بلینڈڈ ونگز: آزمائشی پرواز میں طیارے کی تباہی کے بعد 100 سال قبل ترک کیا گیا خواب کیا اب پورا ہونے کے قریب ہے؟

بی بی سی اردو  |  Nov 11, 2025

بلینڈڈ ونگ طیارے کا تصور نیا نہیں ہے، یعنی ایک ایسا طیارہ جس میں جہاز کا دھڑ (یعنی مرکزی حصہ) اور اُس کے پر (ونگز) علیحدہ علیحدہ ہونے کے بجائے ایک ہی ساخت میں مدغم ہوں۔ لیکن یہ انقلابی ڈیزائن اب مسافر بردار طیاروں کے لیے ایک قابلِ عمل تصور بننے کے قریب ہے۔

مارچ 2025 میں امریکہ میں اس نوعیت کے ایک چھوٹے ریموٹ کنٹرول طیارے نے پہلی بار اڑان بھری۔ اس طیارے کا نام ’سٹیو‘ رکھا گیا تھا۔

یہ بغیر پائلٹ والا ریموٹ کنٹرول طیارہ صرف 16 سیکنڈ تک فضا میں موجود رہا۔ مگر ماہرین کے مطابق یہ بات اہم نہیں تھی کہ اس کی پرواز محض 16 سکینڈ پر محیط تھی۔

اس مختصر ٹیسٹ پرواز کو اس سلسلے کی ابتدائی کڑی قرار دیا جا رہا ہے، جس کے بارے میں اس ڈیزائن کی موجد کمپنی ’آؤٹ باؤنڈ ایروسپیس‘ کو امید ہے کہ یہ 2030 کی دہائی میں ایک انقلابی 200 سے 250 نشستوں والے بلینڈڈ پروں والے مسافر طیارے کی تخلیق کا باعث بنے گی۔

200 سے 250 نشستوں والے مستقبل کے اس طیارے کو ’اولمپک‘ کا نام دیا جا چکا ہے۔ اس طیارے کے پروں کا پھیلاؤ 171 فٹ (52 میٹر) ہو گا۔

ہوائی جہاز کے پروں اور دھڑ کو آپس میں مدغم کر کے پرواز کے دوران ہوا کی مزاحمت کم کیے جانے کا خیال 100 سال سے بھی زیادہ پرانا ہے۔ سنہ 1924 میں دنیا کا پہلا بلینڈڈ پروں والا طیارہ بنایا گیا تھا جو اپنی پہلی پرواز کے بعد گر کر تباہ ہو گیا تھا۔

اس کے بعد یہ ٹیکنالوجی زیادہ تر امریکی فوج کے بمبار طیاروں تک محدود رہی۔ لیکن اب ہوابازی کی صنعت کو کاربن اخراج کم کرنے کی فوری ضرورت ہے، جس سے لگتا ہے کہ بلینڈڈ مسافر طیارے کو مارکیٹ میں لانے کا وقت آ گیا ہے۔ مگر کیا ’آؤٹ باؤنڈ ایروسپیس‘ جیسی نئی کمپنیاں اس ڈیزائن کو عملی شکل دینے میں درپیش بڑے چیلنجز پر قابو پا سکیں گی؟

’سٹیو‘ کی پروازوں کا مقصد یہ ثابت کرنا ہے کہ یہ کمپنی اپنے اختراعی ڈیزائن اور جدید مینوفیکچرنگ ٹیکنالوجی کی مدد سے درمیانے درجے کے مسافر طیارے ایئربس اور بوئنگ جیسی طیارے بنانے والی روایتی کمپنیوں کے مقابلے میں زیادہ تیزی اور کم لاگت سے تیار کر سکتی ہے۔

