پاکستان کے زیر انتظام کشمیر کی قانون ساز اسمبلی میں وزیراعظم چوہدری انوارالحق کے خلاف تحریک عدم اعتماد پر کارروائی کے لیے اسمبلی کا اجلاس سوموار 17 نومبر کو دوپہر تین بجے طلب کیا گیا ہے۔
آئین کے تحت تحریک عدم اعتماد جمع کروانے کے بعد کم سے کم تین دن اور زیادہ سے زیادہ سات دن کے اندر اندر اسمبلی کا اجلاس بلوا کر رائے شماری کروائی جاتی ہے۔
پاکستان کے زیر انتظام کشمیر کی قانون ساز اسمبلی میں اپنا وزیرِ اعظم لانے کے لیے کسی بھی جماعت کو کم از کم 27 اراکینِ اسمبلی کی حمایت کی ضرورت ہوتی ہے۔
پاکستان پیپلز پارٹی کا کہنا ہے کہ اسے یہ اکثریت حاصل ہے۔ اس لیے انھوں نے اسمبلی کی باقی ماندہ مدت کے لیے وزیر اعظم کے عہدے کے لیے فیصل ممتاز راٹھور کو نامزد کر دیا ہے۔
اس وقت ریاستی اسمبلی میں پارٹی پوزیشن کچھ ایسے ہے کہ پیپلز پارٹی کی 17، مسلم لیگ (ن) کی 9، پی ٹی آئی کی چار، پی ٹی آئی فاروڈ بلاک (بیرسٹر سلطان گروپ) کی سات، پی ٹی آئی وزیراعظم انوار گروپ کے پاس آٹھ، مہاجرین گروپ کے پاس چار جبکہ مسلم کانفرنس، جے کے پی پی اور علمائے مشائخ کے پاس ایک، ایک نشست ہے۔
سنہ 2021 کے انتخابات میں پاکستان تحریکِ انصاف (پی ٹی آئی) 26 نشستوں کے ساتھ اقتدار میں آئی تھی اور مخصوص نشستوں کے بعد اسے پارلیمان میں کل 33 نشتستیں حاصل تھیں۔
پاکستان کے زیر انتظام کشمیر میں 2021 انتخابات کے بعد سے اب تک تین وزیرِ اعظم آ چکے ہیں اور اب اپوزیشن اتحاد نے پی ٹی آئی کے فاروڈ بلاک سے تعلق رکھنے والے وزیر اعظم انوار الحق کے خلاف بھی تحریکِ عدم اعتماد جمع کروا دی ہے۔
سابق وزیرِ اعظم عمران خان کی جماعت میں ہونے والی دھڑے بندی کے سبب اب پاکستان پیپلز پارٹی (پی پی پی) پارلیمان میں سب سے بڑی جماعت ہے۔
اس وقت پاکستان کے زیر انتظام کشمیر میں مجموعی اسمبلی نشستوں کی تفصیل کچھ ایسے ہیں۔ مجموعی 53 نشستوں میں سے کشمیر بھر میںاسمبلی نشستیں 33 ، مہاجرین مقیم پاکستان 12، خواتین کی مخصوص نشستیں 5، علما مشائخ ایک، اوور سیز ایک، ٹیکنوکریٹ ایک۔
پیپلز پارٹی کے نامزد وزیر اعظم کون ہیں؟
پاکستان پیپلز پارٹی نے فیصل ممتاز راٹھور کو اپنا آئندہ وزیر اعظم نامزد کیا ہے جن کا تعلق کشمیر کے ضلع پونچھ کے ایک جاگیر دار گھرانے سے ہے۔
وہ کشمیر کے سابق وزیر اعظم ممتاز راٹھور کے بیٹے ہیں۔ ممتاز راٹھور سنہ 1990 میں کشمیر کے وزیر اعظم منتخب ہوئے تھے تاہم انھوں نے ایک سال سے بھی کم وقت میں اپنی حکومت تحلیل کر دی تھی۔
وہ نوجوانی سے سیاست میں سرگرم رہے اور مسلم کانفرنس میں شامل ہو کر پارلیمانی سیاست کا آغاز کیا تاہم بعد میں انھوں نے پیپلز پارٹی میں شولیت اختیار کی۔ ممتاز راٹھو کا شمار کشمیر کے مقبول ترین رہنماؤں میں ہوتا ہے۔
