Getty Images
پاکستان میں گذشتہ سال اکتوبر میں 26ویں آئینی ترمیم کی منظوری کے بعد اب 27ویں آئینی ترمیم پر مشاورت شروع ہو چکی ہے جس کے ذریعے آئینی عدالت کے قیام، قومی مالیاتی کمیشن کے تحت صوبائی شیئر کم کرنے پر پابندی کے خاتمے اور مسلح افواج سے متعلق آئین کے آرٹیکل 243 میں تبدیلی سمیت کئی امور زیرِ غور ہیں۔
پیر کو پاکستان پیپلز پارٹی کے چیئرمین بلاول بھٹو زرداری کا کہنا ہے کہ وزیرِ اعظم شہباز شریف نے 27ویں آئینی ترمیم کی منظوری کے لیے ان کی پارٹی کی حمایت کی درخواست کی ہے۔
پیر کے روز بلاول بھٹو نے اپنے ایکس اکاؤنٹ سے جاری ایک بیان میں کہا کہ پاکستان مسلم لیگ ن کا ایک وفد وزیرِ اعظم شہباز شریف کی سربراہی میں ان سے اور صدر آصف علی زرداری سے ملا اور پیپلز پارٹی سے 27ویں آئینی ترمیم کی منظوری کے لیے حمایت کی درخواست کی۔
ان کے مطابق 27ویں آئینی کے لیے مندرجہ ذیل تجاویز زیرِ غور ہیں:
آئینی عدالت کا قیامایگزیکٹیو مجسٹریٹسججوں کے تبادلے کا اختیارقومی مالیاتی کمیشن (این ایف سی) میں صوبائی شیئر کو حاصل تحفظ کا خاتمہمسلح افواج سے متعلق آرٹیکل 243 میں ترمیمتعلیم اور بہبود آبادی کی وزارتوں کی وفاق کو دوبارہ منتقلیچیف الیکشن کمشنر کی تعیناتی پر موجود ڈیڈ لاک کا خاتمہ
بلاول بھٹو کا کہنا ہے کہ صدر زرداری کی دوحہ سے واپسی پر چھ نومبر کو اس معاملے پر پیپلز پارٹی کی سینٹرل ایگزیکٹیو کمیٹی کا اجلاس ہو گا۔
دریں اثنا بلاول بھٹو زرداری نے چھ نومبر کو بلاول ہاؤس کراچی میں پیپلز پارٹی کی سینٹرل ایگزیکٹو کمیٹی کا اجلاس طلب کیا ہے جہاں ایک اعلامیے کے مطابق ’ملک کی مجموعی سیاسی صورت حال پر غور ہو گا۔‘
وزیر مملکت برائے قانون بیرسٹر عقیل ملک کا کہنا ہے کہ آئین و قانون میں جو بہتری درکار ہوتی ہے اس کے لیے بات چیت جاری رہتی ہے۔
جیو نیوز سے گفتگو کرتے ہوئے انھوں نے کہا کہ آئینی عدالت کا قیام 26ویں آئینی ترمیم کے ایجنڈے کا حصہ تھا جبکہ مسلح افواج سے متعلق آرٹیکل 243 میں تبدیلی اس لیے زیرِ غور ہے کیونکہ آرمی چیف عاصم منیر کو دیے گئے فیلڈ مارشل کے اعزاز کو ’آئینی کوور‘ دینے کی ضرورت ہے۔
ان کا مزید کہنا تھا باضابطہ طور پر تاحال 27ویں ترمیم کے لیے کسی مسودے پر کام شروع نہیں کیا گیا مگر بات چیت چل رہی ہے۔ انھوں نے تصدیق کی کہ بلاول بھٹو کے بتائے گئے نکات پر بات چیت جاری ہے۔
اس تحریر میں ہم نے یہ جاننے کی کوشش کی ہے 27ویں آئینی ترمیم کے لیے زیرِ غور تجاویز کیا ہیں اور حکومت یہ ترمیم کیوں لانا چاہتی ہے۔
