انڈین فضائیہ جس کی ابتدا ایک مسلمان افسر سمیت صرف چھ پائلٹوں سے کراچی میں ہوئی

بی بی سی اردو  |  Oct 09, 2025

Getty Imagesہندوستانی پائلٹوں کا پہلا گروپ 8 اکتوبر 1940 کو برطانیہ پہنچا تھا

انڈین فضائیہ باضابطہ طور پر 8 اکتوبر سنہ 1932 کو برطانوی حکومت کے دور میں وجود میں آئی۔ اس دن چھ انڈین کیڈٹس نے رائل ایئر فورس کالج، کروم ویل میں اپنا کورس مکمل کرنے کے بعد اپنا کنگ کمیشن یا آفیشل رینک حاصل کیا۔

ان میں سے پانچ کیڈٹس پائلٹ بنے جبکہ چھٹے کو گراؤنڈ ڈیوٹی آفیسر کی ذمہ داری سونپی گئی۔ ان پانچ پائلٹوں میں سے ایک سبروتو مکھرجی تھے، جو بعد میں انڈین فضائیہ کے سربراہ بنے۔ ان میں واحد مسلمان پائلٹ اے بی اعوان تھے جو آزادی کے بعد پاکستان منتقل ہو گئے۔

یکم اپریل سنہ 1933 کو کراچی کے ڈرگ روڈ پر انڈین فضائیہ کا پہلا سکواڈرن تشکیل دیا گیا۔ یہ سکواڈرن صرف چار ویسٹ لینڈ طیاروں پر مشتمل تھا۔

قبائلی باغیوں کے خلاف فضائیہ کا پہلا استعمال

تین سال کی تربیت کے بعد، اس سکواڈرن کو رائل ایئر فورس کی مدد اور صوبہ سرحد میں قبائلی باغیوں کے خلاف کارروائیوں میں برطانوی فوج کی مدد کا کام سونپا گیا۔

پی وی ایس جگن موہن اور سمیر چوپڑا اپنی کتاب ’دی انڈیا-پاک ایئر وار آف 1965‘ میں لکھتے ہیں: ’یہ سکواڈرن میرانشاہ میں تعینات تھا، جبری لینڈنگ کے دوران کئی پائلٹوں کو جانی نقصان پہنچا۔‘

’ان میں سے ایک سکھ پائلٹ ارجن سنگھ تھے جنھیں میران شاہ سے رمزاک کے درمیان پرواز کے دوران قبائلیوں کی جانب سے چلائی جانے والی گولی لگی اور انھیں لینڈنگ کرنی پڑی تھی۔‘

وہ بعد میں انڈین فضائیہ کے چیف بنے اور مارشل کا عہدہ پایا۔

لائسنس یافتہ پائلٹس کو فضائیہ میں شامل کرنے کی تجویز

دوسری جنگ عظیم شروع ہونے کے بعد، رسالپور میں تعینات رائل ایئر فورس سکواڈرن کو انڈین ایئر فورس کی تربیت کی ذمہ داری سونپی گئی۔

انڈین ایئر فورس میں کمرشل پائلٹ لائسنس رکھنے والوں کو بھرتی کرنے کی تجویز پیش کی گئی۔ تقریباً ایک سو ایسے پائلٹوں نے انڈین فضائیہ کے رضاکارانہ ریزرو میں شمولیت اختیار کی، جن میں پی سی لال اور راماسوامی راجارام شامل تھے، جو بعد میں انڈین فضائیہ میں اعلیٰ عہدوں پر فائز ہوئے۔

صرف چند دنوں کی تربیت کے بعد، ان پائلٹوں کو نئی تشکیل شدہ کوسٹل ڈیفنس فلائٹ میں تعینات کیا گیا اور انھیں واپیتی، ہارٹ اور آڈیکس جیسے سویلین طیارے اڑانے کے لیے دیے گئے۔

انھیں ساحلی پٹی پر گشت کرنے اور تجارتی راستے پر بحری جہازوں کے بیڑے کو فضائی کور یا نگرانی فراہم کرنے کا کام سونپا گیا تھا۔

فوجی افسران کی فضائیہ میں شمولیت

اس کے باوجود پائلٹس کی اتنی کمی تھی کہ آرمی افسران سے کہا گیا کہ اگر وہ فضائیہ میں ذرا سی بھی دلچسپی رکھتے ہیں تو انھیں طیارے اڑانے کی تربیت دی جا سکتی ہے۔ 20 ستمبر سنہ 1938 کو آرمی کے تین لیفٹیننٹ نے فضائیہ میں شمولیت میں دلچسپی ظاہر کی۔

