استنبول میں پاکستان اور افغانستان کے درمیان مذاکرات

اردو نیوز  |  Oct 28, 2025

افغانستان اور پاکستان کے حکام نے سرحدوں پر دیرپا امن کے قیام کے لیے پیر کو تیسرے دن بھی استنبول میں مذاکرات میں حصہ لیا ہے۔

خبر رساں ایجنسی روئٹرز نے اس حوالے سے تین مختلف ذرائع سے بات کر کے مذاکرات کے جاری رہنے کی تصدیق کی ہے۔

دوسری جانب امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے بھی دونوں ملکوں کے درمیان ثالثی کی پیشکش کو دہرایا ہے۔

جنوبی ایشیائی کے ہمسایہ ملکوں نے 19 اکتوبر کو دوحہ میں کئی دنوں کی سرحدی جھڑپوں کے بعد جنگ بندی پر اتفاق کیا تھا۔

اگست 2021 میں طالبان کے کابل میں اقتدار پر قبضے کے بعد رواں ماہ دونوں ملکوں کی فورسز کے درمیان سرحدوں پر بدترین تشدد میں درجنوں افراد ہلاک ہوئے۔

ترکیہ کی ثالثی میں ہونے والے امن مذاکرات کے موجودہ دوسرے دور کا مقصد ایک طویل مدتی جنگ بندی کی راہ ہموار کرنا ہے۔

دونوں فریقوں نے مذاکرات میں پیش رفت نہ ہونے کی واضح طور پر مختلف تشریحات پیش کی ہیں۔

پاکستان کے دو سکیورٹی ذرائع نے افغان طالبان پر بات چیت کے عمل میں تعاون نہ کرنے کا الزام لگایا۔

ایک ذرائع نے بتایا کہ پاکستانی وفد نے واضح کر دیا ہے کہ سرحد پار دہشت گردی سے متعلق ہمارے بنیادی مطالبات پر کوئی سمجھوتہ ممکن نہیں۔

مذاکرات میں شامل ایک طالبان مندوب نے اس بات کو ’جھوٹ‘ قرار دیا کہ وہ مذاکرات ختم کر رہے ہیں۔ افغان مندوب کے مطابق بات چیت ابھی جاری ہے۔

امریکی صدر ٹرمپ نے تنازعے کو ختم کرنے میں مدد کی پیشکش کو دہرایا ہے۔ فائل فوٹو: روئٹرزمذاکرات کار نے نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر بتایا کہ ’مجموعی طور پر بات چیت اچھی جا رہی ہے اور ہم نے دوستانہ ماحول میں متعدد امور پر تبادلہ خیال کیا۔‘

پیر کو سرکاری نشریاتی ادارے آر ٹی اے سے کی گئی گفتگو میں طالبان کے ترجمان ذبیح اللہ مجاہد نے کہا کہ ’امارت اسلامیہ افغانستان مذاکرات کی حمایت کرتی ہے اور اس بات پر یقین رکھتی ہے کہ مسائل کو بات چیت کے ذریعے حل کیا جا سکتا ہے۔‘

پاکستان کی وزارت خارجہ کے ترجمان نے مذاکرات کی موجودہ صورتحال پر تبصرہ کرنے سے انکار کیا ہے۔

سنیچر کو پاکستان کے وزیر دفاع نے کہا تھا کہ وہ سمجھتے ہیں کہ افغانستان امن چاہتا ہے لیکن استنبول مذاکرات میں کسی معاہدے تک پہنچنے میں ناکامی کا مطلب ’کھلی جنگ‘ ہوگا۔

اتوار کو رات گئے امریکی صدر ٹرمپ نے تنازعے کو ختم کرنے میں مدد کی پیشکش کو دہرایا۔

 

مزید خبریں

Disclaimer: Urduwire.com is only the source of Urdu Meta News (type of Google News) and display news on “as it is” based from leading Urdu news web based sources. If you are a general user or webmaster, and want to know how it works? Read More