BBC
ایک گروہ جو تقریباً بیس برس سے غزہ کی پٹی پر حکمرانی کر رہا ہے، 20 لاکھ فلسطینیوں پر آہنی ہاتھ سے حکومت کر چکا ہے اور اسرائیل کے ساتھ بارہا جنگیں لڑ چکا ہے، وہ اچانک ہتھیار ڈال کر اقتدار سے دستبردار کیسے ہو سکتا ہے؟
10 اکتوبر کو جنگ بندی کے بعد سے غزہ سے سامنے آنے والی ہولناک تصاویر کے تسلسل کو دیکھ کر یوں لگتا ہے کہ حماس اپنی اتھارٹی دوبارہ قائم کرنے کا عزم رکھتی ہے۔
نقاب پوش مسلح افراد ایک بار پھر سڑکوں پر دکھائی دے رہے ہیں، جو اپنے مخالفین کو تشدد کا نشانہ بنا رہے ہیں۔۔۔ بعض کو گولی مار کر ہلاک کیا جا رہا ہے۔ فوری طور پر بنائے گئے فائرنگ سکواڈز ان گھٹنوں کے بل بیٹھے مردوں کو موت کے گھاٹ اتار رہے ہیں جنھیں وہ حریف گروہوں، خصوصاً غزہ کی بااثر قبائل، سے تعلق رکھنے والا قرار دیتے ہیں۔
دیگر متاثرین خوف کے مارے سہمے ہوئے ہیں۔۔۔ کسی کی ٹانگوں میں گولیاں ماری جا رہی ہیں تو کسی کو بھاری ڈنڈوں سے پیٹا جا رہا ہے۔
ایک امدادی کارکن کے مطابق حماس کے نشانے پر آنے والوں میں وہ افراد بھی شامل ہیں جو مبینہ طور پر امداد لوٹنے یا اس کا رخ موڑنے والے گروہوں سے وابستہ تھے، جس سے انسانی بحران مزید گہرا ہوا۔ اقوام متحدہ نے بھی بعض جرائم پیشہ گروہوں پر امداد چوری کرنے کا الزام عائد کیا ہے۔
یہ وہ صورتحال نہیں جس کا تصور امریکہ کے سابق صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے 20 نکاتی غزہ امن منصوبے میں پیش کیا گیا تھا، جس میں کہا گیا تھا کہ حماس کے جنگجو اپنے ہتھیار جمع کروا دیں، عام معافی قبول کر کے غزہ چھوڑ جائیں اور اقتدار ایک بین الاقوامی فورس کے حوالے کر دیا جائے۔
AFP via Getty Imagesجنگ بندی جمعہ 10 اکتوبر سے نافذ العمل ہوئی۔ حماس اور اسرائیل دونوں نے ایک دوسرے پر اس کی کھلی خلاف ورزیوں کا الزام لگایا ہے۔
صدر ٹرمپ کی جانب سے ابتدا میں اس بربریت پر ردعمل کچھ غیر واضح سا نظر آیا۔
13 اکتوبر کو اسرائیل روانگی کے دوران انھوں نے عندیہ دیا کہ امریکہ نے حماس (جسے امریکہ، برطانیہ، اسرائیل اور دیگر ممالک دہشت گرد تنظیم قرار دے چکے ہیں) کو نظم و ضبط بحال کرنے کے لیے ’گرین سگنل‘ دے دیا ہے۔
ایئر فورس ون پر صحافیوں سے گفتگو کرتے ہوئے انھوں نے کہا ’ہم نے انھیں ایک مخصوص مدت کے لیے اجازت دی ہے۔‘
تین دن بعد ان کا لہجہ سخت ہو گیا۔ انھوں نے ٹرتھ سوشل پر لکھا ’اگر حماس غزہ میں لوگوں کو مارنا جاری رکھتی ہے، جو کہ معاہدے کا حصہ نہیں تھا، تو ہمارے پاس ان کے خلاف کارروائی کے سوا کوئی چارہ نہیں ہوگا۔‘
تو پھر غزہ میں زمینی صورتحال کے اس تناظر میں حماس کہاں کھڑی ہے؟
اور آخرکار دو سالہ جنگ جس کے دوران غزہ کے عام لوگ بے مثال تکالیف سے گزرے اور تنظیم کے بیشتر اہم لیڈر ہلاک ہو گئے، اس کے بعد اب حماس کا مستقبل کچھ ہے بھی یا نہیں؟
’قانون اور نظم و ضبط نامی کوئی چیز نظر نہیں آتی‘
