پاکستان کے صوبہ پنجاب کے شہر مریدکے میں مذہبی تنظیم کے احتجاجی مارچ کو پولیس کی جانب سے منتشر کیے جانے کے باوجود ابھی تک صوبے میں آمد ورفت کا نظام مکمل طور پر بحال نہیں ہو سکا ہے۔
پیر شام تک مریدکے سمیت پنجاب کے کئی شہروں بشمول صوبائی دارالحکومت لاہور میں مذہبی تنظیم کے کارکن ٹولیوں کی شکلوں میں نکلتے رہے اور سڑکیں بند کرتے رہے۔ پولیس نے پیر کی صبح اعلان کیا تھا کہ مریدکے سے احتجاج کو ختم کروا دیا گیا ہے۔ جبکہ چھ گھنٹے پر محیط اس آپریشن کے دوران ایک پولیس اہلکار سمیت کم از کم پانچ افراد ہلاک ہوئے ہیں۔
پولیس کا دعویٰ ہے کہ ’غیرقانونی‘ احتجاج کو روکنے کے دوران مظاہرین نے گولیوں، پیٹرول بموں اور پتھروں کا استعمال کیا جس کے نتیجے میں شیخوپورہ فیکٹری ایریا کے ایس ایچ او شہزاد نواز ہلاک ہو گئے جبکہ کل 48 پولیس اہلکار زخمی ہوئے جن میں سے 17 کو گولیوں کے زخم آئے۔ اسی طرح مذہبی جماعت کا دعویٰ ہے کہ ان کے متعدد کارکن ہلاک اور زخمی ہوئے ہیں۔
تازہ ترین صورت حال کے مطابق لاہور میں کل چھ مقامات پر سڑکیں بند ہیں۔ جن علاقوں میں ٹریفک معطل ہے ان میں سمن آباد، ٹھوکر نیاز بیگ اور شملہ پہاڑی کے علاوہ اسلام آباد، سیالکوٹ اور عبدالحکیم جانے والی تینوں موٹرویز بھی شامل ہیں۔
مریدکے میں ایک مقامی صحافی محمد اعجاز کے مطابق پولیس اور رینجرز کے مشترکہ آپریشن کے بعد سڑک کو ٹریفک کے لیے کھول دیا گیا تھا تاہم مذہبی جماعت کے کارکن جلائے گئے کنٹینر کے پاس دوبارہ جمع ہوئے جنہیں وہاں سے منتشر کیا گیا۔
پولیس کی گاڑیوں نے شہر میں فلیگ مارچ بھی کیا جبکہ مذہبی جماعت کی قیادت کے بارے میں ابھی تک درست معلومات دستیاب نہیں ہیں۔
پولیس نے کئی کارکنوں گرفتاری کی تصدیق تو کی ہے البتہ قیادت سے متعلق ابھی تک کوئی بیان جاری نہیں کیا گیا۔ مذہبی تنظیم کے وکلا ونگ نے لاہور ایوان عدل کے باہر احتجاج کیا اور پولیس اہلکاروں کو زد وکوپ کیا جس کے بعد مقامی عدالتوں کی سکیورٹی پر مامور پولیس اہلکار وہاں سے چلے گئے جبکہ پنجاب یونیورسٹی نے پیر کے روز ہونے والے اپنے امتحانات منسوخ کر دیے۔
پولیس اور رینجر کا آپریشن
پولیس نے اتوار اور پیر کی درمیانی شب مریدکے قریب جی روڈ کو مظاہرین کو دھرنا ختم کرنے کی وارننگ دی اور عمل نہ ہونے پر آپریشن شروع کر دیا گیا۔ سرکاری بیان کے مطابق مظاہرین نے پولیس پر سیدھی فائرنگ کی جس کے نتیجے میں 17 اہلکاروں کو زخم آئے اور ایک ایس ایچ او جان سے گئے۔ جس کے بعد ’محدود آپریشن‘ سے علاقہ خالی کروایا گیا۔
مذہبی جماعت کا مارچ اسلام آباد کے لیے جمعے کے روز لاہور سے روانہ ہوا تھا۔ فوٹو: اے ایف پی
مقامی اور عینی شاہدین کے مطابق مریدکے میں اس وقت ہزاروں کی تعداد میں پولیس اور رینجرز اہلکار موجود ہیں اور آپریشن کے بعد ابھی تک سڑکوں پر ٹریفک بحال کرنے کی کوشش کی جا رہی ہے۔
ایک مقامی صحافی ساجد علی کے مطابق اس وقت مذہبی جماعت کے تمام کارکن منتشر ہو چکے ہیں جبکہ قیادت کا مرکزی کنٹینر جل کر خاکستر ہو چکا ہے۔ مذہبی جماعت کی قیادت کے حوالے سے متضاد اطلاعات ہیں۔ بیشتر رہنماؤں کو گرفتار کر لیا گیا ہے تاہم اس حوالے سے پولیس نے تصدیق نہیں کی۔
آپریشن سے پہلے کیا ہوا؟
مذہبی جماعت کا مارچ اسلام آباد کے لیے جمعے کے روز لاہور سے روانہ ہوا تو پولیس اور کارکنوں کے درمیان جھڑپوں کا سلسلہ جاری رہا۔ پولیس نے مظاہرین کو منتشر کرنے کے لیے آنسو گیس استعمال کی جبکہ مظاہرین کی جانب سے پتھراو کیا گیا۔ اس دوران مظاہرین نے کئی سرکاری گاڑیوں کو بھی قبضے میں لیا جن کی ویڈیوز بھی جاری کی گئیں۔ اتوار کی صبح یہ مارچ مریدکے پہنچا جہاں شرکا نے قیام کیا۔
اتوار اور پیر کی درمیانی شب پنجاب پولیس کے سربراہ عثمان انور اور وفاقی وزیر داخلہ محسن نقوی بھی مریدکے پہنچے۔ اور علاقے میں پولیس بھاری نفری بھی تعینات کی گئی۔ مقامی صحافیوں کے مطابق رات کو ایک مرتبہ مذاکرات ہوئے جس میں مذہبی جماعت کی مذاکراتی کمیٹی نے اپنے مطالبات سامنے رکھے۔ تاہم یہ مذاکرات ناکام ہو گئے اور مارچ کو جاری رکھنے کا فیصلہ کیا گیا۔
عینی شاہدین کے مطابق پیر کو علی الصبح تین اور چار بجے کے دوران آپریشن کا فیصلہ کیا گیا جس میں ڈرون کے ذریعے مظاہرین کو گرفتاری دینے کے لیے پیغامات تحریری شکل میں بھجوائے گئے۔ جب آپریشن کا آغاز ہوا تو پھر چاروں سے طرف پولیس نے آنسو گیس اور لاٹھی چارج سے مظاہرین کو منتشر کرنا شروع کیا۔ اس آپریشن میں رینجرز اور پولیس کے جوانوں نے حصہ لیا۔