Getty Imagesاس سے قبل بلینڈڈ ونگز والے طیارے عسکری مقاصد کے لیے مختص تھے

بوئنگ کے سابق انجینیئر اور آؤٹ باؤنڈ ایروسپیس کے شریک بانی اور چیف ٹیکنالوجی افسر جیک آرمینٹا کہتے ہیں کہ ’ہم نے صرف 12 ماہ میں ایک نئے تصور کو اپنا کر اس کا عملی مظاہرہ کرنے والا طیارہ بنانے تک کا سفر طے کیا ہے۔‘

انھوں نے کہا کہ ’جب ہم نے اپنی فیکٹری کا دروازہ اس نئی قسم کے طیارے کے لیے پہلی بار کھولا، تو اُس کے ٹھیک نو ماہ ہمارے طیارے نے پہلی بار پرواز کی ہے۔‘

اب اس نئی ٹیکنالوجی پر مبنی یہ طیارہ ایک کارگو ڈرون کے طور پر نیا کردار ادا کر رہا ہے۔

انھوں نے کہا کہ ’امریکی محکمہ دفاع اور دیگر شہری ہوابازی کے ادارے ’سٹیو‘ میں دلچسپی لے رہے ہیں، کیونکہ اس میں بڑا کارگو کمپارٹمنٹ ہے اور یہ روایتی ڈیزائنوں سے سستا ثابت ہو سکتا ہے۔ لہٰذا یہ ہمارا پہلا تجارتی پراڈکٹ بننے جا رہا ہے۔‘

آؤٹ باؤنڈ کمپنی کے بزنس ڈویلپمنٹ ڈائریکٹر ایرون بوائسین کہتے ہیں کہ ’ہم سمجھتے ہیں کہ ہم طیارہ سازی کے لیے درکار وقت اور لاگت میں بڑی حد تک کمی لا سکتے ہیں، لیکن یہ منصوبہ اب بھی مہنگا ہے۔ ہمیں دس سال انتظار کرنے کے بجائے جلد از جلد اسے قابل آمدن بنانا ہو گا۔‘

اگرچہ سرمایہ کار اُن کے منصوبے کی ممکنہ کامیابی پر شکوک و شبہات کا شکار ہیں لیکن آؤٹ باؤنڈ کمپنی نے اب تک تقریباً 10 لاکھ ڈالر کی ابتدائی سرمایہ کاری حاصل کر لی ہے۔ یہ وہ پہلا سرمایہ ہوتا ہے جو کسی نئی کمپنی کو اپنے تصور کو حقیقت میں بدلنے کے لیے دیا جاتا ہے۔ اس سے انھیں اس منصوبے کے لیے پانچ مستقل ملازمین اور کچھ عارضی عملہ بھرتی کرنے میں مدد ملی ہے۔

آؤٹ باؤنڈ کمپنی اس طرح کے طیارے بنانے کی دوڑ میں اکیلی نہیں ہے۔ کم از کم دو اور نئی کمپنیاں بھی پہلا بلینڈڈ ونگ مسافر طیارہ بنانے کی دوڑ میں شامل ہیں۔

تجزیہ کار بل سوئٹ مین کے مطابق یہ ایک ایسا ہدف ہے جو کافی ’عرصے سے بس خواب ہی سمجھا جاتا رہا ہے۔‘

کمپیوٹر سے تیار کردہ ’اولمپک‘ کے 2030 کی دہائی میں ممکنہ خدوخال موجودہ ایئربس اور بوئنگ کے روایتی ٹیوب اور ونگ والے طیاروں سے بالکل مختلف دکھائی دیتے ہیں۔ ان طیاروں کو بعض اوقات ’فلائنگ وِنگز‘ کہا جاتا ہے، اور یہ روایتی طیاروں کے مقابلے میں زیادہ مؤثر ایئرو ڈائنیمکس یا ہوا سے مطابقت فراہم کرتے ہیں۔

اگر کوئی کمپنی درست بلینڈڈ پروں والا ڈیزائن تیار کر لے تو ناسا کی تحقیق کے مطابق ایسا طیارہ 50 فیصد تک کم ایندھن استعمال کرے گا، اور اتنی ہی حد تک کاربن اخراج میں کمی لا سکتا ہے، شور کم کر سکتا ہے اور 40 فیصد زیادہ کشادہ کیبن فراہم کر سکتا ہے۔

