یوکرین کے صدر ولادیمیر زیلنسکی نے کہا ہے کہ اگر انہیں دعوت دی جاتی ہے تو وہ روسی صدر ولادیمیر پوتن اور امریکی ہم منصب ڈونلڈ ٹرمپ کے ساتھ ہنگری میں ہونے والے اجلاس میں شرکت کے لیے تیار ہیں۔خبر رساں ادارے اے ایف پی کے مطابق صدر ٹرمپ اور پوتن نے کہا ہے کہ وہ ہنگری کے دارالحکومت بوداپسٹ میں ملاقات کریں گے۔یہ ملاقات اگلے چند ہفتوں میں متوقع ہے کیونکہ امریکی صدر تین سالہ جنگ، جو 2022 میں روس کے یوکرین پر حملے کے بعد شروع ہوئی تھی، کے خاتمے کے لیے امن معاہدہ کرانے کی کوشش کر رہے ہیں۔
ولادیمیر زیلنسکی نے پیر کو جاری کیے گئے اپنے بیان میں صحافیوں سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ ’اگر مجھے بوداپسٹ میں مدعو کیا جاتا ہے، اگر یہ ایسی دعوت ہے جس میں ہم تینوں ایک ساتھ ملاقات کرتے ہیں، یا جیسا کہ اسے ‘شٹل ڈپلومیسی’ کہا جاتا ہے، یعنی صدر ٹرمپ الگ الگ پوتن اور مجھ سے ملتے ہیں، تو کسی نہ کسی فارمیٹ میں ہم اتفاق کر لیں گے۔‘
یوکرینی صدر نے اجلاس کے مقام کے انتخاب پر تنقید کرتے ہوئے کہا کہ ہنگری کی حکومت کیف کے ساتھ کشیدہ تعلقات رکھتی ہے اور یورپی یونین کے اندر ماسکو کی سب سے ہمدرد حکومت سمجھی جاتی ہے۔صدر زیلنسکی نے کہا، ’میں نہیں سمجھتا کہ ایک ایسا وزیرِاعظم جو ہر موقع پر یوکرین کی راہ میں رکاوٹ بنتا ہے، یوکرینی عوام کے لیے کچھ مثبت کر سکتا ہے یا متوازن کردار ادا کر سکتا ہے۔‘یہ بیان انہوں نے ہنگری کے وزیرِاعظم وکٹر اوربان کے حوالے سے دیا۔کیف کی جانب سے کہا گیا ہے کہ وہ زیلنسکی، پوتن اور ٹرمپ کے درمیان سہ فریقی ملاقات کے لیے متعدد غیر جانبدار ممالک، جن میں ترکی، سوئٹزرلینڈ اور ویٹیکن شامل ہیں، میں شرکت کے لیے تیار ہے۔1994 میں ماسکو نے بوداپسٹ میں ایک یادداشت پر دستخط کیے تھے، جس کے تحت سوویت دور کے جوہری ہتھیاروں سے دستبرداری کے بدلے یوکرین، بیلاروس اور قازقستان کو سلامتی کی ضمانت دی گئی تھی۔زیلنسکی نے کہا، ’ایک اور ‘بوداپسٹ’ جیسا منظرنامہ ہمارے لیے مثبت ثابت نہیں ہوگا۔‘صدر ٹرمپ، جو اس سال کے آغاز میں دوبارہ وائٹ ہاؤس پہنچے، یوکرین کی طویل جنگ کے فوری خاتمے کے خواہاں ہیں۔