جلا وطن اتحادی اور کشیدہ تعلقات: شیخ حسینہ کی سزا کے بعد انڈیا کا بنگلہ دیش کے ساتھ تعلق کیسا ہو گا؟

بی بی سی اردو  |  Nov 20, 2025

LightRocket via Getty Images

انڈیا نے جب سے بنگلہ دیش کی سابق وزیراعظم شیخ حسینہ کو گلے لگایا ہے، اُسے کچھ دوستیاں سٹریٹجک لحاظ سے بہت قابل قدر لیکن سیاسی لحاظ سے کافی مہنگی پڑ رہی ہیں۔

اپنے پندرہ سال کے دور اقتدار میں شیخ حسینہ نے نئی دہلی کو سب سے زیادہ جن چیزوں سے نوازا، وہ استحکام، رابطہ اور ایسا پڑوسی ملک ہونا ہے جو اپنے مفادات کو چین کے بجائے انڈیا سے ہم آہنگ رکھتا تھا۔

ان دنوں وہ سرحد کے اس طرف یعنی انڈیا میں ہیں لیکن بنگلہ دیش کی خصوصی عدالت نے طلبا تحریک کے دوران انسانیت کے خلاف مظالم کرنے پر شیخ حسینہ کو سزائے موت سنائی ہے۔

بنگلہ دیش میں 2024 میں ہونے والے مظاہروں نے شیخ حسینہ کو ملک چھوڑنے پر مجبور کیا اور نوبل انعام یافتہ محمد یونس کے لیے عبوری حکومت کی قیادت کرنے کی راہ ہموار کی۔

بنگلہ دیش میں انتخابات اگلے سال کے اوائل میں ہوں گے۔

ان سب حالات و واقعات نے ایک سفارتی مسئلہ پیدا کر دیا۔ ڈھاکہ چاہتا ہے کہ شیخ حسینہ کو اس کے حوالے کیا جائے لیکن دہلی نے بظاہر اس درخواست کو نہ مان کر موثر انداز میں سزائے موت کے حکم پر عملدرآمد روک دیا۔

نئی دہلی جو کر رہا ہے کہ اُس نے انسانیت کی بنیاد پر پناہ کے معاملے پر انڈیا کو مشکل امتحان میں ڈال دیا ہے۔ دیکھنا یہ ہے کہ وہ اپنے ایک پرانے اتحادی کے لیے کس حد تک لڑائی مول لینے کے لیے تیار ہے اس دوران اُس کی سفارتی ساکھ کو کتنا نقصان پہنچے گا۔

جنوبی ایشیائی اُمور کے ماہر مائیکل کوگیلمین کا کہنا ہے کہ انڈیا کے پاس چار غیر پسندیدہ آپشنز ہیں۔

انھوں نے کہا کہ وہ حسینہ کو حوالے کر دیں، ’جو وہ بالکل نہیں کرنا چاہتا۔ وہ موجودہ حالات کو برقرار رکھ سکتے ہیں۔ حالانکہ اگلے سال نئی منتخب حکومت کے اقتدار سنبھالنے کے بعد دہلی کے لیے خطرات بڑھ سکتے ہیں۔‘

یہ بھی ہو سکتا ہے کہ وہ حسینہ پر دباؤ ڈالیں کہ خاموش رہیں اور بیانات یا انٹرویو دینے سے گریز کریں۔ یہبالکل ایسا ہے جسے ان کی کی جانب سے ’قبول کرنے کا امکان نہیں‘ کیونکہ وہ اپنی جماعت عوامی لیگ کی قیادت کر رہی ہیں۔ اس لیے دہلی کی جانب سے حسینہ پر اس طرح کی پابندی لگانے کا امکان نہیں۔

مائیکل کوگیلمین نے کہا کہ باقی آپشن یہ ہے کہ انڈیا شیخ حسینہ کو بھیجنے کے لیے کوئی تیسرا ملک تلاش کرے لیکن اس میں بھی مسائل ہیں۔ ’ایسی مہمان کو قبول کرنے والے ملک بہت کم ہیں، جن کے ساتھ شدید قانونی مسائل بھی ہیں۔‘

حسینہ کی حوالگی ناقابل تصور ہے کیونکہ انڈیا کی حکمران اور اپوزیشن جماعت انھیں یکساں طور پر قریبی دوست سمجھتے ہیں۔ مائیکل کوگیلمین کا کہنا ہے کہ’ انڈیا اپنے دوستوں سے منہ نہ موڑنے پر فخر کرتا ہے۔‘

