اگرچہ انڈیا نے ابھی تک افغانستان کی طالبان حکومت کو باضابطہ طور پر تسلیم نہیں کیا ہے لیکن طالبان کے وزیر خارجہ امیر خان متقی کا انڈیا کا جاری دورے کو انتہائی اہمیت کا حامل قرار دیا جا رہا ہے۔
انڈیا کے وزیر خارجہ ایس جے شنکر نے 10 اکتوبر کو امیر خان متقی کی دہلی آمد پر ان کا استقبال کیا تھا اور ملاقات کے بعد یہ اعلان کیا کہ انڈیا کابل میں موجود اپنے 'ٹیکنیکل مشن' کو سفارتخانے کا درجہ دے گا۔
اسی دوران جمعہ یعنی 11 اکتوبر کو امیر خان متقی نے ایشیا کے معروف دینی ادارے ’دارالعلوم دیوبند‘ کا دورہ کیا جہاں اُن کا پرتپاک استقبال کیا گیا۔
پروفیسر محمد مظہرالحق نے بتایا کہ ’دیوبند میں اُن کا انتہائی والہانہ اور پرتپاک استقبال ہوا اور وہاں اس قدر بھیڑ تھی کہ کسی قسم کے پروٹوکول پر عمل پیرا ہونے کی کوئی گنجائش نہیں تھی۔‘
خود امیر خان متقی نے دیوبند کے سفر کو ’شاندار سفر‘ بتایا۔ انھوں نے کہا کہ ’یہاں نہ صرف دارالعلوم بلکہ پورے علاقے سے لوگ آئے، میں ان کے پرتپاک استقبال اور مہمان نوازی کے لیے ان کا شکر گزار ہوں۔ میں علمائے دیوبند اور اہل علاقہ کا مشکور ہوں۔ میں ہندوستان اور افغانستان کے تعلقات کا بہت روشن مستقبل دیکھ رہا ہوں۔‘
اپنی تقریر میں طالبان وزیر خارجہ متقی نے کہا کہ دیوبند کے ساتھ نہ صرف مذہبی بلکہ سیاسی اور تاریخی قابل فخر رشتے ہیں۔
طالبان حکومت کی وزارت خارجہ کے اہلکار ذاکر جلالی نے کہا کہ ’دارالعلوم دیوبند کے ساتھ اس تاریخی تعلق کے ذریعے دونوں ممالک ثقافتی اور فکری میدان میں ایک نیا باب کھول سکتے ہیں۔ اس سے نہ صرف علمی تعاون بڑھے گا بلکہ خطے میں مذہبی احترام، باہمی احترام اور اعتدال پسندی کی فضا کو مضبوط بنانے کی راہ ہموار ہوگی۔‘
بہت سے طالبان حامیوں نے طالبان وزیر خارجہ متقی کے دیوبند کے دورے کی تعریف کی ہے۔
طالبان تحریک کی حمایت کرنے والے ایک مصنف عبدالستار سعید نے دیوبند میں امیر خان متقی کے استقبال کے بارے میں لکھا: 'یہ استقبال محض رسمی اور علامتی نہیں ہے، بلکہ اس میں خلوص اور روحانیت عیاں ہے۔۔۔‘
امیر خان متقی کو درس حدیث میں اجازت نامہ
پروفیسر مظہر الحق نے بتایا کہ افغان طالبان دارالعلوم دیوبند کے مکتبۂ فکر سے تعلق رکھتے ہیں اور ان کے کچھ رہنماؤں نے نہ صرف انڈیا میں تعلیم حاصل کی ہے بلکہ اسی مکتبۂ فکر سے تعلق رکھنے والے پاکستان میں قائم بہت سے مدرسوں سے تعلیم حاصل کی ہے۔
