Getty Images(فائل فوٹو)
پاکستان میں گذشتہ روز ایک ویڈیو وائرل ہوئی، جس میں دیکھا جا سکتا ہے کہ ایک مرد اپنے دائیں ہاتھ میں قینچی پکڑ کر بے دردی کے ساتھ ایک لڑکی کے بال کاٹ رہا ہے اور قریب موجود کوئی بھی شخص انھیں نہیں روک رہا۔
یہ ویڈیو منظر عام پر آنے کے بعد متعدد صارفین نے پولیس سے مطالبہ کیا کہ اس واقعے میں ملوث افراد کے خلاف کارروائی کی جائے۔
اب منگل کو صوبہ پنجاب کے شہر راولپنڈی کی پولیس کا کہنا ہے کہ واقعے میں ملوث ملزمان کو بدھ کے روز عدالت پیش کیا جائے گا۔
پولیس حکام کے مطابق ویڈیو وائرل ہونے کے بعد وفاقی دارالحکومت اسلام آباد کی پولیس نے ملزمان کو حراست میں لیا جبکہ واقعے کا مقدمہ راولپنڈی کے تھانہ نصیر آباد میں درج کیا گیا۔
زبردستی بال کاٹنے اور ویڈیو وائرل کرنے کا الزام
اس مقدمے کے تفتیشی افسر راولپنڈی پولیس کے ذوالفقار حیدر کا کہنا تھا کہ اس معاملے کی تفتیش تمام پہلوؤں کو سامنے رکھتے ہوئے کی جا رہی ہے۔
انھوں نے کہا کہ اس واقعے کے محرکات کا بھی جائزہ لیا جائے گا۔ تفتیشی افسر نے اس مقدمے میں ہونے والی ابتدائی تفتیش کے بارے میں کچھ بتانے سے گریز کیا۔
ادھر اسلام آباد پولیس کے ترجمان ڈاکٹر تقی جواد نے بی بی سی کو بتایا کہ سوشل میڈیا پر جب لڑکی کے بال کاٹنے کی ویڈیو وائرل ہوئی تو تھانہ لوئی بھیر کے پولیس اہلکاروں کو تحقیقات کا حکم دیا گیا۔
ترجمان کا کہنا تھا کہ پولیس نے ان کے علاقے میں قائم سیلون کا دورہ کیا اور ان سے متاثرہ لڑکی کے بارے میں معلومات حاصل کیں۔ انھوں نے کہا کہ ایک نجی ہاؤسنگ سوسائٹی میں واقع ایک سیلون سے اس متاثرہ لڑکی کا فون نمبر اور ایڈریس معلوم کرنے کے بعد متاثرہ لڑکی سے رابطہ کیا گیا۔
اسلام آباد پولیس کے ترجمان کا کہنا تھا کہ متاثرہ لڑکی راولپنڈی کے علاقے ڈھوک کھبہ کی رہائشی تھی اور ان سے ملاقات کر کے ان کے بیان کی روشنی میں تین افراد کو پیر اور منگل کی درمیانی شب حراست میں لیا گیا۔
انھوں نے کہا کہ حراست میں لیے جانے والے ملزمان سے تفتیش اس لیے شروع نہیں کی جا سکی کیونکہ لڑکی نے پولیس کو دیے اپنے بیان میں بتایا تھا کہ یہ واقعہ راولپنڈی کے علاقے مصریال روڈ پر واقع کرسچن کالونی کا ہے۔
ترجمان کا کہنا تھا کہ اس پیشرفت کے بعد راولپنڈی پولیس کو اس بارے میں آگاہ کیا گیا جس کے بعد راولپنڈی کے تھانہ نصیر آباد میں تعینات پولیس اہلکار آئے اور تھانہ لوئی بھیر پولیس نے تین ملزمان کو ان کے حوالے کر دیا۔
اسلام آباد پولیس کے ایک اہلکار نے نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر بی بی سی کو بتایا جب پولیس اہلکار سیلون پر گئے تو وہاں پر کام کرنے والے افراد نے پولیس اہلکاروں کو آگاہ کیا کہ اس واقعے میں ملوث ملزمان کے جڑواں شہروں میں اور بھی سیلون ہیں اور ان کی چند افراد کے ساتھ کاروباری رقابت بھی تھی۔
ثانیہ زہرہ قتل کیس: عدالت نے شوہر علی رضا کو سزائے موت سنا دی، دیور اور ساس کو بھی عمر قید کی سزاپاکستان آ کر ’اسلام قبول اور شادی‘ کرنے والی انڈین خاتون کو ہراساں نہ کیا جائے، لاہور ہائیکورٹ کا پولیس کو حکمسمندری میں پولیس مقابلے میں ہلاک ہونے والے محمد آصف کا ٹی ایل پی اور فوج سے کیا تعلق تھا؟ایک اور فضائی میزبان ٹورونٹو میں ’غائب‘: پی آئی اے کا عملہ کینیڈا پہنچ کر ہی کیوں ’غائب‘ ہوتا ہے؟
