’خوف زدہ کر دینے کی حد تک‘ تیز بولر جنھیں شعیب اختر جیسی شہرت نہ مل سکی

بی بی سی اردو  |  Dec 03, 2025

Getty Images

جس نے بھی ڈنکن سپینسر کا سامنا کیا ہے اس کے پاس سُنانے کو کوئی نہ کہانی ضرور ہوتی ہے۔

90 کی دہائی کو فاسٹ بولنگ کے لیے ایک سنہرا دور سمجھا جاتا ہے اور شاید اس وقت سپینسر تیز ترین فاسٹ بولر تھے۔

سپینسر لنکاشائر میں پیدا ہوئے اور پرتھ میں پلے بڑے۔ اگر ان کے جسم نے انھیں مایوس نہ کیا ہوتا تو وہ انگلینڈ یا آسٹریلیا دونوں کی طرف سے کھیل سکتے تھے۔

ویسٹ انڈیز کے عظیم بلے باز ویون رچرڈز نے کہا تھا کہ سپینسر ان تیز ترین بولرز میں شامل تھے جن کا انھوں نے سامنا کیا۔ آسٹریلیا کے سابق کپتان رکی پونٹنگ کے بھی کچھ ایسے خیالات تھے۔

درہم کے کوچ اور ویسٹرن آسٹریلیا کی ٹیم میں سپینسر کے ساتھ رائن کیمپبل بھی کہتے ہیں کہ وہ ’خوف زدہ کر دینے کی حد‘ تک بولر تھے۔

آسٹریلیا کے سابق کھلاڑی اور ویسٹرن آسٹریلیا کی نمائندگی کرنے والی ٹام موڈ کہتے ہیں کہ سپینسر بلے بازوں کو ’دہشت زدہ‘ کر دیتے تھے۔

پہلے ایشز ٹیسٹ سے قبل بی بی سی سپورٹ کی ٹیم نے سپینسر سے پرتھ میں ان کے گھر پر ملاقات کی تھی۔

یہ انجریز، کھیل میں واپسی اور ڈرگز کی کہانی ہے۔ اس سے بھی بڑھ کر یہ فاسٹ بولنگ کا ایک قصہ ہے۔

انگلینڈ کے شمالی علاقوں میں ہر بچے کی طرح سپینسر کو بھی فٹ بال کھیلنے کا شوق تھا۔ لیکن مسئلہ یہ تھا کہ جب وہ صرف پانچ برس کے تھے تو ان کا خاندان 1980 کی دہائی کے اوائل میں آسٹریلیا آ گیا تھا جہاں فُٹ بال زیادہ عام نہیں ہوا تھا۔

جونیئر کرکٹ سرکل میں سپینسر بطور بلے باز کھیلا کرتے تھے۔ انھیں عام طور پر بولنگ کرنے کی اجازت نہیں ملتی تھی کیونکہ وہ ’یہاں وہاں گیند پھینکتے تھے۔‘ یعنی اس وقت ان کی لائن و لینتھ درست نہیں تھی۔

تاہم جونیئر کرکٹ سیزن کے ایک اختتام میچ میں جب ان کی ٹیم کا ایک بولر کہیں غائب ہوگیا تو 14 سالہ سپینسر کو بولنگ کروانے کا موقع دیا گیا۔

سپینسر کہتے ہیں ’وہ بس ایک شروعات تھی۔‘ اسی وقت سپینسر کی برق رفتاری سامنے آئی، وکٹیں ہلنے لگیں اور اب وہ ویسٹرن آسٹریلیا کے کرکٹ کے سسٹم میں اپنی جگہ بنا چکے تھے۔

کیمپبل کہتے ہیں کہ ’میں نے اپنے پورے جونیئر کیریئر میں سپینسر کے خلاف کھلینے کا 'لطف' اُٹھایا ہے۔‘

’آپ اس لڑکے کا رن اپ دیکھتے ہیں اور آپ کو معلوم ہوتا ہے کہ یہ بہت برق رفتار ہوگا اور وہ تیز ہی ہوتے تھے۔ وہ سب سے زیادہ برق رفتار تھے۔‘

کیمپبل مزید کہتے ہیں کہ: ’میری زندگی میں صرف ایسے چار لوگ ہیں جن کے بارے میں میں کہتا ہوں کہ وہ حیران کُن طور پر تیز تھے۔ وہ شعیب اختر، بریٹ لی، شون ٹیٹ اور ڈنکن سپینسر تھے۔‘