انھوں نے کہا کہ وہاں امیر خان متقی نے حدیث کے ایک درس یعنی کلاس میں شرکت کی اور وہاں ان کی دستار بندی بھی کی گئی جو کہ مدرسے کی جانب سے ایک اعزاز کی حیثیت رکھتا ہے۔
ان کی آمد سے قبل دارالعلوم دیوبند کے صدرالمدرسین یا پرنسپل اور انڈیا میں جمیعت علمائے ہند کے سربراہ مولانا ارشد مدنی نے کہا جو کچھ دیوبند کے علما نے ہندوستان میں آزادی کے لیے کیا افغانستان نے اس سے سیکھا ہے۔
انھوں نے کہا: ’جس طرح ہمارے آباؤ اجداد نے دنیا کی سب سے بڑی طاقت برطانیہ کو شکست دی تھی، اسی طرح وہاں (افغانستان میں) انھوں (طالبان) نے دنیا کی سب سے بڑی طاقتوں یعنی روس اور امریکہ کو شکست دی اور یہی وہ طاقت ہے جو انھیں آج دیوبند تک لے آئی ہے۔‘
اس حوالے سے ہم نے دیوبند میں میڈیا سے گفتگو کرنے کے مجاز مولانا اشرف عثمانی سے بات کی تو انھوں نے کہا کہ ’ہم نے ان کی آمد کے حوالے سے دو شیشنز رکھے تھے ایک خصوصی ملاقات اور ایک جلسۂ عام۔ لیکن اتنا بڑا مجمع تھا کہ سکیورٹی وجوہات کی بنا پر جلسۂ عام کو ملتوی کرنا پڑا۔‘
’خصوصی ملاقاتوں کا سلسلہ بہت اچھا رہا۔ انھوں نے مولانا ارشد مدنی سے اور دارالعلوم کے مہتم (یعنی وی سی) مفتی ابوالقاسم نعمامی سے ملاقات کی ان کی حدیث کے درس میں شرکت کی جہاں سے انھیں اجازت حدیث دی گئی۔ یہ ایک علامتی اعزاز ہے جس یہ پتا چلتا ہے کہ امیر خان متقی نے مفتی ابوالقاسم نمعمانی کے درس میں شرکت کی۔‘
دیوبند کے دورے کی اہمیت
دیوبند کے لیے ان کا یہ دورہ کتنی اہمیت کا حامل ہے؟ اس سوال کے جواب میں انھوں نے کہا کہ ’وہ ہمارے سٹیٹ گیسٹ تھے اور اسی لحاظ سے ان کا استقبال کیا گیا۔ دارالعلوم دیوبند ملک سے علیحدہ کوئی چیز نہیں ہے۔ وہ ملک کی خارجہ پالیسی کے ساتھ ہے اور اگر دونوں ممالک کے رشتے اچھے ہوتے ہیں تو یہ دونوں ممالک کے لیے خوش آئند بات ہے۔'
کیا ان کے اس دورے کے بعد افغانستان سے طلبہ کی آمد شروع ہو جائے گی؟ اس کے جواب میں انھوں نے کہا کہ ’یہ تعلیمی ادارہ ہے۔ یہاں ابھی بھی افغانستان کے درجنوں طلبہ زیر تعلیم ہیں۔‘
افغان وزیر خارجہ امیر خان متقی کا انڈیا کا غیر معمولی دورہ، جسے پاکستان کے لیے ’دھچکا‘ قرار دیا جا رہا ہےکیا طالبان حکومت کی انڈیا سے بڑھتی قربت ’افغانستان میں پاکستان کو شکست‘ دینے کی کوشش ہے؟’دیوبند کے مسلمانوں میں تعلیم کی کمی‘’غزوہِ ہند‘ کے سوال پر’انڈیا مخالف فتویٰ‘: انڈیا میں بچوں کے قومی کمیشن کا نوٹس اور دارالعلوم دیوبند کو بند کرنے کے مطالبات