Getty Imagesآئینی عدالت کے قیام سمیت عدالتی اصلاحات کا معاملہ
جیو نیوز سے گفتگو کرتے ہوئے وزیر مملکت برائے قانون بیرسٹر عقیل ملک کا کہنا تھا کہ سب سے اہم معاملہ آئینی عدالت کی تشکیل کا ہے کیونکہ یہ تنقید ہوتی ہے کہ ’عدالت کے اندر عدالت قائم ہے، آئینی بینچ نہیں ہونا چاہیے۔‘
’یہ ایک غیر حل شدہ ایجنڈا ہے۔ 26ویں آئینی ترمیم کے وقت پر بھی آئینی عدالت کا قیام زیرِ غور تھا۔‘
پاکستان میں آئینی اور پارلیمانی اُمور کے ماہر اور پلڈاٹ کے سربراہ احمد بلال محبوب کی رائے ہے کہ بظاہر 26ویں آئینی ترمیم کا ’اِن فنشڈ ایجنڈا‘ اب 27ویں آئینی ترمیم کے ذریعے حل کرنے کی کوشش کی جا رہی ہے۔
ان کا کہنا تھا کہ 26ویں آئینی ترمیم کے پہلے مسودے میں موجود بہت سی چیزیں بعد میں نکل گئی تھیں۔ ’اس وقت حکومت کے پاس جے یو آئی کے بغیر اتنے نمبر نہیں تھے، اس لیے جے یو آئی کے اس اعتراض کو قبول کرنا پڑا، خاص طور پر آئینی عدالت کا قیام، جس کی جگہ آئینی بینچ بنایا گیا تھا۔‘
وہ کہتے ہیں کہ اب حکومت کے پاس پیپلز پارٹی کی حمایت کی صورت میں اتنے نمبرز ہوں گے کہ وہ آئینی عدالت قائم کر سکیں۔ ’آئینی بینچ آدھا تیتر آدھا بٹیر والی بات ہے۔ وہ اسے آئینی عدالت کے بین الاقوامی ماڈل کے تحت کرنا چاہیں گے۔‘
26 ویں آئینی ترمیم کی منظوری سے کسے کیا ملا؟علیمہ خان، اسٹیبلشمنٹ یا امن و امان: عمران خان نے علی امین گنڈاپور کو ہٹانے کا فیصلہ کیوں کیا؟آئی ایس آئی کے سربراہ لیفٹیننٹ جنرل عاصم ملک اپنے عہدوں پر کام جاری رکھیں گےتحریک لبیک کا عروج، مریدکے آپریشن اور حکومتی کریک ڈاؤن: ٹی ایل پی کا مستقبل کیا ہو گا؟
ادھر وکیل فیصل صدیقی کا خیال ہے کہ حکومت اس لیے عدالتی اصلاحات لانا چاہتی ہے کیونکہ اب بھی ’ایسے آزاد ججز موجود ہیں جو بعض اوقات شور مچاتے ہیں۔‘
وہ کہتے ہیں کہ اس تناظر میں آئینی عدالت کا قیام اور ججز کے تبادلے کا اختیار اہم پیشرفت ہو گی۔ انھوں نے اس خدشے کا اظہار کیا کہ 27ویں آئینی ترمیم کے ذریعے اختلاف کرنے والے ججز کے تبادلے کیے جا سکتے ہیں یا انھیں غیر متعلقہ بنایا جا سکتا ہے۔
دریں اثنا وزیر مملکت برائے قانون بیرسٹر عقیل کا یہ بھی کہنا ہے کہ ایگزیکٹو کے انتظامی اختیارات کو ضلعی و مقامی سطح تک لے جانا ہو گا تاکہ پرائس کنٹرول اور دو سال سے کم سزاؤں جیسے چھوٹے جرائم کا عدالتوں پر کم بوجھ ہو اور تاخیر کا مسئلہ پیدا نہ ہو۔
