پاکستانی جیلوں کے بے گناہ قیدی: ’میری زندگی کے 20 سال ضائع ہو گئے جو دوبارہ نہیں مل سکتے‘

بی بی سی اردو  |  Nov 26, 2025

BBCسجاد (دائیں)، نائمہ (فرضی نام، درمیان) اور یاسین (بائیں)

یاسین کی عمر محض 22 برس تھی جب اُن کے خلاف قتل کے دو مقدمات درج ہوئے اور انھی الزامات کے تحت انھیں اپنی زندگی کے اگلے 20 برس جیل میں گزارنے پڑے۔

اپنی کہانی بی بی سی کو سُناتے ہوئے وہ یاد کرتے ہیں کہ مقدمات چلتے رہے اور بلآخر سپریم کورٹ نے انھیں سنہ 2015 میں تمام الزامات سے بری کر دیا۔ ’ہم کبڈی، والی بال کھیلتے تھے۔ پڑھ لکھ کر ڈاکٹر یا انجینیئر بننا چاہتے تھے۔‘

’میرے کلاس فیلو آج بھی اسسٹنٹ کمشنر، وکیل یا ڈاکٹر ہیں۔ لیکن اس بوسیدہ نظام نے میرا تو سارا کیریئر ہی ختم کر دیا۔ ایک تو عمر چلی گئی، دوسرا مستقبل تباہ ہو گیا۔‘

جھوٹے الزامات، گرفتاری، جیل کی سلاخوں کے پیچھے گزرا وقت اور پھر بےگناہ ثابت ہونے پر رہائی۔۔۔

یہ پڑھنے والوں کے لیے صرف کچھ الفاظ ہوں گے لیکن جس پر یہ مشکل بیتے ان کے لیے زندگی بھر سنبھلنا دوبھر ہو جاتا ہے۔ کسی کا خاندان اس سے قطع تعلق کر لیتا ہے، تو کوئی اپنے بچوں کو جیل کی کال کوٹھری کی بھیانک تنہائی کا احوال بتانے سے ڈرتا ہے۔

پاکستان میں آج کل جہاں 27ویں ترمیم کے بعد عدلیہ میں ہونے والی تبدیلیاں زیرِ بحث ہیں، وہیں ملک کی متعدد جیلوں میں قید بے گناہ قیدی بھی نظام میں کسی ایسی تبدیلی کی تلاش میں ہیں جو ان کی مشکل آسان کر سکے۔

پاکستان کے نیشنل کمیشن آف ہیومن رائٹس کی 2025 میں شائع کی گئی ایک رپورٹ کے مطابق پاکستان میں تقریباََ 128 جیلیں ہیں جن میں اندازاََ ایک لاکھ سے زیادہ افراد قید ہیں اور ان میں کئی ایسے بھی ہیں جو جھوٹے الزامات کے باعث کئی سال سے جیل کی صعوبتیں برداشت کر رہے ہیں۔

بی بی سی اُردو نے دو ایسے افراد سے بات کی ہے جنھوں نے عرصہ دراز جیل میں گزارا مگر پھر عدالتوں نے انھیں الزامات سے بری کر دیا اور ان کی رہائی کا حکم جاری کیا۔ ہم نے یہ جاننے کی کوشش کی ہے کہ اُن پر اتنے برسوں کے دوران کیا بیتی اور اب وہ کیسی زندگی گزار رہے ہیں۔

چار فٹ کے سیل میں 15 خواتین کے ساتھ رہنے کے بعد ’دل پتھر ہو گیا‘BBCنائمہ: ’اُس وقت میرے ذہن میں چل رہا تھا کہ اتنی ذلت سہنے سے بہتر تھا کہ میں اُن (بھائیوں) کو پراپرٹی ہی دے دیتی‘

جب بی بی سی نے ایسے افراد، خاص طور پر خواتین، سے رابطے کرنے کی کوشش کی تو پہلے تو کئی خواتین نے عدالتوں سے بری ہونے اور الزامات غلط ثابت ہونے کے باوجود بھی ہم سے بات کرنے سے گریز کیا۔

ایسی خواتین میں سے اکثر اب اپنے آبائی علاقوں اور خاندانوں سے بہت دور رہتی ہیں اور یہ نہیں چاہتیں کہ اُن کے کیس پر دوبارہ روشنی ڈالی جائے یا وہ میڈیا پر زیر بحث آئے۔

