اندھے قتل کا معمہ: وہ ’لاپتہ‘ لڑکی جس کی لاش قاتل نے قالین کے ٹکڑے میں لپیٹ کر دفنا دی تھی

بی بی سی اردو  |  Oct 14, 2025

BBC15 برس کی کیرن پرائس کو ان کی گمشدگی کے بعد کسی نے بھی تلاش نہیں کیا تھا

انتباہ: اس خبر میں شامل تفصیلات کچھ قارئین کے لیے تکلیف دہ ہو سکتی ہیں۔

کیرن پرائس اس وقت صرف 15 برس کی تھیں جب سنہ 1981 میں وہ منظر سے مکمل غائب ہو گئیں۔ اگر شعبہ تعمیرات سے منسلک دو افراد کو حادثاتی طور پر ان کی لاش نہ ملتی تو شاید انھیں آج بھی لاپتہ ہی تصور کیا جاتا۔

’لٹل مس نو باڈی‘ کے نام سے پکاری جانے والی کیرن آٹھ برس تک کسی کو کہیں بھی نظر نہیں آئیں اور پھر سات دسمبر 1989 کو کارڈف سٹی کے دو بلڈرز کوایک قالین میں لپٹا ہوا کیرن کا ڈھانچہ ملا۔

ان کی لاش فٹزہمون امبینکمنٹ کے علاقے میں واقع ایک فلیٹ کے تہہ خانے کے باہر ایک قبر سے ملی جو اتنی بری طرح گل سڑ چکی تھی کہ ان کی موت کی وجہ معلوم کرنا ممکن نہیں رہا تھا۔

اب 40برس سے زیادہ عرصے اور ان کے قاتل کی رہائی کے بعد ایک نئی دستاویزی فلم میں اس بات کا جائزہ لیا گیا ہے کہ کس طرح پولیس نے ایک نوعمر لڑکی کے قتل کے معاملے کو حل کرنے کے لیے شواہد اکٹھے کیے اور قتل کے مقدمے میں دو افراد کو انصاف کے کٹہرے میں لانے کی کوششیں کیں۔

اس تفتیش کے دوران کام کرنے والے ایک کرائم رپورٹر ٹام بیڈفورڈ نے کہا کہ ’یہ سوچنا ہی ناقابل یقین ہے کہ اس عمر کی ایک لڑکی لاپتہ ہوسکتی ہے اور کسی کو اس بارے میں کوئی خبر بھی نہیں ہے اور نہ کسی کو کوئی پرواہ ہے۔‘

’میں 40 برس میں بہت ساری خبریں منظر عام لایا ہوں لیکن میں اس مقدمے کو کبھی نہیں بھول سکتا۔‘

انھوں نے کیرن سے متعلق چینل 5 کی ڈاکومینٹری ’بریڈ سیکرٹس: دی باڈی ان دی کارپٹ‘ میں بتایا کہ ’چلڈرن ہوم‘ سے انھیں فرار ہونے دیا گیا اور اس سےکسی کو کوئی مسئلہ بھی نہیں تھا، کوئی تفتیش نہیں ہوئی۔ یہ بہت افسوسناک ہے۔‘

ان کے مطابق ’وہ لاپتہ افراد کی فہرست میں شامل نہیں تھیں۔ کسی کو نہیں معلوم تھا کہ وہ لاپت ہو گئی ہیں۔ کسی کو کچھ معلوم نہیں تھا کہ وہ کون تھیں۔‘

Getty Imagesکیرن کی لاش سٹیڈیم کی تعمیر نو کے لیے کی جانے والی کھدائی کے دوران ملی تھی

کیرن کے والدین میں طلاق ہو گئی تھی جس کے بعد والدین میں ان کی حوالگی سے متعلق ایسے تنازعات پیدا ہوئے کہ انھیں دس برس کی عمر میں ہی چلڈرن کئیر ہوم منتقل کرنا پڑا۔