Getty Imagesاین ایف سی میں صوبوں کا شیئر، تعلیم و آبادی
این ایف سی میں صوبائی شیئر کو حاصل تحفظ کے خاتمے کی تجویز کے بارے میں بیرسٹر عقیل نے کہا ہے کہ اس کے لیے سیاسی اتفاق رائے درکار ہے جو کہ اتحادیوں کے ساتھ پیدا کیا جا رہا ہے۔
ان کا کہنا تھا کہ صوبائی شیئر 18ویں ترمیم میں طے کیا گیا تھا مگر اب اسے موجودہ حالت کے مطابق ڈھالنے کی ضرورت ہے۔ ’صوبوں کے شیئر اور اس کی تقسیم کو اُسی فارمولے کے اوپر بھی دیکھا جا سکتا ہے۔ اس پر دو، تین تجاویز زیرِ غور ہیں۔‘
ان کا یہ بھی کہنا تھا کہ آبادی اور تعلیم پر بھی بات چیت چل رہی ہے۔ ’تعلیم میں قومی حکمت عملی اپنانی چاہیے۔۔۔ آبادی میں اضافے کے مسئلے کو بھی حل کرنا ضروری ہے۔ ہر سال آبادی میں بڑا اضافہ ہوتا ہے۔ اس پر وفاقی حکمت عملی درکار ہوگی۔‘
انھوں نے کہا کہ پاکستان پائیدار ترقیاتی اہداف کے لیے اقوام متحدہ کے 2030 کے اہداف کو مانتا ہے جس میں معیاری تعلیم کا وعدہ کیا گیا ہے۔ ان کے مطابق نصاب اور معیار کے اعتبار سے صوبوں میں یکسانیت نہیں ہے۔
انھوں نے کہا کہ نصاب کی وقافی نگرانی ہونی چاہیے۔
آئینی امور کے ماہر احمد بلال محبوب کا کہنا ہے کہ فی الحال قومی مالیاتی کمیشن میں صوبوں کے شیئر کم کرنے پر پابندی ہے۔ وہ کہتے ہیں کہ وفاقی حکومت چاہے موجودہ ہو، پی ڈی ایم کا دور ہو یا تحریک انصاف، سبھی اس میں ترمیم کرنا چاہتے تھے لیکن ان کے پاس اتنے نمبر نہیں تھے۔
وہ کہتے ہیں کہ حکومت چاہے گی کہ این ایف سی آزاد ہو تاکہ حالات کے مطابق صوبوں کا شیئر بڑھا سکے، کم کر سکے یا برقرار رکھ سکے۔
ان کا کہنا ہے کہ 18ویں ترمیم میں لکھا گیا تھا کہ ساتویں این ایف سی ایوارڈ کے اندر صوبوں کے جو شیئر متعین ہو گئے ہیں، انھیں کم نہیں کیا جا سکتا۔ ’اس وقت صوبوں کے حصے میں قومی مالیاتی کمیشن نے 52.5 فیصد حصہ مقرر کیا تھا جس میں (آئینی ترمیم کے بغیر) کمی نہیں کی جا سکتی ہے۔‘
احمد بلال محبوب کہتے ہیں کہ ’لیکن اب چونکہ مالی حالات خراب ہو چکے ہیں۔۔۔ تو اب وفاق کی ضروریات پوری نہیں ہو پاتی ہیں اور صوبوں کے پاس زیادہ پیسے چلے جاتے ہیں۔‘
تاہم وہ کہتے ہیں کہ صوبوں کے پاس یہ پیسے جانے کا جواز بھی موجود ہے کیونکہ 18ویں ترمیم کے تحت صوبوں کے اختیارات بڑھا دیے گئے تھے جس کے لیے اضافی فنڈز کی ضرورت ہے۔ ’لیکن وفاق کو بھی اس کی ضرورت ہے۔ وفاق کے تحت دفاع کی اہم ذمہ داری ہے۔‘
