فلسطینی نژاد امریکی سائنسداد عمر یاغی، آسٹریلیا کے سائنسدان رچرڈ رابسن اور کیوٹو یونیورسٹی سے وابستہ جاپانی محقق سوسومو کیتاگاوا کومشترکہ طور پر کیمسٹری کے شعبے میں نوبیل انعام دیا گیا ہے۔
عمر یاغی کے والدین کا تعلق فلسطین سے تھا اور وہ خود اردن سے تعلیم حاصل کرنے کے لیے امریکہ آئے تھے۔
عمر یاغی امریکہ کی یونیورسٹی آف کیلیفورنیا برکلے سے وابستہ ہیں جبکہ آسٹریلوی سائنسدان یونیورسٹی آف میلبرن سے منسلک ہیں۔
کمیسٹری کے شعبے میں نوبیل انعام دھاتی نامیاتی فریم ورکس اور مالیکیولر سٹرکچر پر کی گئی تحقیق کو دیا گیا ہے۔
اُن کی اس تحقیق کو کاشتکاری کے لیے صحرا کی ہوا سے پانی کے حصول، کاربن ڈائی آکسائیڈ اور زہریلی گیسوں کو ذخیرہ کرنے یا کیمیائیردعمل کو تیز کرنے کے لیے استعمال کیا جا سکتا ہے۔
لیکن فلسطینی نژاد والدین کے ہاں پیدا ہونے والے عمر یاغی کون ہیں اور کیسے امریکہ پہنچے؟
ابتدائی تعلیم اور امریکہ آمد
عمر یاغی کی پیدائش 1965 میں اردن کے دارالحکومت عمان میں ہوئی اور اُن کے والدین فلسطینی نژاد تھے۔
عمر یاغی کے سات بھائی اور دو بہنیں تھیں جبکہ والد مویشی پالتے تھے اور عمان میں قصاب تھے۔ یاغی کی عمر پندرہ سال تھی جب اُن کے والد نے انھیں بتایا کہ تعلیم حاصل کرنے کے لیے انھیں امریکہ بھیجا جا رہا ہے۔
انھوں نے اپنی والد سے کہا کہ وہ طب کی تعلیم حاصل کرنے کے لیے روس جا سکتے ہیں اور سکالرشپ پر انھیں ڈاکٹریٹ کی ڈگری بھی مل سکتی ہے، لیکن پھر انھوں نے تعلیم کے حصول کے لیے امریکہ آنے کا فیصلہ کیا۔
ہائی سکول سے فارغ التحصیل ہونے کے بعد ایک سال کے اندر اندر انھوں نے امریکہ کا ویزاحاصل کیا اور نیویارک میں ایک کالج میں داخلہ لیا۔
عمر یاغی کی انگریزی زبان کمزور تھی اس لیے انھوں نے انگریزی، ریاضی اور سائنس میں مہارت کے لیے ہڈسن ویلی کمیونٹی کالج میں داخلہ لیا اور اس کے بعد وہ نیویارک منتقل ہو گئے۔
اپنے اخراجات برداشت کرنے کے لیے انھوں نے مختلف نوعیت کی چھوٹی ملازمتیں جیسے جھاڑ پونچھ اور صفائیاں وغیرہ بھی کیں۔
’انرجی ویمپائر‘: اپنی زندگی میں توانائی چوسنے والے ’دوستوں‘ کی شناخت کیسے کی جائے؟تین سالہ بچے کے پھیپھڑے سے کھلونا گاڑی کا بلب نکالنے کا آپریشن: اگر بچے سکہ، مقناطیس یا کچھ اور نِگل لیں تو کیا کیا جائے؟سمجھ میں نہ آنے والے طبی نسخے: انڈین ہائیکورٹ کا ڈاکٹروں کو اپنی لکھائی بہتر کرنے کا حکمکترینہ کیف کا 42 سال کی عمر میں ماں بننے کا فیصلہ:40 برس کی عُمر کے بعد ماں بننے سے متعلق کچھ اہم سوالوں کے جواب
عمر یاغی نے مشکل حالات میں تعلیمی سفر جاری رکھتے ہوئے 1985 میں کمیسٹری کے مضمون میں بیچلر کی ڈگری مکمل کیاور 1990 میں انھوں نے یونیورسٹی آف الینوائے سے ڈاکٹرایٹ مکمل کی۔
اس کے بعد پوسٹ ڈاکٹریٹ تحقیق کے لیے وہ ہاورڈ یونیورسٹی چلے گئے جہاں انھوں نے امریکہ کی نیشنل سائنس فاؤنڈیشن کے تعاون سے ریسرچ پراجیکٹس مکمل کیے۔
امریکی یونیورسٹیوں میں درس و تدریس
عمر یاغی نے 1992 میں ایریزونا سٹیٹ یونیورسٹی سے اپنے تدریسی عمل کا آغاز کیا۔ انھوں نے 1999 میں مشی گن یونیورسٹی اور 2007 میں یونیورسٹی آف کیلیفورنیا، لاس اینجلس میں پڑھایا جس کے بعد 2012 میں وہ یونیورسٹی آف کیلیفورنیا برکلے چلے گئے۔
