Getty Images
سنہ 2018 سے امریکہ اپنے حریفوں کو حساس سیکٹرز میں خریداری سے روکنے کے لیے اپنے قوانین کو مزید سخت کر رہا ہے۔ یوں عملاً واشنگٹن سیمی کنڈکٹرز سے لے کر ٹیلی کمیونیکیشن تک ہر چیز میں سرمایہ کاری کو روک رہا ہے لیکن یہ قوانین ہمیشہ اتنے سخت نہیں تھے۔
سنہ 2016 میں امریکی انٹیلیجنس کمیونٹی کی کوریج کرنے والے ایک تجربہ کار صحافی جیف سٹین کو ایک خبر ملی کہ ایک چھوٹی انشورنس کمپنی جو ایف بی آئی اور سی آئی اے ایجنٹس کو مالی نقصان سے بچنے کے لیے انشورنس فروخت کرنے میں مہارت رکھتی ہے، کو ایک چینی فرم کو فروخت کر دیا گیا ہے۔
اس حوالے سے باخبر کسی ذریعے نے مجھے براہ راست فون کیا اور کہا کہ ’کیا آپ جانتے ہیں کہ انشورنس کمپنی جو انٹیلیجنس اہلکاروں کی انشورنس کرتی ہے وہ چینیوں کی ملکیت ہے؟‘
ان کے مطابق یہ سن کر تو ’میں دھنگ رہ گیا۔‘
سنہ 2015 میں انشورنس کمپنی ’رائٹ یو ایس اے‘ کو فوسن گروپ نے خاموشی سے خرید لیا تھا۔ یہ ایک نجی کمپنی ہے جس کے بارے میں خیال کیا جاتا ہے کہ اس کا چینی قیادت سے بہت گہرا تعلق ہے۔
امریکی خدشات فوری طور پر واضح ہو گئے کیونکہ ’رائٹ یو ایس اے‘ امریکہ کے کئی اعلیٰ خفیہ اداروں کے ایجنٹس اور انٹیلیجنس اہلکاروں کی ذاتی تفصیلات کی رازدار تھی۔
امریکہ میں کوئی نہیں جانتا تھا کہ اس معلومات تک کس کی رسائی ہو سکتی ہے۔
رائٹ یو ایس اے اس حوالے سے واحد کمپنی نہیں کہ جسے یوں چپکے سے کسی اور ملک کے ادارے کو فروخت کر دیا گیا ہو۔
بی بی سی کو نئے اعداد و شمار تک رسائی ملی ہے جس سے پتا چلتا ہے کہ کس طرح چینی ریاست کا پیسہ امیر ممالک میں بے دریغ خرچ ہو رہا ہے اور چینی ادارے امریکہ، یورپ، مشرق وسطیٰ اور آسٹریلیا میں اثاثے خرید رہے ہیں۔
BBCجیف سٹین کی خبر نیوز ویک میگزین میں چھپی اور واشنگٹن نے اس پر فوری ردعمل دیا
گذشتہ دو دہائیوں میں چین دنیا کا سب سے بڑا غیر ملکی سرمایہ کار بن گیا ہے، جس نے اسے حساس صنعتوں، رازوں اور کلیدی ٹیکنالوجیز پر غلبہ حاصل کرنے کی صلاحیت فراہم کی۔
بیجنگ بیرون ملک اپنے غیر ملکی اخراجات کی تفصیلات کو ریاستی راز سمجھتا ہے۔ ان تفصیلات میں یہ بات بھی شامل ہے کہ کتنی رقوم خرچ کی گئی ہیں اور کہاں خرچ کی گئی ہیں۔
لیکن رائٹ یو ایس اے کی فروخت کی شرائط پر جیف سٹین کہتے ہیں ’اس میں کچھ بھی غیر قانونی نہیں تھا، یہ سر عام ایک خریداری کا معاہدہ ہوا تو اس پر بات ہو سکتی ہے۔ چونکہ بیجنگ کا اس سب سے ایک گہرا تعلق ہے تو گویا آپ یہ ساری معلومات چینی انٹیلیجنس تک پہنچا رہے ہوتے ہیں۔‘