وہ اس جانب اشارہ کرتے ہیں کہ پاکستان کی انڈیا کے ساتھ مئی میں فوجی جھڑپوں اور حالیہ عرصے کے دوران افغانستان سے کشیدگی کی وجہ سے ’دفاع کی اہمیت کئی گنا بڑھ گئی ہے اور وفاق کی دفاعی اخراجات کی ضرورت بھی بڑھ گئی ہے۔‘
انھوں نے کہا کہ پیپلز پارٹی کے لیے یہ آسان فیصلہ نہیں ہوگا کیونکہ یہی جماعت 18ویں ترمیم لائی تھی مگر وہ بھی ’وفاع کے تقاضوں سے غافل نہیں رہ سکتے۔‘
احمد بلال محبوب کا کہنا تھا کہ ماضی میں فوج کا اس پر موقف رہا ہے، مثلاً سابق آرمی چیف جنرل باجوہ کے دور میں بھی یہ تجویز دی گئی تھی کہ صوبوں کے شیئر کم کرنے پر پابندی نہیں ہونی چاہیے۔
وہ مزید بتاتے ہیں کہ تعلیم کو وفاق کے تابع کرنے کا جواز سمجھ آتا ہے کہ چاروں صوبوں میں تعلیمی نظام میں یکسانیت ہونی چاہیے مگر آبادی کو کیوں صوبوں سے لے کر وفاق کے تابع کرنا ضروری ہے، اس کا جواب مسودے آنا کے بعد ہی مل سکے گا۔ ان کی رائے ہے کہ پیپلز پارٹی کے لیے یہ بھی ایک چیلنج ہوگا کیونکہ انھوں نے ہی یہ دونوں چیزیں صوبوں کے زیرِ انتظام قانون سازی میں شامل کی تھیں۔
قانونی ماہر فیصل صدیقی بھی اس بات سے متفق ہیں کہ پیپلز پارٹی این ایف سی سے متعلق تجویز پر اختلاف کر سکتی ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ اسٹیبلشمنٹ کا یہ مسئلہ ہے کہ 18ویں ترمیم کے ذریعے اختیارات وفاق کے بجائے صوبوں کے پاس چلے گئے ہیں مگر وہ چاہتے ہیں کہ اختیارات دوبارہ وفاق کے پاس جائیں۔
’پیسے صوبوں کے پاس چلے جاتے ہیں۔ وفاقی حکومت سمجھتی ہے کہ کچھ شعبے اسی کے پاس ہونے چاہییں۔‘
Getty Imagesچیف الیکشن کمشنر کی تعیناتی
وزیر مملکت برائے قانون کا یہ بھی کہنا تھا کہ شہباز شریف کی حکومت نئے چیف الیکشن کمشنر کی تعیناتی کے لیے موجود ڈیڈ لاک ختم کرنا چاہتی ہے۔
اگرچہ ان کا کہنا تھا کہ آئین میں واضح ہے کہ اس عہدے پر تعیناتی کے لیے اپوزیشن لیڈر سے مشاورت کی جاتی ہے تاہم ’ڈیڈلاک جاری رہتا ہے تو اسے حل کرنا بھی ضروری ہے۔ اب اگر اپوزیشن لیڈر نہ ہو اور وہ چیز تاخیر کا شکار ہو رہی ہے تو کم از کم ان حالات میں بھی آپ کو راستہ نکالنا ہوتا ہے۔‘
موجودہ چیف الیکشن کمشنر سکندر سلطان راجہ کی پانچ سالہ مدت ملازمت 2025 میں ختم ہونا تھی مگر نئے چیف الیکشن کمشنر کی تعیناتی تعطل کا شکار ہے۔ 26ویں آئینی ترمیم کے بعد چیف الیکشن کمشنر اور کمیشن کے ارکان ریٹائرمنٹ کے بعد بھی آئندہ تقرری ہونے تک اپنے عہدے پر کام جاری رکھ سکتے ہیں۔
