خواتین کے سینیٹری پیڈز اور مصنوعات پر بھاری ٹیکس: ’یہ ایسے فطری عمل پر ٹیکس ہے جس پر عورت کا اختیار نہیں‘

بی بی سی اردو  |  Nov 09, 2025

Getty Images

’پاکستان کا آئین مساوی حقوق کی بات کرتا ہے مگر پیڈز صرف عورت کی ضرورت ہیں۔ یہاں مرد متاثر نہیں ہو رہا بلکہ عورت کو اپنے فطری عمل کی مناسب دیکھ بھال میں رکاوٹ درپیش ہے وہ بھی بھاری ٹیکسز کی وجہ سے۔ پیڈز وہ بنیادی ضرورت ہیں جو تولیدی عمر میں موجود خواتین کو ہرماہ سات دن تک چاہیں۔ خواتین اپنے فطری عمل کی دیکھ بھال میں بھاری ٹیکس کیوں دیں۔‘

پنجاب کے شہر راولپنڈی کی رہائشی ماہ نور عمر ایک نوجوان وکیل ہیں۔ انھوں نے لاہور ہائی کورٹ راولپنڈی بینچ میں ایک درخواست دائر کی جس میں انھوں نے خواتین کی ماہواری کے دوران پیڈز سمیت استعمال کی جانے والی دیگر مصنوعات پر بھاری سیلز ٹیکس کو چیلینج کیا ہے۔

’خواتین اپنی زندگی کی تقریبا چار دہائیاں ماہواری کے نظام میں گزرتی ہیں تو اگر اس کی دیکھ بھال کی اشیا یعنی سینیٹری پیڈز پر وہ اتنا ٹیکس دے رہی ہیں یا زیادہ قیمت کی وجہ سے وہ ان کی رسائی میں نہیں تو یہ ٹیکس ’رائٹ ٹو لائف‘ (بنیادی حقوق) کو متاثر کر رہا ہے۔‘

ماہ نور نے بی بی سی سے بات کرتے ہوئے مزید بتایا کہ انھوں نے آئین کے آرٹیکل 199 کے تحت عدالت میں دائر پٹیشن میں سینیٹری پیڈز پر عائد 40 فیصد ٹیکسز آئین میں پیش کردہ بنیادی حقوق سے متصادم قرار دیا ہے اور استدعا کی ہے کہ ان ٹیکسز کو حتم کیا جائے تاکہ حواتین تولیدی صحت کی دیکھ بھال کی اشیا تک رسائی حاصل کر سکیں۔

اس مقدمے کا عنوان ’ماہ نور عمر بنام حکومتِ پاکستان‘ کے عنوان سے ہے، لیکن ماہ نور کے نزدیک یہ صرف ان کی ذاتی لڑائی نہیں بلکہ لاکھوں خواتین ان ٹیکسز کے باعث اپنی لازمی ضرورت کی اشیا استعمال کرنے سے محروم ہو رہی ہیں۔

واضح رہے کہ ایک ایسی ہی درخواست سندھ ہائی کورٹ میں علیشا شبیر ایڈوکیٹ نے بھی دائر کی ہے جس کو قابل سماعت قرار دے کر عدالت عالیہ نے فریقین کو نوٹسز جاری کر دیے ہیں۔

یاد رہے کہ یونیسیف کی ایک تحقیق کے مطابق صرف 12 فیصد پاکستانی خواتین ماہواری کے دوران سینیٹری پیڈز استعمال کرتی ہیں۔ باقی زیادہ تر خواتین کپڑے یا روایتی طریقوں پر انحصار کرتی ہیں جن میں سے اکثر حفظان صحت کے اصولوں کے منافی ہوتے ہیں۔

لاہور ہائی کورٹ کے راولپنڈی بینچ میں زیر سماعت اس مقدمے کے حوالے سے ماہ نور اور ان کے ساتھی وکیل احسن جہانگیر کو امید بندھ چلی ہے ’اس سے نہ صرف آگاہی ہو رہی ہے اور ساتھ ہی کم از کم حکومت حرکت میں آئے گی اور انھیں کرائسز کا اندازہ ہو گا کہ ان کی کتنی مجرمانہ غفلت ہے کہ انھوں نے خواتین کی اس بنیادی ضرورت کو نظر انداز کیا ہوا تھا۔‘