چینی حکومت اس معاہدے میں شامل تھی۔ بی بی سی نے اس معاہدے کو دیکھا ہے جس سے پتا چلتا ہے کہ چار چینی سرکاری بینکوں نے اس مقصد کے لیے 1.2 ارب کا قرضہ دیا تھا۔ یہ قرضے جزائرِ کیمن کے ذریعے بھیجے گئے تھے تاکہ فوسن کمپنی ’رائٹ یو ایس اے‘ کو خرید سکے۔
جیف سٹین کی خبر نیوز ویک میگزین میں چھپی۔ واشنگٹن نے اس پر فوری ردعمل دیا۔
امریکہ کی وزارت خارجہ کی طرف سے اس معاملے پر تحقیقات کا آغاز کیا گیا۔ امریکہ میں غیر ملکی سرمایہ کاری کو دیکھنے والی کمیٹی سی ایف آئی یو ایس متحرک ہوئی۔
اس مداخلت کے کچھ عرصے بعد یہ کمپنی دوبارہ امریکیوں کو فروخت کر دی گئی۔ اب یہ واضح نہیں کہ اس فروخت کا حکم کس نے دیا تھا۔
فوسن اور سٹار رائٹ یو ایس اے، کمپنی جو اب ’رائٹ یو ایس اے‘ کی ملکیت ہیں، نے بی بی سی کی طرف سے بھیجے گئے سوالات کا جواب نہیں دیا۔
اعلیٰ سطح کے امریکی انٹیلیجنس ذرائع نے تصدیق کی ہے کہ رائٹ یو ایس اے کی فروخت ان معاملات میں سے ایک تھی جس کی وجہ سے ٹرمپ انتظامیہ نے سنہ 2018 میں اپنے سرمایہ کاری کے قوانین کو سخت کیا تھا۔
اس وقت بہت کم لوگ سمجھ سکتے تھے کہ یہ چینی ریاستی حمایت یافتہ اخراجات بیجنگ کی طرف سے ہر براعظم میں سرمایہ کاری اور اثاثے خریدنے کے لیے کی جانے والی ایک بہت بڑی حکمت عملی کا حصہ ہیں۔
ایڈ ڈیٹا کے ایگزیکٹو ڈائریکٹر بریڈ پارکس کہتے ہیں کہ ’کئی برسوں سے ہم نے فرض کیا کہ چین کا تمام پیسہ ترقی پذیر ممالک کو جا رہا ہے۔ یہ ہمارے لیے بہت حیرانی کا باعث تھا جب ہمیں پتا چلا کہ امریکہ، آسٹریلیا، برطانیہ اور جرمنی جیسی جگہوں پر بھی سینکڑوں ارب ڈالر جا رہے ہیں اور یہ سب ہماری ناک کے نیچے ہو رہا ہے۔‘
ایڈ ڈیٹا ورجینیا میں واقع ایک تحقیقی لیبارٹری ہے جو اس بات کا پتا لگانے میں مہارت رکھتی ہے کہ حکومتیں اپنی سرحدوں سے باہر اپنا پیسہ کیسے خرچ کرتی ہیں۔ یہ ولیم اینڈ میری میں قائم ہے، جو امریکہ کی قدیم ترین یونیورسٹیوں میں سے ایک ہے اور اسے دنیا بھر کی حکومتوں اور خیراتی اداروں سے فنڈنگ ملتی ہے۔ پچھلے 12 سال سے ایڈ ڈیٹا کی چین پر بڑی توجہ رہی ہے۔
120 محققین کی طرف سے کی گئی چار برس کی تحقیق سے دنیا بھر میں چین کی تمام ریاستی حمایت یافتہ سرمایہ کاری کا حساب لگانے کی یہ پہلی اس طرح کی کوشش تھی۔ گروپ کا پورا ڈیٹا سیٹ اوپن سورس پر دستیاب ہے، تاہم بی بی سی کو خصوصی طور پر اس تک پیشگی رسائی دی گئی تھی۔
ایڈ ڈیٹا کی اہم دریافت کے مطابق 2000 سے بیجنگ نے ترقی پذیر اور امیر ممالک کے درمیان تقریباً مساوی تقسیم کے ساتھ اپنی سرحدوں سے باہر 2.1 کھرب ڈالر خرچ کیے ہیں۔
Getty Images
یونیورسٹی آف کیلیفورنیا میں چائنا سینٹر کے ڈائریکٹر وکٹر شی کا کہنا ہے کہ ’چین کا ایک ایسا مالیاتی نظام ہے جسے دنیا نے کبھی نہیں دیکھا۔‘ ان کے مطابق ’چین کے پاس دنیا کا سب سے بڑا بینکنگ سسٹم ہے جو کہ امریکہ، یورپ اور جاپان سے بڑا ہے۔‘