ان کے بیٹے فیصل ممتاز نے اپنی سیاسی زندگی کا آغاز 2006 میں کیا اور پہلا انتخاب آزاد امید وار کی حیثیت سے لڑا۔ انھوں نے کچھ عرصہ مسلم کانفرنس میں شمولیت اختیار کی تاہم 2011 میں وہ بھی پیپلز پارٹی کا حصہ بن گئے۔
حال ہی میں پاکستان کے زیر انتظام کشمیر میں عوامی احتجاجی تحریک کے دوران ان کا سیاسی کردار کھل کر سامنے آیا جب انھیں ریاستی حکومت کی جانب سے مذاکراتی کمیٹی کا سربراہ مقرر کیا گیا۔
عوامی ایکشن کمیٹی کے ارکان اور وفاقی نمائندوں کے ساتھ مذاکرات میں انھوں نے اہم کردار ادا کیا۔
بی بی سی سے بات کرتے ہوئے فیصل ممتاز راٹھوں کا کہنا تھا کہ ان کے والد موروثی سیاست کے خلاف تھے اور وہ عوام کو اپنا سیاسی وارث سمجھتے تھے۔
’میرے والد کبھی نہیں چاہتے تھے کہ ان کے بچے سیاست میں آئیں۔ والد کی وفات کے 10 سال بعد عوامی اصرار پر میں نے آزاد حیثیت میں الیکشن لڑا۔ تاہم بعد میں پیپلز پارٹی میں شمولیت اختیار کی۔‘
فیصل ممتاز راٹھور پاکستان کے زیر انتظام کشمیر میں پیپلز پارٹی کے سیکرٹری جنرل رہے ہیں۔
اس کے علاوہ انھوں نے پیپلز پارٹی کے دورِ حکومت میں وزیراطلاعات اور پی ٹی آئی کے ساتھ مخلوط حکومت کے دور میں لوکل گورنمٹ کی وزراتیں سنبھالیں۔
وزیر اعظم انوار الحق کے خلاف تحریکِ عدم اعتماد: پاکستان کے زیرِ انتظام کشمیر میں سیاسی ہلچل کی وجوہات کیا ہیں؟ پاکستان کے زیر انتظام کشمیر میں جوائنٹ عوامی ایکشن کمیٹی اور حکومت میں معاہدہ طے پا گیا: وہ کیا مطالبات ہیں جو تسلیم ہونے پر احتجاج ختم ہوا؟ کشمیر کو خصوصی حیثیت کیسے ملی اور اسے ختم کس بنیاد پر کیا گیا؟’بڑھاپے میں شوہر سے دوری کا بڑا صدمہ ہے‘: انڈیا پاکستان کے زیر انتظام کشمیر سے تعلق رکھنے والے افراد کو کس قانون کے تحت بیدخل کر رہا ہے؟قلیل مدتی حکومت بنانے کا فیصلہ کیوں کیا گیا؟
پاکستان کے زیر انتظام کشمیرمیں آئندہ سال جولائی میں عام انتخابات ہونے ہیں۔ چونکہ انتخابات سے قبل نگران حکومت کے قیام پاکستان پیپلز پارٹی کی نئی حکومت کے پاس انتظامی امور کے لیے 7 سے 8 ماہ تک کا قلیل وقت ہوگا تو ایسے میں پیپلز پارٹی نے حکومت بنانے کا یہ مشکل فیصلہ کیوں کیا؟
اس بارے میں پاکستان کے زیر انتظام کشمیر کے نامزد وزیر اعظم فیصل ممتاز راٹھور کا بی بی سی سے بات کرتے ہوئے کہنا تھا کہ ’اس بارے میں کوئی دو رائے نہیں کہ یہ آسان فیصلہ نہیں تھا۔ اس کے مثبت اور منفی دونوں اثرات تھے۔‘
’اگر پیپلز پارٹی عوام کا اعتماد حاصل کرنے میں کامیاب ہوتی ہے اور یہ 2026 کے الیکشن میں بھی کامیابی حاصل کر کے حکومت بنانے کی پوزیشن میں ہوگی لیکن اگرہم معاملات کو ڈیل نہیں کرپاتے تو یہ ہمارے خلاف جاتا ہے۔‘
انھوں نے مزید کہا کہ ’لیکن کسی نہ کسی کو تو ذمہ داری لینی تھی کیونکہ لوگوں کا سیاسی جماعتوں سے اعتماد ختم ہو رہا تھا۔ عوامی ایکشن کمیٹی کے احتجاج کے بعد رہنماؤں کا عوام سے سیاسی تعلق ختم ہو رہا تھا۔‘