اگست 2025 کے دوران الیکشن کمیشن کے جاری کردہ اعلامیے کے مطابق قومی اسمبلی میں اپوزیشن لیڈر عمر ایوب کو نااہل قرار دیا گیا تھا۔ اس سے قبل فیصل آباد میں انسداد دہشت گردی کی ایک عدالت نے نو مئی کے واقعات سے متعلق ایک کیس میں عمر ایوب کو 10 سال قید کی سزا سنائی تھی۔
تاحال قومی اسمبلی میں نئے اپوزیشن لیڈر کی تعیناتی نہیں ہو سکی ہے۔
واضح رہے کہ آئین کے مطابق چیف الیکشن کمشنر کی تعیناتی کے لیے پہلے مرحلے میں وزیرِاعظم اور قومی اسمبلی میں اپوزیشن لیڈر مشاورت کرتے ہیں۔ چیف الیکشن کمشنر کے تقرر کے لیے تین نام پارلیمانی کمیٹی کو کسی ایک کی توثیق کے لیے بھیجے جاتے ہیں۔
وزیر اعظم اور اپوزیشن لیڈر کے درمیان اتفاق رائے نہ ہونے کی صورت میں دونوں علیحدہ فہرستیں پارلیمانی کمیٹی کے غور کے لیے بھیجتے ہیں جو ان میں سے کسی ایک نام کی منظوری دیتے ہیں۔
پارلیمانی کمیٹی سپیکر کی جانب سے تشکیل دی جاتی ہے جس میں مجموعی طور پر 12 ارکان ہوتے ہیں۔ ان میں سے نصف حکومتی بینچوں اور انصف اپوزیشن جماعتوں سے تعلق رکھنے والے ارکان ہوتے ہیں۔
آرٹیکل 243 میں مجوزہ ترمیم کیا ہے اور اس کی ضرورت کیوں؟
بیرسٹر عقیل کا کہنا ہے کہ آرٹیکل 243 میں مجوزہ ترمیم کو حتمی شکل نہیں دی گئی ہے مگر فی الحال یہ واضح ہے کہ فیلڈ مارشل کے عہدے کو ’آئین میں لانا ضروری ہے۔‘
خیال رہے کہ آرٹیکل 243 مسلح افواج کی کمانڈ سے متعلق ہے۔ اس میں درج ہے کہ صدر مملکت مسلح افواج کے سپریم کمانڈر ہیں جو وزیر اعظم کے ساتھ مشاورت سے مسلح افواج کے سربراہان کا تقرر کرتے ہیں اور ان کی تنخواہیں اور مراعات کا تعین کرتے ہیں۔
آرٹیکل 243 میں مجوزہ ترمیم سے متعلق بیرسٹر عقیل کا کہنا تھا کہ 1973 کے آئین کے بعد پہلی بار ہوا ہے کہ وزیر اعظم شہباز شریف نے آرمی چیف عاصم منیر کو فیلڈ مارشل کے عہدے کا اعزاز دیا ہے اور اب اسے ’آئینی کوور‘ دینا ضروری ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ اس عہدے کو ’آئین میں تسلیم کرنا چاہیے۔‘
بی بی سی سے بات کرتے ہوئے آئینی و قانونی ماہر احمد بلال محبوب نے بھی وزیر مملکت برائے قانون کی دلیل کو دہراتے ہوئے کہا کہ چونکہ آرمی چیف کی فیلڈ مارشل کے عہدے پر ترقی ہو چکی ہے، اس لیے اسے ’آئینی کوور دینے کی ضرورت ہے۔‘
مگر وہ کہتے ہیں کہ آیا آرٹیکل 243 میں مجوزہ ترمیم یہیں تک محدود ہوگی، اس کے بارے میں مسودہ تیار کیے جانے کے بعد ہی پتا چل سکے گا۔