ہم نے دیوبند اور طالبان کے تعلق کے حوالے سے محقق اور مورخ مولانا نورالحسن راشد کاندھلوی سے بات کی تو انھوں نے بتایا کہ ’امیر خان متقی کا دورہ نہ صرف دیوبند کے لیے بلکہ پورے انڈیا کے لیے انتہائی اہمیت کا حامل ہے۔‘
’ان دونوں ممالک کے دیرینہ تعلقات رہے ہیں اگر آپ بہت پیچھے جائیں تو یہ ایک مملکت ہوا کرتے تھے۔‘
انھوں نے بتایا کہ جب انگریز حکومت کے خلاف شیخ الہند کی تحریک چلی تھی تو اس میں افغانستان کے علاقے کے علما بڑی تعداد میں ان کے ساتھ تھے۔ ’یہ رشتہ کوئی سوا سو، ڈیڑھ سو برس پرانا ہے جو ابھی تک جاری ہے۔‘
Getty Imagesجب ظاہر شاہ نے 1958 میں انڈیا کا دورہ کا تھا تو وزیر اعظم نہرو نے ان کا ايئرپورٹ پر صدرجمہوریہ اور دیگر اعلی اہلکاروں کے ساتھ استقبال کیا تھادیوبند میں باب الظاہر کی تعمیر
انھوں نے بتایا کہ آزادی کے بعد جب افغانستان کے بادشاہ محمد ظاہر شاہ نے سنہ 1958 میں انڈیا کا دورہ کیا تھا تو انڈیا کے پہلے وزیر اعظم جواہر لعل نہرو اور پہلے صدر ڈاکٹر راجندر پرشاد نے ان کا استقبال کیا تھا۔
اس سفر پر انھوں نے دارالعلوم دیوبند کا بھی دورہ کیا تھا اور وہاں ان کے نام پر ایک بہت ہی پرشکوہ دروازہ ’باب الظاہر‘ کی تعمیر ہوئی تھی جس کا سارا خرچ ظاہر شاہ کی افغانستان حکومت نے اٹھایا تھا۔
انھوں نے بتایا کہ اس وقت دارالعلم کے مہتم قاری محمد طیب صاحب نے افغانستان کا دورہ کیا تھا جہاں ان کا والہانہ استقبال ہوا تھا۔
اس درواز ے کے ساتھ کوئی درجن بھر چھوٹے بڑے کمرے بھی تعمیر ہیں جو طلبا کی رہائش کے کام آتے ہیں۔
لیکن مولانا راشد کاندھلوی نے بتایا کہ تقسیم ہند کے وقت دارالعلوم دیوبند کے ایک اہم استاد اور شیخ الحدیث مولانا عبدالحق نے اپنے وطن خیبر پختونخواہ میں رہنے کا فیصلہ کیا۔
وہاں انھوں نے دارالعلوم دیوبند کی طرز پر ایک مدرسے کی بنیاد رکھی جسے دارلعلوم حقانیہ کے نام سے جانا گیا۔ یہ مدرسہ خیبر پختونخوا کے اکوڑہ خٹک میں ہے جو کہ بعد میں طالبان کا مادر علمی بنا۔
اسی مدرسے سے افغانستان میں طالبان تحریک کے بانی رہنما ملا محمد عمر اور دیگر سینیئر رہنما جلال الدین حقانی، شیخ عبدالحکیم اور ان کے تقریباً تمام اہم رہنماؤں نے تعلیم حاصل کی۔
مولانا راشد کاندھلوی نے بتایا کہ مولانا عبدالحق کے بیٹے مولانا سمیع الحق، جو کہ جمیعت علمائے اسلام کی طرف سے پاکستان کی پارلیمان میں سینیٹر بھی رہے، نے طالبان مکتبۂ فکر کی ترویج و اشاعت میں کلیدی کردار ادا کیا۔
واضح رہے کہ مولانا عبدالحق کے بیٹے سمیع الحق اور پوتے حمیدالحق نے جمیعت علمائے ہند کی طرز پر پاکستان میں جمیعت علمائے پاکستان کی بنیاد رکھی۔