خواتین کے پیڈز اور ماہواری کو سنبھالنے سے متعلق اشیا پرمجموعی طور پر 40 فیصد ٹیکسز کس کس مد میں لیے جاتے ہیں، اس مضمون میں آگے چل کر اس پر بھی بات ہو گی تاہم پہلے جان لیں کہ سندھ اور لاہور ہائی کورٹ میں دائر درخواستوں کا مقصد کیا ہے اور خواتین کی زندگیوں میں اس سے کیا تبدیلی آنے کی توقعات کی جا رہی ہیں۔

Getty Images

ماہ نور نے بی بی سی سے بات چیت میں اپنی درخواست کے اغراض و مقاصد کچھ اس طرح بتائے۔

’آئین پاکستان آرٹیکل 14 میں ہر شہری کو رائٹ آف ڈیگنیٹی یعنی عزت و وقار کے ساتھ جینے کے حق کی آزادی دیتا ہے۔ جبکہ آرٹیکل 25 میں مساوی حقوق کی بات کی گئی ہے تاہم اصل زندگی میں ہمیں خواتین کے حقوق مساوی نہیں دکھائی دیتے۔‘

ان کے مطابق ’سیلز ٹیکس ایکٹ جو 1990 میں آیا تھا اس کے سیکشن 13 اے کے مطابق وہ تمام اشیا جو ضروریات میں شمار ہوتی ہیں ان پر سیلز ٹیکس سے استثنیٰ دیا جا سکتا ہے۔ تاہم سینیٹری پیڈز جو چھ کروڑ خواتین ہر ماہ استعمال کرتی ہیں ان پر سیلز ٹیکس سے استثنیٰ کیوں نہیں۔‘

ماہ نور نے دعویٰ کیا کہ ’دودھ، پنیر، ذائقہ دار دودھ ضروری اشیا کے زمرے میں ہے تاہم پیڈز کو اس میں نہیں رکھا گیا۔ اتنی ضروری چیز جو حفظان صحت کے لیے ہے اس پر سیلز ٹیکس اسی طرح موجود ہے تو یہی سوال ہم نے ہائی کورٹ کے بینچ کے سامنے رکھا ہے۔‘

’ہمارا موقف ہے کہ یہ ٹیکسز ین خواتین کے ساتھ امتیازی سلوک کرتے ہیں اور آئینی طور پر برابری، وقار، اور سماجی انصاف کی ضمانتوں کی خلاف ورزی ہیں۔‘

انھوں نے کہا کہ ’پاکستان میں سینیٹری پیڈز پر مجموعی طور پر 40 فیصد تک ٹیکس لگتا ہے۔ ماہواری کے فطری عمل کے دوران استعمال کیے جانے والے پیڈز پرعائد ٹیکسز نے لاکھوں لڑکیوں کی تعلیم اور صحت کو بھی خطرے سے دوچار کررہا ہے۔‘

’خواتین فطری عمل کا ٹیکس کیوں دیں‘

ماہ نور کے ساتھی وکیل احسن جہانگیر نے اس درخواست کے دائر کرنے کے پس منظر سے متعلق بی بی سی سے بات کرتے ہوئے بتایا کہ پاکستان میں تولیدی عمر میں موجود خواتین میں سے صرف 12 فیصد خواتین ہی ایسی ہیں جو سینیٹری پیڈز کو بآسانی خرید سکتی ہیں۔ اور انھی حقائق نے اس درخواست کے دائر کرنے کی سوچ بیدار کی۔

’اس درخواست کو لانے کے پیچھے کہانی یہ ہے کہ میں اور ماہ نور سپریم کورٹ میں ساتھ کام کرتے تھے تو ایک دن میں نے ان سے ڈسکس کیا کہ سینیٹری پروڈکٹس یا ماہواری کی ہائیجین سے متعلق جتنی بھی مصنوعات ہیں ان کے اوپر ٹیکسز کافی ناجائز ہیں کیونکہ ان کو ضرف حواتین استعمال کرتی ہیں تو اس فطری عمل کے دوران ٹیکسز بھی خواتین کیوں دیں۔‘