اس کا مزید کہنا ہے کہ اس سے نئے فضائی روٹس کھلنے کے امکانات پیدا ہو سکتے ہیں۔ اگرچہ کھڑکیوں کے قریب نشستیں کم ہوں گی، مگر اضافی بڑے دروازے نصب کیے جا سکتے ہیں جو مسافروں کی قطاروں کو کم کریں گے اور فرسٹ کلاس، بزنس، اور اکانومی کے لیے علیحدہ کیبن کی موجودگی ممکن بنائیں گے۔

اس انقلابی سوچ کے حامیوں کے بڑے خواب ہیں۔ وہ امید کرتے ہیں کہ آؤٹ باؤنڈ، جیٹ زیرو اور ناؤٹیلس جیسی کمپنیاں فضائی سفر کی صنعت میں ایئربس اور بوئنگ کے غلبے کو توڑ کر نئے ڈیزائن متعارف کرائیں گی، کیونکہ ان دونوں بڑی کمپنیوں کے اجارہ دارانہ اثرات کو صنعت میں جدت کے راستے کی رکاوٹ سمجھا جاتا ہے۔

کیلیفورنیا کے لانگ بیچ میں قائم جیٹ زیرو کمپنی اس دوڑ میں شامل سب سے نمایاں کمپنیوں میں شمار ہوتی ہے۔ اسے امریکی فضائیہ کی جانب سے 235 ملین ڈالر کی فنڈنگ ملی ہے، جبکہ یونائیٹڈ ایئرلائنز اور الاسکا ایئرلائنز نے بھی اپنے زیڈ-4 طیارے کی تیاری کے لیے سرمایہ فراہم کیا ہے۔

اس کے علاوہ یونائیٹڈ ایئرلائنز نے ایک ’راہ‘ متعین کی ہے جس کے تحت وہ زیڈ 4 طیاروں کے 200 یونٹ تک خرید سکتی ہے، بشرطِیکہ یہ طیارہ ایئرلائن کی ضروریات پوری کرے۔

جیٹ زیرو نے زیڈ فور کی تیاری کے لیے بی اے ای اور نارتھروپ گرومن جیسی معروف ہوا بازی کی کمپنیوں اور پرَیٹ اینڈ وِٹنیع جیسی انجن ساز کمپنی کے ساتھ شراکت داری کی ہے۔ کمپنی پہلے ہی اپنا چھوٹے پیمانے کا 'پاتھ فائنڈر-1‘ طیارہ اڑا چکی ہے اور ’کریٹیکل ڈیزائن ریویو‘ مکمل کر چکی ہے، جو یہ جانچنے کا ایک باقاعدہ عمل ہے کہ آیا ڈیزائن عملی تیاری کے لیے تیار ہے یا نہیں۔

جون 2025 میں پیرس ایئر شو سے عین قبل، جیٹ زیرو نے اعلان کیا تھا کہ اس نے زیڈ-4 طیارے کی تیاری کے لیے اپنی فیکٹری کا مقام منتخب کر لیا ہے۔ یہ فیکٹری نارتھ کیرولائنا کے شہر گرینز بورو میں ہو گی۔ یہ بالکل اُس فیکٹری کے برابر میں ہو گی جہاں ایک اور نئی ایوی ایشن کمپنی ’بوم‘ اپنا سپرسونک مسافر طیارہ بنا رہی ہے، جسے یونائیٹڈ ایئرلائنز خریدنے کا ارادہ رکھتی ہے۔

جیٹ زیرو کا منصوبہ کافی حوصلہ مند ہے اور وہ یہ ہے کہ سنہ 2027 تک مکمل سائز کے طیارے کی آزمائشی پروازیں شروع کر دی جائیں۔