خیبر پختونخوا کے مدرسہ حقانیہ سے تعلیم حاصل کرنے والے مولوی عبدالغنی نے بی بی سی پشتو سروس سے بات کرتے ہوئے کہا: ’یہ مدرسہ افغانوں کے لیے اس لیے اہم تھا کہ دیوبند سے ہمارے تعلقات پرانے تھے اور اسے دیوبند کی ایک اہم شاخ سمجھا جاتا تھا۔ دیوبند ہمارے لوگوں کے لیے صرف ایک مدرسہ نہیں ہے، یہ ایک مکتبۂ فکر اور نظریہ ہے۔‘
طالبان کے وزیر خارجہ امیر خان متقی کا یہ دورہ دیوبند کے لیے کتنی اہمیت کا حامل ہے اس کے جواب میں مولانا راشد نے کہا کہ ان کی آمد سے موجودہ نسل میں یہ پیغام جائے گا کہ دیوبند کے مدرسے اور ان کے علما نے ہندوستان کی آزادی میں بہت بڑا کردار ادا کیا ہے اور یہ کہ یہ ادارہ اسلامی دنیا میں انتہائی اہمیت کی نظر سے دیکھا جاتا ہے۔
اس کے بعد افغانستان کے طلبہ کی مدرسے میں آمد میں سہولت پیدا ہو جائیں گی۔
انڈیا میں افغان سفارت خانے کے فعال ہونے کی امید
اس سے قبل جب امیر خان متقی سے دیوبند کے ان کے سفر کے بارے میں سوال کیا گيا تھا تو انھوں نے کہا تھا کہ ’کوئی مدرسے کیوں جاتا ہے، ظاہر ہے تعلیم حاصل کرنے کے لیے۔ جس طرح افغانستان کے طلبا انڈیا میں انجینیئرنگ اور میڈیکل کی تعلیم کے لیے آتے ہیں اسی طرح دینی تعلیم کے لیے دارالعلوم کا رخ کرتے ہیں۔‘
پروفیسر مظہرا الحق نے کہا کہ انڈیا میں سابق افغانستان حکومت کے سفیر کو انھوں نے وزیر خارجہ متقی کے ساتھ ساتھ دیکھا ہے۔ وہ دیوبند کے دورے پر بھی ان کے ساتھ نظر آئے، ایسے میں یہ عندیہ ملتا ہے کہ انڈیا میں افغانستان کا سفارتخانہ فعال ہو سکتا ہے۔
انھوں نے بتایا کہ اگرچہ ظاہری طور پر انڈین حکومت اور طالبان حکومت کے درمیان رشتہ نہیں ہے لیکن بیک چینلز سے باتیں جاری ہیں۔ تجارت کا تو یہ حال ہے کہ وہ یہ پہلے سے زیادہ ہے۔
انھوں نے کہا ابھی گذشتہ ماہ ہی وہ ایک سیمنار کے سلسلے میں افغانستان کے دورے پر تھے اور جس طیارے میں وہ سوار تھے اس میں کوئی 30 مسافر تھے جبکہ گنجائش 300 سے زیادہ کی تھی جب انھوں نے دریافت کیا تو پتہ چلا کہ یہ ایک کارگو طیارہ ہے اور دونوں ممالک کے درمیان تجارت اپنے معمول پر ہے۔
انھوں نے کہا کہ اس دورے سے ان کے پشتو زبان سیکھنے والے طلبہ کی افغانستان آنے جانے اور ویزا میں سہولتوں کے راستے ہموار ہو سکتے ہیں۔
Getty Imagesدارالعلوم دیوبند کا قیام سنہ 1866 میں عمل میں آیا تھادیوبند کا قیام
دارالحکومت دہلی سے تین چار گھنٹے کی مسافت پر موجود دیوبند قصبے میں دارالعلوم کی بنیاد سنہ 1866 میں رکھی گئی۔ اس مدرسے کے قیام کا تعلق انگریزوں کے خلاف 1857 کی بغاوت سے ہے جسے انڈیا میں آزادی کی پہلی جنگ بھی کہا جاتا ہے۔
