ٹرمپ کو بھی سلیوٹ، ممدانی کو بھی سلام

بی بی سی اردو  |  Nov 06, 2025

Getty Images

نہ تو میں امریکی ہوں اور نہ ہی کبھی نیویارک گیا۔ لہٰذا زہران ممدانی امریکہ کے سب سے بڑے شہر کے محروم طبقات کے لیے کیا کرتے ہیں کیا نہیں، میرا کیا لینا دینا۔ پر کیا کروں کہ میں بھی وہ فارغ ترین عبداللہ ہوں جو ہر بیگانی شادی میں دیوانہ ہونے کا کوئی موقع ہاتھ سے نہیں جانے دے سکتا۔

34 برس کے اس جوان کو سب اپنے اپنے چشمے سے دیکھ کر ’اپنا مُنڈا‘ قرار دے رہے ہیں اور جنھیں ممدانی ایک آنکھ نہیں بھا رہا ان کی سمجھ بھی گڑبڑا گئی ہے۔

حریفوںکے نزدیک ممدانی بیک وقت کیمونسٹ بھی ہیں اور جہادی بھی۔ ایسے عاقل مخالفین سے کچھ بعید نہیں کہ وہ غصے میں آئس کریم پر نہاری ڈال کے کھا جائیں۔

یہ بھی ایک پہیلی ہے کہ ممدانی فلسطینیوں کے حامی ہونے کے ناتے اسرائیل دشمن بھی ٹھہرائے جا رہے ہیں مگر نیویارک کا 30 فیصد یہودی ووٹ بھی اڑس چکاہے۔

جماعتِ اسلامی کے ایک پرانے دوست تو اس قدر خوش ہیں کہ سوشلسٹ لبرل سیکولر ڈیموکریٹ ممدانی کی جیت کو سید ابوالاعلی مودودی کی اس پیش گوئی کا پورا ہونا قرار دے رہے ہیںکہ ’ایک وقت آئے گا جب کیمونزم کو ماسکو میں پناہ نہیں ملے گی اور سرمایہ دارانہ نظام واشنگٹن اور نیویارک میں اپنے بچاؤ کے لیے پریشان ہو گا۔‘

کچھ اسماعیلی احباب اس خانہ ساز دعوے پر مطمئن ہیں کہ ممدانی بھلے خود کو اثنا عشری شیعہ کہتا پھرے مگر ددھیال تو اسماعیلی ہی ہے نا۔

ایک شیعہ دوست اس قدر خوش ہوئےکہ انھوں نے اے آئی کی مدد سے سوشل میڈیا پیج پر نیویارک کے مجسمۂ آزادی کے ہاتھ سے مشعل غائب کر کے ذوالفقار (حضرت علی کی متبرک تلوار) تھما دی ۔

اس پر مجھے 1970 کے پہلے عام انتخابات کا ایک پوسٹر یاد آ گیا جس میں سموں سے چنگاریاں نکالتے گھوڑے پر براجمان جناح کیپ پہنے سوٹڈ بوٹڈ ذوالفقار علی بھٹو کے ایک ہاتھ میں ذوالفقار اور دوسرے ہاتھ میں وہ سفید پرچم جس پر جلی حروف میں درج تھا ’نصر من اللہ وفتح قریب۔‘

Getty Images

55 سال پہلے جو لوگ ایسے جہادی پوسٹروں سے متاثر ہوئے بغیر بھٹو کی مسلمانی کو چیلنج کر رہے تھے انھی لوگوں کے نظریاتی وارثآج زہران ممدانی کی بھٹو جیسی بائیں بازو والی سوچکو ایک دل موہ ادا سمجھ کے سراہا رہے ہیں۔