آؤٹ باؤنڈ ایروسپیس کے ایرون بوائسین اپنے حریفوں کی بظاہر تیز پیش رفت سے پریشان نہیں ہیں۔ وہ کہتے ہیں کہ ’جیٹ زیرو کے گرد ہونے والی تشہیر اور ان کے ابتدائی آرڈرز ہم سب کے لیے فائدہ مند ہیں کیونکہ اس سے بلینڈڈ پروں والے طیاروں پر ایئرلائنز اور صنعت میں بات ہونے لگی ہے۔ اس کا مطلب یہ بھی ہے کہ وہ سرٹیفیکیشن اور عوامی قبولیت کے دو بڑے اخراجات پہلے برداشت کریں گے، اور ہمیں یہ بوجھ نسبتاً کم اٹھانا پڑے گا۔‘

طیارے کے ڈیزائنرز بلینڈڈ پروں والے طیارے بنانے کا خواب ہوا بازی کے ابتدائی دنوں سے دیکھتے آئے ہیں۔ تجزیہ کار بل سوئٹ مین کا کہنا ہے کہ ’اُس وقت اس میں بہت دلچسپی پائی جا رہی ہے کیونکہ سرمایہ کار اور ٹیکنالوجی کے ماہرین پرانی صنعتوں کو بدلنے کی دوڑ میں ہیں، اور اب ان کا اگلا ہدف ہوا بازی ہے۔‘

اُن کے مطابق، جدید مٹیریلز، کمپیوٹر پر مبنی ڈیزائن (سی اے ڈی) اور سہ جہتی ہوائی حرکیات (3D Aerodynamics) نے اس نئی دلچسپی کو بڑھاوا دیا ہے۔

وہ مزید کہتے ہیں کہ ’کئی لوگ چاہتے ہیں کہ ایئربس اور بوئنگ کے مقابلے میں کوئی نئی کمپنی اُبھرے، لیکن اصل مسئلہ یہ ہے کہ ایسے طیارے کی تیاری پر آنے والی لاگت بہت زیادہ ہے اور ایک نئی تجارتی ہوائی جہاز کمپنی شروع کرنا ایک بہت بڑا کام ہے۔‘

امریکی F-35 یا روسی SU-57: جدید لڑاکا طیاروں کی کمی اور وہ پیشکش جس نے انڈین فضائیہ کو مشکل میں ڈال دیاانڈیا کا ’سٹیلتھ‘ جنگی طیارے بنانے کا منصوبہ کیا ہے اور اس کی ضرورت کیوں پیش آئی؟55 ارب ڈالر سے تیار ہونے والا ’بی 29‘ طیارہ: انجینیئرنگ کا شاہکار ’خوفناک ہتھیار‘ جس نے پہلی بمباری میں ’ایک لاکھ افراد کو موت کے گھاٹ‘ اُتارا’چین کی پاکستان کو جے 35 طیاروں کی پیشکش‘: فضاؤں پر حکمرانی کرنے والے ’خاموش قاتل‘ ففتھ جنریشن فائٹر جیٹس میں خاص کیا ہے؟

تاہم وہ ان منصوبوں میں ایئرلائنز کی حمایت کے حقیقی اثرات کے بارے میں شکوک و شبہات رکھتے ہیں، چاہے اب تک کی فنڈنگ کتنی ہی زیادہ کیوں نہ ہو۔

سوئٹ مین کا کہنا ہے کہ ’ایئرلائنز اس وقت جتنا پیسہ لگا رہی ہیں، وہ اُن کے لیے صوفے کے پیچھے گرے سکے اٹھانے جیسا ہے۔ ان کے آرڈرز صرف اسی صورت میں حقیقت بنیں گے جب یہ نئی کمپنیاں مطلوبہ کارکردگی دکھا سکیں۔ یہ زیادہ تر ان کے تشہیری تاثر کا حصہ ہے۔ یعنی وہ یہ دکھا رہی ہیں کہ وہ مستقبل کے لیے ماحول دوست سوچ رکھتے ہیں۔‘