کافی جدوجہد کے بعد اٹک سے تعلق رکھنے والی ایک خاتون نے ہم سے نام ظاہر نہ کرنے اور شناخت تبدیل کرنے کی شرط پر بات کی۔

تقریباََ پانچ سال پہلے نائمہ (فرضی نام) کو پراپرٹی کے تنازع پر اپنے بھائیوں کی جانب سے درج کروائی گئی ایف آئی آر کا سامنا کرنا پڑا۔ کیس آگے بڑھا تو نائمہ کو جیل جانا پڑا۔

گرفتاری کے روز وہ اپنے گھر پر ہی تھیں۔ انھوں نے ثبوت بھی پیش کیے لیکن اس کے باوجود پہلے انھیں تھانے لے جایا گیا اور پھر جیل میں ڈال دیا گیا۔

وہ یاد کرتی ہیں کہ ’ہم نے کبھی ایسا دیکھا نہیں تھا۔ یہ جیل اور تھانے کچہری (کیسے ہوتے ہیں)، ہمیں اس بات کا اندازہ نہیں تھا۔ لیکن مجھے یہ تھا کہ اگر میں نے کچھ غلط نہیں کیا تو میرے ساتھ (جیل میں) کچھ بُرا نہیں ہو گا۔‘

’لیکن وہاں جا کر تو میں نے الگ ہی ماحول دیکھا۔‘

انھوں نے بی بی سی کو بتایا کہ ’نہ تو رہنے کے لیے کوئی جگہ اور سونے کے لیے کوئی چارپائی۔ کچھ بھی نہیں تھا۔ نہ واش روم میں صابن۔۔۔ یعنی وہاں کا ایک، ایک منٹ سزا کا ہے۔‘

’ایک چھوٹا سا کمرہ۔۔۔ جس میں 15 خواتین ہوتی ہیں۔ تقریباََ چار فٹ کا۔ آپ نہ صحیح سے بیٹھ سکتے ہیں، نہ لیٹ سکتے ہیں۔‘

’اس وقت میرے ذہن میں چل رہا تھا کہ اتنی ذلت سہنے سے بہتر تھا کہ میں اُن (بھائیوں) کو پراپرٹی ہی دے دیتی۔۔۔‘

بیگ سے منشیات برآمد ہونے کے الزام میں سعودی جیل میں قید پاکستانی خاندان کی بے گناہی کیسے ثابت ہوئیابن عبداللہ الپاکستانی، ایف بی آئی اور ’بم بنانے کا تجسس‘: نارووال کا طالب علم امریکی خفیہ ادارے کی اطلاع پر جیل کی سلاخوں کے پیچھے کیسے پہنچاانڈیا کی بدنام ’تہاڑ جیل‘ کے اُس قیدی کے اثر و رسوخ اور فرار کی کہانی جو ’سُپر آئی جی‘ کے نام سے معروف تھاایک کلاشنکوف، 389 قیدی اور ماؤ نواز باغی: ’ایشیا کی سب سے بڑی جیل بریک‘ کے شاطر ماسٹر مائنڈ

وہ کہتی ہیں کہ ’باہر آنے کے بعد بھی عزت اس طرح نہیں ہے۔ میں سٹیچنگ (سلائی) کا کام کرتی ہوں۔ لوگ پہلے آتے تھے، اپنے کپڑے وغیرہ سلواتے تھے۔ لیکن اب وہ کام بھی ختم ہو گیا ہے۔ زندگی بدل جاتی ہے۔ ہر کوئی آپ سے کتراتا ہے۔ لوگ سمجھتے ہیں کہ یہ جیل گئی ہے تو لوگ غلط نظر سے دیکھتے ہیں۔‘

’پہلے میری شخصیت ایسی تھی کہ میں روتے ہوؤں کو ہنسانے والوں میں سے تھی۔ لیکن اس کے بعد میری اپنی شخصیت ہی بدل گئی ہے۔‘

وہ کہتی ہیں کہ ’وہی لوگ جو مجھ سے اتنے قریب تھے، وہ اب اتنے دور ہو گئے ہیں۔ جیسے انسان کے اوپر ایک ٹیگ لگ جاتا ہے نا۔ وہ ٹیگ لگ گیا ہے۔‘

