فیصل آباد میں 17 برس بعد انٹرنیشنل کرکٹ کی واپسی: جس پچ کے بارے میں ڈینس للی نے کہا ’مر جاؤں تو مجھے اس کے نیچے دفنایا جائے‘

بی بی سی اردو  |  Nov 03, 2025

Getty Imagesاقبال سٹیڈیم میں پاکستان اور انڈیا کی ٹیموں کے درمیان سنہ 2006 میں ٹیسٹ میچ کھیلا گیا

گیارہ اپریل سنہ 2008 کی شب پاکستان کے مستند مڈل آرڈر بلے باز محمد یوسف، بنگلہ دیشی سپنر عبدالرزاق کا سامنا کر رہے تھے۔ پاکستان بنگلہ دیش کے خلاف بارش سے متاثرہ اس میچ میں ہدف کا تعاقب کر رہا تھا جب لیگ سائیڈ پر گرنے والی گیند کو وکٹ کیپر بھی نہ روک سکے اور وہ باؤنڈری لائن پار کر گئی۔۔۔ یوں پاکستان سات وکٹوں سے یہ میچ جیت گیا۔

بارش کے باوجود فیصل آباد کا اقبال سٹیڈیم تماشائیوں سے بھرا ہوا تھا اور ان کے وہم و گمان میں بھی نہیں تھا کہ دوبارہ انھیں بین الاقوامی کرکٹ میچ دیکھنے کے لیے 17 برس کا طویل انتظار کرنا پڑے گا۔

اگلے برس مارچ سنہ 2009 میں لاہور کے قذافی سٹیڈیم سے کچھ دُور سری لنکن کرکٹ ٹیم پر حملے نے جہاں پاکستان کے لیے بین الاقوامی کرکٹ کے دروازے بند کر دیے تو فیصل آباد کا اقبال سٹیڈیم بھی ویران ہو گیا۔

سنہ 2015 میں زمبابوے کی ٹیم محدود اوورز کی سیریز کھیلنے پاکستان آئی تو پاکستان کے لیے بین الاقوامی کرکٹ کے دروازے کھلنے لگے، لیکن اقبال سٹیڈیم فیصل آباد اس کے باوجود 10 سال تک بین الاقوامی کرکٹ سے محروم رہا۔

اس دوران فیصل آباد میں ڈومیسٹک میچز اور ٹی ٹوئنٹی ایونٹس تو ہوتے رہے، لیکن بین الاقوامی کرکٹ کے لیے یہ وینیو پی سی بی کی نظروں سے اوجھل رہا۔

لیکن اب آخرکار 17 برس بعد ایک بار پھر پاکستان کے تیسرے بڑے شہر کے شائقین بین الاقوامی کرکٹ سے اپنا ناطہ دوبارہ جوڑ رہے ہیں جو 11 اپریل سنہ 2008 کی شب ٹوٹ گیا تھا۔

پاکستان اور جنوبی افریقہ کی ٹیمیں تین ون ڈے میچز کی سیریز کے لیے فیصل آباد میں ہیں۔ سیریز کا پہلا میچ منگل کو کھیلا جائے گا۔ دوسرا میچ چھ نومبر جبکہ تیسرا اور آخری میچ آٹھ نومبر کو اسی گراؤنڈ میں کھیلا جائے گا۔

یوں تو پاکستان کرکٹ ٹیم اس گراؤنڈ میں کئی یادگار کامیابیاں سمیٹ چکی ہے جبکہ کچھ میچز میں اسے شکست کا بھی سامنا کرنا پڑا۔

لیکن اس گراؤنڈ میں ہونے والے کچھ تنازعات بھی تاریخ کا حصہ ہیں جس میں امپائر شکور رانا اور انگلش کپتان مائیک گیٹنگ کے درمیان تلخ کلامی نے دونوں ملکوں کے تعلقات کو بھی خطرے میں ڈال دیا تھا۔