سرمایہ کاری کا یہ حجم ریاستی بینکوں پر بیجنگ کے کنٹرول کے حساب سے اسے منفرد صلاحیتیں فراہم کرتا ہے۔
وکٹر شی کا کہنا ہے کہ ’حکومت شرح سود کو کنٹرول کرتی ہے اور ہدایت کرتی ہے کہ قرض یا پسہ کہاں جاتا ہے۔ یہ صرف انتہائی سخت سرمائے کے کنٹرول سے ہی ممکن ہے، جو کوئی اور ملک اتنی پائیدار بنیادوں پر نہیں کر سکتا۔
ایسا لگتا ہے کہ دولت مند معیشتوں میں کچھ سرمایہ کاری صحت مند منافع کی غرض سے کی گئی جبکہ کچھ سرمایہ کاری بیجنگ کے سٹریٹجک مقاصد کے حصول کے عین مطابق کی گئی۔ یہ دس برس قبل چینی حکومت کی طرف سے بنائی گئی ’میڈ ان چائنا 2025‘ پالیسی کہلاتی ہے۔
چینی حکام نے اس سال تک 10 جدید صنعتوں، جیسے روبوٹکس، الیکٹرک گاڑیاں اور سیمی کنڈکٹرز پر غلبہ حاصل کرنے کے لیے ایک واضح منصوبے کا خاکہ پیش کیا۔
بیجنگ بیرون ملک بڑی سرمایہ کاری کرنا چاہتا تھا تاکہ کلیدی ٹیکنالوجیز کو چین میں واپس لایا جا سکے۔
’غیر ملکی دشمنوں کو زمین خریدنے نہیں دیں گے‘: ٹیکساس کا وہ قانون جو چینی شہریوں کو جائیداد خریدنے سے روکے گاہیکرز، خفیہ کیبلز اور جاسوسی کے خدشات: برطانیہ میں چین کا نیا مجوزہ سفارتخانہ متنازع کیوں بن رہا ہے؟بگرام ایئر بیس کی سیٹلائٹ تصاویر کا موازنہ: افغانستان میں دو سپر پاورز کا فوجی اڈہ جس پر ٹرمپ کے مطابق اب ’چین قابض ہے‘غیر ملکی کمپنیاں اربوں ڈالر کا سرمایہ چین سے کیوں نکال رہی ہیں؟
اس منصوبے پر عالمی خطرے کی وجہ سے چین نے عوامی سطح پر اس کا ذکر ترک کر دیا مگر وکٹر شی کا کہنا ہے کہ یہ رہنما حکمت عملی کے طور پر یہ منصوبہ ابھی بھی اپنی جگہ پر موجود ہے۔
ان کا کہنا ہے کہ ’ہر طرح کے منصوبے ابھی بھی شائع کیے جا رہے ہیں، جس میں ایک مصنوعی ذہانت کا منصوبہ اور ایک سمارٹ مینوفیکچرنگ پلان بھی شامل ہے، تاہم تمام منصوبوں کا سردار 15واں پانچ سالہ منصوبہ ہے۔‘
گذشتہ ماہ کمیونسٹ پارٹی کے ایک اہم اجلاس میں چین کے رہنماؤں نے 2030 تک ’اعلی سطح کی سائنسی اور تکنیکی خود انحصاری اور خود کو بہتر بنانے‘ کو تیز کرنے کا ہدف مقرر کیا۔
ایڈ ڈیٹا کا نیا ڈیٹا بیس بیرون ملک ریاستی حمایت یافتہ اخراجات پر روشنی ڈالتا ہے جو 2015 میں ہدف بنائے گئے 10 شعبوں سے مطابقت رکھتا ہے۔
امریکہ، برطانیہ اور بہت سی دوسری بڑی معیشتوں نے اپنے سرمایہ کاری کی سکریننگ کے طریقہ کار کو سخت کر دیا، جب ایسا لگتا ہے کہ ہر ملک انشورنس کمپنیوں جیسے رائٹ یو ایس اے کی فروخت والے معاہدے کے بعد سے غیر محفوظ ہو گیا۔