بی بی سی سے بات کرتے ہوئے قانونی امور کے ماہر وکیل فیصل صدیقی نے رائے دی کہ 27ویں آئینی ترمیم کے لیے دیگر تجاویز محض ’کیموفلاج ہیں۔ اس کا بنیادی مقصد آرٹیکل 243 میں ترمیم ہے۔‘
وہ مزید کہتے ہیں کہ اس تجویز پر دونوں جماعتوں مسلم لیگ ن اور پیپلز پارٹی میں کوئی اختلاف نہیں ہوگا کہ آرمی چیف کی مدت ملازمت کو آئینی تحفظ مل جائے۔
ان کا خیال ہے کہ اس مجوزہ ترمیم کا فیلڈ مارشل کے عہدے سے براہ راست تعلق نہیں کیونکہ یہ اعزازی عہدہ ہے۔ ’اصل عہدہ آرمی چیف کا ہے جس کی مدت ملازمت آرمی ایکٹ میں درج ہے۔‘
فیصل صدیقی نے اس امکان کا اظہار کیا کہ 27ویں آئینی ترمیم کے ذریعے آرمی چیف کی مدت ملازمت کو آئینی تحفظ دیا جا سکتا ہے۔
وہ ماضی کی مثالیں دیتے ہوئے کہتے ہیں کہ ’جنرل ضیا الحق نے آٹھویں آئینی ترمیم کے ذریعے اپنی مدت ملازمت کو آئینی تحفظ دیا تھا اور اس کے متن میں اپنا نام بھی ڈال دیا تھا جبکہ فوجی صدر پرویز مشرف نے 17ویں ترمیم کے ذریعے خود کو آئینی تحفظ دیا تھا اور آئین میں ڈیول آفس کا قانون ڈالا تھا۔‘
فیصل صدیقی نے کہا کہ گذشتہ برس پاکستان آرمی ایکٹ میں ترمیم کے ذریعے آرمی چیف کی مدت ملازمت بڑھائی گئی تھی لیکن تعیناتی کے وقت آرمی چیف عاصم منیر کا تین سال کا نوٹیفیکیشن جاری ہوا تھا، اس لیے انھیں دوبارہ نوٹیفیکیشن جاری کرنے کی ضرورت ہو سکتی ہے جس میں یہ وضاحت کی جائے گی کہ ’کیا ان کی مدت ملازمت دو سال تک بڑھی ہے یا پھر پانچ سال کے لیے انھیں دوبارہ اس عہدے پر تعینات کیا جا رہا ہے؟‘
خیال رہے کہ نومبر 2024 کے دوران پاکستانی پارلیمان کے دونوں ایوانوں قومی اسمبلی اور سینیٹ نے مسلح افواج کے سربراہان کی مدت ملازمت تین سال سے بڑھا کر پانچ سال کرنے کی منظوری دی تھی۔
اس وقت وزیر دفاع خواجہ آصف نے کہا تھا کہ پاکستان کے آرمی چیف جنرل عاصم منیر نومبر 2027 تک اس عہدے پر موجود رہیں گے جس سے ’نظام کو تسلسل ملے گا۔‘
26 ویں آئینی ترمیم کی منظوری سے کسے کیا ملا؟پی ٹی آئی کو ’مشکل وقت میں‘ چھوڑنے والے رہنما عمران خان کی رہائی کے لیے سرگرم: ’سیاسی درجہ حرارت کم کرنا ہوگا‘تحریک لبیک کا عروج، مریدکے آپریشن اور حکومتی کریک ڈاؤن: ٹی ایل پی کا مستقبل کیا ہو گا؟سیاسی مخالفتیا مقامی آبادی کا بے گھر ہونے کا خوف: پاکستانی فوج کو شدت پسندوں کے خلاف لڑائی میں کِن چیلنجز کا سامنا ہے؟علیمہ خان، اسٹیبلشمنٹ یا امن و امان: عمران خان نے علی امین گنڈاپور کو ہٹانے کا فیصلہ کیوں کیا؟آئی ایس آئی کے سربراہ لیفٹیننٹ جنرل عاصم ملک اپنے عہدوں پر کام جاری رکھیں گے