غزہ کے بہت سے باشندوں کے لیے، جو دو برس کی مسلسل اذیت اور ایک ایسی جنگ سے گزرے ہیں جس میں حماس کے زیر انتظام وزارت صحت کے مطابق 68 ہزار افراد ہلاک ہو چکے ہیں، یہ صورتحال بے حد اعصاب شکن ہے لیکن حیران کن نہیں۔
آیا حماس واقعی ہتھیار ڈال کر اقتدار چھوڑنے پر آمادہ ہو سکتی ہے یا نہیں؟ اس بارے میں جب میری بات غزہ کے رہائشیوں سے ہوئی، جن میں امدادی کارکن، وکلا اور ایک سابق حماس رہنما کے مشیر بھی شامل تھے، تو ان سب کی رائے مختلف تھی۔
اور اصل سوال یہ ہے کہ زمینی حالات کو دیکھتے ہوئے کیا یہ اس کے لیے مناسب وقت ہے؟
Anadolu via Getty Imagesفلسطینی جنگ بندی کے معاہدے کے اعلان کے بعد جشن منانے کے لیے جمع ہوئے۔
امدادی کارکن ہانیہ الجمال اپنے گھر دیئر الانبالاہ، وسطی غزہ سے بات کرتے ہوئے کہتی ہیں: ’دو سال ہو چکے ہیں اور قانون اور نظم و ضبط نامی کوئی چیز نظر نہیں آتی۔ ہمیں کسی ایسے شخص یا قوت کی ضرورت ہے جو معاملات سنبھالے۔‘
وہ مزید کہتی ہیں ’اگرچہ حماس غزہ کی پٹی میں حکمرانی کے لیے نااہل ہے لیکن مسلح گروہوں کے مقابلے میں وہ بہتر آپشن ہے۔‘
ڈاکٹر احمد یوسف، جو اسماعیل ہنیہ کے سابق مشیر رہ چکے ہیں اور اب غزہ میں ایک تھنک ٹینک چلاتے ہیں اور حماس قیادت کے قریب ہیں، سمجھتے ہیں کہ فی الحال سخت کنٹرول ضروری ہے۔
ڈاکٹر یوسف کہتے ہیں ’جب تک ایسے لوگ موجود ہیں جو قانون اپنے ہاتھ میں لینے کی کوشش کرتے ہیں، ہمیں کسی ایسے شخص کی ضرورت ہے جو انھیں ڈرا کر کونے میں دھکیل دے۔‘
BBCہانیہ الجمال کہتی ہیں 'اگرچہ حماس غزہ کی پٹی میں حکمرانی کے لیے نااہل ہے لیکن مسلح گروہوں کے مقابلے میں وہ بہتر آپشن ہے۔'
وہ کہتے ہیں ’اس میں وقت لگے گا مگر زیادہ دیر نہیں۔ ایک ماہ کے اندر ہم ترکی اور مصر کے پولیس اہلکاروں اور فوجیوں کی میزبانی کریں گے۔‘ وہ غزہ کے لیے امن منصوبے میں تجویز کردہ بین الاقوامی استحکام فورس کا حوالہ دے رہے تھے جس میں مصر اور ترکی سمیت دیگر ممالک کے دستے شامل ہو سکتے ہیں۔
’یہ وہ لمحہ ہو گا جب وہ (حماس) اپنی بندوقیں ایک طرف رکھ دیں گے۔‘
لیکن غزہ کے دیگر باشندوں کو شک ہے اور وہ خوفزدہ ہیں۔ کچھ کو یقین نہیں ہے کہ حماس واقعی اقتدار یا اپنے ہتھیار چھوڑے گی۔
مؤمن النطور، غزہ کے وکیل جنھیں حماس نے کئی بار قید کیا، ان ہی میں سے ایک ہیں۔
AFP via Getty Imagesغزہ کے کچھ باشندوں کو یقین نہیں ہے کہ حماس واقعی اقتدار یا اپنے ہتھیار چھوڑے گی۔
مؤمن النطور جولائی سے روپوش ہیں۔ ان کا دعویٰ ہے کہ حماس کے نقاب پوش مسلح افراد ان کے غزہ سٹی کے اپارٹمنٹ میں آئے اور انھیں الشفا ہسپتال میں تفتیش کے لیے پیش ہونے کا حکم دیا گیا تھا۔
وہ کہتے ہیں کہ ’حماس دنیا اور صدر ڈونلڈ ٹرمپ کو یہ پیغام دے رہی ہے کہ وہ نہ اقتدار چھوڑے گی اور نہ اپنے ہتھیار حوالے کرے گی۔‘
مؤمن النطور ان ویڈیوز میں جو انھوں نے غزہ پٹی کے کسی نامعلوم مقام سے بھیجی ہیں، کہتے ہیں ’اگر میں ابھی حماس کے ہاتھ لگ گیا تو وہ میری ایک ویڈیو بنائیں گے اور مجھے سڑک پر سر میں گولی مار کر ہلاک کر دیں گے۔‘