ایڈ ڈیٹا کے بریڈ پارکس کا کہنا ہے کہ دولت مند ممالک کو پہلے تو یہ احساس نہیں تھا کہ ہر ملک میں چینی سرمایہ کاری بیجنگ کی بڑی حکمت عملی کا حصہ ہے۔
’پہلی نظر میں تو انھوں نے سوچا کہ یہ تو چینی کمپنیوں کی طرف سے کی جانے والی سرمایہ کاری ہے۔ ان کی رائے میں ’میرے خیال میں انھوں نے وقت کے ساتھ جو کچھ سیکھا، وہ یہ کہ دراصل اس سب کے پیچھے بیجنگ ہے۔‘
تاہم اس بات کی نشاندہی کرنا ضروری ہے کہ ایسی سرمایہ کاری اور خریداریاں قانونی ہیں، چاہے وہ کبھی کبھی شیل کمپنیوں کے ذریعے ہوں یا آف شور اکاؤنٹس کے ذریعے یہ سب کیا جا رہا ہو۔
لندن میں چینی سفارت خانے نے بی بی سی کو بتایا کہ ’چینی حکومت نے ہمیشہ بیرون ملک کام کرنے والے چینی کاروباری اداروں سے مقامی قوانین اور ضوابط کی سختی سے تعمیل کرنے کا مطالبہ کیا ہے اور باہمی فائدے کی بنیاد پر بین الاقوامی تعاون کے انعقاد میں ان کی مسلسل حمایت کی۔‘
’چینی کمپنیاں نہ صرف دنیا بھر کے لوگوں کو معیاری مصنوعات اور خدمات فراہم کرتی ہیں بلکہ مقامی اقتصادی ترقی، سماجی ترقی اور ملازمتیں دینے میں بھی فعال کردار ادا کرتی ہیں۔‘
ایڈ ڈیٹا بیس سے پتا چلتا ہے کہ چین کے اخراجات کے طریقے بدل رہے ہیں۔ بیجنگ کی سرکاری رقم ان ممالک کی طرف جا رہی ہے جنھوں نے چینی سرمایہ کاری کا خیرمقدم کرنے کا فیصلہ کیا۔
ہالینڈ میں ایک چینی ملکیت والی سیمی کنڈکٹر کمپنی ’نیکسیریا‘ سے متعلق بحث جاری ہے۔
یہ ایڈ ڈیٹا کے ڈیٹا بیس میں بھی ظاہر ہوتا ہے، چینی سرکاری بینکوں نے سنہ 2017 میں ایک چینی کنسورشیم کو نیکسیریا کے حصول میں مدد کرنے کے لیے 800 ملین ڈالر کا قرض دیا۔ دو سال بعد ملکیت ایک اور چینی کمپنی ونگٹیک کو منتقل کر دی گئی۔
نیکسیریا کی سٹریٹجک قدر اس وقت نمایاں ہوئی جب ستمبر میں ڈچ حکام نے کمپنی کے آپریشنز کا جزوی کنٹرول سنبھالا۔ ڈچ حکومت کا کہنا ہے کہ ’ان خدشات کے پیش نظر کہ نیکسیریا کی ٹیکنالوجی بڑی ونگٹیک کمپنی کے دوسرے حصوں میں منتقل ہونے کا خطرہ ہے۔‘
اس اقدام کے نتیجے میں نیکسیریا کو مؤثر طریقے سے دو حصوں میں تقیسم کر دیا گیا۔ ڈچ آپریشنز کو اس کی چینی مینوفیکچرنگ کمپنی سے علیحدہ کر دیا گیا۔
Getty Images
نیکسپیریا نے بی بی سی کو تصدیق کی کہ اس نے اپنے چینی شراکت دار نیکسیریا کے گورننس فریم ورک کے اندر کام کرنا بند کر دیا کیونکہ وہ کمپنی ہدایات کو نظر انداز کر رہی ہے۔
کمپنی نے کہا کہ وہ عالمی منڈیوں میں اپنی اہم چپس کی برآمدات دوبارہ شروع کرنے کے لیے چین کے عزم کا خیر مقدم کرتی ہے۔
دی ہیگ میں کلینجینڈیل انسٹیٹیوٹ کی ایک ریسرچ فیلو شیاشوئے مارٹن کہتی ہیں کہ ہالینڈ میں بہت سے لوگ اس بات پر حیران تھے کہ حکومت نے اس کیس کو کیسے ہینڈل کیا کیونکہ انھوں نے ماضی میں ہمیشہ چین کے ساتھ اپنے تعلقات کو احتیاط سے آگے بڑھایا۔