انچِت گپتا اپنے مضمون ’سیکنڈڈ ٹو دی سکائیز: دی آرمی آفیسرز ہو ہیلپ بلڈ انڈین ایئرفورس‘ میں لکھتے ہیں: ’یہ تین افسران محمد خان جنجوعہ، آتمارام نندا اور برہان الدین تھے۔ انھوں نے اپنی آرمی کی سینیارٹی برقرار رکھی لیکن انڈین فضائیہ کے لیے کل وقتی کام کرنا شروع کیا۔‘

’اس وقت، ہندوستان میں کوئی فلائنگ سکول نہیں تھا اس لیے انھیں تربیت دینے کے لیے مصر بھیج دیا گیا تھا۔ جنجوعہ کو تقسیم کے بعد سکواڈرن نمبر ون میں تعینات کیا گیا، انھوں نے پاکستان جانے کا فیصلہ کیا اور وہاں اپنے پہلے دن ہی ترقی کر کے ایئر کموڈور بن گئے اور بعد ازاں وہ پاکستان کے قائم مقام چیف آف دی ایئر سٹاف کے عہدے پر فائز ہوئے۔‘

وہ آزادی کے وقت پاکستان ایئر فورس کے سینیئر ترین افسر تھے۔ تاہم انھیں راولپنڈی سازش کیس میں سزا دی گئی تھی اور ملازمت سے برطرف کیا گیا تھا۔ وہ سنہ 1955 میں رہا ہوئے اور اس کے فوراً بعد برطانیہ روانہ ہو گئے اور وہیں کے ہو کر رہ گئے۔ ان کی وفات بھی برطانیہ میں ہوئی۔

انڈین فضائیہ کی توسیع

سنہ 1941 میں دوسری جنگ عظیم میں جاپان کے داخلے کے بعد، ہندوستانی فضائیہ کی توسیع میں تیزی آئی۔ لاہور کے قریب والٹن اور بالا میں فلائنگ سکول کھولے گئے اور رسالپور اور پشاور میں بھی دو ٹریننگ سکول کھولے گئے۔

بھارتی فضائیہ کے سکواڈرن کی تعداد دو سے بڑھ کر دس ہو گئی۔ ایک سکواڈرن عام طور پر 12 طیاروں پر مشتمل ہوتا ہے، لیکن یہ تعداد مختلف ہو سکتی ہے۔

دوسری جنگ عظیم کے دوران ہندوستانی فضائیہ

برما کے محاذ پر ہندوستانی فضائیہ کو جاپانیوں سے کم طاقت والے طیارے دیے گئے۔

پی وی ایس جگن موہن اور سمیر چوپڑا لکھتے ہیں: ’دوسری جنگ عظیم کے دوران، ہندوستانی فضائیہ کو رائل ایئر فورس کے ذریعہ مسترد کردہ طیارہ دیا گیا تھا۔ لیکن پھر جنگ کے خاتمے سے کچھ دن پہلے ہندوستانی فضائیہ کو اڑنے کے لیے جدید اسپِٹ فائر دیے گئے۔‘

انڈیا کے چیف آف آرمی سٹاف فیلڈ مارشل سلم نے ہندوستانی فضائیہ کی تعریف کرتے ہوئے لکھا: ’میں ہندوستانی فضائیہ کی کارکردگی سے بے حد متاثر ہوں۔ جوڑوں میں اڑان بھرتے ہوئے، ہندوستانی پائلٹوں نے اپنے پرانے ہریکین طیارے کے ساتھ، اپنے سے کہیں زیادہ اعلیٰ جاپانی طیاروں کا سامنا کیا۔‘

دوسری جنگ عظیم کے اختتام پر، ہندوستانی پائلٹوں کو ایک ڈی ایس او 22 اور ڈی ایف سیز اور متعدد دیگر بہادری کے اعزازات سے نوازا گیا۔ پوری جنگ میں ہندوستانی فضائیہ کے 60 پائلٹ ایکشن میں مارے گئے۔

1965 کی جنگ اور فضائی برتری: ’انڈیا کے پاس جدید طیارے تو پاکستان کے پاس ایک دہائی کا تجربہ اور ماہر پائلٹ تھے‘عید کا دن، راولپنڈی کی فضا اور دو پائلٹس کی گرفتاری: جب پاکستانی فضائیہ نے پہلی بار انڈیا کا جاسوس طیارہ مار گرایاجب پاکستانی F-16 نے سوویت یونین کا لڑاکا طیارہ مار گرایا1971 کی جنگ: وہ پائلٹ جس نے راشد منہاس کا طیارہ ہائی جیک کیاGetty Imagesجب فضائیہ نے انڈین فوجیوں کو سری نگر میں اتارا

