بنگلہ دیش میں استغاثہ کے وکلاء نے جمعرات کے روز مطالبہ کیا کہ مفرور سابق وزیرِاعظم شیخ حسینہ واجد کو انسانیت کے خلاف جرائم کے مقدمے میں سزائے موت دی جائے۔خبر رساں ادارے اے ایف پی کے مطابق اس مقدمے میں حسینہ واجد نے عدالت کے اُن احکامات کو نہیں مانا جن میں اُنہیں انڈیا سے واپس آ کر مقدمے کا سامنا کرنے کا کہا گیا تھا۔وہ گزشتہ سال انڈیا فرار ہو گئی تھیں۔ استغاثہ کے مطابق انہوں نے طلبہ کی قیادت میں ہونے والی بغاوت کو کچلنے کی ناکام کوشش میں مہلک کریک ڈاؤن کے احکامات دیے تھے۔
اقوامِ متحدہ کے مطابق جولائی اور اگست 2024 کے درمیان ہونے والے تصادم میں تقریباً 1,400 افراد ہلاک ہوئے تھے۔
چیف پراسیکیوٹر تاج الاسلام نے عدالت کے باہر صحافیوں سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ ’ہم اُن کے لیے سب سے بڑی سزا کا مطالبہ کرتے ہیں۔‘’ایک قتل کے لیے ایک سزائے موت دی جاتی ہے۔ اگر 1,400 قتل ہوئے ہیں تو انہیں 1,400 بار سزائے موت دی جانی چاہیے، لیکن چونکہ یہ انسانی طور پر ممکن نہیں، اس لیے ہم کم از کم ایک سزائے موت کا مطالبہ کرتے ہیں۔‘استغاثہ کا کہنا ہے کہ 78 سالہ حسینہ واجد ’ان تمام جرائم کا مرکز تھیں جو جولائی-اگست کی طلبہ تحریک کے دوران کیے گئے۔‘انہیں دو سابق اعلیٰ حکام کے ساتھ غیر موجودگی میں مقدمے کا سامنا ہے۔سابق وزیرِداخلہ اسدالزّمان خان کمال بھی مفرور ہیں، جبکہ سابق پولیس سربراہ چودھری عبداللہ المامون حراست میں ہیں اور جرم قبول کر چکے ہیں۔استغاثہ نے جمعرات کو کہا کہ کمال کو بھی سزائے موت دی جانی چاہیے۔اقوامِ متحدہ کے مطابق جولائی اور اگست 2024 کے درمیان ہونے والے تصادم میں تقریباً 1,400 افراد ہلاک ہوئے تھے۔ (فوٹو: اے ایف پی)اس مقدمے میں، جو یکم جون کو شروع ہوا، کئی گواہیوں کو سنا جا چکا ہے جن میں الزام لگایا گیا کہ شیخ حسینہ نے یا تو بڑے پیمانے پر قتلِ عام کے احکامات دیے یا انہیں روکنے میں ناکام رہیں۔تاج الاسلام نے کہا کہ شیخ حسینہ واجد کا کا مقصد اقتدار کو مستقل طور پر اپنے اور اپنے خاندان کے لیے محفوظ کرنا تھا۔’وہ ایک سخت مجرم بن چکی ہیں اور اپنی سفاکیت پر کسی قسم کی ندامت ظاہر نہیں کرتیں۔‘’مہلک ہتھیار استعمال کرو‘استغاثہ نے شیخ حسینہ واجد پر پانچ الزامات عائد کیے ہیں، جن میں قتل کو روکنے میں ناکامی بھی شامل ہے، جو بنگلہ دیش کے قانون کے تحت انسانیت کے خلاف جرائم میں شمار ہوتا ہے۔حسینہ واجد کے لیے ایک سرکاری وکیل مقرر کیا گیا ہے، تاہم وہ عدالت کے اختیار کو تسلیم کرنے سے انکاری ہیں۔مقدمہ اپنے آخری مراحل میں ہے، جبکہ عبوری حکومت ملک کو فروری میں ہونے والے انتخابات کی طرف لے جانے کی کوشش کر رہی ہے۔حسینہ کو پہلے ہی جولائی میں توہینِ عدالت کے الزام میں غیر حاضری میں چھ ماہ قید کی سزا سنائی جا چکی ہے۔ (فوٹو: اے ایف پی)گواہوں میں ایک ایسا شخص بھی شامل ہے جس کا چہرہ احتجاج کے دوران گولی لگنے سے چِر گیا تھا۔مقدمے کے دوران استغاثہ نے آڈیو ٹیپس بھی چلائیں، جنہیں پولیس نے حسینہ کی تصدیق شدہ ریکارڈنگز سے موازنہ کر کے درست پایا، جن میں مبینہ طور پر وہ سکیورٹی فورسز کو مظاہرین کے خلاف ’مہلک ہتھیار استعمال کرنے‘ اور ’جہاں بھی ملیں، انہیں گولی مارنے‘ کا حکم دیتی سنی جا سکتی ہیں۔حسینہ کو پہلے ہی جولائی میں توہینِ عدالت کے الزام میں غیر حاضری میں چھ ماہ قید کی سزا سنائی جا چکی ہے، جبکہ اُن کے خلاف بدعنوانی کے متعدد مقدمات بھی جاری ہیں۔1971 میں بنگلہ دیش کو آزادی دلانے والے انقلابی رہنما کی بیٹی حسینہ واجد کے دورِ حکومت میں ملک میں غیر معمولی اقتصادی ترقی ہوئی، تاہم ناقدین کا کہنا ہے کہ اُن کی حکومت نے سیاسی مخالفین کو ناجائز طور پر قید کیا، آزادیٔ صحافت کو محدود کرنے والے سخت قوانین منظور کیے، اور حزبِ مخالف کے کارکنوں کے قتل سمیت انسانی حقوق کی سنگین خلاف ورزیاں کیں۔