لیکن اس سے پہلے یہ جانتے ہیں کہ اقبال سٹیڈیم 17 برس سے بین الاقوامی کرکٹ سے کیوں محروم رہا؟ اس میں کیا تبدیلیاں کی گئی ہیں اور یہ گراؤنڈ اب کس حالت میں ہے۔

Getty Imagesاقبال سٹیڈیم 17 برس سے بین الاقوامی کرکٹ سے کیوں محروم رہا؟

سپورٹس جرنلسٹ عمر فاروق کہتے ہیں کہ سنہ 2009 میں سری لنکن ٹیم پر حملے کے بعد پاکستان میں بین الاقوامی کرکٹ کے دروازے بند ہو گئے تھے۔

بی بی سی سے گفتگو کرتے ہوئے اُن کا کہنا تھا کہ اس دوران لاہور اور کراچی کے علاوہ دیگر سٹیڈیمز نظرانداز ہوتے رہے اور وہاں کی حالت خراب تھی۔

اُن کے بقول جب سنہ 2017 اور 2018 میں پاکستان میں بین الاقوامی کرکٹ کی بحالی شروع ہوئی تو تمام وینیوز میں کام شروع کیا گیا۔

وہ کہتے ہیں کہ ابتداً لاہور اور کراچی کو سکیورٹی کلیئرنس دی گئی کیونکہ وہ بڑے شہر ہیں اور وہاں زیادہ بہتر ہوٹلز اور دیگر سہولیات موجود ہیں۔

عمر فاروق کہتے ہیں کہ بعد میں راولپنڈی اور ملتان کو شامل کیا گیا اور اب فیصل آباد کے اقبال سٹیڈیم میں بھی بین الاقوامی کرکٹ بحال ہو رہی ہے۔

وہ کہتے ہیں کہ فیصل آباد کے بعد پاکستان میں پانچ بین الاقوامی وینیوز ہو جائیں گے جہاں بین الاقوامی کرکٹ اب مکمل طور پر بحال ہو جائے گی۔

فیصل آباد میں 17 سال بعد انٹرنیشنل کرکٹ کی واپسی کا اعلان: وہ گراؤنڈ جہاں انگلش کپتان نے پاکستانی امپائر سے معافی مانگی تھیدبئی میں نوکری چھوڑنے کے بعد پاکستانی ٹیم کا حصہ بننے والے عثمان طارق اور ان کے غیر معمولی بولنگ ایکشن کی کہانیلاکھوں مالیت کی کلیکشن، انڈین فینز اور روبک کیوب حل کرنے کا جنون: گوجرانوالہ کے یوٹیوبر نے ایک ویڈیو کی آمدن سے گاڑی خریدی’مسئلہ بابر اعظم میں نہیں، مبصرین کے شور میں ہے‘اب بھی کئی سٹینڈز میں شائقینِ کرکٹ کو کنکریٹ پر بیٹھ کر میچ دیکھنا پڑے گا

پاکستان کرکٹ بورڈ کے مطابق اقبال سٹیڈیم فیصل آباد کی تزئین و آرائش کا کام ایک برس قبل ہی شروع کر دیا گیا تھا۔

حکام کا کہنا ہے کہ انکلوژرز کی مرمت، ڈریسنگ رومز کو بین الاقوامی معیار کے مطابق بنانے، بیٹنگ اور بولنگ کے لیے سازگار پچز اور سرسبز و شاداب آؤٹ فیلڈ کی تیاری کے لیے کئی ہفتوں سے کام جاری تھا۔

لیکن کرکٹ شائقین کو یہ شکایت ہے کہ کئی دہائیوں سے شائقین کرکٹ کے بیٹھنے کے لیے مناسب بندوبست نہیں کیا گیا اور اب بھی کئی سٹینڈز میں کرسیوں کے بجائے شائقینِ کرکٹ کو کنکریٹ پر بیٹھ کر میچ دیکھنا پڑے گا۔

