوش آمدید کہنے کا نام ’بسنت‘ ہے۔ موسم سرما سے موسم بہار میں داخل ہوتے خوشگوار موسم کا سواگت کرنے کے لیے پنجابی کیلینڈر کے مہینے ماگھ کی پانچ تاریخ کو ایک جشن کا اہتمام کیا جاتا جو کہ ’بسنت پنچمی‘کہلاتا ہے۔
بسنت برصغیر پاک و ہند کے علاقے پنجاب کا ایک موسمی اور ثقافتی تہوار رہا ہے۔ برصغیر میں بسنت کا تہوار یوں تو صدیوں سے منایا جاتا رہا لیکن اسے مقبولیت انیسویں صدی میں مہاراجہ رنجیت سنگھ کے زمانے میں ملی جب اسے پوری شان و شوکت سے منایا گیا۔
امرتسر، قصور اور لاہور میں بسنت زور و شور سے منائی جاتی تھی، خوب پتنگ بازی ہوتی، مہاراجہ خود پتنگ بازی کرتے اور عوامی میلوں کو اپنی شمولیت سے خوشی بخشتے تھے۔ سیالکوٹ، گوجرانوالہ اور گورداسپور میں بڑے میلے لگتے تھے جن میں لوگ جوش و خروش سے شامل ہوتے۔
برصغیر میں پنجاب کی حکومت جب انگریزوں نے سکھوں سے چھین لی تو بہت سی تمدنی و ثقافتی روایات دم توڑ گئیں یا مدھم پڑ گئیں، تاہم بسنت چونکہ موسمی تہوار تھا اور خاص و عام میں مقبول تھا اس لیے زندہ رہا۔
قیامِ پاکستان کے بعد بھی بسنت نے علاقائی رنگ جمائے رکھا اور پنجاب میں پیلی سرسوں کے پھوٹتے ہی آسمان پر رنگی برنگی پتنگیں چھا جاتی تھیں۔
Getty Imagesلاہور میں پتنگیں تتلیوں کی طرح اڑتی نظر آتی تھیں جن کے الگ الگ نام ہوتے گڈی، گڈا، تاوا، ڈیڑھ تاوا، پتنگ، طوکل، کپس وغیرہبسنت اور پتنگ بازی
پتنگ بازی کا آغاز تو جاپان اور چین سے ہوا لیکن ایسے لگتا ہے کہ یہ تہوار پنجاب اور خاص کر لاہوریوں کے لیے ہی بنا تھا۔ لاہور میں بسنت کا تہوار تمام تہواروں کا بادشاہ تھا۔
نوے کی دہائی میں لاہور بسنت کے تہوار کا گڑھ بن چکا تھا۔ شہر میں موسم بہار کی آمد سے قبل ہی فضا ’بو کاٹا، بو کاٹا‘ سے گونجتی رہتی۔ اس کی آمد سے کئی ہفتے پہلے ہی اس کی تیاریاں شروع کر دی جاتیں۔ دکانیں سج جاتیں اور ہر طرف رنگ برنگی پتنگیں لٹکی نظر آتیں۔
پتنگوں کی تیاری کا آغاز کئی مہینے پہلے ہی سے ہو جاتا تھا۔ لاہور کے علاوہ قصور، گجرانوالہ، شاہدرہ، شرقپور، فیصل آباد، سیالکوٹ سمیت وسطی پنجاب کے متعدد شہروں سے پتنگیں تیار ہو کر لاہور پہنچائی جاتیں۔ مگر پھر بھی تہوار کے دنوں میں مال کم پڑ جاتا۔ پتنگوں کی طرح لاہوری ڈور بنانے میں بھی ماہر تھے۔
موچی گیٹ، رنگ محل، بھاٹی گیٹ، ٹیکسالی گیٹ سمیت منٹو پارک موجودہ (اقبال پارک) بادشاہی مسجد اور لاہور کے قلعے کے ساتھ ساتھ جا بجا لوگ ڈور پر مانجھا لگاتے دکھائی دیتے۔
بسنت کی صبح اذانوں سے پہلے ہی بچے اور بڑے گھروں کی چھتوں پر پہنچ جاتے تھے اور پتنگیں اندھیرے ہی میں آسمان پر چڑھا دی جاتی تھیں۔ شوروغل، ہوہاؤ، بگل باجوں کی آوازوں اور بوکاٹا کے نعروں کے ساتھ ہی بسنت کا آغاز ہوتا جو رات گئے تک اسی شور شرابے کے درمیان جاری رہتا تھا۔
بچے، بوڑھے، لڑکیاں، لڑکے بسنت کی مناسبت سے لباس تیار کرواتے تھے۔ گھروں میں چَٹ پٹے پکوان تیار کیے جاتے تھے۔ عزیز و اقارب کو ایک دوسرے کے ہاں مدعو کیا جاتا اور گھروں کی چھتیں لوگوں سے بھری رہتی تھی۔
نوے کی دہائی کے وسط تک بسنت ایک ایسا تہوار بن چکا تھا جس کے رنگ میں نہ صرف لاہور بلکہ پورا پاکستان ہی رنگ جاتا تھا۔ رفتہ رفتہ یہ تہوار اندرون سے نکل پر پورے لاہور بلکہ پنجاب کے دیگر شہروں تک پھیل گیا۔
یہ ایک ایسا تہوار تھا جس سے انسانی خوشیوں کے ساتھ ساتھ معاش و معیشت کا ایک نظام بھی بندھا ہوا تھا۔
بسنت کی آمد سے قبل لاہور کی مختلف شاہراہوں، چوراہوں، پیٹرول پپموں، دکانوں پر پتنگوں کے کٹ آؤٹ آویزاں کیے جاتے۔ نجی ملٹی نیشنل کمپنیاں بسنت کے موقع پر اپنے خصوصی اشتہار جاری کرتیں۔ پنجاب کے اہم شہروں میں بڑے ہوٹل بسنت میلے کی مناسبت سے تقریبات کا اہتمام کرتے ہیں۔
بسنت کی خاطر ’موٹر سائیکل روکے نہیں جا سکتے؟‘وہ لمحہ جب ایک پتنگ نوجوان کو بھی اپنے ساتھ لے اڑیکیا پنجاب میں اگلے سال بسنت منائی جائے گی؟دلی میں نظام الدین درگاہ پر بسنت پنچمی کا انوکھا جشنراولپنڈی میں بسنت: ’فضا میں پتنگیں کم لیکن ہوائی فائرنگ مسلسل ہو رہی تھی‘بسنت: اندرون لاہور میں گونجتی ’بو کاٹا‘ کی آوازیں جو کیمیکل ڈور کی نذر ہو گئیں