نائمہ اب اپنی شادی کے حوالے سے بھی فکرمند ہیں۔ ’شادی میں تو بہت زیادہ مشکلات آئیں گی۔ ظاہری بات ہے لوگ مستقبل بھی دیکھیں گے، ماضی بھی۔۔۔ کہ اگر ہم اس کے ساتھ مستقبل میں ساتھ ہوں گے تو یہ کہیں ہمیں نہ نقصان پہنچائے۔ کیونکہ لوگ کہتے ہیں نہ کہ جو ایک بار جیل سے ہو کر آئے، وہ کچھ بھی کر سکتا ہے۔‘

وہ کہتی ہیں کہ ’مجھے اس بات نے پُرامید رکھا تھا کہ میں بے گناہ ہوں۔۔۔ لیکن لوگ یہ بات نہیں سوچتے۔ رہائی کہ بعد مجھے لگا لوگ کہیں گے کہ اس پر غلط الزام لگایا گیا تھا۔ لیکن جب میں باہر آئی تو لوگوں نے طرح طرح کی باتیں کیں۔

’جیسے پولیس والے لڑکیوں کے ساتھ زیادتی کرتے ہیں اور جیل کا جیسا ماحول ہوتا ہے۔ یعنی لوگوں کے بہت گندے کمنٹس تھے۔ تو اب وہ کہتے ہیں نہ کہ دل پتھر ہو گیا ہے، تو وہ ہو گیا ہے۔‘

’جیل میں گزرے 20 سال ضائع ہو گئے، وہ دوبارہ نہیں مل سکتے‘BBCیاسین 22 برس کے تھے اور ایف اے کی تعلیم حاصل کر رہے تھے جب ان پر دوہرے قتل کا الزام لگا۔ جس کے بعد انھیں تقریباََ بیس سال جیل میں گزارنے پڑے

یہاں تھوڑی دیر کے لیے فرض کریں کہ آپ پر کوئی ایسا الزام لگایا جائے جس میں آپ ملوث نہ ہوں اور پھر اچانک گھر سے اپنے والدین یا بیوی بچوں کے سامنے آپ کو گرفتار کر لیا جائے۔

سالہا سال جیل میں گزارنے کے بعد جب آپ واپس آئیں تو گلی محلوں کا نقشہ ہی بالکل بدل چکا ہو اور جو بچے آپ چھوڑ کر گئے ہوں وہ اب جوان ہو گئے ہوں۔

بے گناہ ہونے کے باوجود جیل میں گزرے وقت کے باعث آپ پر ایک مخصوص ٹیگ لگ چکا ہو اور آپ اپنے ہی دوستوں اور رشتہ داروں سے کنارہ کشی کرنے پر مجبور ہو جائیں۔

لیکن بدقسمتی سے یہ کہانی فرضی نہیں بلکہ اوکاڑہ سے تعلق رکھنے والے یاسین کی ہے۔

یاسین 22 برس کے تھے اور ایف اے کی تعلیم حاصل کر رہے تھے جب ان پر دوہرے قتل کا الزام لگا۔ جس کے بعد انھیں تقریباََ بیس سال جیل میں گزارنے پڑے۔

قتل کے الزام اور جیل جانے کے ابتدائی دھچکے سے نمٹتے ہوئے یاسین نے بی بی سی کو بتایا کہ ’جیل جانے کے بعد سب سے پہلے اپنے بھی پرائے ہو جاتے ہیں۔‘

’سب سے پہلے بہن بھائی، ماں باپ، رشتہ دار، عزیز، دوست وغیرہ چھوٹ جاتے ہیں۔ ایسا سمجھ لیں کہ دنیا سے بندہ کٹ جاتا ہے۔‘

جیل میں اپنے وقت کو یاد کرتے ہوئے وہ کہتے ہیں کہ ’جیل میں تو کسی سے اپنے دل کی بات شیئر ہی نہیں کر سکتا۔ وہ کوئی اور لوگ ہوتے ہیں۔ وہ دوردراز علاقوں کے لوگ ہوتے ہیں۔ باہر کی زندگی تو جنت ہے۔‘