احسن جہانگیر نے کہا کہ ’ماہواری خاتون میں فطری عمل ہے۔ اس کو حفظان صحت کے مطابق مینیج کرنے کے لیے ان کی ضروریات میں شامل ہے تو اس کو چیلینج کیا جانا ضروری ہے۔ تو یہی چیز ہم ہائی کورٹ کے سامنے لے کر گئے کہ آپ اگرسینیٹری پیڈز پر ٹیکسز لگاتے ہیں تو بنیادی طور پر آپ خواتین کو، پیریڈز کو اور ایک فطری عمل کو ٹیکس کر رہے ہیں جس پر کسی عورت کا خود سے اختیار نہیں۔‘

احسن جہانگیر کے مطابق ’ایسا نہیں کہ اس میں کوئی نئی بات ہو۔ سکاٹ لینڈ میں تو یہ مصنوعات بلامعاوضہ ہیں۔ انڈیا میں بھی اس قسم کی ایک درخواست آئی تھی جس کے بعد حکومت نے اس کو خود ہی ختم کر دیا تھا۔ نیپال میں بھی پیڈز پر ٹیکسزختم کر دیے گئے۔ تو پاکستان میں بھی ان ایشوز کو اٹھایا جائے گا تب ہی بات آگے بڑھے گی۔‘

’ٹیکس استثنیٰ کی ضرورت سے مرد ناآشنا‘

احسن جہانگیر نے اس حوالے سے پاکستان کے قوانین کا حوالہ دیتے ہوئے بتایا کہ سیلز ٹیکس ایکٹ کے تحت حکومت کے پاس اختیار ہے کہ وہ استثنیٰ دے۔ اس ایکٹ کا آرٹیکل 6 اس کو ریکارڈ کرتا ہے کہ کون کون سی مصنوعات پر استثنیٰ ہیں تو یہ بنیادی ضروریات کی شے ہے جس پر سیلز ٹیکس سے استثنیٰ دیا جانا چاہیے۔

’اگر آپ کا آئین آپ کو جینے کا بنیادی حق(Right to dignity and right to live) دینے کی بات کرتا ہے تواس میں محض زندگی گزارنے کی بات نہیں بلکہ پروقار طریقے سے جینے کے حق کی بات ہے۔ اسی لیے اس میں سیلز ٹیکس سے استثنیٰ بنتا ہے کہ خواتین ایک پروقار طریقے سے اپنی ماہواری کی دیکھ بھال کر سکتی ہیں۔‘

انھوں نے کہا کہ ’ کیونکہ یہ مرد کی ضرورت نہیں اس لیے انھیں یہ سمجھ نہیں آئے گی کہ اس کا قوت خرید میں ہونا اور اس کا استعمال کرنا کیوں ضروی ہے خواتین کے لیے۔‘

انھوں نے مزید کہا کہ ’سکستھ سکیجوئیل میں کچھ چیزوں کو سفارتی تعلقات کی بنا پر سیلز ٹیکس سے چھوٹ ہے تو کچھ چیزوں کو بنیادی ضرورت کی وجہ سے ٹیکس سے استثنیٰ ہے۔ جیسے دودھ پنیر اور فلیورڈ ملک کو بنیادی ضرورت قرار دیا گیا اور ان پر ٹیکس کی چھوٹ ہے تو آبادی کے نصف کی بنیادی ضرورت کی شے پر استثنیٰ کیوں نہیں دیا جا سکتا۔‘

کراچی سے تعلق رکھنے والی وکیل علیشہ شبیر اور ان کے سینیڑ ساتھی ایڈوکیٹ فرحت اللہ نے بھی سندھ ہائی کورٹ میں پیڈز پر ٹیکسز کے خلاف درخواست دائر کی جو سماعت کے لیے مقرر ہوئی اور عدالت نے فریقین کو نوٹسز بھی جاری کر دیے۔

علیشہ شبیر نے بی بی سی سے بات کرتے ہوئے کہا کہ ’2021 میں نیپال میں دو طلبہ نے اپنے ملک کی سپریم کورٹ میں سینیٹری نیپکنز پر عائد سیلز ٹیکس کے خلاف درحواست دائر کی تھی۔ جون 2025 میں عدالت نے سینیٹری نیپکنز پر عائد ٹیکس حتم کرنے کا حکم دیا۔ اس فیصلے کے سامنے آنے پر ہم نے پاکستان میں خواتین کی ماہواری میں دیکھ بھال کے لیے استعمال کیے جانے والے پیڈز پر عائد ٹیکسز کا جائزہ لیا۔‘