ان کے پیچھے کی دیوار پر گولیوں کے نشانات ہیں۔
BBCمؤمن النطور ان ویڈیوز میں جو انھوں نے غزہ پٹی کے کسی نامعلوم مقام سے بھیجی ہیں، کہتے ہیں 'اگر میں ابھی حماس کے ہاتھ لگ گیا تو وہ میری ایک ویڈیو بنائیں گے اور مجھے سڑک پر سر میں گولی مار کر ہلاک کر دیں گے۔'
وہ کہتے ہیں کہ ’یہ ایک مسلح گروہ ہے، حکومتی انتظامیہ نہیں۔‘
’میں نہیں چاہتا وہ غزہ میں رہیں، میں انھیں حکومت میں نہیں دیکھنا چاہتا اور انھیں سکیورٹی کا حصہ بھی نہیں دیکھنا چاہتا۔ میں نہیں چاہتا کہ ان کے نظریات مساجد، سڑکوں اور سکولوں میں پھیلیں۔‘
’اب بھی غزہ میں سب سے اہم کھلاڑی‘
مستقبل کا غزہ کیسا ہو گا، اس بارے میں مؤمن النطور کا اپنا ایک تصور ہے۔
ان کے خیال میں وہ مختلف مسلح گروہ جو اب حماس کے حملوں کی زد میں ہیں، نئی سکیورٹی فورس میں شامل کی جا سکتی ہیں۔ لیکن ان کے متضاد ایجنڈے، بعض اوقات مبہم ماضی اور بعض صورتوں میں اسرائیلی فوج سے متنازع تعلقات کے پیشِ نظر، یہ ایک مشکل اور پیچیدہ صورتِ حال ہے۔
ڈاکٹر مائیکل ملشٹائن، جو اسرائیلی فوج کی انٹیلی جنس میں محکمۂ فلسطینی امور کے سابق سربراہ رہے ہیں، کہتے ہیں کہ حقیقت یہی ہے کہ حماس اب بھی موجود ہے اور غزہ میں سب سے مضبوط طاقت ہے۔
وہ کہتے ہیں کہ قبائل، ملیشیائیں اور گروہ جن میں بہت سے مجرم شامل ہیں، بعض داعش سے منسلک ہیں اور بعض اسرائیل کے خلاف حملوں میں ملوث رہے ہیں، ان پر بھروسہ کرنا اور انھیں حماس کا متبادل سمجھنا ایک بھول ہو گی۔
BBCڈاکٹر مائیکل ملشٹائن، جو اسرائیلی فوج کی انٹیلی جنس میں محکمۂ فلسطینی امور کے سابق سربراہ رہے ہیں، کہتے ہیں کہ حقیقت یہی ہے کہ حماس اب بھی موجود ہے اور غزہ میں سب سے مضبوط طاقت ہے۔
حماس کے اہلکاروں کا کہنا ہے کہ وہ غزہ کا سیاسی کنٹرول حوالے کرنے پر تیار ہیں۔ ٹرمپ کے جنگ بندی کے منصوبے، جس کی حماس نے مشروط حمایت کی، میں ’غزہ میں عارضی عبوری انتظامیہ کے طور پر ایک ٹیکنوکریٹک، غیرسیاسی فلسطینی کمیٹی‘ کی تشکیل تجویز کی گئی ہے۔
تاہم اگر یہ گروہ اپنے سیاسی کردار سے پیچھے ہٹنے پر رضامند ہو بھی جائے، تب بھی اس کے جنگجوؤں کو ہتھیار ڈالنے پر آمادہ کرنا ایک بڑا چیلنج ہوگا۔ حماس کی طاقت اکتوبر 2023 سے پہلے بھی بڑی حد تک ہتھیاروں اور مسلح قوت پر مبنی تھی، اس لیے یہ قدم اس کے لیے انتہائی مشکل ثابت ہو سکتا ہے۔
حماس کا عروج اور غزہ پر اس کی سخت گرفت
حماس کے مستقبل کے بارے میں سوال کا جواب دینے کے لیے سب سے پہلے یہ سمجھنا ضروری ہے کہ اس نے اقتدار کیسے مضبوط کیا۔
1980 کی دہائی میں مصر کی مسلم برادری سے نکلنے والی ایک شاخ کے طور پر اور سیکولر فلسطینی آزادی تنظیم (پی ایل او) کے حریف کے طور پر شروع ہونے والی حماس، ایک پرتشدد عسکری گروہ میں تبدیل ہو گئی جس نے اسرائیلی شہریوں کی ہلاکتوں میں حصہ لیا۔