انھوں نے تسلیم کیا کہ ’کم وقت میں چیزوں کو مینیج کرنا آسان نہیں ہوگا لیکن ہماری نیت اچھی ہے۔ ‘
فیصل ممتاز راٹھور کا کہنا تھا کہ ’میرے انتخاب کی ایک وجہ عوامی تحریک کے ساتھ مذاکراتی عمل میں شامل رہنا بھی تھا۔ میں کہہ چکا ہوں کہ جو معاہدہ ہو چکا ہے اس پر ہر ممکن طریقے سے عملد درآمد کروایا جائے۔ جائز مطالبات کو پورا کرنے کی ہر صورت پیدا کی جائے۔‘
انھوں نے کہا کہ اگرچہ ان پر دباؤ بہت زیادہ ہے لیکن وہ آنے والے مہینوں میں تمام مشکل ٹارگٹ پورے کرنے کی کوشش کریں۔
فیصل ممتاز راٹھور کا کہنا تھا کہ ’مہاجرین کی نشستوں کا معاملہ آئینی ترمیم سے ہی حل ہوگا۔ تاہم انتخابات سے قبل کوئی ایسا راستہ نکالیں گے تاکہ مہاجرین کے ووٹ کا حق بھی سلب نہ ہو اور مظاہرین کے تحفظات بھی دور ہوں۔ عوامی ایکشن کمیٹی کے لوگوں نے میری نامزدگی پر خوشی کا اظہار کیا کہ ایسا شخص نامزد ہوا جس سے بات ہو سکتی ہے۔‘
کشمیر کے نامزد وزیر اعظم کا آنے والے مہینوں میں اپنی ترجیحات کے حوالے کہنا تھا کہ ’الیکشن کمشنر کی تعیناتی، آزادانہ اور شفاف انتخابات، عوامی رابطوں کی بحالی، سیاستدانوں کے حوالے سے بدلی ہوئی عوامی رائے پر کام کرنا، صحت اور تعلیم کی سہولیات کے حوالے سے جو جلد از جلد ممکن ہو کیا جا سکے۔ ہم انھیں جنگی اقدامات کے طور پر دیکھ رہے ہیں۔‘
ان کا کہنا تھا کہ ’میں اپنے والد کی طرح عوامی وزیر اعظم بننے کی کوشش کروں گا۔‘
پاکستان کے زیر انتظام کشمیر میں مسلم لیگ ن کے رہنما طارق فاروق کہتے ہیں کہ ’پیپلز پارٹی مشکل حالات میں حکومت بنانے جا رہی ہے۔ وہ تیاری کر کے آئے ہیں شاید اسی لیے دیر کی۔ انھوں نے شاید اداروں کو اعتماد میں لیا ہوگا۔ کوئی پلان بنایا ہو گا۔‘
تاہم کچھ سیاسدانوں اور سیاسی مبصرین کا خیال ہے کہ چند ماہ کی حکومت سازی صرف بہتی گنگا میں ہاتھ دھونے جیسا ہے۔
صحافی اور تجزیہ کار حکیم کشمیری کہتے ہیں کہ ’کشمیر کے موجودہ سیاسی نظام میں اقتدار ایک دن کا بھی ہو تو لوگ تیار ہوتے ہیں۔ گورننس ان کا مسئلہ ہے ہی نہیں۔‘
ان کا کہنا تھا کہ ’مرکز سے حکمراں جماعت کے دباؤ کے پیشِ نظر وہ حکومت میں رہ کر حالات کو کسی نہ کسی طرح اپنے حق میں کرنا چاہتے ہیں۔ ‘
آئندہ انتخابات کے حوالے سے میں مسلم لیگ ن کے رہنما طارق فاروق کا کہنا تھا کہ ’یہاں اصل سیاسی مقابلہ ہم دونوں جماعتوں مسلم لیگ ن اور پیپلز پارٹی کا ہی ہے۔ ائندہ حکومت کا کام ہوگا کہ وہ آئین کا تحفظ کرے اور عدلیہ کو بہتر بنایا جائے۔‘
انھوں نے کہا کہ ’ہم کافی عرصے سے انتخابات کی تیاری کر رہے ہیں اور ہمارے پاس الیکٹیبلز ہیں۔ یہاں سے وہاں جانے والے لوگ دوسری جماعتوں میں ہیں۔ ہماری تنظیم سازی مضبوط ہے۔‘