11 برس کی عمر میں وہ جولائی 1981 میں اس چلڈرن ہوم سے فرار ہو گئیں اور پھر واپس نہ آئیں۔ یہ گھر رونڈا سینن ٹاف کے چرچ ولیج میں واقع تھا جسے ’میس-یر-ایگلویز اسسمنٹ سینٹر‘ کے نام سے پکارا جاتا ہے۔

یہ پتا چلانا مشکل ہے کہ ان کے فرار ہونے کے کتنے عرصے بعد ان کا قتل ہوا۔

Getty Imagesبلڈرر پال بوڈنہام

پھر سنہ 1989 کی سردیوں میں جب بلڈرز ایک سٹیڈیم کی تعمیر نو کے سلسلے میں زمین میں تین فٹ تک کی کھدائی کی تو انھیں قالین کا لپٹا ہوا ایک ٹکڑا ملا۔

اس راز کے افشا ہونے کے بعد ایک بلڈر پال بودنہام نے ایک انٹرویو میں بتایا کہ انھوں نے جب قالین کا لپٹا ہوا ٹکڑا دیکھا تو مذاق میں یہ کہا کہ ’او اس قالین میں کسی کی لاش بھی ہو سکتی ہے۔‘

جب انھوں نے قالین کے اس لپٹے ہوئے ٹکڑے کو کھول کر خوفناک منظر دیکھا تو فوراً پولیس کو اس کی اطلاع دی۔ کیرن کی کلائیوں کو بجلی کی تاروں سے باندھا گیا تھا اور ایک پلاسٹک کا بیگ ان کے سر پر رکھا ہوا تھا۔

ان کی موت سے قبل ان کی رہائش کے بارے میں کوئی اتا پتا نہیں تھا اور نہ وہاں کوئی سی سی ٹی وی کیمرے نصب تھے۔ یوں اب تحقیقات کو آگےبڑھانے کے لیے صرف فرانزک کا آپشن ہی باقی رہ گیا تھا۔

قالین میں موجود کیڑے مکوڑوں کا معائنہ کر کے یہ معلوم کیا گیا کہ کیرن کی موت کب واقع ہوئی اور کتنے عرصے سے ان کی لاش اس جگہ پر دفن تھی۔

مکھیاں مردہ جسم پر انڈے نہیں دیتی ہیں، یوں کیڑے مکوڑوں کی سرگرمیوں سے یہ اندازہ لگایا گیا کہ یہ قتل جولائی 1981 سے مارچ 1982 کے درمیان ہوا ہے۔ اس کے بعد کیرن کی لاش کو قالین کے ٹکڑے میں لپیٹ کر دفنایا گیا۔

دانتوں کے کروموسوم اور ان کی نشونما سے فرانزک ڈینٹسٹ پروفیسر ڈیوڈ وٹاکر کیرن کی جنس اور عمر سے متعلق پتا چلانے میں کامیاب ہوئے۔

ان کے دانتوں میں گلابی رنگت کے سوراخ اور دانتوں کی ان شریانوں سے جو دانتوں میں خون کی ترسیل کرتی ہیں سے پولیس کو یہ شبہ ہوا کہ کیرن کی موت تشدد سے ہوئی۔

Getty Imagesپولیس نے اس مقدمے میں دو افراد کو گرفتار کیا تھاایک بے مثال فرانزک ٹیسٹ

برطانیہ کی ساؤتھ ویلز پولیس کے سابق جاسوس جیف نارمن، جو اس بڑے مقدمے سے قبل عام نوعیت کے جرائم کی تفتیش کرتے ر ہے تھے، کے مطابق کیرن کی موت کو اس وقت شہر میں ’غیر معمولی‘ نوعیت کا واقعہ سمجھا جاتا تھا۔

انھوں نے کہا ’کارڈیف میں اتنے زیادہ قتل نہیں ہوتے تھے۔‘

جیف نارمن کے مطابق ’میں نے پہلے کبھی انسانی ڈھانچہ نہیں دیکھا اور یہ بہت صدمے والا لمحہ تھا۔‘