آج کی پیپلز پارٹی کے کچھ قدیم جیالے بھی یہ تصور کر کے چپرغٹو ہوئے جا رہے ہیں کہ ممدانی نے بھی اپنی ایک تقریر میں فخرِ ایشیا قائدِ عوامکی طرح روٹی کپڑے، مکان کی بات کی ہے۔ زرداری بھلے بھول گیا ہو مگر سات سمندر پار ممدانی میں زندہ ہے، بھٹو زندہ ہے۔

اور جن امریکی اور بھارتی بھگتوں اور سیوکوں کو ممدانی کی نصف مسلمانیت بھی ہضم نہیں ہو رہی وہ ممدانی کی معروف فلم میکر ہندو والدہ کے احترام میں کھل کے برا بھلا بھی نہیں کہہ پا رہے۔

ممدانی کےوالد مسلمان ہونے کے ساتھ ساتھ گجراتی بھی ہیں تو ددھیال پر دشنام ترازی بھی آسان نہیں۔ آخر مودی جی بھی تو گجراتی ہیں۔ کہیں تو کیا کہیں اور کیسے کہیں۔

رما دواجی: نیویارک کے نومنتخب میئر زہران ممدانی کی اہلیہ جنھیں ان کے دوست ’دور جدید کی شہزادی ڈیانا‘ قرار دیتے ہیںغزالہ ہاشمی: حیدرآباد سے تعلق رکھنے والی ورجینیا کی پہلی مسلمان لیفٹیننٹ گورنر کون ہیں؟زہران ممدانی: نیویارک کے پہلے مسلمان میئر کون ہیں اور ان کا سیاسی سفر کیسا رہازہران ممدانی: نیویارک کے پہلے مسلمان میئر جو کبھی ’مسٹر الائچی‘ کے نام سے جانے جاتے تھے

دلی کے سابق وزیرِ اعلیٰ اروند کیجری وال یہ سوچ کے خوش ہیں کہ جو چمتکار میں نے دلی میں چند سال پہلے کر دکھایا ممدانی آج نیویارک میں اسے کاپی کرنے کا سوچ رہا ہے ( مفت ٹرانپسورٹ، بجلی، پانی، سستی تعلیم و صحت وغیرہ وغیرہ)۔

کچھ کانگریسی یہ کوڑی لائے ہیں کہ ممدانی جو آج پرچار کر رہا ہے اس میں نیا کیا ہے۔ سوشلسٹ پنڈت نہرو بھی تو تین چوتھائی صدی پہلے یہی کہہ رہے تھے۔

البتہ براک اوباما کے کینیا کنکشن کی طرح ممدانی کی افریقیت پر نیویارک کے سیاہ فام ووٹر قائل ہیں کیونکہ ممدانی کمپالا میں پیدا ہوئے اور نیویارک آنے سے پہلے کا بچپن کیپ ٹاؤن میں گذرا۔ بس ایک ڈونلڈ ٹرمپ ہیں جنھیں اوباما کی طرح ممدانی کا بھی سمجھ میں نہیں آ رہا کہ وہ کس سیارے سے ہیں اور انھیں کس خانے میں فٹ کیا جاوے؟

ہمارے ہاں ممدانی پر میڈیا اتنا فوکسڈ رہا ہے کہ رپبلکن پارٹی کے روایتی گڑھ ورجینیا کی لیفٹیننٹ گورنری چھیننے والی ڈیموکریٹ امیدوار غزالہ ہاشمی پر بہت کم بات ہوئی۔ حالانکہ وہ ورجینیا کی پہلی خاتون اور پہلی نجیب الطرفین انڈیان نژاد مسلم حیدرآبادی نائب گورنر ہیں۔

بی جے پی کے حامی میڈیا کا روّیہ بھی غزالہ ہاشمی کی تاریخی کامیابی کے بارے میں بس لیا دیا سا ہے۔