علیشہ کے مطابق ’ہمیں پتا چلا کہ ان کو پاکستان میں اس غیر ضروری یا لگژری آئٹم کی فہرست میں رکھا گیا ہے اور 18 فیصد ٹیکس عائد کیا جا رہا ہے۔ تو ہم نے یہ دیکھ کر فیصلہ کیا کہ ہم اس کے خلاف سندھ ہائی کورٹ میں جائیں۔

’ہم نے استدعا کی ہے کہ اس پر سیلز ٹیکس تو 18 فیصد ہے تاہم اس کے خام مال پر عائد ٹیکسزکو ملا کر اس پر کل 40 فیصد ٹیکس پروڈکٹ بن جاتا ہے۔ اس لیے ہم نے درحواست صرف یہ نہیں کی کہ اس کو غیر ضروری سے نکال کر ضروری اشیا کی فہرست میں ڈالا جائے تاہم ہم نے یہ کہا ہے کہ اس کے خام مال کو بھی ایٹ سکیجوئیل یعنی کم ریٹ کی فہرست میں ڈالا جائے تاکہ صارف کو واقعتاً اس کا فائدہ پہنچے۔‘

’خواتین کو ضرورت سے محروم رکھنے پر وفاق سے جواب طلب‘

احسن جہانگیر نے کہا کہ ’ہماری اس درخواست کا مقصد یہی ہے کہ اس مسئلے پر بات تو ہو۔ یہ نہ تو فیمینیسٹ ایجنڈا ہے نہ لبرل ایجنڈا۔ ‘

’پیڈز استعمال کرنا خواتین کی مجبوری ان کی ضرورت ہے۔ یہ کوئی بٹن تو ہے نہیں جس کو دبانے سے فطری نظام رک جائے گا۔ اس کو مینیج تو انھیں کرنا ہے۔ تو سالانہ پانچ سے چھ ارب روپے آبادی کے اس بڑے حصے سے اس ٹیکس کی مد میں لے کر ان کو ضرورت سے محروم رکھا جا رہا ہے۔ تو یہ سب ہم نے عدالت کے سامنے رکھا اور عدالت نے اس پر وفاق سے جواب طلب کر رکھا ہے۔‘

’ہم خوش ہیں کہ لاہور ہائی کورٹ پنڈی برانچ میں جسٹس جواد اور جسٹس اویس خالد نے نوٹسز جاری کیے اور معاملےکی حسّاسیت نوعیت کو سمجھا اور وفاق سے جواب مانگا۔‘

دوسری جانب علیشہ شبیر نے کہا کہ ’ مجھے لگتا ہے کہ اس پٹیشن سے ایک فائدہ یہ بھی ہو گا کہ ماہواری کو ایک ٹیبو نہ سمجھا جائے گا بلکہ خواتین کے ایشوز کو سمجھا جائے گا اور اس کو سنجیدہ لیا جائے گا۔ ہماری درخواست کی اگلی سماعت 19 نومبر کو ہے۔‘

’ماہواری نارمل ہے بس تم نے کسی کو بتانا نہیں‘پاکستان: ماہواری پر اخراجات ایشیا میں سب سے زیادہانڈین خواتین گھر کے دروازوں پر اپنی ماہواری کے چارٹ کیوں لگا رہی ہیں؟بچیوں میں قبل از وقت ماہواری کی وجوہات: ’مجھے 13 سال کی عمر میں ماہواری ہوئی، گمان تھا کہ میری بچی بھی اِسی عمر میں بالغ ہو گی‘لگژری اشیا پر زیادہ ٹیکس کیوں لگایا جاتا ہے؟

پاکستان میں عمومی سیلز ٹیکس کی شرح 18 فیصد ہے، جو درآمدی اشیا کے ساتھ ساتھ مقامی فروخت اور سپلائرز پر ویلیو ایڈڈ ٹیکس (VAT) کے طور پر عائد ہوتی ہے۔

کیا پاکستان میں سینیٹری پیڈز اُن لگژری (تعیشاتی) اشیا میں شامل ہیں جن پر زیادہ شرح سے ٹیکس عائد کیا جاتا ہے؟