اس اندھے قتل کو حل کرنے کے لیے تفتیشی افسر نے نئے طریقوں کا استعمال کرتے ہوئے کیرن کی لاش کے حصے جمع کیے۔ فرانزک کی دنیا میں اسے ایک بڑا ’سنگ میل‘ سمجھا جاتا رہے گا۔

آرٹسٹ رچرڈ نیو، جو چہرے کی تصویر کشی کے لیے جانے جاتے ہیں، نے کیرن کی کھوپڑی کو سامنے رکھ کر ان کی ظاہری جسمانی شکل کا ایک تصوراتی ماڈل تیار کیا جو غیر معمولی طور پر درست ثابت ہوا۔

جس معاملے کی گتھی سلجھانا ناممکن لگ رہا تھا اب اس میں بڑی پیشرفت ہوئی اور یوں اس مقدمے نے عوام کی توجہ حاصل کر لی۔

BBCفارنزک ایکسپرٹ کا بنایا ہوا تصوراتی چہرہ

15 فروری 1990 کو ’کرائم واچ‘ میں رچرڈ نیو کے اس طریقے کے متعلق تفصیلات سامنے آئیں، جس نے کارڈف سے 10 میل شمال میں واقع ایک قصبے ’پونٹی پرڈ‘ سے تعلق رکھنے والے دو سماجی کارکنوں کو کیرن کو پہچاننے اور اس کے نام تک پہنچنے میں مدد دی۔

اس مقدمے کی تہہ تک پہنچنے کے لیے کام آنے والی یہ ایک نئی اہم نوعیت کی ٹیکنالوجی تھی، جس میں انسانی ہڈیوں سے ڈی این اے نکالنا شامل تھا، جس سے بالآخر کیرن کے والدین کا پتا چلایا گیا اور یوں پہلی بار ان کی مکمل شناخت ظاہر ہو گئی۔

’کرائم واچ‘ نے نہ صرف پراسرار لاش کو شناخت دینے میں مدد کی بلکہ یہ اس اندھے قتل کو جرم کے اعتراف تک لے گیا۔

ادریس علی ٹی وی پر یہ پروگرام دیکھ رہے تھے اور ایک دوست نے انھیں آمادہ کیا کہ وہ پولیس کو بتائیں کہ کیسے وہ ’سمرسیٹ‘ سے تعلق رکھنے والے ایلن چارلٹن نامی ایک شخص کے ساتھ مل کر کیئر ہومز سے نکلنے والی نوجوان لڑکیوں کے جسم فروشی کے کاروبار کا حصہ تھے۔

چارلٹن جون 1981 اور فروری 1982 کے درمیان 29 فٹزہمون ایمبینکمنٹ میں اس اپارٹمنٹ کے تہہ خانے میں رہتے تھے اور عدالتی دستاویزات کے مطابق کیرن کی لاش ’اس اپارٹمنٹ کے پچھلے دروازے سے چند فٹ کے فاصلے پر ملی تھی۔‘

Getty Imagesکیرن کی والدہ انیتا اب اس دنیا میں نہیں ہیں

ادریس علی نے تفتیش کاروں کو بتایا کہ انھوں نے دیکھا کہ چارلٹن نے کیرن اور ایک اور لڑکی، جو 13 سال کی تھی، کو برہنہ ہونے کا حکم دیا تاکہ وہ ان کی عریاں تصاویر لے سکیں۔

جب 13 برس والی لڑکی نے ایسا کرنے سے انکار کیا تو ادریس علی نے کہا کہ چارلٹن نے اس پر حملہ کر دیا، جس پر کیرن اس کمسن لڑکی کی حفاظت کے لیے آگے بڑھیں اور چارلٹن کے غضب کا نشانہ بن گئیں۔

چارلٹن، جنھیں استغاثہ نے ’نفسیاتی مریض‘ قرار دیا ہے، نے کیرن کو تھپڑ اور گھونسے مارے اور جب ادریس علی نے انھیں روکنے کی کوشش کی تو ادریس علی کے مطابق انھیں بھی تشدد کا نشانہ بنایا گیا۔

