اس دردناک کہانی کی شروعات 17 برس قبل اسلام کے سیکٹر جی 10 کی ایک سڑک سے ہوئی تھی جب 10 برس کیکرن بارش کے دوران اپنے گھر سے آئس کریم کی تلاش میں نکلی تھیں۔
اس وقت کرن کو آئسکریم تو مل گئی مگر ان کا بچپن اور ان کا والدین ان سے کہیں بہت دور چلے گئے۔
کرن کا تعلق پنجاب کے ضلع قصور کے ایک چھوٹے سے گاؤں سے ہے۔ انھوں نے اپنی زندگی کی کئی بہاریں اپنے والدین، بہن بھائیوں اور رشتہ داروں سے دور کراچی کے ایدھی سینٹر میں گزاری ہیں۔
کئی مرتبہ کرن کے والدین اور بہن بھائیوں کو تلاش کرنے کی کوشش کی گئی مگر کامیابی نہ مل سکی۔ کرن کی واپسی کی امید تو جیسے خود ان کے والدین اور بہن بھائی بھی کھو بیٹھے تھے۔
مگر یہ مایوسی اس وقت خوشی میں بدل گئی جب 17 برس بعد پنجاب پولیس کے سیف سٹی پروجیکٹ کے تحت کام کرنے والے افراد کو کرن کا سراغ ملا۔
کرن اپنے والدین تک کیسے پہنچیں؟
کرن کے والد عبدالمجید اور دیگر اہل خانہ نے اس حوالے سے کوئی بات نہیں کی البتہ ان کے خاندان سے منسلک ایک بزرگ اسد منیر جو رشتے میں کرن کے تایا ہیں نے اس متعلق تفصیلات بتائی ہیں۔
اسد منیر ضلع قصور کے گاؤں باگری کے رہائشی ہیں۔ وہ بتاتے ہیں کہ 17 سال پہلے جب کرن کی عمر صرف دس برس تھی ’اس وقت وہمیری بہن جو کہ ان کی پھوپھو ہیں کہ گھر اسلام آباد کے علاقے جی 10 میں مقیم تھیں۔ گھر ہی کے سامنے جی ٹین کا مرکز واقع ہے، جہاں پر وہ آئس کریم لینے گئی تھی۔ یہ 2008 کی بات ہے اور اس وقت بارش اپنے زوروں پر تھی۔‘
اسد منیر کا کہنا تھا کہ جب کافی دیر تک کرن واپس گھر نہیں پہنچیں تو ان کو تلاش کیا گیا مگر وہ نہ ملیں۔
’اس وقت ان کو ہر جگہ اور ہر مقام پر تلاش کیا گیا مگر کرن کی کوئی خبر نہ مل سکی۔‘
پاکستانی جیلوں کے بے گناہ قیدی: ’میری زندگی کے 20 سال ضائع ہو گئے جو دوبارہ نہیں مل سکتے‘لڑکی کے بال زبردستی کاٹنے کی وائرل ویڈیو: ’مجھے دھمکی دی کہ دوبارہ نظر آئی تو پستول سے ماریں گے‘پاکستان میں ورک ویزا پر بیرون ملک جانے والے کچھ مسافروں کو ’آف لوڈ‘ کیوں کیا گیا؟ایک اور فضائی میزبان ٹورونٹو میں ’غائب‘: پی آئی اے کا عملہ کینیڈا پہنچ کر ہی کیوں ’غائب‘ ہوتا ہے؟
کرن کا کہنا ہے کہ وہ گھر سے آئس کریم لینے کے لیے نکلی تھیں۔ بارش میں وہ راستہ بھول گئیں۔
ان کے مطابق وہ کافی دیر تک سڑکوں پر گھوم پھر کر اپنا گھر تلاش کرتی رہیں مگر ’مجھے جب گھر نہ ملا تو کسی نے مجھے ایدھی سینٹر اسلام آباد پہنچا دیا۔‘
انھوں نے کہا کہ ’پہلے مجھے ایدھی سینٹر اسلام آباد میں رکھا گیا مگر کچھ عرصے کے بعد بلقیس ایدھی مجھے ایدھی سینٹر کراچی لے گئیں اور میں سترہ سال تک وہیں رہی۔‘
ایدھی سینٹر کراچی کی شبانہ فیصل کا کہنا تھا کہ سترہ سال پہلے کرن اسلام آباد کے ایدھی سینٹر میں موجود تھیں۔ ان کو کوئی شخص ایدھی سینٹر چھوڑ گیا تھا، غالباً یہ راستہ بھول گئیں تھیں۔
’کچھ عرصہ تک یہ ایدھی سینٹر اسلام آباد میں رہیں۔ اس دوران بلقیس ایدھی نے اسلام آباد ایدھی سینٹر کا دورہ کیا جہاں پر انھوں نے دیکھا کہ کرن کی طبعیت بہتر نہیں رہتی تو وہ ان کو ایدھی سینٹر کراچی لے گئیں۔‘