صحافی حکیم کشمیری ان کا کہنا تھا کہ موجودہ حالات میں آئندہ انتخابات میں عوامی ردِ عمل کے بارے میں اندازہ لگانا مشکل ہے۔ ’بظاہر عوام میں سیاسی شعور بڑھ گیا ہے۔ اب بچے بھی صحت اور سہولیات کے بارے میں پوچھتے ہیں۔‘
ان کا کہنا تھا کہ ’اس وقت مرکز میں مخلوط حکومت ہے۔ اسلام آباد کے حالات مختلف ہیں۔ اور کشمیر میں پی پی پی کی لیڈر شپ میں لوگ حال ہی میں اس جماعت کا حصہ بنے ہیں۔‘
صحافی حکیم کشمیری کا کہنا تھا کہ ’امکان ہے کہ آئندہ انتخابت میں کسی ایک جماعت کو اکثریت نہ ملے اور یہاں بھی مخلوط حکومت آئے۔اس کے علاوہ تیسرا فریق(اسٹیبلشمنٹ) بھی غیر اعلانیہ طور پر موجود ہے۔ ان کی بات بھی سنی جائے گی۔ کیونکہ اسمبلی تو صرف ایک چہرہ ہے اصل صوابدید تو کسی اور کی ہے۔ ‘
تاہم انھوں نے اس خدشے کا اظہار بھی کیا کہ عوامی ایکشن کمیٹی کے بڑے مطالبے کے تحت ’اگر یہ حکومت مہاجرین نشستیں ختم نہیں کرتی اور بات اگلی اسمبلی تک جاتی ہے تو حالات خراب ہو سکتے ہیں۔‘
پاکستان کے زیر انتظام کشمیر کی اسمبلی میں اس وقت کل 12 مہاجرینِ پاکستان نشستوں میں 8 صوبہ پنجاب میں ہیں، 2 کے پی کے میں اوردو سندھ میں ہیں۔
سیاسی مبصرین کا خیال ہے کہ اتنی قلیل مدت اور حتیٰ کہ آئندہ حکومت کے لیے بھی مہاجرین نشستیں ختم کرنے کا عمل مشکلہوگا کیونکہ اس کے لیے آئین میں تبدیلی کا طویل عمل درکار ہے۔
’سیاسی اور پارلیمانی عدم استحکام مزید بڑھے گا‘
پاکستان کے زیر انتظام کشمیر میں ریاستی جماعت مسلم کانفرنس کے رہنما اور سابق وزیر اعظم سردار عتیق احمد خان کا کہنا ہے کہ کشمیر میں موجودہ سیاسی بحران کی ذمہ دار پی ٹی آئی کی حکومت اور وزیر اعظم انوار الحق ہیں کیونکہ انھوں نے یہاں کے سیاسی اور انتظامی بحران کو سنجیدگی سے نہیں لیا۔
بی بی سی سے بات کرتے ہوئے ان کا کہنا تھا کہ ’اس دورِ حکومت میں ایک ہی جماعت تھی جو حکمران بھی تھی اور حزبِ اختلاف بھی۔ ‘
انھوں نے تسلیم کیا کہ سیاسی جماعتوں نے اپنا کردار ادا نہیں کیا جس کی وجہ سے خلا پیدا ہوا اور عوامی ایکشن کمیٹی جیسی احتجاجی تحریک کا گنجائش بنی۔
پاکستان کے زیر انتظام کشمیر میں آئندہ عام انتخابات جولائی میں منعقد ہونے ہیں اور آٹھ ماہ کے مختصر وقت کے لیے پیپلز پارٹی کی جانب سے حکومت بنانے کے فیصلہ پر سابق وزیر اعظم سردار عتیق احمد خان کا کہنا تھا کہ اگرچہ آئندہ انتخابات میں چند ماہ ہی کا وقت ہے لیکن چونکہ ان کے پاس دوسری بڑی اکثریت ہے اس لیے ’حکومت بنانا ان کا جائز حق ہے۔‘
تاہم ان کا یہ بھی کہنا تھا کہ ’اس حکومت کی کوئی اخلاقی قوت نہیں ہوگی۔ یہ محض ایک موقع تھا جو انھوں نے استعمال کرنا مناسب سمجھا۔‘