بنگلہ دیش کے ساتھ تعلقات کی گہرائی اور اب اس میں عدم توازن نے انڈیا کو ایک عجیب پوزیشن میں ڈال دیا ہے کیونکہ بنگلہ دیشں کے بننے میں انڈیا کا اہم کردار ہے۔

Getty Imagesطالبِ علموں کی قیادت میں تحریک نے حکومت کا تختہ الٹا اور شیخ حسینہ بنگلہ دیش سے فرار ہو کر انڈیا چلی گئیں

جنوبی ایشیا میں بنگلہ دیش انڈیا کا سب سے بڑا کاروباری شراکت دار ہے اور انڈیا بنگلہ دیش کی ایشیا میں سب سے بڑی برآمدی منڈی ہے۔ گذشتہ سال تک مجموعی تجارت 13 ارب ڈالر سے زائد تھی۔ بنگلہ دیش انڈیا سے بہت زیادہ چیزیں خریدتا ہے اور خام مال، توانائی اور تجارتی روٹس کے لیے بھی وہ انڈیا پر انحصار کرتا ہے۔

گذشتہ کئی دہائیوں کے دوران انڈیا نے بنگلہ دیش کو آٹھ سے دس ارب ڈالر مالیت کے سستے قرضے دیے، کچھ اشیا تک ڈیوٹی فری رسائی دی، سرحد عبور کرنے کے لیے ریلوے کے پل بنائے، انڈیا کی بندرگاہوں اور گرڈ سٹیشنز سے بجلی، تیل اور ایل این جی فراہم کی۔

دہلی کی جواہر لال نہرو یونیورسٹی میں ساؤتھ ایشین سٹڈیز کے پروفیسر سنجے بھردواج کا کہنا ہے کہ ’انڈیا اور بنگلہ دیش کے مابین ایک پیچیدہ باہمی اشتراک اور انحصار کا تعلق ہے۔ وہ پانی، بجلی اور کئی دوسری چیزوں کے لیے ایک دوسرے پر انحصار کرتے ہیں۔ انڈیا کی مدد اور تعاون کے بغیر بنگلہ دیش کے لیے کام کرنا مشکل ہو گا۔‘

اس کے باوجود، کئی لوگوں کے خیال میں محمد یونس کی قیادت میں بنگلہ دیش کی عبوری حکومت اپنے بیرونی دنیا سے تعلقات کو دوبارہ متوازن کرنے کے لیے تیزی سے آگے بڑھ رہی ہے۔

سنگاپور کی نیشنل یونیورسٹی کی طرف سے شائع ہونے والے ایک مقالے میں ماہر سیاسیات بیان سائی کے مطابق اُن کا اپنے دفتر میں آمد کے بعد پہلا مہینہ سفارتی تعلقات کو فروغ دینے کی جانب بھرپور کوشش تھی جس کا مقصد بنگلہ دیش کی خارجہ پالیسی کو ’ڈی انڈینائزنگ‘ کرنا تھا۔

ایک ایسی حکومت جس نے علاقائی فورم کو پہلے انڈیا کے ساتھ منسلک کر رکھا تھا وہ اب عدالتی تبادلے منسوخ کر رہی ہے۔ انڈیا کے ساتھ کیے گئے توانائی کے معاہدوں پر دوبارہ بات چیت کر رہی ہے۔ انڈیا کے ساتھ رابطوں کے منصوبوں کی رفتار کم کر رہی ہے بلکہ سٹریٹجک پارٹنرشپ کے لیے اُس کا جھکاؤ بیجنگ، اسلام آباد اور یہاں تک کہ انقرہ کی جانب ہے۔

لیکن کئی افراد کا کہنا ہے کہ یہ کوئی بہت واضح پیغام نہیں بنگلہ دیش، جو کبھی انڈیا کا سب سے زیادہ قابل اعتماد پڑوسی تھا، اب اس کے نئی دہلی کے ساتھ تعلقات اتار چڑھاؤ کا شکار ہیں۔

تعلقات میں یہ بگڑتا ہوا توازن عوامی جذبات میں پہلے ہی کافی واضح ہے۔ ڈھاکہ میں قائم سینٹر فار الٹرنیٹیوز کے ایک حالیہ سروے کے مطابق 75 فیصد سے زیادہ بنگلہ دیشی عوام بیجنگ کے ساتھ تعلقات کو مثبت انداز میں سمجھتے ہیں جبکہ اس کے مقابلے میں دہلی کے حق میں صرف 11 فیصد افراد ہیں۔

