’شوہر کو پسند نہیں تو نہ ملے اپنے کزن سے‘: پاتال ڈرامے میں شوہر کا ’ہاٹ اینڈ کولڈ‘ رویہ اور صارفین کی منقسم آرا

بی بی سی اردو  |  Nov 07, 2025

کسی ڈرامے میں اگر متاثرہ کردار سے ہمدردی اور منفی کردار سے نفرت ہو جائے اور ناظرین کا دل چاہے کہمظلوم کو انصاف ملے یا ظلم کرنے والا کیفر کردار کو پہنچے، تو یہ اُس آرٹ کی کامیابی ہے۔

لیکن اگر کوئی ڈرامہ ناظرین کو دو دھڑوں میں بانٹ دے، جو آپس میں اسی بات پر متفق ہی نہ ہوں کہ ظالم کون ہے اور مظلوم کون، یامنفی کردار اصل میںبُرا ہے بھی یا نہیں، تو یہڈرامہ کی بطور آرٹ کامیابی ہی نہیں بلکہ ایک سماجی خدمت بھی ہے، جس کے تحت جنم لینے والا سوال و جواب کا سلسلہ ’نارمل‘ سمجھے جانے والے رویوں کی نئے سرے سے تشریح کرتا ہے۔

پاکستان میں ’گرین ٹی وی‘ کی جانب سے پیش کیا جانے والا ’پامال‘ ایسا ہی ایک ڈرامہ ہے جس میں میاں بیوی کے مرکزی کرداروں کے بارے میں ناظرین متضاد رائے رکھتے دکھائی دیے ہیں۔

سوشل میڈیا پر ٹرینڈ کرنے والا ڈرامہ ایک خاتون کردار’ملکہ‘ کی کہانی ہے جس نے اپنے آئیڈیل مرد کی شرائط پر بظاہر پورا اُترنے والے ایک امیر شخص ’رضا‘ سے شادی کی ہے۔

لیکن رضا کی جانب سے ’رومانویت‘ میں کنٹرول، غصہ، ملکیت جتانا اور آسانی سے کسی بات پر جل بُھن جانا ملکہ کی شخصیت کو مسخ کر رہے ہیں۔ اس ڈرامہ میں صبا قمر اور عثمان مختار مرکزی کردار میں نظر آئے۔

’مرد معافی مانگتے ہیں نہ غلطی تسلیم کرتے‘

کچھ ناظرین رضا کے اس مزاج کو محبت اور خیال رکھنے والے شوہر سے تعبیر کر رہے ہیں اور اس رویے کو برداشت نہ کرنے پر ملکہ کو ہی تنقید کا نشانہ بنا ہیں۔ اُن کا خیال ہے کہ رضا چونکہ محبت بھی کرتا ہے، ملکہ کو الگ گھر بھی لے دیتا ہے، میکے بھی لے جاتا ہے اور خرچ بھی پورے کرتا ہے تو اِن ’اچھائیوں‘ کے جواب میں ملکہ کا ردعمل برداشت اور تابعداری پر مبنی ہونا چاہیے نہ کہ بحث اور لڑائی پر۔

اُن کے نزدیک چونکہ رضا اپنی غلطی کے بعد معافی مانگ لیتا ہے تو یہ اُس کا ’بڑا پن‘ ہے۔

اورہان احمد نامی ایک صارف نے اس ڈرامے کی ایک قسط کو دیکھنے کے بعد تبصرہ کیا کہ ’اتنا بُرا شوہر بھی نہیں ہے، جتنا ظاہر کرتے ہیں۔ ہمارے معاشرے میں میں نہ تو مرد معافی مانگتے ہیں اور نہ ہی غلطی تسلیم کرتے ہیں۔‘

ڈرامے کی پچھلی قسط میں رضا، ملکہ پر اُس وقت بُری طرح چیختے ہیں جب وہ انھیں بتائے بنا گھر کی قریب واقع مارکیٹ چلی جاتی ہیں۔ ایسا ہی ایک سین وہ ہے جب ملکہ پڑوسن کے کہنے پر گھر میں کام کے لیے ملازمہ کو بُلا لاتی ہیں۔ رضا اس پر بھی بُری طرح چلاتے ہیں اور بعد میں ملکہ کو اِس کی توجیہہ یہ دیتے ہیں کہ وہ اس (ملکہ) کے لیے ’فکرمند‘ ہوتے ہیں اور اُس کا خیال رکھتے ہیں۔

اور جب رضا ملکہ پر اس کے بچپن کے دوست اور کزن سے بات چیت کرنے پر اعتراض کرتے ہیں اور مستقبل میں اُن سے ملنے جُلنے پر پابندی لگاتے ہیں تو وہ اس کی وجہ بھی ملکہ کے لیے اپنی ’محبت ‘ ہی بتاتے ہیں۔

رضا کے یہ الفاظکچھ ناظرین کی نظر میں انھیں اچھا شوہر بنانے کے لیے کافی ہیں اور اب ایسے صارفین ملکہ کی شکایت کو ’ناشکری‘ کے مترادف قرار دے رہے ہیں۔