تقسیم کے بعد انڈیا کو سات فائٹر اور ایک ٹرانسپورٹ سکواڈرن ملے جبکہ پاکستان کو دو فائٹر اور ایک ٹرانسپورٹ سکواڈرن ملا۔

انڈین فضائیہ کے پہلے سربراہ ایئر مارشل سر تھامس ایمہرسٹ تھے۔ ان کے بعد ایئر مارشل ایولا چیپمین اور سر جیرالڈ گبز سربراہ بنے۔

آزادی کے بعد انڈین فضائیہ کی پہلی کارروائی 20 اکتوبر کو کشمیر میں ہوئی۔ مہاراجہ ہری سنگھ کی درخواست پر آئی اے ایف نے انڈین فوجیوں کو سری نگر میں اتارا۔

انڈین فوج کا ایک دستہ 27 اکتوبر کی صبح 9:30 بجے دہلی کے پالم ہوائی اڈے سے ٹیک آف کرتے ہوئے سری نگر ایئرپورٹ پر اترا۔

یہ ایک بہت خطرناک فیصلہ تھا کیونکہ آئی اے ایف کو یہ بھی معلوم نہیں تھا کہ سری نگر ہوائی اڈہ محفوظ ہے یا پاکستانی حملہ آوروں نے اس پر قبضہ کر لیا ہے۔

شام تک، آئی اے ایف اور سویلین ڈکوٹا ہوائی جہاز نے سکھ رجمنٹ کی پہلی بٹالین کے فوجیوں کو سری نگر ہوائی اڈے پر اتارا اور ہوائی اڈے کا کنٹرول سنبھال لیا۔

کشمیر آپریشن میں انڈین فضائیہ کا کردار

لیفٹیننٹ جنرل ایل پی سین اپنی کتاب ’سلینڈر واز دی تھریڈ‘ لکھتے ہیں کہ ’28 اکتوبر کو، ٹیمپیسٹ طیارے نے انڈین فضائیہ کے امبالہ اڈے سے اڑان بھری اور پٹن میں دراندازوں کے ٹھکانوں پر بمباری کی۔ دو دن بعد سپٹ فائر طیارہ بھی سری نگر پہنچا۔‘

’7 نومبر کو، شیتلانگ کی جنگ میں انڈین فوج اور فضائیہ نے پاکستان کے حملے کو ناکام بنا دیا اور ٹیمپسٹ طیاروں نے در اندازوں کو اڑی تک پیچھے ہٹنے پر مجبور کر دیا۔ سرینگر اور بارہ مولہ کے درمیان در اندازوں کی 147 لاشیں ملیں۔ یہ سب انڈین لڑاکا طیاروں کا نشانہ بنے تھے۔‘

اس وقت پونچھ کے پاس نہ تو ہوائی اڈہ تھا اور نہ ہی کوئی فضائی پٹی، اس لیے فوجیوں کے لیے ہتھیار، خوراک اور دوائیں ہوائی جہاز سے اتاری گئیں۔

اپنی سوانح عمری ’مائی ایئرز ود اے ایف آئی‘ میں پی سی لال لکھتے ہیں: ’لیفٹیننٹ کرنل پریتم سنگھ کو پونچھ میں ڈکوٹا طیارے کے اترنے کے لیے ایک فضائی پٹی بنانے کا کام سونپا گیا تھا۔ پناہ گزینوں کی مدد سے انڈین فوجیوں نے چھ دنوں کے اندر پریڈ گراؤنڈ پر 600 گز لمبی فضائی پٹی بنائی تھی۔‘

آئی اے ایف کے طیاروں نے اوپر سے تعمیر کی نگرانی کی تاکہ دشمن کو تعمیر میں مداخلت کرنے سے روکا جا سکے۔ دسمبر کے دوسرے ہفتے میں فضائی پٹی مکمل ہونے کے بعد، ایئر کموڈور مہر سنگھ اپنے پہلے ڈکوٹا کے ساتھ وہاں اترے۔

ایئر وائس مارشل سبروتو مکھرجی بھی ان کے ساتھ جہاز میں تھے۔ اس وقت، ڈکوٹا ہوائی جہاز دن میں تقریباً 12 بار سامان لے کر اترتے تھے، اور واپسی کی پروازوں میں، وہ مرنے والوں اور پناہ گزینوں کو لے کر جاتے تھے۔