اس کے باوجود، وہ مانتے ہیں کہ چھوٹے پیمانے کے ڈیمانسٹریٹر طیارے سے شروع کر کے مکمل سائز کے ڈیمانسٹریٹر تک جانا ایک اچھا قدم ہے۔

ان کا کہنا ہے کہ یہ ’نئے ڈیزائن میں یقین پیدا کرے گا، لیکن آپ اتنی کم آزمائش کے ساتھ پیداواری لائن شروع نہیں کر سکتے۔‘

دنیا کا پہلا بلینڈڈ ونگ طیارہ، جو 1924 میں اڑا تھا، اس کا نام ’ویسٹ لینڈ ڈریڈناٹ‘ تھا۔ یہ روسی موجد نکولس وویووڈسکی کے جدید خیالات پر مبنی آٹھ نشستوں والا طیارہ تھا، جو اپنی پہلی پرواز میں عدم توازن اور قابو کھونے کی وجہ سے گر کر تباہ ہو گیا تھا، جس سے پائلٹ شدید زخمی ہوا اور اس منصوبے کو ترک کر دیا گیا تھا۔

اس کے بعد سے بلینڈڈ پروں والے ڈیزائن کی پیچیدگی کے باعث یہ فارمیٹ زیادہ تر فوجی طیاروں تک محدود رہا۔ اس ضمن میں راک ویل بی1-بی لینسر اور نارتھروپ کا نیا بی-21 ریڈر کا نام لیا جا سکتا ہے۔

NASAناسا اور بوئنگ کا ایکس 48 اس نئے تصور کے پس پشت ہے

سوئٹ مین کے مطابق: ’بلینڈڈ طیاروں کا ڈیزائن انتہائی درست بنانا مشکل ہے کیونکہ اُن کے ارد گرد ہوا کے بہاؤ کا انداز بہت پیچیدہ ہوتا ہے۔ مگر بمبار طیاروں کے لیے یہ نسبتاً آسان ہوتا ہے، کیونکہ ان میں دباؤ والے بڑے کیبن نہیں ہوتے۔ یہی بات ایئر ریفیولنگ ٹینکروں کے لیے بھی درست ہے۔‘

گذشتہ 30 برسوں میں ناسا، بوئنگ، ایئربس، چینی طیارہ ساز کمپنی کومیک اور کینیڈین بزنس جیٹ ساز بمبارڈیئر نے بھی ایسے طیاروں کے ڈیزائن پر تحقیق کی ہے۔ ان ٹیموں نے عموماً ’سٹیو‘ جیسے چھوٹے ٹیسٹ طیارے بنا کر ہوا کی سرنگوں (Wind Tunnels) میں ان کا تجربہ کیا اور پھر عملی پروازیں کیں۔

موجودہ ڈیزائنز کی زیادہ تر تحریک 1988 میں ناسا کی جانب سے جاری اُس دعوت سے ملی جس میں انقلابی طیاروں کے تصورات مانگے گئے تھے۔

جواب دینے والی ایک ٹیم میں رابرٹ لی بیک بھی شامل تھے، جو بعد میں بوئنگ کے بلینڈڈ وِنگ پروگرامز کے شریک موجد اور پراجیکٹ مینیجر بنے۔ ان کی ٹیم کے کام نے ایک جدید تصوراتی طیارے کو جنم دیا، جسے بعد میں ریموٹ کنٹرول ماڈل ’بوئنگ/ناسا-ایکس‘ کے نام سے بنایا گیا۔

اسے سنہ 2007 میں ٹائم میگزین نے سال کی بہترین ایجادات میں شامل کیا۔ اگرچہ ایکس-48 سائز میں چھوٹا تھا، مگر اسے ایک مکمل سائز کے طیارے کی طرح اڑنے کے لیے ڈیزائن کیا گیا تھا۔