سپینسر کوئی دراز قد مرد نہیں ہیں۔ اب 53 برس کی عمر میں بھی ان کے کندھے کافی مضبوط ہیں لیکن ان کا قد صرف پانچ فٹ آٹھ انچ ہے، جو کہ ایک فاسٹ بولر کے لیے آئیڈیل قد نہیں ہے۔

ان کی کمر کا پہلا آپریشن 17 برس کی عمر میں ہوا تھا۔

ٹوم موڈی کہتے ہیں کہ ’میں ان کا موازنہ مارک وڈ کے ساتھ کرتا ہوں۔‘

’یہ ایسا ہی ہے کہ آپ کسی وی ایٹ کا انجن کسی منی مائنر کار میں لگا دیں۔‘

Getty Images1990 کی دہائی کے اوائل کو فاسٹ بولنگ کے لیے ایک سنہرا وقت سمجھا جاتا ہے اور شاید اس وقت سپینسر تیز ترین فاسٹ بولر تھے

جب سپینسر اپنے کیریئر میں آگے بڑھ رہے تھے اس وقت ڈیرل فوسٹر ویسٹرن آسٹریلیا اور کینٹ کے کوچ تھے۔ جب فوسٹر نے سُنا کہ سپینسر کے پاس برطانوی پاسپورٹ ہے تو انھوں نے نوجوان فاسٹ بولر کے ساتھ کینٹربری کے لیے دو برس کا معاہدہ کر لیا۔

سپینسر اس وقت سیکھ ہی رہے تھے۔ آسٹریلیا روانگی سے قبل سنہ 1993 میں ویسٹرن آسٹریلیا کی نمائندگی کرتے ہوئے سپینسر نے انگلینڈ اے کی ٹیم کے خلاف 42 نو بالز کروائی تھیں۔ انگلینڈ کی اس اے ٹیم میں جیک ریسل، گراہم تھورپ، ڈومنک کورک اور اینڈی کیڈک بھی کھیل رہے تھے۔

اس میچ میں گراہم تھورپ کو سپینسر نے آؤٹ کیا تھا۔

جب آسٹریلیا جانے کے بعد وہ پہلی مرتبہ انگلینڈ آئے تو 21 سالہ سپینسر سردی دیکھ کر حیران ہی ہو گئے۔

سپینسر کہتے ہیں کہ ’میں لڑکوں سے پوچھا کرتا تھا کہ کیا آپ بھی تکلیف کا شکار ہو رہے ہیں؟' وہ کہتے تھے 'نہیں ہم تو ٹھیک ہیں۔‘

سپینسر کے مطابق ’میں اس وقت مشکل سے ہی چل پا رہا تھا۔‘

Getty Imagesسپینسر غصے کے تیز تھے اور اکثر ان کا غصہ مخالفین کے بجائے اپنے ہی ٹیم کے کھلاڑیوں پر ہی اُتر جاتا تھا’الٹی پھینک کھڑی ہو جائے گی‘: سچن سمیت بہترین بلے بازوں کو چکرانے والی گیند کے موجد کی کہانیپاکستان کرکٹ کا وہ ’ہتھیار‘ جس کے یارکرز سے بچنے کے لیے سٹیل کیپس پہننے کا مشورہ دیا گیامحمد آصف: وہ ’جادوگر‘ بولر جس کی انگلیوں نے عظیم ترین بلے باز نچا ڈالےعمران خان کو ’چھکا مارنے کا چیلنج‘ دینے والے عبدالقادر جو کئی لیگ سپنرز کے استاد بنے

اس موسم گرما میں سپینسر کاؤنٹی چیمپیئن شپ کا صرف ایک ہی میچ کھیل سکے تھے۔ لیکن اس میں انھوں نے ایسی بولنگ کی تھی جس کا ذکر ان کا نام سننے والا ہر شخص کرتا ہے۔

اس برس ستمبر میں سنڈے لیگ سیزن کے فائنل میں کینٹ اور گلیمورگن کا سامنا ہوا تھا۔ یہ دونوں ٹیمیں اس لیگ میں سب سے آگے تھیں اور ٹرافی کا حصول دونوں کا ہی مقصد تھا۔

یہ ویسٹ انڈیز کے لیجنڈ بلے باز ویون رچرڈز کا آخری لسٹ اے میچ تھا۔ اس وقت ان کی عمر 41 برس تھی۔

یہ میچ بی بی سی پر نشر کیا گیا تھا، اس میچ میں جوناتھن ایگنیو اور وِک مارکس کمنٹری کر رہے تھے اور اس کی فوٹیج آج بھی انٹرنیٹ پر مل سکتی ہے۔