عدالت کو بتایا گیا کہ کس طرح ’تشدد کی دھمکی‘ کے سبب ادریس علی کیرن کے ہاتھ ’بہت تھوڑے وقت‘ کے لیے پکڑے ہوئے تھے جبکہ چارلٹن اس عرصے میں انھیں مسلسل مکے اور تھپڑ مار رہے تھے۔‘

جب چارلٹن رُکے تو ’کیرن کے منھ سے خون آرہا تھا اور انھوں نے اس وقت کوئی جواب نہیں دیا تھا‘۔

ادریس علی کی عمر اس وقت 16 برس تھی۔ ان کے مطابق کیرن پر تشدد کے بعد چارلٹنقالین کا ایک ٹکڑا لائے۔ ادریس علی نے قالین کے ٹکڑے میں کیرن کی لاش لپیٹنے میں چارلٹن کی مدد کا اعتراف بھی کیا تھا۔

کیرن کی لاش کو دفنانے سے قبل چار دن کے لیے ایک الماری میں رکھا گیا تھا۔ یہ وہ وقت تھا جب مکھیوں نے وہاں اس قالین پر انڈے دیے۔

South Wales Policeکیرن کے قتل کے وقت ادریس علی کی عمر 16 برس تھی

ادریس علی نے کہا کہ چارلٹن نے انھیں فلیٹ میں آنے کی ہدایت کی تھی تاکہ فلیٹ کے باورچی خانے کی کھڑکی کے بالکل باہر عقبی باغیچے میں ایک عارضی قبر میں کیرن کی لاش کو دفنایا جا سکے۔

یہ آٹھ برس میں پہلا موقع تھا جب کسی نے کیرن پرائس کو دیکھا ہو۔

سنہ 1991 میں چارلٹن اور ادریس علی دونوں کو کم از کم 15 سال قید کی سزا سنائی گئی تھی لیکن ادریس علی کے قتل کے اعتراف کے بعد 1994 میں انھیں قتل کے جرم میں سنائی گئی سزا منسوخ کر دی گئی تھی۔

ادریس علی کا دعویٰ ہے کہ انھوں نے جیل سے رہائی کی خاطر کم نوعیت کے جرم کا اعتراف کیا۔ چارلٹن، جنھوں نے کبھی اعتراف جرم نہیں کیا، کو سنہ 2017 میں سرسری سماعت کے بعد پرول پر رہا کیا گیا تھا۔

ماں جس نے اپنے دونوں بچوں کی لاشوں کو سوٹ کیس میں بند کر کے چار برس گودام میں چھپائے رکھا چار سال قبل سمندر میں لاپتا ہونے والی برطانوی خاتون اور سی سی ٹی وی میں آخری منظر کا معمہہوٹل کے کمرے میں ’بڑی لڑائی‘ اور تین ماہ بعد لاش پانی کی ٹینکی سے ملی: کینیا میں خاتون کا قتل جس کا الزام برطانوی فوجی پر لگا’اسے جانوروں اور کیڑے مکوڑوں نے کاٹ لیا تھا‘: انڈیا میں زندہ دفن کی جانے والی 20 دن کی بچی جو اب ہسپتال میں زندگی کی جنگ لڑ رہی ہے

سنہ 1991 میں مجرموں کو سزائیں سنائے جانے کے بعد بی بی سی کی ایک دستاویزی فلم کی فوٹیج میں دکھایا گیا تھا کہ کیرن کے والد لیونارڈ مائیکل پرائس نے کہا تھا کہ ان کا خیال تھا کہ کیرن نے شادی کی تھی اور ہوسکتا ہے کہ ان کا اپنا خاندان ہو اور جب تک یہ مقدمہ سامنے نہیں آیا انھوں نے اپنی بیٹی سے متعلق مزید نہیں سوچا تھا۔

انھوں نے کہا کہ ’یہ خاندان کے لیے بہت افسوسناک خبر تھی۔ لیکن کم از کم اب وہ آرام اور سکون میں ہیں کیونکہ انھیں (مجرموں) کو سزائیں ملیں جس کے وہ مستحق ہیں۔‘