شبانہ فیصل کا مزید کہنا ہے کہ ’کچھ عرصہ قبل پنجاب پولیس کے سیف سٹی پروجیکٹ سے منسلک ’اپنا پیارا‘ کی ایک ٹیم نے ایدھی سینٹر کراچی کا دورہ کیا، جس نے کرن کا انٹرویو کیا اور اس کے رشتہ داروں کی تلاش کا بیڑا اٹھایا۔‘
کرن کا انٹرویو تلاش کی بنیاد ثابت ہوا
سدرہ اکرام لاہور میں پروگرام ’میرا پیارا‘ میں سینیئر پولیس کمیونیکشن آفیسر ہیں۔ وہ بتاتی ہیں کہ ’میرا پیارا‘ کا منصوبہ پنجاب پولیس سیف سٹی کے تحت شروع کیا گیا ہے، جس کا مقصد بچھڑے ہوئے بچوں کو اپنے رشتہ داروں سے ملانا ہے۔‘
’اس منصوبے کو شروع ہوئے ایک سال سے زائد عرصہ ہوا ہے اور انھوں نے دعویٰ کیا ہے کہ اب تک 51 ہزار بچوں کو ان کے والدین تک پہنچا چکے ہیں۔‘
سدرہ اکرام کا کہنا تھا کہ ’اس مقصد کے لیے ڈیجیٹل ذرائع کے علاوہ پولیس ذرائع کو بھی استعمال کیا جاتا ہے اور ہماری ٹیمیں مختلف اداروں، جہاں پر لاوارث بچوں کو رکھا جاتا ہے میںبچوں کا انٹرویو کرتی ہیں اور پھر اس انٹرویو اور حاصل ہونے والی معلومات کی بنیاد پر بچے کے رشتہ داروں کو تلاش کیا جاتا ہے۔‘
ان کا کہنا تھا کہ کرن کے معاملے میں بھی ایسا ہی ہوا کہ ’ہماری ایک ٹیم نے ایدھی سینٹر کراچی کا دورہ کیا۔ جس میں دیگر لاوارث لوگوں کے علاوہ کرن کا انڑویو اور معلومات بھی لی گئیں۔‘
’کرن کو زیادہ کچھ یاد نہیں تھا۔ بنیادی طور پر یہ ضلع قصور کے علاقے کی رہائشی تھیں۔ اسلام آباد میں یہ اپنے رشتہ داروں کے ہاں مقیم تھیں‘
سدرہ اکرام کا کہنا تھا کہ کرن کو اپنے والد کا نام عبدالمجید اور اپنے گاؤں کا نام بھی یاد تھا۔
’یہ معلومات ہم نے اپنے قصور دفتر میں پہنچائیں اور ان سے گزارش کی گئی کہ کرن کے رشتہ داروں کی تلاش میں مدد کی جائے۔‘
مبشر فیاض پولیس کمیونیکشن آفیسر قصور بتاتے ہیں کہ جب کرن کی معلومات ان تک پہنچی تو اس میں گاؤں کا نام اور والد کا نام موجود تھا جو ان کے لیے مددگار ثابت ہوا تھا۔
’ایک ہی دن میں والدین کو تلاش کرنے میں کامیاب ہوئے‘
مبشر فیاض کہتے ہیں کہ سب سے پہلے ’ہم نے علاقے کے نمبردار اور علاقے کے پرانے لوگوں سے رابطہ قائم کیا۔ ان سے عبدالمجید کا پتا کیا تو پتا چلا کہ کئی عدالمجید موجود ہیں۔ ہم نے کچھ لوگوں کو کرن کی بچپن کی تصاویر دکھائیں مگر وہ شناخت نہیں کر پا رہے تھے۔‘
ان کا کہنا تھا کہ اب اتنے زیادہ عبدالمجید نام کے لوگوں سے رابطہ کرنا ممکن نہیں تھا۔
کچھ معاملات کے اندر پرانے پولیس اہلکار اور پولیس چوکیوں اور تھانے کے اہلکار بھی بڑے مددگار ثابت ہوتے ہیں۔
ان کے مطابق ’اس معاملے میں بھی ہم نے علاقے کی چوکی کے پرانے اہلکاروں سے رابطہ قائم کیا تو انھوں نے بتایا کہ کچھ سال قبل کرن نام کی بچی لاپتہ ہوئی تھی اور ان کو بہت تلاش کیا گیا تھا۔‘
مبشر فیاض کہتے ہیں کہ اس اہلکار نے ’ہمیں بتایا کہ اس متعلق اطلاعی رپورٹ بھی درج کی گئی تھی‘۔
