بنگلہ دیش کی حکومت نے انڈین میڈیا پر شائع ہونے والے اُن رپورٹس کی تردید کی ہے جن میں دعویٰ کیا گیا ہے کہ عبوری حکومت کے سربراہ محمد یونس نے حالیہ ملاقات کے دوران پاکستان کے چیئرمین جوائنٹ چیفس آف سٹاف کمیٹی جنرل ساحر شمشاد مرزا کو جو کتاب بطور تحفہ دی تھی اُس کے سرورق پر موجود بنگلہ دیش کے نقشے میں انڈیا کے چند حصوں کو شامل کیا گیا ہے۔
اپنے بیان میں بنگلہ دیش کی عبوری حکومت نے وضاحت کی ہے کہ ساحر شمشاد مرزا کو دی گئی کتاب کے ’سرورق پر موجود نقشہ گرافٹی انداز میں بنایا گیا ہے، اس لیے کچھ لوگ یہ سمجھ سکتے ہیں کہ اس میں بنگلہ دیش کے اصل نقشے سے معمولی فرق ہے۔ لیکن یہ دعویٰ کہ اس میں انڈیا کے شمال مشرقی علاقے کو شامل کیا گیا ہے، بالکل جھوٹ اور بے بنیاد ہے۔‘
یاد رہے کہ پاکستان کے چیئرمین جوائنٹ چیفس آف سٹاف کمیٹی جنرل ساحر شمشاد مرزا بنگلہ دیش کے دورے پر تھے اور اسی سلسلے میں انھوں نے 25 اکتوبر (سنیچر) کی شام عبوری حکومت کے سربراہ محمد یونس سے ملاقات کی تھی۔
اس ملاقات کے موقع پر لی گئی کئی تصاویر عبوری حکومت کے سربراہ محمد یونس کے آفیشل سوشل میڈیا اکاؤنٹس سے جاری کی گئی تھیں اور بتایا گیا تھا کہ ملاقات کے دوران ’بنگلہ دیش اور پاکستان کے درمیان تعلقات سے متعلق وسیع تر امور پر تبادلہ خیال کیا گیا، جن میں دو طرفہ تجارت، سرمایہ کاری اور دفاعی تعاون‘ شامل ہیں۔
اِسی ملاقات کے دوران جنرل ساحر شمشاد مرزا کو محمد یونس کی جانب سے وہ کتاب تحفتاً پیش کی گئی جس پر انڈیا میں بہت سے صارفین کو اعتراض ہوا۔
اس کتاب سے متعلق بنگلہ دیش کی عبوری حکومت کی جانب سے بتایا گیا ہے کہ ’ڈاکٹر محمد یونس نے پاکستانی جنرل کو ’دی آرٹ آف ٹرایمف‘ کے عنوان سے ایک کتاب تحفے میں دی، جس میں (بنگلہ دیش میں) جولائی 2024 کی عوامی بغاوت کے دوران ملک بھر کی دیواروں پر طلبا کی جانب سے بنائے گئے رنگ برنگے اور متنوع گرافٹی فن پارے شامل ہیں۔‘
مزید کہا گیا کہ ’یہ مجموعہ جولائی (2024) کی بغاوت پر مبنی ایک تصویری دستاویزی کتاب ہے، جو طلبا اور عوام کی قربانیوں سے حاصل کی گئی انقلابی تحریک کی تاریخی جھلکیاں پیش کرتی ہے۔‘
اس کتاب کے سرورق پر بنگلہ دیش کا خون سے رنگا نقشہ دکھایا گیا ہے جو کہ ایک معروف گرافٹی ہے، تاہم اس پر انڈیا کی جانب سے شدید ردعمل سامنے آیا ہے۔
انڈین میڈیا کا دعویٰ ہے کہ اس کتاب کے سرورق پر بنگلہ دیش کا جو نقشہ موجود ہے اس میں انڈیا کی شمال مشرقی ریاستوں کے بعض حصوں کو بنگلہ دیش کا حصہ دکھایا گیا ہے۔ انڈین سرکاری ٹیلی ویژن دور درشن پر پیش کیے جانے والے ایک پروگرام میں الزام عائد کیا گیا کہ بنگلہ دیش میں طلبا کی بغاوت کے بعد انڈیا مخالف سرگرمیاں ہو رہی ہیں۔
اسی پروگرام میں یہ دعویٰ کیا گیا کہ اب بنگلہ دیش میں ’انڈیا کے مخالفین کا پرتپاک استقبال‘ کیا جا رہا ہے اور انھیں ایک انتہائی متنازع کتاب اور نقشہ تحفے میں دیا گیا ہے۔