سنہ 1990 میں ’ساؤتھ ویلز ایکو‘ کی ایک رپورٹ کے مطابق لیونارڈ پرائس نے آخری بار فروری 1981 میں اپنی بیٹی کو ان کی فلاح و بہبود کے بارے میں ایک عدالتی میٹنگ میں دیکھا تھا۔

اپنی بیٹی کے قتل کے بارے میں اپنے واحد انٹرویو میں انیتا ایڈورڈ نے کرائم رپورٹر مائیک آرنلڈ کو بتایا تھا کہ وہ توقع کرتی تھیں کہ کیرن ایک دن اپنے شوہر اور بچوں کے ساتھ گھر آئیں گی۔

انھوں نے کہا کہ سنہ 1981 میں ایک کیسیٹ ریکارڈر کی چوری پر ہونے والی بحث کے بعد کیرن ایک بس میں سوار ہوگئی تھیں۔ والدہ نے انھیں روکنے کی کوشش کی لیکن وہ اس کوشش میں ناکام رہیں۔

اس کے بعد انھوں نے اپنی بیٹی کو دوبارہ کبھی نہیں دیکھا۔

South Wales Policeایلن چارلٹن کو سنہ 2017 میں پرول پر رہا کیا گیا تھا

انیتا ایڈورڈ نے کہا کہ کیرن ’ہمیشہ ان کے یادوں میں تھں‘ اور دعویٰ کیا کہ انھوں نے سنہ 1984 میں سوشل سروسز کو خط لکھا تھا جس میں بیٹی کے بارے میں پوچھا گیا تھا مگر انھیں کبھی کوئی جواب موصول نہیں ہوا۔

ساؤتھ ویلز ایکو نے اطلاع دی ہے کہ انیتا ایڈورڈ 26 دسمبر 1992 کو کرسمس کے موقع پر کثرت مے نوشی سے گر گئیں اور 54 برس کی عمر میں فوت ہو گئیں۔

اب بھی سوالات اپنی جگہ باقی ہیں کہ کوئی بھی ایک نوجوان لڑکی کی تلاش کیوں نہیں کر رہا تھا جو مقامی اتھارٹی کی دیکھ بھال میں لاپتہ ہو گئی تھیں۔

ٹام بیڈفورڈ کا کہنا ہے کہ ’میں نے ہزاروں خبریں شائع کی ہیں مگر یہ خبر سب سے افسوسناک ہے جس پر میں نے اب تک کام کیا ہے۔‘

’ایک نوجوان لڑکی کے لیے اس طرح مرنا، اس کی زندگی 15 سال کی عمر میں ختم ہوگئییہ سب بہت افسوسناک ہے۔‘

سکول کے خلاف ہرجانے کی قانونی جنگ جیتنے والی طالبہ: ’اس درخت نے میرا ہاتھ اور سہیلی کی جان لے لی‘جوڑوں کو ہراساں کرنے والے ’96/16‘ گینگ کے کارندے گرفتار: ’والدین کو نہ بتانے کے عوض انھوں نے دو ہزار جرمانہ لیا‘انڈین پولیس افسر کا خود کو مبینہ طور پر گولی مارنے کا معاملہ: ’مظلوم برادریوں کے افسران کو شاندار ریکارڈ کے باوجود انصاف نہیں دیا جاتا‘سمندر کے بیچ انڈین کیڈٹ کی کارگو جہاز سے پراسرارگمشدگی: ’کوئی چلتے جہاز سے کیسے لاپتہ ہو سکتا ہے؟‘’محبت کی خاطر پناہ کے متلاشی‘ دو کم سن پاکستانی رن آف کچھ سے گرفتار: ’رشتہ نہ ہونے پر انھوں نے انڈیا فرار ہونے کا فیصلہ کیا‘برطانوی پولیس کے خواتین مخالف اور نسل پرستانہ رویے بی بی سی کی خفیہ فلمنگ میں بے نقاب
مزید خبریں

Disclaimer: Urduwire.com is only the source of Urdu Meta News (type of Google News) and display news on “as it is” based from leading Urdu news web based sources. If you are a general user or webmaster, and want to know how it works? Read More