ٹیکس امور کے ماہر ڈاکٹر اکرام الحق نے بی بی سی سے بات کرتے ہوئے بتایا کہ درآمدی سطح پر ٹیکس کا اثر کسٹمز ڈیوٹی، سیلز ٹیکس، لازمی ویلیو ایڈیشن اور ایڈوانس انکم ٹیکس شامل کرنے کے بعد ظاہر ہوتا ہے۔ لاہور ہائی کورٹ، راولپنڈی بینچ میں دائر ایک رِٹ پٹیشن میں یہ نکتہ اُٹھایا گیا کہ سینیٹری پیڈز پر مجموعی ٹیکس لاگت 40 فیصد سے زیادہ ہے۔

اگرچہ انھیں لگژری آئٹمز کے طور پر نہیں لیا جاتا، لیکن غیر ضروری اشیا (Non-essential items) کے طور پر شمار کیا جاتا ہے اور درآمدی مرحلے پر تین مختلف ٹیکس کوڈز کے تحت معیاری ٹیکس شرحوں کے تابع رکھا گیا ہے۔

انھوں نے کہا مقامی صنعت کار بین الاقوامی معیار اور شرحِ ٹیکس کے لحاظ سے مقابلہ نہیں کر سکتے کیونکہ ٹیکس کی شرحیں حد سے زیادہ ہیں جس کی ایک بڑی وجہ آئی ایم ایف کا دباؤ ہے۔

Getty Imagesپاکستان میں سینیٹری پیڈز کو 'غیر ضروری' اشیاء کے زُمرے میں رکھا گیا ہے، جو حکومت سطح پر اس کے جانب سے انتہائی لاپرواہی کو ظاہر کرتا ہے۔پاکستان میں اس وقت سینیٹری پیڈز پر کتنا ٹیکس عائد

پاکستان میں اس وقت سینیٹری پیڈز پر کتنا ٹیکس عائد ہے، اور یہ دیگر ضروری حفظانِ صحت کی مصنوعات کے مقابلے میں کیسا ہے؟

پاکستان میں سینٹری پیڈز پر ٹیکس کے بارے میں ڈاکٹر اکرام نے کہا درآمدی سطح پر مجموعی ٹیکس کا اثر 40 فیصد سے زائد ہے۔ دوسری جانب ان کی مقامی پیداوار بھی بھاری بالواسطہ ٹیکسوں کے بوجھ تلے دبی ہے، جن میں خام مال اور توانائی پر 18 فیصد سے زائد سرچارجز شامل ہیں۔

حکومت اس ٹیکس درجہ بندی کو برقرار رکھنے کا کیا جواز پیش کرتی ہے؟

سینٹری پیڈز پر ٹیکس کے جواز پر ڈاکٹر اکرام نے کہا کہ ’اس کی کوئی معقول توجیہہ نہیں۔ حکومت سمجھتی ہے کہ عوام، خاص طور پر مزدور طبقے اور تنخواہ دار طبقے پر بھاری ٹیکس لگانا اس کا حق ہے۔‘

ان کے مطابق ’پاکستان میں بالواسطہ ٹیکسوں، ودہولڈنگ ٹیکسوں، سرچارجز اور سپر ٹیکس پر حد سے زیادہ انحصار نے اسے اُن ممالک کی صف میں لا کھڑا کیا ہے جہاں ٹیکس پالیسی سب سے غیر منصفانہ اور عوام پر سب سے زیادہ بوجھ ڈالنے والی ہے اور سینیٹری پیڈز کے معاملے میں یہ خاص طور پر امتیازی اور آئین کے منافی ہے۔‘

IWM/Getty Imagesپاکستان میں ٹیکس فہرستوں کی تیاری کی ذمہ داری کس ادارے پر ہے؟

ڈاکٹر اکرام نے اس سلسلے میں کہا کہ پاکستان میں سینیٹری پیڈز کو ’غیر ضروری‘ اشیاء کے زُمرے میں رکھا گیا ہے، جو حکومت سطح پر اس کے جانب سے انتہائی لاپرواہی کو ظاہر کرتا ہے۔