یاسین کے مطابق گرفتاری کے وقت انھیں نہیں پتا تھا کہ اُن پر قتل کا الزام لگایا جا رہا ہے۔ ’ایک پولیس افسر نے ہمارے بڑوں سے کہا کہ انھیں پیش کر دو ورنہ یہ اشتہاری ہو جائیں گے اور پھر ہم انھیں گولی مار دیں گے۔۔۔ ہم پیش ہو گئے۔‘

’اُس وقت تو ہم روتے تھے، بچے تھے۔ سمجھ ہی نہیں تھی کہ کیا کرنا ہے کیا نہیں کرنا۔ فلموں میں، ڈراموں میں ہوتا تھا کہ بندے کو پھٹے پر لٹکا دیتے ہیں جس نے قتل کیا ہو۔۔۔‘

’لیکن جو زندگی کے 15، 20 سال ضائع ہو گئے، وہ دوبارہ نہیں مل سکتے۔‘

اپنے جیل کے وقت کو یاد کرتے ہوئے یاسین کہتے ہیں کہ ’دعا کریں کہ اللہ کبھی کسی کو جیل میں نہ لے کر جائے ۔۔۔‘

وہ کہتے ہیں کہ ’باقی گھر والے آتے ہیں ملاقاتیں کرتے ہیں اور دلاسے دے جاتے ہیں کہ وکیل کے پاس گئے تھے۔‘

'کبھی آپ کے وکیل نے فلاں تاریخ دے دی ہے یا فلاں وقت دے دیا ہے۔۔۔ آج عدالت نہیں بیٹھی تھی۔۔۔ آج وکیلوں کی ہڑتال تھی۔۔۔ انھی چکروں میں بندہ پندرہ، بیس سال جیل میں کاٹ کر آ جاتا ہے۔‘

Getty Imagesیاسین: ’جیل کے فسانوں کو یاد کریں تو حقیقت میں ابھی بھی رونا آ رہا ہے‘

وہ بی بی سی سے اوکاڑہ میں اپنے گھر میں بیٹھے بات کر رہے تھے۔

انھوں نے اپنے اردگرد کھیتوں کی جانب دیکھتے ہوئے کہا کہ ’ادھر تو ہم آزاد ہیں۔ چڑیوں کا چہکنا ہے، فصلوں کی اتنی خوبصورت ہریالی ہے۔ اُدھر سوائے آسمان کے کسی چیز پر نظر ہی نہیں جاتی۔ اتنی اونچی اونچی دیواریں ہوتی ہیں۔‘

’جہاں میں رہتا تھا وہاں ایک بیرک میں80 سے 85 لوگ رہتے تھے۔ اُدھر بیت الخلا جانے کے لیے 80, 80 بندوں کی لائینیں لگی ہوتی تھیں۔‘

انھوں نے کہا کہ ’میرے خاندان کے پانچ، سات لوگ اس عرصے میں اللہ کو پیارے ہو گئے، ہم ان کا چہرہ نہیں دیکھ سکے۔ کوئی شادی، کوئی عید، بکرا عید نہیں دیکھ سکے۔‘

’اُدھر صبح سے شام تک مشقت کرواتے ہیں۔ جو بیمار ہو جائے اور کہے میں نہیں کر سکتا اسے ڈنڈے مارتے ہیں۔‘

یاسین کہتے ہیں کہ ’پُرامید رکھا تھا اس چیز نے کہ ہم بے گناہ ہیں۔ اللہ ہم پر رحم کرے گا۔ جیل کے فسانوں کو یاد کریں تو حقیقت میں ابھی بھی رونا آ رہا ہے، کہ کیا ہی وہ وقت تھا، بہت ہی سخت وقت تھا اللہ ہم پر رحم کرے۔‘

یاسین کی مشکلات جیل سے نکلنے کے بعد بھی حل نہ ہوئیں۔ وہ کہتے ہیں کہ ’تقریباََ پانچ سال بعد میری شادی ہوئی، لوگ کہتے ہیں اس کو چھوڑ دو۔ یہ تو جیل میں رہا ہے اس کو رشتہ ہی نہیں دینا۔۔۔ یہ تو بڑے گندے بندے ہیں۔۔۔ جیل کا ماتھے پر جو ایک ٹیکا لگا ہوتا ہے وہ بہت بُرا ہوتا ہے۔‘