فیصل آباد کے اقبال سٹیڈیم میں گنجائش کی بات کی جائے تو یہاں مجموعی طور پر 17 ہزار شائقین کرکٹ بیٹھ سکتے ہیں۔

Getty Imagesاقبال سٹیڈیم میں کھیلے گئے یادگار میچز اور تنازعات

اقبال سٹیڈیم میں جہاں کئی یادگار اور سنسنی خیز میچز کھیلے گئے، وہیں سنہ 1987 میں پاکستانی امپائر شکور رانا اور پاکستان کے دورے پر موجود انگلش ٹیم کے کپتان مائیک گیٹنگ کے درمیان تنازع نے دونوں ملکوں کے سفارتی تعلقات خطرے میں ڈال دیے تھے۔

نو دسمبر 1987 کو فیصل آباد ٹیسٹ کے دوسرے روز اُس وقت کھیل رُک گیا جب انگلش کپتان مائیک گیٹنگ اور امپائر شکور رانا، ایک دوسرے کے قریب آئے اور دونوں کے درمیان سخت جملوں کا تبادلہ ہوا۔

مائیک گیٹنگ نے شکور رانا پر ناقص امپائرنگ اور پاکستان کرکٹ ٹیم کے حق میں فیصلے دینے کا الزام لگایا جبکہ مائیک گیٹنگ کا کہنا تھا کہ شکور رانا نے ان پر دھوکہ دہی کا الزام لگایا ہے۔

شکور رانا نے تیسرے دن کھیل شروع کرنے سے انکار کر دیا اور یہ مطالبہ کیا کہ انگلینڈ کے کپتان ان سے معافی مانگیں اور یہی مطالبہ گیٹنگ بھی کرتے رہے۔

تیسرے دن کا کھیل شروع نہیں ہو سکا۔ انگلینڈ کے مینیجر، کپتان اور کھلاڑیوں نے یہ دھمکی دی کے وہ دورہ ختم کر رہے ہیں۔ حالات اس قدر خراب ہوگئے کہ پاکستان بورڈ کے صدر جنرل صفدر بٹ نے انگلینڈ کے مینیجر سے ملنے سے انکار کر دیا۔

لندن میں انگلینڈ کے کرکٹ بورڈ نے یہ حکم دیا کہ کپتان کو معافی مانگنی چاہیے۔ بالآخر مائیک گیٹنگ کو معافی مانگنا پڑی۔

جب چوتھے دن کھیل شروع ہوا تو پاکستان جس کی حالت بہتر نہ تھی، میچ بچانے میں کامیاب ہو گیا۔

انگلینڈ کے کرکٹ بورڈ کے تمام اراکین پاکستان پہنچ گئے کہ کہیں ایسا نہ ہو کہ انگلینڈ کی ٹیم کراچی میں تیسرا ٹیسٹ کھیلنے سے انکار کر دے۔

بہرحال جب انگلینڈ کی ٹیم واپس گئی تو گیٹنگ صرف کچھ عرصہ ہی کپتان رہے پھر انھیں ہٹا دیا گیا۔

BBC

امپائر شکور رانا اب اس دنیا میں نہیں ہیں۔ وہ اپنے دفاع میں ہمیشہ کہتے تھے کہ ’مجھے انگریزی زبان زیادہ نہیں آتی تو میں گنی چنی انگریزی کی گالیاں انگلینڈ کے کپتان کو کیسے دے سکتا ہوں۔ میں تو وہی الفاظ دہراتا تھا جو انگلینڈ کے کپتان مجھے کہہ رہے تھے۔ مجھے کیا پتہ یہ خراب گالیاں تھیں۔‘

سنہ 1984 میں اسی گراؤنڈ پر پاکستان نے انڈیا کے خلاف ٹیسٹ میں 674 رنز بنائے۔ اسی گراؤنڈ میں سنہ 1990 میں وقار یونس نے نیوزی لینڈ کے خلاف 130 رنز کے عوض 12 وکٹیں حاصل کیں۔