سوشل میڈیا پر ایک صارف نے لکھا کہ ’جب شوہر کو پسند نہیں ہے تو وہ نہ ملے اپنے کزن سے۔‘ اسی طرح ایک اور صارف نے تبصرہ کیا کہ ’جب پتہ ہے کہ رضا اتنا غصہ کرتا ہے، تو نہ جائے سودا سلف خریدنے۔‘

اسی طرح ایک صارف کا خیال ہے کہ ’پڑوسن کے کہنے پر ملازمہ گھر میں لانے کی ضرورت کیا تھی؟‘ جبکہ ایک صارف نے لکھا کہ ’عورت کو سب کچھ آسانی سے مل جائے تو وہ ملکہ جیسی ہو جاتی ہے۔‘

رضا کی طرفداری کرنے والے صارفین اپنے تبصروں میں ملکہ کی والدہ کے کردار کو بھی سراہتے نظر آتے ہیں جو ڈرامے میں ملکہ کو ہی برداشت اور صبر کی نصیحت کرتی ہیں۔

اس ڈرامے میں رضا کا کردار ملکہ کے لیے لباس کا انتخاب خود کرتا ہے، صرف اپنی مرضی سے اسے میکے لے کر جاتا ہے، وہ اس کی اجازت کے بغیر گھر سے بھی نہیں نکل سکتی اور اگرچہ وہ الگ گھر لے کر بظاہر ملکہ کی خواہش پوری کر رہا ہے لیکن گھر اور اس کے فرنیچر کے انتخاب میں ملکہ کی رائے اور مرضی شامل نہیں ہوتی۔

ڈرامے کی ابتدائی اقساط میں دیکھا جا سکتا ہے کہ رضا کسی بھی وقت ملکہ کو بُری طرح ڈانٹ سکتا ہے، حاملہ ہونے کے باوجود اسے بُری طرح زدوکوب کر سکتا ہے اور اس حد تک کہ اُس کے بازو پر ہاتھ کی مضبوط گرفت کے نشان پڑ جائیں۔

اس پر جب ملکہ ردعمل دیتی ہے تو اسے بتایا جاتا ہے کہ ’بدتمیز‘ ہے۔

’ہاٹ اینڈ کولڈ رویے جو کسی کو ذہنی مریض بنا دیں‘

اس ڈرامے کے بعد تبصروں میں کئی دفعہ کہا گیا ہے کہ مرد تو ایسا کرتے ہی ہیں،یا یہ کہ ’ہماری ماؤں نے بھی ایسی ہی زندگی گزاری ہے۔‘

’کے واچز ڈراماز‘ نامی انسٹا اکاؤنٹ سے ٹی وی ڈراموں پر دلچسپ تبصرے کیے جاتے ہیں۔

اس اکاؤنٹ پر کہا گیا کہ رضا مکمل طور پر کنٹرول چاہنے والا اور طاقت کا متلاشی انسان ہے جسے تکلیف اس بات کی نہیں کہ ملازمہ کیوں رکھی بلکہ مسئلہ یہ ہے کہ اس معاملے میں ملکہ کی مرضی کیسے چلی۔۔۔ ’یہ ہاٹ اینڈ کولڈ رویے کسی کو ذہنی مریض بنا سکتا ہے۔‘

رضا جیسے پارٹنرز کے مزاج میں اپنے ساتھی کے لیے دو طرح کے انتہائی رویے ہوتے ہیں: ایک طرف جہاں وہ بے پناہ محبت نچھاور کرتے نظر آتے ہیں، خوبصورت باتیں اور وعدے کرتے ہیں اور تحائف دیتے ہیں وہیں دوسری انتہا پر وہ مکمل لا تعلقی اور سرد مہری دکھاتے ہیں۔

’ہمیں فقیر بنا دیا گیا ہے‘: پاکستانی ڈرامہ انڈسٹری جہاں ’چیک ملنے میں مہینوں لگ جاتے ہیں‘ڈرامہ ’تن من نیل و نیل‘ کے شجاع اسد: ’مردوں کے ریپ پر اداکار شرمندہ ہوتے ہیں کہ میں یہ کردار کیوں کروں‘شاہ بانو کیس: عمران ہاشمی کی فلم ’حق‘ کے پیچھے کیا کہانی ہے؟پاکستانی ڈراموں میں کزن میرج: ’کہانی چچا، خالہ کی بیٹی سے شادی کے گرد کیوں گھومتی رہتی ہے؟‘

’ہاٹ اینڈ کولڈ‘ کہلائے جانے والے اس رویے کے دوران ایک ساتھی بہت الجھن، مایوسی اور جذباتی خلجان میں مبتلا رہتا ہے۔

رضا میں نرگسیت پسندی کے علاوہ ’ہاٹ اینڈ کولڈ‘ رویے کی کئی مثالیں ہیں۔ وہ ملکہ کو خوشی صرف اپنی سہولت دیکھتے ہوئے دیتا ہے۔

ملکہ پر پابندی ہے کہ وہ میکے میں رات نہیں رہ سکتی، لیکن اگر وہ خود تھکا ہو اور لینے جانے کے موڈ میں نہ ہو تو رُکنے کی اجازت دے دیتا ہے۔