سروے کے یہ نتائجپچھلے سال کی بغاوت کے جذبات کی بھرپور عکاسی کرتے ہیں۔

بنگلہ دیش کے کئی افراد کا کہنا ہے کہ نئی دہلی نے شیخ حسینہ کی بڑھتی آمریت کا حمایت کی اور وہ انڈیا کو اپنے پر حاوی پڑوسی کے طور پر دیکھتے ہیں۔

شیخ حسینہ کو سزائے موت کا بنگلہ دیش کے لیے مطلب کیا ہے؟بنگلہ دیش کی طاقتور وزیراعظم سے سزا یافتہ مجرم تک: شیخ حسینہ کے سیاسی سفر کی کہانیشیخ حسینہ کو بنگلہ دیش کے حوالے کرنے کی درخواست آئی تو انڈیا کیا کر سکتا ہے؟بنگلہ دیش میں شیخ حسینہ کی حکومت گرنے کے بعد اُن کی پارٹی کے رہنما کہاں روپوش ہوئے؟

پروفیسر بھردواج کا کہنا ہے کہ سیاسی تبدیلیوں کے مقابلے میں اکثر دیرینہ اقتصادی اور ثقافتی تعلقات زیادہ اہم ہوتے ہیں۔ اعداد و شمار سے پتہ چلتا ہے کہ انڈیا اور بنگلہ دیش کے درمیان تجارت میں 2001 اور 2006 کے درمیان اضافہ ہوا، یہ وہ وقت تھا جببنگلہ دیش نینشل پارٹی قدرے ’کم دوست‘ پارٹی جماعت اسلامی کے اتحاد سے حکومت میں آئی۔

انھوں نے کہا کہ ’اکثر حکومت میں تبدیلیوں کے ساتھ سفارتی اور سیاسی تعلقات میں اتار چڑھاؤ آتے ہیں لیکن اقتصادی، ثقافتی اور کھیلوں کے تعلقات زیادہ تر مستحکم رہتے ہیں۔ اگر کوئی نئی انتظامیہ انڈیا سے کم دوستی رکھتی ہے تو اس سے بھی خود بخود تجارت یا وسیع تر دوطرفہ تعلقات میں خلل نہیں پڑتا۔‘

اس وقت دہلی کے لیے چیلنج صرف جلاوطنی کا شکار اتحادی کو سنبھالنا نہیں بلکہ اس کی سلامتی کے لیے اُسے اپنے اہم پڑوسی کو محفوظ رکھنا ہے جس میں انسداد دہشت گردی اور سرحدی انتظام سے لے کر اس کے شمال مشرقی علاقے تک رسائی شامل ہے۔

ماہرین کا کہنا ہے کہ انڈیا کی بنگلہ دیش کے ساتھ 4,096 کلومیٹر طویل سرحد ہے جو زیادہ تر غیر محفوظ اور جزوی طور پر دریائی سرحد پر مشتمل ہے۔ جہاں کسی بھی قسم کی مقامی شورش انتہا پسندوں کی نقل مکانی یا متحرک ہونے کا سبب بن سکتی ہے۔

لندن کی یونیورسٹی سکول آف اورینٹل اینڈ افریقن سٹڈیز میں سیاست اور بین الاقوامی اُمور کے استادڈاکٹر اویناش پالیوال کا کہنا ہے کہ انڈیا کو جلدی نہیں کرنی چاہیے۔

انھوں نے کہا کہ ’آگے بڑھنے کے لیے ضروری ہے کہ خاموشی اور صبر کے ساتھ بنگلہ دیش میں فوج سمیت موجودہ شراکت داروں کے ساتھ رابطہ کیا جائے کیونکہ سفارت کاری کے ذریعے زیادہ وقت لیا جا سکتا ہے۔‘

Leon Neal/Getty Imagesمحمد یونس بنگلہ دیش میں عبوری حکومت کے سربراہ ہیں

پالیوال کا ماننا ہے کہاگلے بارہ سے اٹھارہ مہینوں میں تعلقات کشیدہ رہ سکتے ہیں اوراس کی شدت اگلے سال کے انتخابات کے بعد بنگلہ دیش میں ہونے والی پیشرفت پر منحصر ہے۔

انھوں نے کہا کہ ’اگر عبوری حکومت شفاف انتخابات کروانے میں کامیاب ہو جاتی ہے اور ایک منتخب حکومت چارج سنبھالتی ہے، تو یہ تعلقات کو دوبارہ بحال کرنے کے مذاکرات شروع کرنے اور نقصان کو محدود کرنے کے لیے آپشن کھول سکتی ہے۔‘