وہ کہتے ہیں کہ 'اب تو یہی ہے کہ بچے چھوٹے ہیں، کاروبار نہیں ہے۔ سسٹم نہیں ہے۔ دس، پندرہ، بیس سال گزر گئے ہیں۔ اس نے سب برباد کر دیا ہے، اب محنت مزدوری کرتے ہیں۔ کوشش ہے کہ بچوں کو اچھے سکولوں میں پڑھا سکیں۔‘

انھوں نے معاشرے کے رویے کے بارے میں بات کرتے ہوئے کہا کہ ’ایک بندے کا گناہ ہی نہیں ہوتا ہے۔ وہ جب چلا جاتا ہے اس کو دوبارہ ماننے کو تیار ہی نہیں ہوتے۔‘

’اگر اس کو دوبارہ مان لیں کہ یہ اپنا ہی ہے۔ اس نے غلطی کی ہی نہیں ہے۔ اس کو سینے سے لگا لیں۔ اس کو عزت دیں۔ تو اس بندے کو پچھلی تو بھول جائے گی، اس کا مستقبل بھی جلدی سدھر جاتا ہے۔‘

’وقت کے ساتھ وہ بھی بدل گئے، ہم بھی بدل گئے ہیں‘BBCاوکاڑہ سے تعلق رکھنے والے سجاد کو دس سال تک ایک ایسے جرم کی سزا کاٹنی پڑی جس کے ارتکاب کے وقت وہ ملک میں موجود ہی نہیں تھے

اوکاڑہ سے تعلق رکھنے والے سجاد کو دس سال تک ایک ایسے جرم کی سزا کاٹنی پڑی جس کے ارتکاب کے وقت وہ ملک میں موجود ہی نہیں تھے۔

سجاد بین الاقوامی سطح پر پروفیشنل ریسلنگ کرتے تھے اور ایک ایسی ہی ٹوور پر سوئٹزرلینڈ میں موجود تھے۔

وہ کہتے ہیں کہ 'جب میں واپس آیا تو پتا چلا کہ گاؤں میں لڑائی ہوئی تھی جس کے باعث ایک بندہ قتل ہو گیا تھا۔

'جب ایف آئی آر کی گئی تو اس میں مجھے بھی نامزد کر دیا گیا۔‘

’مجھے پولیس پکڑ کر لے گئی۔ سب سے مشکل دن میرے لیے وہ تھا جب میں جیل میں جا رہا تھا اور میری ماں مجھے دیکھ کر رو رہی تھی۔۔۔'

وہ کہتے ہیں کہ ’مجھے بڑا غصہ آتا تھا۔ اُدھر میں لوگوں سے لڑ پڑتا تھا۔ جیل میں تو رہنا تھا ادھر تو نکلنے والا کوئی سسٹم ہی نہیں تھا۔‘

'پھر میں تھوڑا سا بدل گیا نماز پڑھنے لگا۔ جس طرح بندہ سر پر ٹوپی لے لیتا ہے، ہاتھ میں تسبیح لے لیتا ہے، اصل میں تو دل کو بدلنے کی بات ہوتی ہے۔‘

’ادھر جیل میں جا کر مجھے یہ محسوس ہوا کہ اللہ کی مدد کے بغیر مجھے کوئی یہاں سے نکال نہیں سکتا۔‘

جب سجاد عدالت سے بری ہوئے تو باہر آ کر انھیں ایک مختلف دنیا ملی۔ وہ کہتے ہیں کہ 'ایسے لوگ بھی تھے جب میں باہر تھا تو میرے ساتھ چپکے رہتے تھے اور جب میں آیا ہوں تو بس وہ اپنے راہ میں ہیں۔‘

’وقت کے ساتھ وہ بھی بدل گئے ہیں ہم بھی بدل گئے ہیں۔ ساری دنیا بدل جاتی ہے۔‘

وہ کہتے ہیں کہ ’اگر آدمی خود اپنے پاؤں پر کھڑا ہو تو سب ٹھیک ہو جاتا ہے۔ بہہ جائے تو بس تنکے کی طرح۔۔۔‘