اگر سینیٹری پیڈز کو لگژری آئٹم سمجھا جاتا ہے تو اس درجہ بندی کی وجہ کیا ہے؟

ڈاکٹر اکرام کے مطابق ’ایک ایسے ملک میں جہاں ماہواری (menstrual cycle) کو غیر صحت مند اور ممنوع (taboo) سمجھا جاتا ہے، وہاں سینیٹری پیڈز کو ’غیر ضروری‘ قرار دینا دراصل مجرمانہ طرزِ عمل ہے۔ حقیقت میں، غیر ضروری اشیاء کے طور پر ان کا برتاؤ انہیں لگژری آئٹمز کے مترادف بنا دیتا ہے۔‘

پاکستان میں ٹیکس فہرستوں کی تیاری کے ذمہ دار وزارتِ تجارت اور فیڈرل بورڈ آف ریونیو ہیں ۔

ڈاکٹر اکرام نے کہا آئی ایم ایف کے سامنے زیادہ ٹیکس وصولی دکھانے کے جوش میں، ایف بی آر وزارتِ تجارت اور وزارتِ صحت پر غالب آجاتا ہے، جو ممکن ہے کہ ایسی پالیسی کی مخالفت کرتیں جیسے سینٹری پیڈز پر ٹیکس شامل ہیں

پاکستان میں ٹیکس فہرستوں میں اشیاء کی درجہ بندی کے بارے میں ڈاکٹر اکرام نے بتایا کہ غیر ضروری اشیاء کی درجہ بندی بنیادی طور پر ایف بی آر کے افسران کا کام ہے۔

انھوں نے کہا کہ ’دیگر ممالک کے برعکس جہاں ایسی درجہ بندی پارلیمانی نگرانی کے تحت ہوتی ہے، پاکستان میں یہ مکمل طور پر ایف بی آر کے اختیار میں ہے۔ اب وزارتِ خزانہ میں ایک آزاد ’پالیسی آفس‘ قائم کیا گیا ہے، جو محض ایک نمائشی (cosmetic) تبدیلی ہے کیونکہ اس کے افسران اور قانونی فریم ورک دونوں ہی حقیقت میں آزاد نہیں بلکہ زیرِ اثر ہیں۔‘

خطے کے دوسرے ممالک میں سینٹری پیڈز کی درجہ بندی کے بارے میں ڈاکٹر اکرام نے بتایا کہ وہاں انھیں لگژری آئٹمز میں شمار نہیں کیا جاتا۔

ان کے مطابق بھارت نے 2018 میں سینیٹری پیڈز پر تمام ٹیکس ختم کر دیے۔ نیپال نے 2025 میں ایسا کیا اور برطانیہ نے 2021 میں مکمل طور پر ٹیکس ختم کر دیا۔ دنیا بھر میں سینیٹری پیڈز پر ویسا ٹیکس نہیں لگایا جاتا جیسا پاکستان میں ہے۔

انھوں کہا کہ یہ ایک افسوسناک حقیقت ہے اُس ملک کے لیے جو آئین میں بنیادی حقوق کا دعویٰ کرتا ہے مگر جہاں وہ حقوق عملی طور پر پورے نہیں کیے جاتےاس کی وجہ بے حس پارلیمنٹیرینز اور سماجی فعالیت (social activism) کی کمزور روایت ہے۔

’ماہواری نارمل ہے بس تم نے کسی کو بتانا نہیں‘بچیوں میں قبل از وقت ماہواری کی وجوہات: ’مجھے 13 سال کی عمر میں ماہواری ہوئی، گمان تھا کہ میری بچی بھی اِسی عمر میں بالغ ہو گی‘انڈین خواتین گھر کے دروازوں پر اپنی ماہواری کے چارٹ کیوں لگا رہی ہیں؟فضائی آلودگی کیسے لڑکیوں کی جلد بلوغت کا سبب بن رہی ہے؟کیا ماہواری کے درد کا بڑھتی عمر سے کوئی تعلق ہے؟ ’30 سال کی عمر گزرنے کے بعد یہ درد بدترین ہو گیا‘پاکستان: ماہواری پر اخراجات ایشیا میں سب سے زیادہ
مزید خبریں

Disclaimer: Urduwire.com is only the source of Urdu Meta News (type of Google News) and display news on “as it is” based from leading Urdu news web based sources. If you are a general user or webmaster, and want to know how it works? Read More