ابتدا میں اسرائیل نے حماس کو خفیہ طور پر حمایت دی کیونکہ اسے پی ایل او اور اس کے غالب دھڑے فتح کے مقابلے میں ایک مفید توازن سمجھا جاتا تھا، جس کی قیادت اس وقت یاسر عرفات کر رہے تھے۔
امی آیالون، اسرائیل کی داخلی سکیورٹی سروس شِن بیت کے سابق سربراہ، کہتے ہیں ’اہم دشمن الفتح تھا، کیونکہ یہ وہ لوگ تھے جو فلسطینی ریاست کا مطالبہ کر رہے تھے۔‘
لیکن جب حماس نے 1990 اور 2000 کی دہائی میں اسرائیلی شہریوں پر خودکش حملے کیے تو اسرائیل نے ایک سلسلہ وار ہائی پروفائل قتلِ عام کے ذریعے جواب دیا۔
فتح کے ساتھ طاقت کی جنگ کے بعد اور 2006 کے انتخابات جیت کر حماس نے غزہ پٹی پر مکمل کنٹرول حاصل کر لیا۔
BBC
حماس کی اٹھارہ سالہ حکمرانی کے دوران غزہ پر اسرائیلی فوجی اور اقتصادی محاصرہ رہا اور 2008-09، 2012، 2014 اور 2021 میں مسلح تصادم کے دور آئے۔
اکتوبر 2023 کے بعد اسرائیل کی جانب سے دعوے کیے گئے کہ ’حماس داعش ہے‘ لیکن اس سے پہلے اسرائیلی وزیراعظم نتن یاہو کی حکومت نے یہ سمجھ رکھا تھا کہ حماس کوئی سٹریٹجک خطرہ نہیں ہے۔
امی آیالون کے مطابق ’نتن یاہو کی پالیسی تنازع کو سنبھالنے کی تھی۔ وہ کہتے تھے کہ ہم اسے حل نہیں کریں گے اور دو ریاستوں کی حقیقت کے خلاف ہیں تو واحد راستہ تقسیم اور کنٹرول ہے۔‘
غزہ میں حماس اور مسلح قبیلے ’دغمش‘ کے درمیان جھڑپوں میں 27 ہلاکتیں: ’دغمش‘ کے بارے میں ہم کیا جانتے ہیں اور یہ کتنا طاقتور قبیلہ ہے؟غزہ امن معاہدے سے جڑی اُمیدیں اور خدشات: کیا نتن یاہو یرغمالیوں کی واپسی کے بعد دوبارہ جنگ شروع کر سکتے ہیں؟حماس ’دنیا میں طویل ترین قید کی سزا پانے والے‘ عبداللہ برغوثی سمیت کن سرکردہ رہنماؤں کی اسرائیلی جیلوں سے رہائی کا مطالبہ کر رہی ہے؟’طے شدہ امن منصوبے میں ترامیم‘ یا ملک کی اندرونی سیاست اور دباؤ: پاکستان نے ٹرمپ کے غزہ منصوبے سے دوری کیوں اختیار کی؟
غزہ میں حماس کے کنٹرول اور فلسطینی اتھارٹی کے زیر قیادت صدر محمود عباس کے زیر کنٹرول مغربی کنارے کے حصے کے ساتھ فلسطینی انتہائی تقسیم شدہ رہے، جس سے اسرائیل یہ دلیل دے سکتا تھا کہ امن مذاکرات کے لیے کوئی متحد قیادت موجود نہیں۔
امی آیالون کہتے ہیں ’نتن یاہو نے ہر ممکن کوشش کی کہ غزہ میں حماس کی حمایت ہو اور قطر کو اجازت دی کہ وہ حماس کو 1.5 ارب ڈالر سے زیادہ بھیجے۔‘
Getty Imagesاسرائیل، حماس کے اہم سیاسی اور عسکری رہنماؤں کو ختم کرنے ہر حد تک گیا ہے
قطر سے آنے والے پیسے کا مقصد سرکاری ملازمین کی تنخواہیں ادا کرنا اور غریب ترین خاندانوں کی مدد کرنا تھا، لیکن سکیورٹی حکام کو خدشہ تھا کہ یہ رقم دیگر مقاصد کے لیے استعمال ہو رہی ہے۔
امی آیالون مزید کہتے ہیں ’شِن بیت کے ڈائریکٹر اور موساد کے سربراہ کو نظر آ رہا تھا کہ یہ پیسے عسکری ڈھانچوں میں جائیں گے۔‘
نتن یاہو نے حماس کو یہ ادائیگیاں کرنے کی اجازت کا دفاع کرتے ہوئے کہا کہ یہ رقم شہری آبادی کی مدد کے لیے تھی۔