BBCسجاد پروفیشنل ریسلر تھے اور مختلف مقابلوں کا حصہ رہ چکے تھےپاکستانی قانون اور ’مکڑی کا جالا‘

پاکستان میں بے گناہ افراد کی برسوں تک قید اور پھر بری ہونے کے حوالے سے ہم نے قانونی ماہر رفیق شیخ سے بات کی اور اس کی وجوہات جاننے کی کوشش کی۔

اُن کا کہنا تھا کہ ’پاکستان کا قانون مکڑی کے جالے کی طرح ہے۔ کوئی بڑا جانور آئے گا تو اسے پھاڑ کر چلا جائے گا، جو چھوٹی چھوٹی مکھیاں، مچھر ہیں وہ جالے میں پھنس جاتے ہیں۔‘

وکیل رفیق شیخ کے مطابق عموماً معاملہ ایک جھوٹی ایف آئی آر سے شروع ہوتا ہے جس کے باعث لوگوں کو کئی کئی برس جیل میں گزارنے پڑتے ہیں۔

انھوں نے کہا کہ ’جب ایف آئی آر ہمارے پاس آتی ہے تو بعض اوقات اس میں بہت نقائص ہوتے ہیں۔ اگر ایف آئی آر پولیس خود ذمہ داری سے فائل کرے تو کیس کا تمام طریقہ کار موثر ہو گا اور ایف آئی آر رجسٹر کرنے کے لیے اگر ایک وکیل کو اپوائنٹ کیا جائے تو اس کے تمام تقاضے مکمل ہوں گے۔‘

انھوں نے یہ تجویز بھی دی کہ جھوٹی ایف آئی آر کی صورت میں کارروائی بھی کی جائے اور اگر اس میں پولیس ملوث ہے تو اس کے خلاف بھی کارروائی کی جانی چاہیے۔

وہ کہتے ہیں کہ ’شروع سے ہی اگر انویسٹیگیشن انصاف کے اوپر ہوئی ہو تو پھر پراسیکیوشن کو عدالت میں بھی کیس ثابت کرنا آسان ہوتا ہے۔ اگر شواہد صحیح طریقے سے اکٹھے کیے گئے ہوں تو جب کورٹ میں پیش کیا جائے گا تو کورٹ اسے مانے گی بھی۔‘

وہ کہتے ہیں کہ پاکستان میں کمپینسیشن لا موجود ہے، لیکن لوگ اس خوف میں کہ پولیس ایک اور ایف آئی آر نہ کر دے، اس کا استعمال ہی نہیں کرتے۔۔۔ وہ تو اللہ کا شکر ادا کرتے ہیں کہ ہماری جان چھوٹی ہم بری ہو گئے۔ وہ سوچتے ہیں کہ بس اب اس معاملے کو ختم کرو۔'

انھوں نے کہا کہ اس میں پولیس کے علاوہ نہ صرف جج، بلکہ وکیلوں اور پراسیکیوشن کو بھی کردار ادا کرنا ہو گا کیونکہ اس کے بغیر یہ معاملہ حل نہیں ہو گا۔'

انڈیا کی بدنام ’تہاڑ جیل‘ کے اُس قیدی کے اثر و رسوخ اور فرار کی کہانی جو ’سُپر آئی جی‘ کے نام سے معروف تھاایک کلاشنکوف، 389 قیدی اور ماؤ نواز باغی: ’ایشیا کی سب سے بڑی جیل بریک‘ کے شاطر ماسٹر مائنڈحکومتی دستاویزات کے مطابق اڈیالہ جیل میں سابق وزیر اعظم عمران خان کی زندگی کیسی ہے؟ابن عبداللہ الپاکستانی، ایف بی آئی اور ’بم بنانے کا تجسس‘: نارووال کا طالب علم امریکی خفیہ ادارے کی اطلاع پر جیل کی سلاخوں کے پیچھے کیسے پہنچابیگ سے منشیات برآمد ہونے کے الزام میں سعودی جیل میں قید پاکستانی خاندان کی بے گناہی کیسے ثابت ہوئی
مزید خبریں

تازہ ترین خبریں

Disclaimer: Urduwire.com is only the source of Urdu Meta News (type of Google News) and display news on “as it is” based from leading Urdu news web based sources. If you are a general user or webmaster, and want to know how it works? Read More