Getty Images
لال نیلے طوطے، دلکش رنگوں والے مور، سبز مینڈک اور رنگ برنگی مچھلیاں۔۔۔ دنیا میں شوخ اور دلکش رنگوں والے جانوروں کی بھرمار ہے۔
تاہم کچھ جانور ایسے بھی ہیں جن میں یہ خوش نما رنگوں کی کمی نمایاں نظر آتی ہے کیونکہ ان کے جسم پر رنگ بالکل نہیں ہوتے اور وہ بلیک اینڈ وائٹ (صرف سیاہ اور سفید) ہوتے ہیں۔
ایسے سیاہ و سفید جانور چین کے گھنے جنگلات سے لے کر افریقہ کے صحراؤں تک دنیا کے مختلف خطوں میں پائے جاتے ہیں۔
اگرچہ ان کا ظاہری رنگ ایک جیسا لگتا ہے مگر اس کی وجوہات بہت مختلف ہو سکتی ہیں۔
Getty Imagesسفید و سیاہ لکیریں زیبروں کو گھاس کے کیڑوں سے بچانے میں مدد دیتی ہیںکیڑے مکوڑوں کو دور رکھنے میں مددگار
یونیورسٹی آف برسٹل انگلینڈ میں کی گئی ایک تحقیق کے مطابق زیبرے کی سیاہ اور سفید لکیریں کیڑوں کے کاٹنے سے بچاتی ہیں۔
تحقیق کے مصنف اور ویژوئل ایکولوجی کے ماہر ڈاکٹر مارٹن ہاؤ کہتے ہیں کہ ’ایسا کوئی واضح یا منطقی سبب نظر نہیں آتا کہ زیبرا کے جسم پر یہ اتنی نمایاں لکیریں کیوں ہیں۔ ان کی افادیت ہمیشہ میرے لیے دلچسپی کا باعث رہی ہے۔‘
تحقیق میں بتایا گیا کہ مادہ ہارس فلائیز (مخصوص نسل کے کیڑے جو سبزے میں موجود ہوتے ہیں) خون چوسنے کے لیے زمین پر موجود جانوروں کو کاٹتی ہیں اور سائنسدانوں کا خیال ہے کہ یہی زیبرا کی کھال کو سمجھنے کی اہم کڑی ہو سکتی ہے۔
ڈاکٹر مارٹن ہاؤ کے مطابق ’یہ مکھیاں واقعی بہت خطرناک ہوتی ہیں، چاہے وہ کوئی بیماری نہ بھی پھیلائیں۔ لیکن اگر وہ جراثیم زدہ ہوں اور آپ کو افریقہ کے میدانوں میں کاٹ لیں تو یہ زندگی اور موت تک کا مسئلہ بن سکتا ہے۔‘
انھوں نے مزید وضاحت کی کہ ’مچھر عام طور پر اپنے شکار کو سونگھ کر تلاش کرتے ہیں، لیکن ہارس فلائیز زیادہ تر دیکھ کر پہچانتی ہیں۔‘
محققین نے یہ نظریہ پیش کیا کہ شاید زیبرا کی سیاہ و سفید دھاریاں کسی طرح ہارس فلائیز کو ان پر کاٹنے سے روکتی ہیں۔
اس مفروضے کو پرکھنے کے لیے انھوں نے تجربہ کیا جس میں گھوڑوں پر مختلف رنگوں کے کمبل ڈالے گئے۔ کچھ نے سرمئی کمبل پہنے جب کہ کچھ کو سیاہ و سفید دھاری دار کمبل پہنائے گئے تاکہ دیکھا جا سکے کہ مکھیاں کس طرف زیادہ متوجہ ہوتی ہیں۔
Gamma-Rapho via Getty Imagesمادہ ہارس فلائیز خون چوسنے کے لیے زمین پر موجود جانوروں کو کاٹتی ہیں
ڈاکٹر مارٹن ہاؤ کے مطابق انھوں نے تجربے میں دیکھا کہ ہارس فلائیز یعنی خون چوسنے والے یہ مکھی نما کیڑےعام طور پر سرمئی کمبل پہنے گھوڑوں پر جا کر بیٹھ جاتے۔
لیکن جب گھوڑوں کو زیبرا جیسی دھاری دار کمبلیں پہنائی گئیں تو مکھیاں سیدھی جا کر ان کے قریب پہنچنے کے بجائے اچانک رخ موڑ لیتی تھیں اور گھوڑے پر بیٹھی ہی نہیں۔
ڈاکٹر ہاؤ کے مطابق ’آپ مکھی کو دیکھ سکتے ہیں کہ وہ قریب آتی ہے اور پھر جیسے سوچتی ہے کہ رکو، یہ تو وہ نہیں جو میں چاہتی تھی اور پھر ایک طرف ہٹ کر آگے نکل جاتی ہے۔‘
انھوں نے مزید کہا کہ ان کی ٹیم نے مختلف نقش و نگار والے کمبلوں کے ساتھ بھی تجربات کیے۔