حماس ہمیشہ سے جنگ کی تیاری کر رہی تھی
سات اکتوبر سے واضح ہوا کہ حماس ہمیشہ سے جنگ کی تیاری کر رہی تھی۔ یہ اس کے وسیع تر سرنگوں کے نظام میں ظاہر ہوتا ہے۔
سنہ 2000 میں شروع ہونے والی دوسری فلسطینی بغاوت یا ’انتفادہ‘ کے دوران بھی اسرائیلی فوجی مراکز پر حملے کرنے کے لیے یہ سرنگیں استعمال ہو چکی تھیں۔
2006 میں حماس کے جنگجوؤں نے اسرائیل کی سرحد کے نیچے ایک سرنگ استعمال کر کے کریم شالوم کے قریب ایک فوجی چوکی پر حملہ کیا جس میں دو اسرائیلی فوجی ہلاک اور ایک اور گیلاد شالیت کو اغوا کر لیا گیا۔
گیلاد شالیت کو پانچ سال تک قید میں رکھا گیا اور 2011 میں انھیں 1027 فلسطینی قیدیوں کےبدلے میں رہا کیا گیا، جن میں یحییٰ سنوار بھی شامل تھے۔
اسرائیل کا الزام ہے کہ انھوں نے اکتوبر 2023 کے حملوں کی منصوبہ بندی کی تھی۔
Getty Imagesاسرائیل کا الزام ہے کہ یحییٰ نے اکتوبر 2023 کے حملوں کی منصوبہ بندی کی تھی۔
وقت کے ساتھ حماس کی سرنگوں کا جال پھیلتا گیا اور ان میں ورکشاپیں، ہتھیار بنانے کی جگہیں اور کمانڈ سینٹر بن گئے۔
علاقائی حالات نے بھی کردار ادا کیا۔ 2012 میں لیبیا کے آمر معمر قذافی کے سقوط اور مصر میں مسلم برادری کے عارضی اقتدار پر قبضے کے بعد حماس کو غزہ میں جدید ہتھیار سمگل کرنے میں کامیابی ملی، جن میں سنائپر رائفلیں، موبائل راکٹ لانچر اور طویل فاصلے کے راکٹ بنانے کا سامان شامل تھا۔
خیال کیا جاتا ہے کہ حماس نے لبنان اور عراق جیسے مقامات میں سرنگ سازی کا تجربہ رکھنے والے تکنیکی ماہرین اور جنگجوؤں سے مدد لی۔
ایران بھی ایک اہم مددگار تھا، جس نے حماس کو اپنے ’محورِ مزاحمت‘ کا حصہ سمجھا، یہ مشرقِ وسطیٰ میں متعدد عسکری گروہوں کا ایک اتحاد ہے جو عموماً اسرائیل اور امریکہ کے خلاف ہیں۔
2020 میں امریکی محکمۂ خارجہ کی ایک رپورٹ کے مطابق، ایران فلسطینی عسکری گروہوں بشمول حماس کو سالانہ تقریباً 100 ملین ڈالر فراہم کر رہا تھا۔
Yousef Masoud/SOPA Images/LightRocket via Getty Imagesوقت کے ساتھ، حماس کی سرنگوں کا جال پھیلتا گیا اور ان میں ورکشاپیں، ہتھیار بنانے کی جگہیں اور کمانڈ سینٹر بن گئے۔
کچھ سرنگیں اتنی گہری کھودی گئی تھیں کہ زمین کے نیچے 230 فٹ (70 میٹر) تک جاتی تھیں، انھیں بنانے میں کئی سال لگے اور ہر ایک کی لاگت کئی کروڑ ڈالر تھی۔ یہ سرنگیں حماس کے سینئر کمانڈروں کی حفاظت اور طویل فاصلے کے ہتھیار رکھنے کے لیے بنائی گئی تھیں۔
ایک مقامی ماہر، جو سرنگوں کے بارے میں وسیع معلومات رکھتے ہیں، نے بی بی سی کو بتایا کہ پورے منصوبے کی مجموعی لاگت تقریباً چھ ارب ڈالر (4.5 ارب پاؤنڈ) تھی۔
صحیح اعداد و شمار حاصل کرنا مشکل ہے، لیکن خیال کیا جاتا ہے کہ یہ منتشر سرنگوں کا جال تقریباً 250 میل (400 کلومیٹر) تک پھیلا ہوا تھا، ایک ایسی پٹی میں جو صرف 26 میل لمبی اور سب سے چوڑی جگہ پر سات میل کے فاصلے تک وسیع تھی۔