پاکستان کو سنہ 1997 میں اسی گراؤنڈ میں جنوبی افریقہ کے خلاف شکست کا سامنا کرنا پڑا جب ٹیسٹ میں 145 رنز کے ہدف کے جواب میں پاکستان کی پوری ٹیم 92 رنز پر ڈھیر ہو گئی۔

سنہ 2006 میں پاکستان اور انڈیا کے درمیان یہاں ٹیسٹ میچ بھی کھیلا گیا جو بغیر کسی نتیجے کے ختم ہو گیا۔

Getty Imagesجب ڈینس للی نے کہا کہ ’میں مروں تو مجھے اس پچ کے نیچے دفنا دیا جائے‘

پاکستان اور آسٹریلیا کی ٹیمیں 6 مارچ 1980 کو دوسرے ٹیسٹ میچ کے لیے فیصل آباد کے اقبال سٹیڈیم میں اُتریں۔

آسٹریلیا نے پہلی اننگز میں 617 رنز کا پہاڑ جیسا ٹوٹل بنا ڈالا جس کے جواب میں پاکستان نے بھی دو وکٹوں کے نقصان پر 382 رنز بنائے اور یوں یہ میچ ہار جیت کے فیصلے کے بغیر ختم ہو گیا۔

آسٹریلوی پیسر ڈینس للی نے 21 اوور میں 91 رنز دیے اور اُن کے ہاتھ کوئی وکٹ نہیں آئی۔ یہ وہ وقت تھا جب ڈینس للی کا کرکٹ کی دُنیا میں ڈنکا بجتا تھا اور وہ وکٹوں کے انبار لگا رہے تھے، لیکن فیصل آباد کی سست اور بلے بازوں کے لیے سازگار وکٹ پر اُن کی ایک نہ چلی۔

پاکستان کے وکٹ کیپر بلے باز تسلیم عارف نے 379 گیندوں پر 210 رنز بنائے۔

میچ کے اختتام پر پچ سے متعلق ڈینس للی کا تاریخی جملہ آج بھی مشہور ہے جس میں اُنھوں نے کہا کہ ’اگر میں مر جاؤں تو مجھے اس پچ کے نیچے دفنا دیا جائے۔‘

بعدازاں نوے کی دہائی میں فیصل آباد کی پچ پر کچھ گھاس چھوڑنے کی وجہ سے یہ بولنگ کے لیے بھی سازگار ہوئی اور خاص طور پر فاسٹ بولرز کو اس سے مدد ملنے لگی۔ لیکن مجموعی طور پر ماہرین اقبال سٹیڈیم کی پچ کو بیٹنگ کے لیے سازگار ہی قرار دیتے ہیں۔

دبئی میں نوکری چھوڑنے کے بعد پاکستانی ٹیم کا حصہ بننے والے عثمان طارق اور ان کے غیر معمولی بولنگ ایکشن کی کہانی’مسئلہ بابر اعظم میں نہیں، مبصرین کے شور میں ہے‘قانونی نوٹس پھاڑنے کے بعد ملتان سلطانز کے مالک علی ترین نے ’رنجشیں دور کرنے کے لیے‘ محسن نقوی کو خط لکھ دیاآئی پی ایل سے موازنہ، تنازعات، ’ریلو کٹوں‘ کے طعنے اور اب دو نئی ٹیمیں: پاکستان سپر لیگ کے 10 سال کی کہانیلاکھوں مالیت کی کلیکشن، انڈین فینز اور روبک کیوب حل کرنے کا جنون: گوجرانوالہ کے یوٹیوبر نے ایک ویڈیو کی آمدن سے گاڑی خریدی
مزید خبریں

تازہ ترین خبریں

Disclaimer: Urduwire.com is only the source of Urdu Meta News (type of Google News) and display news on “as it is” based from leading Urdu news web based sources. If you are a general user or webmaster, and want to know how it works? Read More