خود ملکہ کے خاندان والوں کو دعوت پر بُلا کر گھر سے غائب ہو سکتا ہے، لیکن اگلے ہی دن انھیں ’سرپرائز ڈنر‘ دے کر ان کی نظر میں اچھا بن سکتا ہے۔

جہاں صارفین کا خیال ہے کہ ملکہ ایک مالدار اور ذمہ دار شخص سے شادی ہونے پر شکر ادا نہیں کر رہی، وہاں وہ یہ نہیں دیکھ پا رہے کہ وہ ملکہ کی مالی خودمختاری مکمل طور ضبط کر چکا ہے۔ وہ خرچ کے پیسے دینا بھول جائے تو ملکہ کے پاس پیسے بھی نہیں ہیں۔

نرگسیت کے مارے ہوئے رویے کی شناخت اس قدر مشکل کیوں ہے؟

کیا وجہ ہے کہپامال ڈرامے میں ملکہہر روز تھوڑا تھوڑا مر رہی ہے لیکن وہ اپنی والدہ سمیت کسی کو بھی اس بات کا یقین نہیں دلا سکتی کہ وہ ایک تلخ تعلق میں ہے۔

مہوش اعجاز ڈرامے کی ناقد ہونے کے ساتھ ساتھ ایک کلینکیل سائیکالوجسٹ بھی ہیں۔

بی بی سی سے بات کرتے ہوئے اُن کا کہنا ہے کہ ’مردوں کے بہت سے رویے جیسے عورتوں پر چیخنا، اُن کو ڈانٹنا، غصہ کرنا نارمل سمجھے جاتے ہیں۔ لڑکیوں کا واسطہ ایسے مرد سے پڑے تو اسے کہا جاتا ہے کہ سب مرد ایسا کرتے ہیں۔ تم پیار سے سمجھاؤ، تم صبر سے دل جیت لو۔ یہ معاشرے میں رائج سوچ ہے۔ اس سوچ کے تحت نرگسیت پسند انسان کو ٹریک کرنا یا اس کی شناخت کرنا مشکل ہے۔‘

اُن کا مزید کہنا ہے ’ہم بالعموم بھی ذہنی صحت پر توجہ نہیں دیتے اور نہ ہی آگاہی ہے۔ نرگسیت پسندی کی پہچان پر کہاں بات ہوتی ہے۔‘

پامال اور حال ہی میں بنائے جانے والے کئی پاکستانی ڈراموں کے متعلق البتہ کہا جا سکتا ہے کہ اب ان پلیٹ فارمز پر ذہنی صحت اور اس سے رشتوں پر پڑنے والے اثرات پر بات کی جا رہی ہے۔

پامال کی خاص بات یہ ہے کہ اس نے ان رویوں کی نشاندہی کی ہے جو ہر طرح سے نرگسیت پسندی یا ہاٹ اینڈ کولڈ رویوں پر پورا اُترتے ہیں، لیکن جنھیں اب تک نارمل ہی سجھا جاتا رہا ہے۔

صبا قمر اور عثمان مختار کی مرکزی کاسٹ، زنجبیل عاصم کی تحریر اور خضر ادریس کی ہدایتکاری میں بننے والا یہ ڈرامہ اس لحاظ سے کافی کامیاب ہے کہ اس نے ذہنی صحت پر بات کو تحریک دی ہے۔

ساتھ ہی اس نقطے پر زیادہ بھرپور توجہ دلائی ہے کہ اپنے ساتھی کے ذہنی مسائل سے پامال ہونے والی عورت اس رشتے میں کسی طرح اپنی لڑائی لڑ بھی لے، خود پر لگی چارج شیٹ کا حساب، اِس معاشرے کو دینا اس کے لیے ناممکن ہی رہتا ہے۔

’ہمیں فقیر بنا دیا گیا ہے‘: پاکستانی ڈرامہ انڈسٹری جہاں ’چیک ملنے میں مہینوں لگ جاتے ہیں‘ڈرامہ ’تن من نیل و نیل‘ کے شجاع اسد: ’مردوں کے ریپ پر اداکار شرمندہ ہوتے ہیں کہ میں یہ کردار کیوں کروں‘شاہ بانو کیس: عمران ہاشمی کی فلم ’حق‘ کے پیچھے کیا کہانی ہے؟پاکستانی ڈراموں میں کزن میرج: ’کہانی چچا، خالہ کی بیٹی سے شادی کے گرد کیوں گھومتی رہتی ہے؟‘رمشا خان کا ’بریانی‘ میں مڈل کلاس لڑکی کا کردار: ’ہیروئن اگر بغیر آستین کے کپڑے پہن لے تو عوام اِس کو تسلیم نہیں کرتے‘جمع تقسیم: ’خطرہ ہمیشہ اجنبیوں سے نہیں ہوتا بلکہ مانوس چہروں کے پیچھے بھی چھپا ہوتا ہے‘
مزید خبریں

Disclaimer: Urduwire.com is only the source of Urdu Meta News (type of Google News) and display news on “as it is” based from leading Urdu news web based sources. If you are a general user or webmaster, and want to know how it works? Read More