Getty Images

آندھرا اور تلنگانہ والوں کو چھوڑ کے دیگر انڈین مسلمان بوجوہ کھل کے خوشی ظاہر نہیں کر پا رہے جبکہ پاکستانی میڈیا شاید اس لیے غزالہ ہاشمی کو ممدانی کی طرح سیلیبریٹ نہیں کر سکا کہ ابھی ابھی تو انڈیا کے ساتھ مسلح مڈھ بھیڑ ہوئی ہے۔ جانے اوپر والے کیا سوچیں؟

چنانچہ متوازن میڈیا کوریج کا تقاضا ہے کہ پاکستان نواز ٹرمپ کو بھی سراہا جائے اور زہران ممدانی کی عوام دوستی کو بھی سلام کیا جائے۔ دونوں حضرات ایک دوسرے کی کتنی عزت کرتے ہیں یہ ان کا گھریلو معاملہ ہے۔

شاید آپ کو یاد ہو کہ جب صادق خان پہلی بار لندن کے میئر بنے تب آج سے زیادہ مسرتی ماحول تھا۔ ایک تو مسلمان اوپر سے پاکستانی نژاد اور وہ بھی لندن کا۔

مگر کچھ لوگ ہر جگہ پائے جاتے ہیں جو نہ خود خوش ہوتے ہیں نہ کسی اور کو دیکھ سکتے ہیں۔ انھیں مسرت کے دودھ میں مینگنیاں ڈال کے ہی سکون ملتا ہے۔

بھلا اب یہ بھی کرنے کی بات ہے کہ اگر زہران ممدانی پاکستان میں اینٹی اسٹیبلشمنٹ منشور پر اسی طرح الیکشنلڑتا تو الیکشن کمیشن کی جانب سے اس کی کامیابی کے باضابطہ اعلان کے کتنے امکانات ہوتے؟ جیت بھی جاتا تو کب تک اپنے پیروں پر ٹکتا۔ ہار جاتا تو کہاں رکھا جاتا وغیرہ وغیرہ۔

کوئی کچھ بھی کہے مگر یہ تو ثابت ہو گیا کہ ہم کھلے دل کے لوگ ہیں۔ زہران ممدانی کے نسلی، نظریاتی و مذہبی ڈانڈے بھلے جو بھی ہوں مگر وہ ہمیں اپنا اپنا سا لگتا ہے۔ بشرطیکہ کوئی ازقسمِ نوبیل انعام یافتہ ڈاکٹرعبدالسلام اور آسکر ایوارڈ یافتہ امریکی اداکار مہر شالا علینہ ہو۔ خدانخواستہ ایسا ہوتا تو فضائل ِزہران ممدانیکاہے کو ایسی تفصیل سے بیان ہو پاتے۔

یعنی عبداللہ دیوانہ ضرور ہے پر ایسا بھینہیں کہ ہر بیگانی شادی میں آؤ تاؤ دیکھے بغیر کود پڑے۔

ٹرمپ کی مخالفت اور ’فنڈز میں کٹوتی‘ کی دھمکیوں کے باوجود زہران ممدانی نیویارک میں اتنے مقبول کیوں؟صدر ٹرمپ کا پاکستان سمیت دیگر ممالک پر جوہری تجربے کرنے کا الزام: ’وہ زیر زمین تجربے کرتے ہیں، مگر بتاتے نہیں‘انڈیا اور امریکہ کے درمیان 10 سالہ دفاعی فریم ورک: کیا اسلام آباد کو پریشان ہونے کی ضرورت ہے؟ٹرمپ نے ’فلسطینی منڈیلا‘ کی رہائی کی امید پیدا کر دی: اسرائیلی قید میں موجود مروان البرغوثی کون ہیں؟پاکستان اور افغان طالبان کے درمیان مذاکرات میں شامل ترک انٹیلیجنس سربراہ ابراہیم قالن کون ہیں؟
مزید خبریں

Disclaimer: Urduwire.com is only the source of Urdu Meta News (type of Google News) and display news on “as it is” based from leading Urdu news web based sources. If you are a general user or webmaster, and want to know how it works? Read More