ان کا کہنا ہے کہ ’ہم ایک ایسا ملک ہیں جس نے ہمیشہ کھلی تجارت، آزاد تجارت کے ساتھ بہت اچھا کام کیا اور یہ واقعی ڈچ پالیسی کا تجارتی پہلو ہے۔‘
حال ہی میں ہم نے یہ دریافت کیا کہ درحقیقت تھوڑا ’صبر کرو‘، جغرافیائی سیاست میں ایسی سرمایہ کاری کی چھان بین کے لیے ایک اپنی صنعتی پالیسی ہونی چاہیے تاہم ماضی میں اس پر اتنی توجہ نہیں دی جاتی تھی۔‘
شیاشوئے اس پر بہت واضح رائے رکھتی ہیں کہ چین جیسی سپر پاور کے ساتھ اتنا زیادہ کاروبار کرنے کے خوف کے بدلے میں جو نتائج برآمد ہو سکتے ہیں اس خوف کے بجائے ایسے منصوبوں سے صبر ہی زیادہ محفوط راستہ ہے۔
وہ کہتی ہیں کہ ’گویا چین ایک واحد ایسی طاقت ہے کہ جو اسے چاہیے وہ اسی طرح یورپ اور امریکہ کو اپنے ہاتھ میں لے سکتی ہے جبکہ ظاہر ہے کہ حقیقت میں ایسا نہیں۔‘
چین کی ’زیادہ تر کمپنیاں، خاص طور پر اگر وہ نجی ہیں تو وہ صرف پیسہ کمانا چاہتی ہیں۔ وہ چاہتی ہیں کہ ایک عام کمپنی کی طرح برتاؤ کیا جائے۔ وہ یہ نہیں چاہتیں کہ یورپ میں ان کا منفی تاثر ہو۔‘
اگر چین حساس شعبوں میں خریداری کے اپنے منصوبوں میں اپنے حریفوں سے بہت آگے ہے تو کیا اس کا مطلب ہے کہ ان میدانوں پر غلبہ حاصل کرنے کی دوڑ ختم ہو چکی ہے؟
بریڈ پارکس کا کہنا ہے کہ ایسا نہیں بلکہ ابھی اور بھی اہداف باقی ہیں۔ بہت سی چینی کمپنیاں ہیں جو اب بھی اس قسم کے اہداف کے حصول کی کوشش کر رہی ہیں۔ فرق یہ ہے کہ اب انھیں غیر ملکی سرمائے کے اس طرح کے ذرائع کی جانچ کے لیے اعلیٰ سطح کی جانچ پڑتال کا سامنا ہے۔
’لہٰذا چین اب آگے بڑھ رہا ہے۔ چین کسی کی پیروکاری نہیں کر رہا۔ یہ لیڈر ہے۔ یہ سرمایہ کاری کی فضا قائم کرتا ہے مگر میں جس چیز کی توقع کر رہا ہوں وہ یہ ہے کہ بہت سے جی سیون ممالک بیک فٹ سے فرنٹ فٹ پر جانے والے ہیں۔ وہ دفاع سے جارحانہ حکمت عملی کی طرف بڑھ رہے ہیں۔‘
چین برطانیہ سمیت دنیا بھر میں کیسے جاسوسی نیٹ ورکس چلا رہا ہے؟مختلف ممالک اپنے ذخائر میں ہزاروں ٹن سونا کیوں رکھتے ہیں اور کیا اس قیمتی دھات کی قیمت میں حالیہ اضافے کی وجہ چین ہے؟کیا ٹرمپ کا چین کو نظر انداز کر کے معدنیات کی عالمی صنعت پر قابض ہونے کا خواب پورا ہو پائے گا؟ٹرمپ کا دورۂ ایشیا: شی جن پنگ کے ساتھ چھ سال بعد ملاقات جو تجارتی جنگ کی سمت طے کر سکتی ہے’بچوں جیسا چہرہ مگر پراسرار شخصیت‘: 14 ارب ڈالر کا کرپٹو فراڈ، جس کا مرکزی ملزم کم عمری میں ہی بہت امیر ہو گیابنگلہ دیش کی عبوری حکومت چین سے اربوں ڈالر کے جے-10 طیارے کیوں خریدنا چاہتی ہے اور اس پر تنقید کیوں کی جا رہی ہے؟