سرنگیں: ایک خفیہ منصوبہ
سرنگوں کے بارے میں عوامی بات چیت، ان کے مقام یا لاگت پر کچھ کہنا غزہ کے باشندوں کو جاسوسی کے الزامات کے خطرے میں ڈال سکتی تھی جس کا انجام گرفتاری یا اس سے بھی برا ہو سکتا تھا۔ پھر بھی بہت سے لوگوں کو معلوم تھا کہ کیا ہو رہا ہے۔
مقامی رہائشیوں کو نظر آر ہا تھا کہ ریت اور مٹی ہٹائی جا رہی تھی، نئے راستے اچانک نمودار ہو رہے تھے اور مشینری رات کے وقت لائی جا رہی تھی۔
جو ابتدائی طور پر غزہ کی تنہائی کا وقتی جواب تھا، وہ تین دہائیوں میں ایک کثیر پرتوں والا زیرِ زمین صنعتی اور عسکری نظام بن گیا۔
بعد میں پتا چلا کہ اس کا بڑا حصہ شہری انفراسٹرکچر کے نیچے چھپا ہوا تھا، جیسے ہسپتال، سکول اور ایک ایسی سرنگ جس میں حماس کا ڈیٹا سینٹر تھا جو اقوام متحدہ کی ریلیف اینڈ ورکس ایجنسی (یو این آر ڈبلیو اے) کے ہیڈکوارٹر کے نیچے واقع تھا۔
Anadolu via Getty Imagesحماس کے زیر انتظام صحت کی وزارت کے مطابق، اکتوبر 2023 کے بعد سے اسرائیلی حملوں میں غزہ میں کم از کم 67,938 افراد ہلاک ہو چکے ہیں۔
7 اکتوبر 2023 کو حماس کے جنگجو اسرائیل میں داخل ہوئے، تقریباً 1200 افراد کو ہلاک کیا اور 251 کو یرغمال بنایا، اس کے بعد غزہ کا زیر زمین نظام ایک بڑا قید خانہ بن گیا۔ یرغمال بنائے گئے تمام افراد سرنگوں میں نہیں رکھے گئے تھے لیکن زیادہ تر وہاں چھپائے گئے، خاص طور پر جنگ کے دوران۔
ایلی شارابی، جو ان میں سب سے زیادہ نمایاں تھے، کو 491 دن کی قید کے 52 دنوں کے بعد ایک محفوظ گھر سے سرنگ میں منتقل کیا گیا۔
انھوں نے اس ماہ کے شروع میں بی بی سی سے بات کرتے ہوئے دعویٰ کیا تھا کہ ’انھوں نے ہمارے ہاتھوں اور پیروں کو رسیوں سے باندھا۔ درد کی وجہ سے میں کبھی کبھار بے ہوش ہو جاتا۔ ایک بار انھوں نے میری پسلیاں توڑ دی تھیں۔‘
فروری میں رہا ہونے تک ایلیکا وزن 30 کلوگرام سے زیادہ کم ہو چکا تھا۔
EPAایلی شارابی کو 491 دن کی قید کے 52 دنوں کے بعد ایک محفوظ گھر سے سرنگ میں منتقل کیا گیا۔
حماس نے یرغمالیوں کو سودے بازی کے لیے بطور ہتھیار استعمال کیا تاکہ جنگ بندی حاصل کی جا سکے یا اسرائیلی قیدخانوں میں موجود فلسطینیوں کی رہائی ممکن ہو۔ ان کے مستقبل پر مذاکرات جاری رہنے کے دوران حماس نے اسرائیلی عوام کو دردناک ویڈیوز کے ذریعے مسلسل تشویش میں مبتلا کیا، جن میں یرغمالیوں کو شدید تکلیف میں دکھایا گیا۔
ڈاکٹر یوسف کے مطابق آخرکار داخلی اور خارجی دباؤ نے حماس کو اس حکمت عملی کو ترک کرنے پر مجبور کیا۔
’قطر، مصر اور ترکی کے ساتھ ساتھ یہاں پناہ گزین کیمپوں میں لوگ بھی حماس کے رہنماؤں کو ایک مضبوط پیغام بھیج رہے تھے کہ اب بس بہت ہو گیا۔‘
Getty Imagesاسرائیل نے جولائی 2024 میں تہران میں حماس کے طاقتور رہنما اسماعیل ہنیہ کو ہلاک کر دیا۔
اس دوران اسرائیل سرنگوں کے جال کو تباہ کرنے کا کام جاری رکھے ہوئے ہے اور اس میں اکثر شہری علاقوں کو بھی نقصان پہنچتا ہے۔