اس پروگرام میں یہ دعویٰ بھی کیا گیا کہ محمد یونس یہ کتاب اب تک 12 سے زیادہ ممالک کے سربراہان مملکت کو تحفے میں دے چکے ہیں جو کہ ایک بڑا سفارتی اشارہ ہو سکتا ہے۔ تاہم عبوری حکومت نے اپنے بیان میں کہا ہے کہ ’محمد یونس یہ کتاب اقوام متحدہ کے سیکریٹری جنرل، سابق امریکی صدر جو بائیڈن، اور کینیڈا کے وزیرِاعظم جسٹن ٹروڈو سمیت کئی عالمی رہنماؤں کو تحفے میں دے چکے ہیں۔‘
یاد رہے کہ بنگلہ دیش میں شیخ حسینہ کی حکومت کے خاتمے کے بعد سے تعلقات کشیدہ ہیں۔ اپنی حکومت کے خاتمے کے بعد شیخ حسینہ فرار ہو کر انڈیا چلی گئی تھیں اور فی الحال وہیں مقیم ہیں۔
انڈیا کا نقشوں سے متعلق اپنے پڑوسی ممالک کے ساتھ تنازع نیا نہیں ہے۔ گذشتہ سالوں میں نیپال کے ساتھ بھی نقشے کے متعلق تنازع سامنے آيا تھا جبکہ پاکستان اور چین کے ساتھ تو ایک متنازع سرحد اُن کے درمیان جھڑپوں کا باعث بھی بنی رہی ہے۔
شمشاد مرزا اور محمد یونس کی ملاقات کے دوران کیا ہوا؟
محمد یونس کے سوشل میڈیا ہینڈل سے ملاقات کی تفصیلات جاری کی گئی ہیں۔
اس میں بتایا گیا ہے کہ بنگلہ دیش کے دورے پر آئے ہوئے پاکستان کے چیئرمین جوائنٹ چیفس آف سٹاف کمیٹی جنرل ساحر شمشاد مرزا نے سنیچر (25 اکتوبر) کو رات گئے سٹیٹ گیسٹ ہاؤس ’جمنا‘ میں چیف ایڈوائزر پروفیسر محمد یونس سے رسمی ملاقات کی۔
بیان کے مطابق ’ملاقات کے دوران، انھوں نے بنگلہ دیش اور پاکستان کے درمیان تعلقات سے متعلق وسیع تر امور پر تبادلہ خیال کیا، جن میں دو طرفہ تجارت، سرمایہ کاری اور دفاعی تعاون کی بڑھتی ہوئی اہمیت شامل ہے۔‘
’دونوں ممالک کے درمیان مشترکہ تاریخی، ثقافتی اور عوام کے درمیان تعلقات پر زور دیتے ہوئے جنرل مرزا نے متعدد شعبوں میں تعاون کو مضبوط بنانے کی پاکستان کی خواہش کا اظہار کیا۔‘
کیا انڈیا کے ساتھ تناؤ بنگلہ دیش کی قیادت کو پاکستان اور چین کے قریب لے آیا ہے؟’1971 سے پہلے کے پرانے تعلقات کی طرف واپسی‘: کیا بنگلہ دیش کے ساتھ بگڑتے روابط انڈیا کے لیے نیا درد سر ہیں؟
اس بیان میں مزید بتایا گیا کہ اس موقع پر جنرل مرزا نے کہا کہ ’دونوں ممالک ایک دوسرے کا ساتھ دیں گے۔ انھوں نے مزید کہا کہ کراچی اور چٹاگانگ کے درمیان دو طرفہ جہاز رانی کے راستے پر پہلے ہی کام شروع ہو چکا ہے، جبکہ ڈھاکہ سے کراچی کے درمیان ہوائی راستے کی آنے والے مہینوں میں کھلنے کی امید ہے۔‘
’انھوں نے مختلف خطوں میں امن و استحکام کو نقصان پہنچانے کے لیے غیر ریاستی عناصر کی جانب سے غلط معلومات کے بڑھتے ہوئے چیلنج اور سوشل میڈیا کے غلط استعمال پر بھی تبادلہ خیال کیا۔‘
نقشے پر تنازع اور وضاحت
اس ملاقات کی تصاویر سامنے آنے کے بعد انڈیا ٹوڈے کی ایک رپورٹ میں الزام عائد کیا گیا کہ انڈیا اور میانمار کے کچھ حصوں کے ساتھ ایک نام نہاد ’گریٹر بنگلہ دیش‘ دکھائے جانے والے متنازع نقشے کے پیچھے ’سلطنت بنگلہ‘ نامیتنظیم ہے۔
یاد رہے کہ سب سے پہلے اس کتاب پر موجود نقشہ ڈھاکہ یونیورسٹی میں دکھایا گیا تھا، جس پر اتنا ہنگامہ ہوا کہ انڈیا کے وزیر خارجہ ایس جے شنکر نے راجیہ سبھا (ایوان بالا) میں کانگریس کے رکن پارلیمنٹ رندیپ سنگھ سرجے والا کے سوال کے جواب میں ایک تحریری بیان جاری کیا۔