’نتیجہ یہ نکلا کہ تقریباً ہر سیاہ و سفید پیٹرن مؤثر ثابت ہوا یعنی جو کمبل زیبرا کی دھاریوں کے سائز اور انداز کے قریب تھاخون چوسنے والی مکھیاں ان پر بیٹھنے سے گریز کرتی تھیں۔‘
ڈاکٹر ہاؤ کے مطابق اس کی ایک ممکنہ وجہ یہ ہے کہ ہارس فلائیز کی بینائی بہت کمزور ہوتی ہے۔
’جب وہ دور فاصلے سے آ رہی ہوتی ہیں،تو ان کی نظر میں گھوڑا محض ایک سرمئی سا دھبہ دکھائی دیتا ہے لیکن جب وہ تقریباً دو میٹر کے فاصلے پر پہنچتی ہیں تب ان کی آنکھیں سیاہ اور سفید نقش کو الگ الگ پہچاننے لگتی ہیں۔‘
انھوں نے مزید بتایا کہ ’جب وہ کسی ہموار سرمئی شے کو اچانک ایک پیٹرن والے جسم کے طور پر دیکھتی ہیں تو یہ تبدیلی غالباً ان کی سمجھ بوجھ کو الجھا دیتی ہے، اور یہی وجہ ہے کہ وہ کاٹنے کے بجائے اڑ جاتی ہیں۔‘
شیر اور بکرے کی دوستی، آخر یہ ماجرا کیا ہے؟شیر اور چیتے کی افزائش نسل: شوق بھی، کاروبار بھیوہ آٹھ جانور جنھیں ہم کبھی نہیں دیکھ سکیں گےدنیا میں سانپوں کی دس خطرناک ترین اقسام: ’ان لینڈ پائیتھن کے منھ سے خارج ہونے والا زہر 100 لوگوں کو ہلاک کرنے کے لیے کافی ہے‘شکاری جانوروں سے چھپنے میں مدد
اگرچہ خیال کیا جاتا ہے کہ زیبرا کا سیاہ اور سفید رنگ اسے کیموفلاج (چھلاورن) میں مدد فراہم نہیں کرتا تاہم پانڈا جیسے جانوروں کو یہ شیر، چیتے اور جنگلی کتوں جیسے شکاریوں سے چھپنے میں مدد دیتا ہے۔
برسٹل یونیورسٹی شی تعلق رکھنے والے پروفیسر ٹم کیرو جانوروں کی رنگت کے ماہر ہیں۔ وہ بتاتے ہیں کہ ’مغربی چین کے جنگلات میں، آپ کو سال کے مخصوص اوقات میں برف، چٹانوں اور درختوں کے تنوں کے سیاہ اور سفید دھبے سے دکھائی دیتے ہیں۔‘
ان کا کہنا ہے کہ ایسے میں 50 میٹر یا 100 میٹر کے فاصلے سے دیکھنے میں پانڈا جیسے سست رفتار جانور کو آس پاس کے سیاہ و سفید پس منظر میں دیکھ پانا کافی مشکل ہے۔
Getty Imagesپانڈا کا سیاہ اور سفیند رنگ انھیں شکاری جانوروں سے چھپنے میں مدد فراہم کرتا ہے۔
ماہرین کا کہنا ہے کہ شاید کیموفلاج کی وجہ سے ہی جینٹو پینگوئن کا رنگ سیاہ اور سفید ہوتا ہے۔ یہ پینگوئن کی ایک ایسی نسل ہے جس کی کمر اور پر کالے جبکہ پیٹ سفید ہوتا ہے۔
ڈاکٹر ہینا رولینڈ شمالی انگلینڈ کی لیورپول یونیورسٹی کے شعبہ ارتقا، ماحولیات اور طرز عمل میں سینئر لیکچرر ہیں۔ وہ کہتی ہیں کہ ’جب جانوروں کو نیچے کی جانب سے دیکھا جاتا ہے، تو ان کے ہلکے رنگ کے پیٹ روشن آسمان کے ساتھ گھل مل جاتے ہیں۔‘
’اور جب انھیں اوپر سے سیاہ پس منظر میں دیکھا جاتا ہے، خاص طور پر پانی میں… تو وہ آس پاس کے ماحول میں گھل مل جاتے ہیں۔‘
خطرے کی علامت
کچھ جانوروں کے سیاہ اور سفید ہونے کی ایک اور وجہ یہ ہوتی ہے کہ یہ رنگ ایک خطرے کی علامت کے طور پر بھی کام کرتے ہیں جیسے زہریلے ڈارٹ مینڈکوں کے چمکدار رنگ جو دوسرے جانوروں کو پہلے سے خبردار کر دیتے ہیں۔
Getty Imagesسکنک کے سیاہ اور سفید ہونے کی ایک وجہ ان کی جانب سے دوسرے جانوروں کو خبردار کرنا بھی ہو سکتا ہے