کینٹ کی ٹیم کو 200 رنز کا دفاع کرنا تھا اور سپینسر کا استعمال بطور پانچویں بولر کے کیا گیا تھا۔

آسمانی رنگ کی کینٹ کی کِٹ میں ملبوس، لچکدار بولنگ سٹائل کے حامل سپینسر کی گیند ایڈرین ڈیل کے پاس سے کانوں میں سیٹی بجاتی ہوئی گزری۔

سپینسر صرف دو ہی لینتھس پر بولنگ کیا کرتے تھے: بالکل فُل یا پھر بالکل شارٹ۔ جب بھی گلیمورگن کے کسی بلے باز کو گیند لگتی یا گیند کیپر سٹیو مارش کے ہاتھوں میں جاتی تو تماشائیوں کا شور سنائی دیتا۔

جب سپینسر نے انگلینڈ کے کھلاڑی میتھیو مینرڈ کو ایل بی ڈبلیو آؤٹ کیا تو اس کے بعد تالیوں کی گونج میں ویون رچرڈز کریز پر بیٹنگ کرنے آئے۔ انھوں نے سر پر ہیلمٹ بھی نہیں پہنا ہوا تھا۔

ایگنیو کے مطابق رچرڈز نے سپینسر کی پہلی گیند فرنٹ فُٹ پر کھیلی اور دوسری گیند ویسٹ انڈین کھلاڑی کے سینے پر لگی۔

سپینسر اس وقت کو یاد کر کے کہتے ہیں کہ: ’رچرڈز نے چیونگ گم تھوک دی تھی۔ انھوں نے درد کا اظہار تو نہیں کیا لیکن وہ واضح طور پر پسلی پر گیند لگنے کے بعد تکلیف میں تھے۔‘

ایک اور گیند رچرڈز کے ہاتھ پر لگی۔ جب انھوں نے ایک گیند پر سوئپ مارنے کی کوشش کی تو لیگ سائیڈ پر کیچ آؤٹ ہو گئے لیکن امپائر نے نو بال دے دی۔

بالآخر رچرڈز نان سٹرائیکرز اینڈ پر جانے میں کامیاب ہوگئے اور اس دوران نہ صرف انھوں نے سپینسر کو تالی ماری بلکہ ان کے سر تھپکی بھی دی۔

گلیمورگن کی ٹیم نہ صرف یہ میچ جیتی بلکہ ٹائٹل بھی جیت گئی۔ رچرڈز 46 رنز کے ساتھ ناٹ آؤٹ رہے۔ سپینسر کو رچرڈز کا دستخط شدہ بیٹ ملا جو آج بھی ان کے پاس موجود ہے۔

سپینسر کہتے ہیں کہ: ’میں چینجنگ روم میں آیا تو رچرڈز نے کہا لڑکے بہت برق رفتار بولنگ کرتے ہو۔ رچرڈز نے کہا کہ ایک دھیمی پِچ پر تم نے بہت تیز بولنگ کی ہے۔‘

صرف دو مہینے بعد ہی سپینسر ایک بار پھر ویسٹرن آسٹریلیا کی نمائندگی کر رہے تھے اور ان کا سامنا مستقبل کے لیجنڈ رکی پونٹنگ سے ہوا۔

ہوبرٹ میں شیفیلڈ شیلڈ کے میچ میں پونٹنگ تسمانیا کی نمائندگی کر رہے تھے۔ ان کی عمر 20 برس سے چند دن کم تھی اور وہ اپنی سینچری کے قریب تھے۔

سپینسر کہتے ہیں کہ ’کپتان جیف مارش میرے پاس آئے اور کہا کہ مجھے نہیں پتا کہ تم کیا کرو گے لیکن بس سب کو تنگ کر کے رکھ دو۔‘

’میں اور پونٹنگ آمنے سامنے تھے۔ میں نے انھیں لگاتار چار باؤنسرز کروائیں۔‘

سپینسر کہتے ہیں کہ: ’پونٹنگ نے کورز کی طرف گیند کھیلی جو میں نے پکڑ لی۔ وہ رن لینے بھاگے، میں مُڑا اور گیند تھرو کر دی۔ جب وہ پیچھے مڑے تو گیند ان کے سر کے پاس سے گزری۔‘

’پونٹنگ نے پلٹ کر کہا کہ اگر دوبارہ ایسا کروگے تو میں یہ بیٹ تمھاری گردن میں باندھ دوں گا۔‘

سپینسر مزید بتاتے ہیں کہ: ’میں نے پلٹ کر جواب دیا کہ اپنے خوف کو خود کو روکنے مت دو۔‘