وزیر خارجہ نے کہا تھا کہ ’حکومت ان تمام پیش رفتوں کی قریب سے نگرانی کر رہی ہے جن کا انڈیا کی قومی سلامتی سے تعلق ہے اور اس کی حفاظت کے لیے تمام ضروری اقدامات کیے جائیں گے۔‘
انھوں نے کہا تھا کہ ’حکومت نے ان رپورٹس کا نوٹس لیا ہے کہ ڈھاکہ میں ایک اسلام پسند گروپ ’سلطنت بنگلہ‘، جسے ترکی کی ایک این جی او کی حمایت حاصل ہے، نے نام نہاد ’گریٹر بنگلہ دیش‘ کا نقشہ پیش کیا ہے جس میں انڈیا کے کچھ حصے شامل ہیں۔ یہ نقشہ ڈھاکہ یونیورسٹی میں دکھایا گیا تھا۔‘
بعدازاں بنگلہ دیش کی حکومت کے حقائق کی جانچ کرنے والے پلیٹ فارم ’بنگلہ فیکٹ‘ نے دعوی کیا ہے کہ بنگلہ دیش میں ’سلطنتِ بنگلہ‘ جیسی کسی تنظیم کے کام کرنے کے کوئی شواہد نہیں ہیں۔
یاد رہے کہ انڈیا اور بنگلہ دیش کے درمیان کوئی بھی زمینی تنازع نہیں ہے، جو تھوڑے بہت تنازعات رہے تھے وہسنہ 1974 کے لینڈ باؤنڈری معاہدے اور اس کے بعد سنہ 2015 کے پروٹوکول کے ذریعے طے پا گئے تھے۔
ان معاملات پر اپنا ردعمل دیتے ہوئے بنگلہ دیش کی عبوری حکومت کا کہنا ہے کہ ’27 اکتوبر کو انڈیا ٹوڈے نے ایک رپورٹ میں دعویٰ کیا کہ ڈاکٹر محمد یونس نے پاکستان کے چیئرمین جوائنٹ چیفس آف سٹاف کمیٹی جنرل ساحر شمشاد مرزا کو ایک ایسا نقشہ پیش کیا جس میں بنگلہ دیش کے نقشے میں انڈیا کے شمال مشرقی علاقے کو بھی دکھایا گیا ہے۔ یہ دعویٰ بالکل غلط اور من گھڑت ہے۔‘
اس بیان میں مزید کہا گیا کہ ’گرافٹی میں دکھائے گئے نقشے اور بنگلہ دیش کے اصل نقشے کا تقابلی جائزہ واضح طور پر ظاہر کرتا ہے کہ یہ فن پارہ تقریباً مکمل طور پر بنگلہ دیش کے حقیقی نقشے کی عکاسی کرتا ہے۔‘
بہرحال پاکستان کے چیف آف سٹاف اور عبوری حکومت کے سربراہ کی ملاقات کے بعد انڈین سوشل میڈیا پر بہت سے سوالات کیے جا رہے ہیں۔
ایک صارف نے لکھا کہ ’لیکن معاف کریں جناب، آخر پاکستان کا ایک جنرل ایک سول عہدیدار سے تجارتی تعلقات پر کیوں بات کر رہا ہے۔ اس کا کوئی مطلب نہیں ہے۔‘
بہت سے صارفین بنگلہ دیش کا اصل نقشہ پوسٹ کر رہے ہیں جبکہ بہت سے کتاب کے سرورق پر موجود نقشے کی وضاحت کر رہے ہیں۔
انڈیا کی جانب سے بنگلہ دیش کو دی گئی تجارتی راہداری کی سہولت کی واپسی: کیا یہ سیاسی محاذ آرائی کے بعد ایک تجارتی جنگ کی ابتدا ہے؟1971 کے بعد پہلی بار ڈھاکہ یونیورسٹی میں جماعت اسلامی کی جیت انڈیا کے لیے ’تشویش ناک‘ کیوں؟بنگلہ دیش کا نریندر مودی کو 25 من آموں کا تحفہ: کیا ’مینگو ڈپلومیسی‘ تلخ تعلقات میں مٹھاس لے آئے گی؟کیا انڈیا کے ساتھ تناؤ بنگلہ دیش کی قیادت کو پاکستان اور چین کے قریب لے آیا ہے؟’1971 سے پہلے کے پرانے تعلقات کی طرف واپسی‘: کیا بنگلہ دیش کے ساتھ بگڑتے روابط انڈیا کے لیے نیا درد سر ہیں؟قونصل خانے پر حملہ، دلی کی ’سفارتی شرمندگی‘ اور ’ڈھاکہ کا غصہ‘: بنگلہ دیش اور انڈیا کا نیا تنازع کیا ہے