وہ برکلے گلوبل سائنس انسٹیٹوٹ کے بانی اور دیگر سائنسی تحقیق کے اداروں کے شریک بانی ہیں۔
برکلے گلوبل سائنس انسٹیوٹ میں سائسدانوں اور اساتذہ کی ٹیم نئے ابھرتے ہوئے ریسرچرز کو تحقیق کرنے کے مواقع فراہم کرتی ہے اور انھوں نے ویتنام، اردن، سعودی عرب، جنوبی کوریا اور ملائیشیا میں ریسرچ سینٹرز بنائے ہیں۔
اس ادارے کا مقصد سرحدوں کی تقسیم کے بغیر با معنی سائنسی تحقیق کو ممکن بنانے کے لیے مواقع فراہم کرنا ہے۔
سنہ 2022 میں انھیں یونیورسٹی آف کیلیفورنیابرکلے کے زیر انتظام نئے تحقیقی سینٹر کا ڈائریکٹر نامزد کیا گیا جس کا نام بکر انسٹیوٹ فور ڈیجیٹل مٹیریل ہے۔
اس ادارے کا مقصد مصنوعی ذہانت کے استعمال سےنامیاتی دھاتی فریم ورک بنانا ہے تاکہ ماحولیاتی تبدیلیوں سے نمبردآزما ہوا جا سکے۔
’مجھے کیمسٹری سے محبت تھی‘
عمر یاغی کا کہنا ہے کہ انھیں کیمسٹری بہت پسند تھی اور یونیورسٹی میں ہی وہ سائنسی تحقیق میں شامل ہو گئے۔ عمر یاغی نے بتایا کہ وہبیک وقت تین مختلف پروفیسرز کے ساتھ تین مختلف پروجیکٹس پر کام کر رہے تھے۔
انھوں نے بتایا کہ ’میں ایک پروفیسر کے ساتھ آرگینک فزکس کے پروجیکٹ، دوسرے کے ساتھ بائیو فزکس کے پروجیکٹ اور تیسرے کے ساتھ ایک تھیوریٹیکل پروجیکٹ پر کام کر رہا تھا۔ مجھے لیب بہت پسند تھی۔‘
وہ کہتے ہیں کہ ’مجھے لیکچرز کبھی بھی پسند نہیں تھے لیکن میں محنتی تھا اور کلاسز لیا کرتا تھا۔ میں نے خود بہت کچھ سیکھا۔ کیمسٹری لیب میرے لیے ایک محفوظ پناہ گاہ تھی۔‘
انھوں نے لیبارٹری کے بارے میں بات کرتے ہوئے کہا کہ ’وہاں میں نے ایک چھپی ہوئی دنیا دریافت کی اور میں اس دنیا کی تلاش شروع کر دی، جو زندگی کے ساتھ دھڑک رہی ہے۔‘
عمر یاغی کا کہنا ہے کہ وہ برسلز میں ایک بس سٹاپ پر موجود تھے جب انھیں نوبیل پرائز کے بارے میں پتا چلا۔
انھوں نے بتایا کہ ’شہر پہنچنے پر میں مسافروں کی بھیڑ میں پھنسا ہوا تھا کہ مجھے نوبل کمیٹی کے ایک رکن کی تفصیلی فون کال موصول ہوئی جس کا اختتام ان کلمات پر ہوا:’ میں آپ کا تہہ دل سے شکریہ ادا کرتا ہوں۔‘
عمر یاغی کے مطابق ’یہ بہت زبردست ہے۔ ایوارڈ لینا ایک بہت نایاب احساس ہے۔‘
اُن کا فون اب مسلسل بج رہا ہے اور وہ مبارکباد کے پیغام وصول کر رہے ہیں۔
عمر یاغی کو نوبیل پرائز ملنے سے پہلے بھی ان کی تحقیقی مقالوں کو کئی اہم ایوارڈ سے نوازا گیا ہے۔ 2019 میں وہ نیشنل سائنس اکیڈمی کے سربراہ مقرر ہوئے۔
یاغی جرمن نیشنل اکیڈمی آف سائنسز لیوپولڈینا، امریکن اکیڈمی آف آرٹس اینڈ سائنسز، اسلامک ورلڈ اکیڈمی آف سائنسز، اور یورپی اکیڈمی آف سائنسز کے رکن منتخب ہوئے ہیں۔
وہ انڈین اکیڈمی آف سائنسز کے منتخب اعزازی فیلو، ترک اکیڈمی آف سائنسز کے منتخب اعزازی رکن، اردنی نیشنل اکیڈمی آف سائنسز اینڈ انجینئرنگ کے اعزازی رکن ہیں۔
نوبیل انعام آخر ہے کیا اور یہ اتنا اہم کیوں ہے؟ہمارے جسم کا مدافعتی نظام خود اسی پر حملہ آور کیوں نہیں ہوتا؟جاپانی سائنس دان کے لیے طب کا نوبیل انعاممعاشیات کا نوبل انعام جیتنے والا جوڑا کون ہے؟’دولت کی دیوی‘: چینی خاتون نے فراڈ کے ذریعے اربوں ڈالر کی کرپٹو کرنسی کیسے حاصل کی اور ان کی گرفتاری کیسے عمل میں آئی؟