سابق فاسٹ بولر کہتے ہیں کہ ان کی لڑائی ہونے والی تھی لیکن امپائرز اور دیگر کھلاڑی درمیان میں آ گئے۔ تاہم اسی رات دونوں ہی کھلاڑی ایک بار میں جمع ہوئے اور اپنے اختلافات دور کر لیے۔

سپینسر غصے کے تیز تھے اور اکثر ان کا غصہ مخالفین کے بجائے اپنے ہی ٹیم کے کھلاڑیوں پر ہی اُتر جاتا تھا۔

وہ ایک قصہ سناتے ہوئے کہتے ہیں کہ ’جسٹن لینگر مجھے چینجنگ روم میں جوش دلانے کی کوشش کر رہے تھے اور چہرہ تھپ تھپا رہے تھے۔‘

'مجھے جوش کی ضرورت نہیں تھی۔ میں پُرسکون تھا۔ جسٹن نے سوچا کہ وہ گراؤنڈ میں اُترنے سے قبل مجھے جوش دلائیں گے۔‘

’میں غصے میں آگیا کہ مجھے تنہا چھوڑ دو، الٹا میں نے مُکّا ہلکے سے ان کے سینے پر مارا، میں چاہتا تو انھیں سیدھا ہاتھ بھی مار سکتا تھا۔ جسٹس نیچے نہیں گِرے اور کہا ’اگر تمہاری جگہ کوئی اور ہوتا تو میں اس کے جسم میں سوراخ کر دیتا۔‘

Getty Imagesویسٹ انڈیز کے عظیم بلے باز ویون رچرڈز نے کہا تھا کہ سپینسر ان تیز ترین بولرز میں شامل تھے جن کا انھوں نے سامنا کیا

سنہ 1994 میں جب ڈنکن سپینسر کینٹ واپس آئے تو ان کے بارے میں یہ قیاس آرائیاں ہونے لگیں کہ وہ جلد انگلینڈ یا آسٹریلیا کے لیے کھیل سکتے ہیں۔ کوچ فوسٹر نے انھیں مشورہ دیا کہ میڈیا سے بات نہ کریں تاکہ کسی ملک کے لیے وفاداری ظاہر نہ ہو۔

لیکن اچانک سب کچھ بدل گیا۔ جون میں مڈل سیکس کے خلاف ایک ون ڈے میچ میں سپینسر زخمی ہو گئے۔ وہ یاد کرتے ہیں کہ ’میں مارک رام پرکاش کو گیند کر رہا تھا کہ زمین پر گِر پڑا۔ چلنا بھی مشکل ہو گیا تھا۔‘

آسٹریلیا واپسی پر سپینسر نے آہستہ آہستہ یہ حقیقت قبول کی کہ شاید ان کی پروفیشنل کرکٹ ختم ہو گئی ہے۔ ان کے لیے باغ میں گھاس کاٹنے جیسے معمولی کام کاج بھی مشکل ہو گئے تھے۔ معمولات زندگی کو برقرار رکھنے کے لیے انھوں نے سٹیرائیڈز کا سہارا لیا۔ درد کم ہوا اور کرکٹ کھیلنے کی خواہش پھر جاگ اُٹھی۔

وہ پرتھ کے کلب سرکٹ میں واپس آئے۔ ’اس وقت ویسٹرن آسٹریلیا کے کپتان ٹام موڈی نے سنا کہ میں کھیل رہا ہوں۔ انھوں نے کہا آپ دو جنوری کو ایک ون ڈے کھیل رہے ہو۔ میں ہنس پڑا، سوچا مذاق ہے۔‘

لیکن سپینسر نے یہ میچ کھیل لیا اور پورے ون ڈے سیزن میں شامل رہے۔ سات سال بعد وہ دوبارہ پروفیشنل کرکٹ کھیل رہے تھے اور 2001 سے 2001 کے ڈومیسٹک ون ڈے کپ کے فائنل تک ویسٹرن آسٹریلیا کے ساتھ رہے۔

فائنل میں ان کی ٹیم میں مائیک ہسی اور سائمن کیٹچ شامل تھے۔ مگر مائیکل کلارک، بریڈ ہیڈن اور مائیکل بیون جیسے کھلاڑیوں پر مشتمل نیو ساؤتھ ویلز نے مقابلہ جیت لیا۔

میچ کے بعد سپینسر کا ڈرگ ٹیسٹ ہوا۔ سٹیرائیڈز کے اثرات ابھی تک جسم میں موجود تھے اور ان پر 18 ماہ کی پابندی لگی۔