خیال رہے کہ 1857 کی بغاوت کے بعد برطانوی حکومت نے مسلمانوں کے بہت سے ادارے بند کر دیے تھے اور سینکڑوں اسلامی سکالرز کو برسوں تک قید میں رکھا یا پھر پھانسی دے دی۔
زندہ بچ جانے والے اسلامی علما اکٹھے ہوئے اور 30 مئی 1866 کو اس مدرسہ کی بنیاد رکھی۔
یہ وہ لوگ تھے جو ہندوستان کو ایسٹ انڈیا کمپنی سے آزاد کرانا چاہتے تھے اور ہندوستان میں اسلامی علوم کے انحطاط کو روکنا چاہتے تھے۔
ماہرین کا کہنا ہے کہ دیوبند ایک مدرسہ ہی نہیں بلکہ ایک تحریک ہے جس کی بنیاد محمد قاسم نانوتوی، رشید احمد گنگوہی، اشرف علی تھانوی، اور خلیل احمد سہارنپوری جیسے رہنماؤں نے برطانوی حکومت کے خلاف 1857 کی ہندوستانی بغاوت کے دوران رکھی تھی۔ دیوبند نے جنوبی ایشیا میں مسلمانوں پر غیر اسلامی ثقافت کے اثرات کی مخالفت کی اور روایتی اسلامی تعلیمات کو برقرار رکھنے کی کوشش کی۔
اس تحریک نے نومبر 1919 میں سیاسی اور مذہبی گروپ جمعیت علمائے ہند کی بنیاد رکھی۔ انھوں نے ہندوستان کے مختلف گروہوں سے ہندوستان میں برطانوی فوجی موجودگی کے خلاف متحد ہونے کی اپیل کی۔
جمعیۃ علماء ہند کے علماء کی توجہ زیادہ تر ہندوستان میں ثقافتی تنوع پر تھی اور وہ ہندوستان کی تقسیم کے خیال کی مخالفت کرتے تھے کیونکہ ان کا ماننا تھا کہ متحدہ ہندوستان میں مسلمانوں کی مذہبی آزادی کا تحفظ انتہائی ضروری ہے۔
یہ مدرسہ پورے خطے میں اسلامی تعلیم کے لیے مشہور ہوا۔ آج، دارالعلوم کی طرف سے جاری کردہ فتوے اور مذہبی مشورے کو انتہائی اہمیت کا حامل سمجھا جاتا ہے۔
یہ مدرسہ سنی اسلام کے حنفی مسلک پر قائم ہے اور اس مدرسہ کے تربیت یافتہ علما پوری دنیا میں پھیلے ہوئے ہیں اور متعدد ممالک میں اس مدرسے کے نظرے پر قائم مدارس نظر آتے ہیں بطور خاص، انڈیا پاکستان اور بنگلہ دیش میں اس کا غلبہ ہے۔
کیا طالبان حکومت کی انڈیا سے بڑھتی قربت ’افغانستان میں پاکستان کو شکست‘ دینے کی کوشش ہے؟افغان وزیر خارجہ امیر خان متقی کا انڈیا کا غیر معمولی دورہ، جسے پاکستان کے لیے ’دھچکا‘ قرار دیا جا رہا ہے’بندر روڈ سے کیماڑی‘: مذہبی گھرانے میں پیدا ہونے والے احمد رشدی اور کرشن چندر کی پیش گوئیکیا پڑوسیوں سے خراب تعلقات انڈیا کو افغان طالبان کی طرف دھکیل رہے ہیں؟مودی کی حمایت یافتہ شیخ حسینہ کی حکومت کا خاتمہ: ’افغانستان میں جو امریکہ کے ساتھ ہوا وہی ڈھاکہ میں انڈیا کے ساتھ ہوا‘