سردار عتیق احمد خان نے خدشہ ظاہر کیا کہ ’عملی طور پر پیپلز پارٹی کی نئی حکومت کے پاس صرف تین ماہ ہوں گے اور اس دوران سیاسی اور پارلیمانی عدم استحکام مزید بڑھے گا۔‘
ماضی کی روایت کے مطابق آئندہ انتخابات میں وفاق میں موجود حکمران جماعت کیبالادستی کے امکان حوالے سے ان کا کہنا تھا کہ ’غیر ریاستی جماعتیں کشمیر کے لیے زیادہ فائدہ مند نہیں ہوتیں۔ کیونکہ ان کے رہنما مسئلہ کشمیر کو بھی اپنی سیاسی جماعت کے نقطہِ نظر سے دیکھتے ہیں۔ حالانکہ یہ ایک انفرادی قومی مسئلہ ہونا چاہیے۔‘
انھوں نے دعویٰ کیا کہ ماضی میں جب بھی پاکستان میں مارشل لاء رہا یا فوجی حکمران رہے تو مسلم کانفرنس اس لیے کامیاب ہوئی کہ ’ان آمر حکمرانوں کی اپنی سیاسی جماعتیں نہیں تھی اور اسی لیے ان کا کشمیر میں زیادہ کردار نہیں رہا اور مسلم کانفرنس کو کامیابی حاصل ہوئی۔‘
سردار عتیق احمد خان کا کہنا تھا کہ ’ایسا بھی نہیں ہے ہمیشہ ہی کشمیر کے انتخابات میں مداخلت ہوئی۔ ماضی میں بینظیر بھٹو کی حکومت کے دوران سرادر قیوم نے مسلم کانفرنس کی حکومت بنائی تھی۔ سیاسی جماعتوں میں اب بھی کچھ سمجھدار لوگ ہیں جو مداخلت نہیں کرتے۔‘
آئندہ انتخابات سے پہلے اور نئی حکومت کے لیے عوامی ایکشن کمیٹی کے مطالبات پر عمل درآمد کرنے کے امکانات پر ان کا کہنا تھا کہ ’ہم تسلیم کرتے ہیں کہ کئی مسائل اور مطالبات جائز تھے۔ جائز وعدوں کو پورا کیا جانا چاہیے۔‘
تاہم انھوں نے مہاجرین مقیم پاکستان کی نشستوں کے خاتمے کے مطالبے کو تسلیم کرنے سے صاف انکار کیا۔
ان کا کہنا تھا کہ ’وہ (مہاجرین) بھی اسی ریاست کا حصّہ ہیں۔‘
انتخابات میں کامیابی کی صورت میں حکومت کا حصہ بننے کے حوالے سے ان کا کہنا تھا کہ اگر ان کی جماعت آٹھ سے 10 نشستیں حاصل کرنے میں کامیاب ہو گئی تو وہ ممکنہ مخلوط حکومت کا حصہ بنیں گے بصورتِ دیگر حزب اختلاف میں شامل ہوں گے۔
یاد رہے کہ موجود اسمبلی میں مسلم کانفرنس کی صرف ایک نشست ہے جس پر خود سردار عتیق احمد خان کامیاب ہوئے تھے۔
وزیر اعظم انوار الحق کے خلاف تحریکِ عدم اعتماد: پاکستان کے زیرِ انتظام کشمیر میں سیاسی ہلچل کی وجوہات کیا ہیں؟ پاکستان کے زیر انتظام کشمیر میں جوائنٹ عوامی ایکشن کمیٹی اور حکومت میں معاہدہ طے پا گیا: وہ کیا مطالبات ہیں جو تسلیم ہونے پر احتجاج ختم ہوا؟ کشمیر کو خصوصی حیثیت کیسے ملی اور اسے ختم کس بنیاد پر کیا گیا؟’بڑھاپے میں شوہر سے دوری کا بڑا صدمہ ہے‘: انڈیا پاکستان کے زیر انتظام کشمیر سے تعلق رکھنے والے افراد کو کس قانون کے تحت بیدخل کر رہا ہے؟سرینگر پر قبضے کے لیے کشمیر پہنچنے والے پاکستان کے قبائلی جنگجوؤں کو خالی ہاتھ واپس کیوں لوٹنا پڑا؟پاکستان کے زیرِ انتظام کشمیر میں احتجاج: ’خبر ملی کہ ایک نوجوان پولیس پر پتھراؤ کر رہا تھا، اسے گولی لگی ہے، ہسپتال پہنچ کر دیکھا تو وہ میرا بیٹا تھا‘