’یوں اس اہلکار سے ہمیں اپنے مطلوبہ علاقے تک پہچنے میں مدد ملی، جہاں پر ہم نے مساجد میں اعلانات کروائے اور وہاں کے پرانے لوگوں سے ملے۔ وہاں سے ہمیں پتا چلا کہ ایک عبدالمجید کے خاندان کی بچی سترہ سال پہلے لاپتہ ہوئی تھی۔‘
ان کا کہنا تھا کہ سارے دن کی محنت رنگ لارہی تھی اور ہم عبدالمجید کے قریب پہنچ چکے تھے۔ جب ان کے علاقے میں پہچنے تو وہاں کے کافی لوگوں کو یہ واقعہ یاد تھا جنھوں نے ہمیں عبدالمجید کے گھر پہنچا دیا تھا۔
’والد کے آنسو خشک نہیں ہو رہے تھے‘
مبشر فیاض کہتے ہیں کہ انھوں نے عبدالمجید کو ان کی بیٹی کی تصاویر دکھائیں، جس میں بچپن کی تصاویر بھی تھیں۔
’انھوں نے ہمیں خاندان کے ہمراہ لیے گروپ فوٹو دکھائے اور ساتھ میں فارم ب بھی دکھایا، جس میں کرن کی تفصیلات موجود تھیں۔‘
ان کا کہنا تھا کہ اس میں کوئی شک باقی نہیں تھا کہ عبدالمجید ہی کرن کے والد ہیں۔ جس کے بعد وڈیو کال ہوئی باپ، بیٹی اور خاندان نے کرن سے بات کی اور پھر یہ کراچی چلے گئے، جہاں پر تمام قانونی کارروائی کے بعد کرن کو ان کے والد کے حوالے کر دیا گیا ہے اور وہ گذشتہ روز ہی اپنے آبائی علاقے میں واپس پہنچی ہیں۔
کرن کے تایا اسد منیر اپنی بھتیجی کی گمشدگی کا ذکر کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ ’کرن عبدالمجید کی بڑی بیٹی تھیں۔ اب کرن سمیت ان کے پانچ بچے ہیں۔ مگر جب سے وہ لاپتہ ہوئی تھیں اس وقت سے اب تک میں نے ہمیشہ عبدالمجید کی آنکھوں میں آنسو ہی دیکھے ہیں۔‘
ان کے مطابق ’ہمیشہ وہ اپنی بیٹی کا ذکر کرتے تو یہ کہتے تھے کہ وہ زندہ بھی ہے کہ نہیں۔ ہمیشہ یہ بات کرتے تھے کہ ان کی بیٹی کس حال میں ہوگی۔‘
ان کا کہنا تھا کہ ’بیٹی کے لاپتہ ہونے کا دکھ ان کو وقت سے پہلے بوڑھا کر گیا۔ جب عبدالمجید نے اپنی بیٹی کی شناخت کی تو سب سے پہلے مجھے بتایا اور میں نے دیکھا کہ پہلے ان کی آنکھوں میں دکھ کے آنسو ہوتے تھے اور اب خوشی کے آنسو ہیں۔‘
کرن نے مقامی میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے بتایا کہ ’انھیں اپنے والد اور بہن بھائیوں سے مل کر بہت خوشی ہوئی ہے۔‘ انھوں نے بتایا کہ وہ ایدھی سینٹر سے کھانے پکانے کے گُر، سلائی کے طریقے اور تعلیم و تربیت حاصل کر کے گھر لوٹی ہیں۔
انھوں نے کہا کہ ’سب سے بڑھ کر یہ کہ مشکل وقت میں انھوں نے مجھے آگے بڑھنے کا حوصلہ اور ہمت دی۔‘
پاکستانی جیلوں کے بے گناہ قیدی: ’میری زندگی کے 20 سال ضائع ہو گئے جو دوبارہ نہیں مل سکتے‘100 روپے رشوت لینے کا ملزم 39 سال بعد باعزت بری، ’انصاف ملا مگر بیوی چلی گئی، سب کچھ کھو دیا‘سیریئل کِلر علی اصغر سے الہٰی حسینی نژاد کے قاتل تک:ایران میں سرِعام پھانسی کی سزا کیوں دی جاتی ہے؟’میں رحم نہیں کر سکتا، ہمارا کام صرف قتل کرنا ہے‘: سوڈان کا بدنام زمانہ مسلح گروہ، ایک ’بے رحم‘ کمانڈر اور قتل عام پر جشن کی لرزہ خیز ویڈیوزپولیو سے متاثرہ لڑکا جو پہلے دھوکے میں بھکاری اور پھر ایک ’معجزاتی ڈاکٹر‘ بنا’ایدھی بابا‘ اور لالو کھیت کا لاوارث بچہ