دو ایکس-48 طیاروں نے چھ سال کے دوران 120 پروازوں کا ایک غیرمعمولی سلسلہ مکمل کیا۔ ان پروازوں میں یہ جانچا گیا کہ ایسے طیارے انجن بند ہونے یا رک جانے کی صورت میں کیسا ردعمل دیتے ہیں، اور ساتھ ہی ایندھن کی کھپت اور شور میں کمی کے نئے طریقے بھی آزمائے گئے۔

تاہم ایکس-48 نے جس انقلاب کا وعدہ کیا تھا، وہ ابھی تک حقیقت کا روپ نہیں دھار سکا۔

بل سوئٹ مین کہتے ہیں کہ ’اُس زمانے میں باب لی بیک بلینڈڈ پروں والے طیاروں کے عملی مسائل حل کرنے کی جی توڑ کوشش کر رہے تھے۔ شاید سب سے بڑا مسئلہ ان کے سامنے یہ تھا کہ ان طیاروں میں دباؤ برداشت کرنے والا مسافروں کا کیبن کیسے بنایا جائے۔‘

وہ مزید وضاحت کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ ’دباؤ برداشت کرنے والے ڈھانچے عموماً گول ہوتے ہیں، کیونکہ ہموار یا چپٹی سطحیں زیادہ دباؤ میں ٹوٹ پھوٹ کا شکار ہو جاتی ہیں۔ اس سے اگر ڈیزائن زیادہ ’ڈبہ نما‘ ہو تو ساختی پیچیدگیاں بڑھ جاتی ہیں۔ پھر اس میں آرام دہ اور کشادہ کیبن کا ڈیزائن شامل کرنا ایک اور مشکل مرحلہ تھا۔‘

جب میکڈونل ڈگلس کو بوئنگ نے خرید لیا، تو لی بیک نے یہ سوچنا شروع کیا کہ بوئنگ کا اگلا نیا طیارہ 787 کے بجائے ایک بلینڈڈ پروں والا ڈیزائن ہونا چاہیے۔ مگر پھر سیئٹل سے ایک ’تحقیقات کی لہر‘ اٹھی جس کے بعد اس خیال کو ترک کر دیا گیا۔

آؤٹ باؤنڈ کا ’سٹیو‘ دانستہ طور پر ایکس-48 کے برابر سائز اور تناسب میں بنایا گیا ہے۔

بوائسین کہتے ہیں کہ ’ایکس-48 پروگرام نے یہ ثابت کر دیا تھا کہ جدید فلائٹ کنٹرول سسٹمز بلینڈڈ پروں والے ڈیزائن کو مؤثر طریقے سے سنبھال سکتے ہیں۔ تاہم، یہ اب بھی بنانے میں مہنگا تھا کیونکہ ڈیزائن کی پیچیدگی بہت زیادہ تھی۔‘

آرمینٹا کا کہنا ہے کہ ’ہم نے سٹیو کو بنایا اور اُڑایا، جو کہ ایکس-48 کے برابر صلاحیت رکھتا ہے، لیکن اس پروگرام کے بجٹ کے ایک حصے میں، اور صرف نو ماہ میں۔‘

وہ اعتراف کرتے ہیں کہ جب وہ آؤٹ باؤنڈ کے انقلابی منصوبے سرمایہ کاروں کے سامنے پیش کرتے ہیں تو بعض اوقات خود کو ’حملے کی زد میں‘ محسوس کرتے ہیں۔ لیکن بوائسین کہتے ہیں کہ ان کی ٹیم ’دل سے یقین رکھتی ہے‘ کہ یہ ایک انقلابی نیا طیارہ ہے اولمپک جیسے طیارے کو کامیابی سے تیار کرنے اور متعارف کرانے کا واحد طریقہ یہ ہے کہ وہ بوئنگ 2.0 یا ایئربس 2.0 نہ بنیں۔