یہ کام ابھی مکمل نہیں ہوا ہے۔
حیودا کفیر، جو ہائیفا کی ٹیکنیشن یونیورسٹی میں سول انجینئر اور زیرِ زمین جنگ کے محقق ہیں، کہتے ہیں ’دفاعی اداروں کی رپورٹس کے مطابق اندازہ ہے کہ سرنگوں کو 25 سے 40 فیصد تک نقصان پہنچا ہے۔‘
وہ مزید کہتے ہیں ’اس میں کوئی شک نہیں کہ حماس بنیادی ڈھانچے کو دوبارہ فعال بنانے کی کوشش کرے گی، بشمول وہ سرنگیں جنھیں اسرائیلی فوج نے مختلف طریقوں سے نقصان پہنچایا تھا۔‘
بکھری ہوئی قیادت
سرنگیں دوبارہ فعال کرنا ایک بات ہے، لیکن تنظیم کو دوبارہ قائم کرنا بالکل الگ ہے۔ پچھلے دو سال کے واقعات کے بعد حماس کی قیادت بکھر چکی ہے۔
اسرائیل نے غزہ، ایران، لبنان اور قطر میں گروپ کے اہم سیاسی اور عسکری رہنماؤں کو ختم کرنے کے لیے بڑی کوششیں کیں۔
اپنے سب سے مشہور، عالمی سطح پر پہچانے جانے والے رہنماؤں سے لے کر غزہ میں زمینی کمانڈروں تک، حماس نے تقریباً تمام اہم شخصیات کھو دی ہیں۔
اسرائیل نے جولائی 2024 میں تہران میں حماس کے طاقتور رہنما اسماعیل ہنیہ کو ہلاک کر دیا۔ تین ماہ بعد، ہنیہ کے جانشین، یحییٰ سنوار، کو رفح میں ایک گھر کے ملبے میں مار دیا گیا۔
Reutersاسماعیل ہنیہ (بائیں) کو جولائی 2024 میں تہران میں ہلاک کیا گیا اور تین ماہ بعد ان کے جانشین یحییٰ سنوار (درمیان) کو بھی ہلاک کر دیا گیا۔ حماس کے نائب رہنما صالح العروری (دائیں) بیروت میں دھماکے میں مارے گئے۔
ان اہم رہنماؤں کی ہلاکت اور اپنی مسلح شاخ کے ہزاروں ارکان کھو دینے کے باوجود حماس نے لڑائی جاری رکھی، نئی نسل کے شدت پسند نوجوانوں کو بھرتی کیا اور چھوٹے خفیہ گروہوں میں تقسیم ہو گئی جو چھاپہ مار کر فرار ہونے والے حربوں میں سرگرم ہیں۔
لیکن آج اکتوبر 2025 میں حماس وہ مضبوط تنظیم نہیں رہی جس نے 7 اکتوبر کا حملہ کیا تھا۔ موجودہ رہنما کم معروف ہیں اور سب سے اہم بات یہ ہے کہ ان کے پاس سیاسی تجربہ بہت کم ہے۔
ایزدین الحداد، جو 55 سال کے ہیں، اب پانچ رکنی فوجی کونسل کے سربراہ ہیں جو حماس کی مسلح شاخ، عز الدین القسام بریگیڈز کی کمانڈ کرتی ہے۔
غزہ کے باہر، حماس کی سیاسی قیادت کے باقی رہنماوں میں خالد مشعل (اسرائیل 1997 میں اردن میں انھیں قتل کرنے کی ناکام کوشش کر چکا ہے)، خلیل الحیا اور محمد درویش شامل ہیں۔
خیال کیا جاتا ہے کہ 9 ستمبر کو جب اسرائیلی جہازوں نے دوحہ، قطر میں ایک عمارت پر حملہ کیا، تو یہ سب وہاں موجود تھے اور امریکی جنگ بندی کے تازہ ترین منصوبوں پر بات چیت کر رہے تھے، اور جان بچانے میں کامیاب رہے۔
جنگ نے حماس کو تھکا دیا ہے
غزہ میں جاری تشدد کے باوجود سابق حماس مشیر احمد یوسف کہتے ہیں کہ گروہ جنگ سے تھک چکا ہے۔
وہ 7 اکتوبر کا براہِ راست ذکر نہیں کرتے لیکن جنگ کی وجہ کو ’ایک خوفناک غلطی‘ قرار دیتے ہیں اور کہتے ہیں کہاب ’ایک مختلف حکمت عملی‘ کی ضرورت ہے۔