انھوں نے کہا کہ سیلون میں کام کرنے والے افراد نے پولیس اہلکاروں کو بتایا کہ متاثرہ لڑکی کی ان افراد کے ساتھ شناسائی تھی جن کی ملزمان کے ساتھ کاروباری رقابت ہے۔
پولیس اہلکار کا کہنا تھا کہ تھانہ لوئی بھیر کے حکام نے جب ملزمان کو راولپنڈی پولیس کے حوالے کیا تو انھیں مختلف سیلون میں کام کرنے والے ملازمین سے ملنے والی معلومات کے بارے میں بھی آگاہ کیا گیا۔
پولیس اہلکار کا کہنا تھا کہ تھانہ لوئی بھیر کے علاقے میں واقع مختلف سیلونز کے دورے کے دوران وہاں کے ملازمین نے پولیس اہلکاروں کو بتایا کہ متاثرہ لڑکی سوشل میڈیا پر بھی کافی متحرک ہے۔
اسلام آباد پولیس کے ترجمان کا کہنا تھا کہ جب تین ملزمان کو حراست میں لیا گیا تو اس کا مقدمہ درج نہیں کیا گیا بلکہ گرفتاری کا اندارج روزنامچے میں کیا گیا تھا جبکہ راولپنڈی کے تھانہ نصیر آباد میں اس واقعے کا مقدمہ درج کیا گیا۔
ایف آئی آر میں کیا کہا گیا؟
راولپنڈی کے تھانہ نصیر آباد میں پولیس کی مدعیت میں درج مقدمے میں کہا گیا ہے کہ ’سوشل میڈیا پر وائرل ہونے والی ویڈیو میں چند افراد زبردستی ایک لڑکی کے بال کاٹ رہے ہیں۔‘
اس مقدمے میں چار افراد کو نامزد کیا گیا جبکہ چند نامعلوم افراد کا بھی اس مقدمے میں ذکر ہے۔
لڑکی کے بال کاٹنے کی ویڈیو سوشل میڈیا پر وائرل ہوئی تو اس بارے میں پہلے اسلام آباد پولیس اور پھر راولپنڈی پولیس کے اعلی حکام نے بھی نوٹس لیا تھا۔
سٹی پولیس افسر راولپنڈی خالد ہمدانی کا کہنا ہے کہ خواتین پر تشدد، جبر و استحصال جیسے جرائم قطعی برداشت نہیں۔
انھوں نے کہا کہ واقعے میں ملوث تمام ملزمان کو گرفتار کر کے سزا دلوائی جائے گی۔
متاثرہ لڑکی کا سوشل میڈیا پر بیان
متاثرہ لڑکی نےاپنا ویڈیو بیان جاری کیا ہے جس میں انھوں نے کہا کہ یہ وقوعہ ڈیڑھ ماہ پہلے کا ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ ایک لڑکا اور ایک لڑکی ان کے گھر آئے تھے اور انھیں زبردستی اپنے ساتھ ایک فلیٹ پر لے گئے تھے۔ ان کا الزام ہے کہ ان پر تشدد کیا گیا تھا اور زبردستی ان کے سر کے بال کاٹے گئے تھے جس کی ویڈیو بھی بنائی گئی۔
متاثرہ لڑکی نے اپنے بیان میں مزید بتایا کہ اس کے بعد ملزمان انھیں ایک نجی ہاؤسنگ سوسائٹی میں لے گئے تھے جہاں پر ایک ’فلیٹ یا سیلون‘ میں متاثرہ لڑکی کے بقول ان ملزمان نے انھیں ’ڈرایا دھمکایا اور ویڈیو بھی بنائی۔‘
ان کا دعویٰ ہے کہ ملزمان نے انھیں سنگین نتائج کی دھمکیاں دیں اور پھر بعد ازاں انھیں لوگوں سے معلوم ہوا کہ ان کی ویڈیو بھی سوشل میڈیا پر وائرل کی گئی ہے۔
انھوں نے مزید کہا کہ انھیں دھمکی دی گئی تھی کہ ’اگر دوبارہ نظر آؤ گی تو پستول سے ماریں گے۔‘
پاکستان میں ورک ویزا پر بیرون ملک جانے والے کچھ مسافروں کو ’آف لوڈ‘ کیوں کیا گیا؟ایک اور فضائی میزبان ٹورونٹو میں ’غائب‘: پی آئی اے کا عملہ کینیڈا پہنچ کر ہی کیوں ’غائب‘ ہوتا ہے؟سمندری میں پولیس مقابلے میں ہلاک ہونے والے محمد آصف کا ٹی ایل پی اور فوج سے کیا تعلق تھا؟ثانیہ زہرہ قتل کیس: عدالت نے شوہر علی رضا کو سزائے موت سنا دی، دیور اور ساس کو بھی عمر قید کی سزاوفاقی وزیر اطلاعات کا کینیڈا میں صحافی شاہزیب خانزادہ کی ویڈیو بنانے والے شخص کی شناخت کا دعویٰ اور قانونی کارروائی کا عندیہ پاکستان آ کر ’اسلام قبول اور شادی‘ کرنے والی انڈین خاتون کو ہراساں نہ کیا جائے، لاہور ہائیکورٹ کا پولیس کو حکم