اس غیر یقینی کی صورتحال میں دہلی کو کسی فوری حکمت عملی کے بارے میں سوچنے کے بجائے وسیع تر اصولوں کو مدنظر رکھنا ہو گا کہ ایسے رہنما کو تحفظ دینے کے الزامات سے بچتے ہوئے جن کا انسانی حقوق کے لحاظ سے ریکارڈ خراب ہے، انڈیا کو دوست ممالک کو یقین دلانا ہو گا کہ ہر اچھے اور برے وقت میں اُن کے ساتھ کھڑا ہے۔‘

ڈاکٹر پالیوال کا کہنا ہے کہ ’اس معاملے کا کوئی آسان حل نہیں۔ شاید یہ گہرا سوال جس پر غور کرنے کی ضرورت ہے۔‘

ڈاکٹر پالیوال کہتے ہیں کہ دوسرے لفظوں میں کہ کیا دہلی نے شیخ حسینہ کی مسلسل حمایت کر کے اپنے سارے انڈے ایک ٹوکری میں ڈال دیے ہیں۔

بنگلہ دیش میں سابق انڈین ہائی کمشنر پنک رنجن چکرورتی کہتے ہیں کہ ’جو کوئی بھیاقتدار میں آئے اس کے ساتھ آپ کادوستانہ سلوک ہونا چاہیے جو کام کروانے میں آپ کی مدد کرے۔ آپ اسے کیوں بدل رہے ہیں۔‘

انھوں نے کہا کہ ’خارجہ پالیسی عوامی تاثر یا اخلاقیات سے نہیں چلتی بلکہ یہ ریاستوں کے درمیان تعلقات پر مبنی ہوتی ہے۔ اندرونی طور پر، ہم بنگلہ دیش کی سیاست کو کنٹرول نہیں کر سکتے جو اختلافات، گہری تقسیم اور کمزور اداروں پر قائم ہے۔‘

مائیکل کوگیلمین کا کہنا ہے کہ یقینی طور پر نہیں کہا جا سکتا ہے کہ انڈیا گہری سیاسی ٹوٹ پھوٹ کو ٹھیک کر سکتا ہے۔ اس کے ساتھ ساتھبہت کچھ بنگلہ دیش کی اگلی حکومت پر بھی منحصر ہے۔

انھوں نے کہا کہ ’اہم بات یہ ہے کہ بنگلہ دیش کی اگلی حکومت حسینہ فیکٹر کو دو طرفہ تعلقات پر کتنا اثر انداز ہونے دیتی ہے۔ اگر یہ فیکٹر حاوی رہتا ہے تو آگے بڑھنا مشکل ہو گا۔‘

انھوں نے کہا کہ بالآخر اگلی منتخب حکومت کو بنگلہ دیش کے بنیادی مفادات جیسے سرحدی سلامتی، تجارت اور رابطے پر اندرونی سیاست اورانڈیا مخالف جذبات پر متوازن کرنے کی ضرورت ہو گی۔‘

’مجھے تعلقات میں سنگین بحران کی توقع نہیں لیکن مجھے شبہ ہے کہ یہ تعلقات نازک رہیں گے۔‘

شیخ حسینہ کو سزائے موت کا بنگلہ دیش کے لیے مطلب کیا ہے؟شیخ حسینہ کو بنگلہ دیش کے حوالے کرنے کی درخواست آئی تو انڈیا کیا کر سکتا ہے؟بنگلہ دیش کی طاقتور وزیراعظم سے سزا یافتہ مجرم تک: شیخ حسینہ کے سیاسی سفر کی کہانیکیا شیخ حسینہ کی حکومت کے خاتمے کے بعد بنگلہ دیش اور پاکستان کے تعلقات بہتر ہو رہے ہیں؟بنگلہ دیش میں شیخ حسینہ کی حکومت گرنے کے بعد اُن کی پارٹی کے رہنما کہاں روپوش ہوئے؟شیخ حسینہ کا سفارتی پاسپورٹ منسوخ ہونے کے بعد انڈیا کو ’بہترین کی امید، بدترین کی تیاری‘
مزید خبریں

Disclaimer: Urduwire.com is only the source of Urdu Meta News (type of Google News) and display news on “as it is” based from leading Urdu news web based sources. If you are a general user or webmaster, and want to know how it works? Read More