Anadolu via Getty Imagesڈاکٹر یوسف کے مطابق 'قطر، مصر اور ترکی کے ساتھ ساتھ یہاں پناہ گزین کیمپوں میں لوگ بھی حماس کے رہنماؤں کو ایک مضبوط پیغام بھیج رہے تھے کہ اب بس بہت ہو گیا۔'
وہ کہتے ہیں ’میں ان میں سے بہت سے لوگوں سے بات کر رہا ہوں اور انھوں نے کہا ہے کہ وہ اب غزہ پر حکمرانی میں دلچسپی نہیں رکھتے۔‘
’لیکن حماس کے پاس ایک لاکھ سے زیادہ ارکان ہیں اور یہ کہیں غائب نہیں ہونے والے۔‘
وہ بتاتے ہیں کہ حماس مستقبل میں سیاسی کردار جاری رکھنے کے لیے اپنی پہچان بدلنے کی کوشش کر رہا ہے اور اس عمل کی مثال وہ جنوبی افریقہ میں نسلی امتیاز کے خاتمے کے بعد این سی سی کے گوریلا جنگ سے سیاسی حکومت تک کے سفر سے دیتے ہیں۔
وہ کہتے ہیں کہ ’اگر کل انتخابات ہوں تو مجھے یقین ہے کہ حماس مختلف ناموں سے ان میں حصہ لے گی تاکہ یہ تاثر ملے کہ یہ زیادہ پرامن گروہ ہے اور سیاسی زندگی میں حصہ لینے کے لیے تیار ہے۔
’تشدد کسی بھی سیاسی جماعت کا حصہ نہیں ہو گا۔‘
ڈاکٹر ملشٹائن اس بارے میں شک و شبہات کا اظہار کرتے ہیں۔
وہ کہتے ہیں ’اگر غزہ میں نیا مقامی انتظام آ بھی جائے تو پسِ پردہ حماس ہی غالب کھلاڑی ہوگا۔‘
Anadolu via Getty Imagesحماس، چاہے کمزور ہو چکی ہو، مگر ختم نہیں ہوئی۔ کسی نہ کسی طرح، اسرائیل کو آنے والے وقت میں اس سے نمٹنا پڑ سکتا ہے۔
وہ مزید کہتے ہیں کہ ہتھیار ڈالنے کا امکان اور بھی کم ہے اور وہ اگلے پانچ سال کے اندر غزہ میں ایک اور جنگ کی پیش گوئی کرتے ہیں۔
لیکن سابق شِن بیت چیف امی آیالون کا ماننا ہے کہ اسرائیل کو اپنے دشمن سے نمٹنے کے لیے کوئی اور طریقہ تلاش کرنا چاہیے۔
وہ کہتے ہیں ’جب تک ہم نظریے کو شکست نہیں دیتے، یہ پھلتا پھولتا رہے گا۔‘
’نظریے کو ختم کرنے کا واحد راستہ یہ ہے کہ فلسطینیوں اور اسرائیلیوں کے سامنے دو ریاستوں کا ایک واضح مستقبل پیش کیا جائے۔‘
فی الحال ایسا کوئی مستقبل نظر نہیں آ رہا، اس لیے ڈاکٹر ملشٹائن کی پیش گوئی زیادہ ممکن محسوس ہوتی ہے۔
حماس بھلے کمزور ہو چکی ہے مگر ختم نہیں ہوئی ہے۔ کسی نہ کسی طرح اسرائیل کو آنے والے وقت میں اس سے نمٹنا پڑ سکتا ہے۔
’طے شدہ امن منصوبے میں ترامیم‘ یا ملک کی اندرونی سیاست اور دباؤ: پاکستان نے ٹرمپ کے غزہ منصوبے سے دوری کیوں اختیار کی؟غزہ امن معاہدے سے جڑی اُمیدیں اور خدشات: کیا نتن یاہو یرغمالیوں کی واپسی کے بعد دوبارہ جنگ شروع کر سکتے ہیں؟غزہ میں حماس اور مسلح قبیلے ’دغمش‘ کے درمیان جھڑپوں میں 27 ہلاکتیں: ’دغمش‘ کے بارے میں ہم کیا جانتے ہیں اور یہ کتنا طاقتور قبیلہ ہے؟ٹرمپ کا سفر درحقیقت منزل نہیں بلکہ عارضی پڑاؤ کی جانب تھا: امریکی صدر کے ساتھ گزرے 24 گھنٹوں کی روداد حماس ’دنیا میں طویل ترین قید کی سزا پانے والے‘ عبداللہ برغوثی سمیت کن سرکردہ رہنماؤں کی اسرائیلی جیلوں سے رہائی کا مطالبہ کر رہی ہے؟ذاتی تعلق، پس پردہ دباؤ اور دھمکی: ٹرمپ نے نتن یاہو کو غزہ امن معاہدے پر کیسے مجبور کیا؟