وہ آسٹریلیا میں اینٹی ڈوپنگ قوانین کے تحت سزا پانے والے پہلے کرکٹر بنے اور یہ خبر آسٹریلوی میڈیا میں شہ سرخی بنی۔ ’میں نے دوائی لینے کے چھ ماہ بعد پہلی بار گیند کی اور ایک سال بعد میچ کھیلا۔ مجھے نہیں معلوم تھا کہ یہ دوائی جسم میں اتنی دیر تک رہتی ہے۔ اگر پتا ہوتا تو کبھی نہ کھیلتا۔‘

سپینسر دوبارہ کھیل سے باہر ہو گئے مگر انھوں نے ہمت نہ ہاری۔ پانچ سال بعد فٹنس کوچ کے طور پر کام کرتے ہوئے وہ روی بوپارا کو نیٹس میں گیند کر رہے تھے۔ ’روی نے پوچھا آپ اب بھی کیوں نہیں کھیل رہے؟ اس کی بات نے مجھے سوچنے پر مجبور کیا۔‘

34 سال کی عمر میں سپینسر نے سسیکس کے لیے ٹرائل دیا اور دو فرسٹ کلاس میچ کھیلے جن میں ایک وکٹ کمار سنگاکارا کی تھی۔ مجموعی طور پر انھوں نے 16 فرسٹ کلاس میچوں میں 36 اور 20 لسٹ اے میچوں میں 23 وکٹیں حاصل کیں۔

آج سپینسر پرتھ میں رہتے ہیں اور شمالی آسٹریلیا کی کانوں میں کام کرتے ہیں۔ ٹام موڈی کا کہنا ہے کہ سپینسر بلاشبہ بین الاقوامی کرکٹ کھیل سکتے تھے۔ سپینسر کا کہنا ہے کہ وہ انگلینڈ یا آسٹریلیا کسی کے لیے بھی کھیلنے کو تیار تھے مگر ان کا انداز مکمل طور پر آسٹریلوی ہے۔

انھیں یاد نہیں کہ وہ کتنی رفتار سے بولنگ کرتے تھے لیکن ان کا اپنا اندازہ ہے کہ ایک بار ان کی رفتار 158 کلومیٹر فی گھنٹہ ریکارڈ ہوئی تھی۔ ’میں غلط دور میں پیدا ہوا۔ آج کے دور میں مینیجمنٹ اور ٹی ٹوئنٹی کے مواقع ہوتے تو شاید قسمت بدل جاتی۔‘

سپینسر نے نہ وکٹیں بٹوریں، نہ بین الاقوامی اعزازات اور نہ ہی کوئی بڑی کامیابیاں۔ مگر انھوں نے ایسے لمحات جیے جن کا اکثر لوگ خواب دیکھتے ہیں۔

وہ کہتے ہیں کہ ’جب ردھم نہیں ہوتا تھا تو میں کسی بھی شخص کی طرح بُرا ہوتا تھا۔‘

’مگر سب صحیح ہونے پر عمدہ احساس ہوتا تھا۔ یہ آسان ہوجاتا ہے۔ جب ردھم ہوتا ہے تو لگتا ہے جیسے آپ میڈیم پیس ڈال رہے ہیں۔‘

’تیز بولنگ لاجواب ہے۔‘

دنیا کا ’تیز ترین‘ پاکستانی بولر جو صرف پانچ ٹیسٹ میچ ہی کھیل پایامحمد آصف: وہ ’جادوگر‘ بولر جس کی انگلیوں نے عظیم ترین بلے باز نچا ڈالےاپنی تیز رفتاری سے بلے بازوں کو چکرا دینے والے میانک یادو: کیا انڈیا کو اپنی ’راولپنڈی ایکسپریس‘ مل گئی ہے؟احمد آباد کا تاریخی ٹیسٹ میچ: جب عمران خان نے انڈین شائقین کے پتھراؤ پر فیلڈرز کو ہیلمٹ پہنا دیےپاکستان کرکٹ کا وہ ’ہتھیار‘ جس کے یارکرز سے بچنے کے لیے سٹیل کیپس پہننے کا مشورہ دیا گیامیلکم مارشل: وہ فاسٹ بولر جو ’صرف دو گیندوں میں بلے باز کی کمزوری جان لیتے‘’الٹی پھینک کھڑی ہو جائے گی‘: سچن سمیت بہترین بلے بازوں کو چکرانے والی گیند کے موجد کی کہانی
مزید خبریں

Disclaimer: Urduwire.com is only the source of Urdu Meta News (type of Google News) and display news on “as it is” based from leading Urdu news web based sources. If you are a general user or webmaster, and want to know how it works? Read More