ایشیا میں لڑاکا طیارے کا استعمال کرنے والی پہلی ایئر فورس

اس وقت جنوبی انڈیا میں حیدرآباد کے نظام کے خلاف پولیس کی کارروائی جاری تھی۔ ادھر بھی ایئر فورس کے ٹیمپیسٹ اور ڈکوٹا طیارے نے فوج کی مدد کی اور نظام کی فوج پر بم برسائے۔

جب جنگ کی سی صورتحال ختم ہوئی تو انڈین ایئر فورس کو بھی وسعت دی گئی اور 100 سپٹفائر اور ٹیمپسٹ طیارے برطانیہ سے خریدے۔

انڈین ایئر فورس ایشیا میں لڑاکا طیارے اُڑانے والی پہلی فضائیہ اس وقت بنی جب نومبر 1948 میں برطانیہ سے پہلا ویمپائر طیارہ خریدا گیا۔ یہ طیارہ 23 برس بعد یعنی سنہ 1971 کی جنگ تک استعمال ہوتا رہا۔

یکم اپریل 1954 میں ایئر مارشل سبروتو مکھرجی فضائیہ کے پہلے انڈین سربراہ بنے تھے۔ ان کی قیادت میں انڈین ایئر فورس میں کینبرا اور نیٹ فائٹر طیارے شامل کیے گئے تھے۔

سنہ 1961 میں اقوامِ متحدہ کے ایک مشن کے دوران پہلی مرتبہ انڈیا کے چھ طیارے استعمال ہوئے تھے۔ اس وقت گوا کی آزادی کے لیے آپریشن وجے بھی شروع ہوا تھا۔

پرتگالی فوج کے پاس کوئی لڑاکا طیارہ نہیں تھا۔ اس وقت انڈین ایئر فورس نے بغیر کسی رُکاوٹ کے کینبرا، ہنٹرز اور ویمپائر طیاروں کا استعمال کیا، دابولیم اور دیو کی فضائی پٹیوں پر بمباری کی گئی اور وہ استعمال کے قابل نہیں رہیں۔

اس آپریشن کے دوران پرتگالی فوج نے ایک مرتبہ بھی اینٹی ایئر کرافٹ گنز کا استعمال نہیں کیا۔

چین کے ساتھ جنگ میں فضائیہ کا کردارGetty Imagesچینی وزیر خارجہ چو این لائی 1954 میں انڈیا کے دورے کے دوران جواہر لعل نہرو کے ہمراہ فوج اور فضائیہ سے گارڈ آف آنر وصول کرتے ہوئے

سنہ 1962 میں انڈیا اور چین کی جنگ کے دوران فضائیہ کو حملے کرنے کی ذمہ داری نہیں دی گئی تھی بلکہ اس کی ذمہ داری لداخ میں موجود فوج کو سامان پہنچانا تھی۔

جنگ کے دوران انڈین ایئرفورس زخمی اہلکاروں کے انخلا کی ذمہ داری اُٹھاتی رہی۔ لداخ میں چوشُل میں اتنے طیارے اُترے کہ وہاں موجود سٹیل کا رن وے تقریباً تباہ ہی ہو گیا۔

متعدد عسکری تجزیہ کار فضائیہ کو جارحانہ طور پر استعمال نہ کرنے پر بھی سوالات اُٹھاتے ہیں۔ لیکن اس جنگ میں سیکھے گئے اسباق کا استعمال انڈین فضائیہ نے پاکستان کے ساتھ 1965 کی جنگ میں کیا۔

پاکستانی فضائیہ کو حیران کرنے والے سکواڈرن لیڈر دیوایا جن کی قبر دشمن ملک کے کھیت میں ہے1971 کی جنگ: وہ پائلٹ جس نے راشد منہاس کا طیارہ ہائی جیک کیاعید کا دن، راولپنڈی کی فضا اور دو پائلٹس کی گرفتاری: جب پاکستانی فضائیہ نے پہلی بار انڈیا کا جاسوس طیارہ مار گرایاراولپنڈی سازش کیس: جب فوجی افسران کو لگا کہ ’کورٹ مارشل ہو گا اور گولی مار دی جائے گی‘1965 کی جنگ اور فضائی برتری: ’انڈیا کے پاس جدید طیارے تو پاکستان کے پاس ایک دہائی کا تجربہ اور ماہر پائلٹ تھے‘
مزید خبریں

Disclaimer: Urduwire.com is only the source of Urdu Meta News (type of Google News) and display news on “as it is” based from leading Urdu news web based sources. If you are a general user or webmaster, and want to know how it works? Read More