وہ کہتے ہیں کہ ’ہم موجودہ نظام پر سوال اٹھا رہے ہیں۔ ہم نے طے کیا ہے کہ ایک مکمل نیا طیارہ کامیابی سے بنانے کے لیے ہمیں یہ دیکھنا ہو گا کہ ہم کن چیزوں کو آؤٹ سورس کرتے ہیں اور کن کو اندرونِ کمپنی تیار کرتے ہیں۔‘

اسی مقصد کے لیے، انھوں نے جدید تھری ڈی پرنٹنگ کا استعمال کیا تاکہ اپنے اوزار خود تیار کر سکیں اور یہ ثابت کر سکیں کہ وہ کاربن فائبر سے ایک اڑنے کے قابل ڈیمانسٹریٹر طیارہ ’کسی بھی دوسرے سے کہیں کم لاگت میں‘ بنا سکتے ہیں۔

سوئٹ مین نے کہا کہ ’میرا خیال ہے کہ یہ قابلِ تعریف اور مخلصانہ کوششیں ہیں۔ مگر میں ان میں ایک طرح کا ہوائی قلعہ بنانے سا جذبہ دیکھتا ہوں، جیسے ’ہم نئی نسل ہیں، ہم سب کچھ کر سکتے ہیں، منفی سوچنا بند کرو دادا جی!‘

وہ مزید کہتے ہیں کہ ’یقیناً آپ پُرامید ہو سکتے ہیں، مگر حقیقت یہ ہے کہ آپ کو دیکھنا ہو گا رکاوٹیں کہاں ہیں، کتنا سرمایہ درکار ہو گا تاکہ ایسا طیارہ بنایا جا سکے جو کسی ایئرلائن کو پیش کیا جا سکے کہ اسے کس طرح تیار کرنا ہے اور یہ کہ وہ منافع کے ساتھ فروخت کیا جائے۔‘

اب آؤٹ باؤنڈ ایروسپیس سٹیو کو ’گیٹ وے‘ ڈرون میں تبدیل کرنے پر کام کر رہی ہے تاکہ وہ اسے بیچ کر کچھ آمدنی حاصل کر سکے۔ اس کے بعد ان کے منصوبے میں ایک دگنے پروں والے بہتر ماڈل، ایک طویل فاصلے کا بزنس جیٹ ’اولمپک‘ اور بالآخر 2040 کی دہائی تک ایک اس سے بھی بڑا مسافر بردار طیارہ بنانا شامل ہے۔ مگر اس منزل تک پہنچنے سے پہلے بے شمار چیلنجز درپیش ہوں گے۔

بوائسین کے مطابق ’سیئٹل میں ہوا بازی کے انجینیئروں، منیجرز اور ماہرین کی ایک بڑی تعداد موجود ہے جو سچ کہوں تو وہ سب کسی نئی چیز کے لیے بے تاب ہیں اور یہی وجہ ہے کہ ہم یہاں تک پہنچے ہیں۔‘

’چین کی پاکستان کو جے 35 طیاروں کی پیشکش‘: فضاؤں پر حکمرانی کرنے والے ’خاموش قاتل‘ ففتھ جنریشن فائٹر جیٹس میں خاص کیا ہے؟چینی جے 10 سی اور فرانسیسی رفال طیارہ بنانے والی کمپنیوں کے شیئرز میں ’اتار چڑھاؤ‘ کا پاکستان اور انڈیا تنازع سے کیا تعلق ہے؟ترکی کا انڈونیشیا کو 48 ’ففتھ جنریشن‘ لڑاکا طیارے برآمد کرنے کا اعلان: ترک ساختہ ’کان‘ طیارے کیخصوصیات کیا ہیں؟آواز سے تیز سفر کی دوڑ میں شامل تین نئے طیاروں کی خصوصیاتوہ پرانی ٹیکنالوجی جو خلائی مشنوں کو زندہ رکھے ہوئے ہے
مزید خبریں

Disclaimer: Urduwire.com is only the source of Urdu Meta News (type of Google News) and display news on “as it is” based from leading Urdu news web based sources. If you are a general user or webmaster, and want to know how it works? Read More