پروفیسر کیرو کے مطابق، سکنک اپنے بچاؤ میں ایک مواد چھوڑتے ہیں جس کی نا صرف بو انتہائی ناگوار ہوتی ہے بلکہ یہ خطرناک بھی ہوتا ہے۔ سکنک نیولے جیسا ایک چھوٹا گوشت خور جانور ہوتا ہے جو امریکہ میں پایا جاتا ہے۔
’وہ شکاری جانوروں سے کہہ رہے ہوتے ہیں: دیکھو، میں سیاہ اور سفید ہوں، تم مجھ پر حملہ کرنا نہیں چاہو گے کیونکہ میں بہت خطرناک ہوں۔‘
ان کا کہنا ہے کہ اس نظریے کی تائید اس حقیقت سے ہوتی ہے کہ جن علاقوں میں شکاری جانور زیادہ ہوتے ہیں وہاں سکنک کی دھاریاں زیادہ واضح ہوتی ہیں۔
اپنے جیسے جانوروں کو اشارے دینا
پروفیسر کیرو کا کہنا ہے کہ لیمرز جیسے جانوروں میں یہ سیاہ اور سفید نشانات دوسرے جانوروں کو اشارہ کرنے اور گروہی ہم آہنگی کی حوصلہ افزائی کا ایک طریقہ بھی ہو سکتے ہیں۔
Getty Imagesلیمرز اپنہ سیاہ اور سفید دم کو ایک دوسرے کو اشارہ دینے کے لیے استعمال کرتے ہیں۔
لیمرز خود تو بھورے رنگ کے ہوتے ہیں لیکن ان کی دم کالی اور سفید دھاری دار ہوتی ہے جسے چلتے ہوئے وہ ہوا میں بلند رکھتے ہیں۔
’ہمیں شبہ ہے کہ جب وہ ایک گروپ کے طور پر آگے بڑھ رہے ہوتے ہیں تو وہ اس دم کو کھڑا کر کے چلتے ہیں۔ ہمارے خیال میں یہ ایک اشارہ ہوتا ہے 'میں یہاں ہوں، براہ کرم میرے پیچھے چلیں۔‘
فطرت میں ایسی دیگر مثالیں بھی ملتی ہیں جیسے کہ ٹائگرز کے کانوں کی پشت پر سفید دھبے۔
پروفیسر کیرو کا کہنا ہے کہ ممالیہ جانوروں میں پائے جانے والے ان اشاروں میں سے کچھ کا تعلق شاید گروہی ہم آہنگی سے ہے۔
Getty Imagesسائنس کے پاس کوئی واضح جواب نہیں’سائنس کے پاس کبھی واضح جواب نہیں ہوتا‘
جانوروں کی سیاہ اور سفید رنگت کے متعلق دیگر نظریات بھی پائے جاتے ہیں۔
ڈاکٹر رولینڈ کے مطابق، جینٹو پینگوئنز کی پیٹھ پر پائے جانے والے سیاہ پر نہ صرف انھیں کیموفلاج میں مدد فراہم کرتے ہیں بلکہ ان میں میلانین نامی روغن بھی وافر مقدار میں ہوتا ہے جو ان کے پروں کو نقصان سے بچنے میں مدد فراہم کرتے ہیں۔
اس کے علاوہ، مختلف رنگ انھیں ان کے جسم کے درجہ حرارت کو منظم کرنے میں بھی مدد دے سکتے ہیں۔
ڈاکٹر رولینڈ کہتی ہیں کہ سیاہ سطحیں سفید سطحوں کے مقابلے میں گرمی کو زیادہ آسانی سے جذب کر سکتی ہیں۔
’[پینگوئن] اکثر سورج کی طرف پیٹھ پھیر لیتے ہیں، یا جب درجہ حرارت بڑھ جاتا ہے تو وہ اپنے پیٹ کو دھوپ کی طرف موڑ لیتے ہیں۔‘
لیکن سچ تو یہ ہے کہ ہم یقین کے ساتھ کچھ بھی نہیں کہہ سکتے۔
ڈاکٹر رولینڈ کے مطابق اکثر یہ وجوہات کا ایک بہت پیچیدہ مرکب ہوتا ہے۔
’سچ کہا جائے تو سائنس کے پاس کبھی بھی سیاہ اور سفید جواب نہیں ہوتا ہے۔‘
’کوبرا کے کٹے ہوئے سر نے ڈس لیا‘: کیا سانپ اپنی موت کے بعد بھی کاٹ سکتا ہے؟’جے اور ویرو‘: جنگل میں ’علاقے کی لڑائی‘ جو یہاں راج کرنے والے شیروں کی طاقتور جوڑی توڑنے کا باعث بنیانڈیا میں مُرغی نے دیا ’نیلا انڈہ‘: ڈاکٹروں کو دوبارہ اس ’انہونی‘ کا انتظارمگرمچھوں کو چیر ڈالنے والی شیرنی جس کی موت انتہائی بے بسی کی حالت میں ہوئیکیا مصنوعی ذہانت پاکستان میں برفانی تیندوے کو معدومیت سے بچا سکتی ہے؟کراچی جو کبھی خونخوار تیندووں کے شکار کا ’بہترین مقام‘ تھا