علیمہ خان، اسٹیبلشمنٹ یا امن و امان: عمران خان نے علی امین گنڈاپور کو ہٹانے کا فیصلہ کیوں کیا؟

بی بی سی اردو  |  Oct 09, 2025

خیبر پختونخوا میں پاکستان تحریک انصاف کے وزیرِ اعلیٰ علی امین گنڈا پور کی 20 ماہ کی حکومت ایسی کشتی تھی جو مسلسل طوفان میں ہچکولے کھاتی رہی۔ جماعت کے اندرونی اختلافات ہوں، انتظامی امور، تنظیم سازی، گورننس یا امن و امان کی صورتحال ہو، سبھی معاملات میں وہ مشکلات کا شکار رہے۔

جماعت کے بیشتر اراکین کے مطابق خیبر پختونخوا میں پاکستان تحریک انصاف کے اندر کے اختلافات، عمران خان کی رہائی کے لیے مہم میں ناکامی اور صوبے میں تشدد کے بڑھتے ہوئے واقعات ایسے عوامل تھے جس پر بانی پی ٹی آئی نے علی امین کو عہدے سے ہٹانے کا فیصلہ کیا ہے۔

اب جب نسبتاً کم تجربہ کار نوجوان سیاستدان سہیل آفریدی کو وزارتِ اعلیٰ کے عہدے کے لیے نامزد کیا گیا ہے، تو یہ سوال اٹھتا ہے کہ کیا نئی قیادت بانیِ پی ٹی آئی عمران خان کی توقعات پر پورا اتر سکے گی؟

اس کے ساتھ ہی ہم نے یہ جاننے کی بھی کوشش کی ہے کہ علی امین گنڈا پور کو اس اہم منصب سے ہٹانے کی وجوہات کیا تھیں اور وہ کون سے عوامل تھے جنھوں نے عمران خان کو اتنا بڑا فیصلہ کرنے پر مجبور کیا؟ اور کیا نئے وزیراعلی کا انتخاب پی ٹی آئی کے لیے مشکلات پیدا کر سکتا ہے؟

جماعت کے اندرونی اختلافات

پاکستان تحریک انصاف کے ایک بزرگ رہنما اور وکیل قاضی انور ایڈووکیٹ نے بی بی سی کو بتایا کہ ’علی امین کے ان کے عہدے سے ہٹانے کی مختلف وجوہات ہیں جن میں ایک تو جماعت کے اندرونی اختلافات ہیں۔‘

وہ کہتے ہیں کہ ’علی امین کی جانب سے عمران خان کی بہن علیمہ خان پر سنگین نوعیت کے الزامات اور اس کے بعد علیمہ خان کا عمران خان سے ملاقات میں اپنا موقف بیان کرنا، یہ صورتحال شاید اس تبدیلی کی وجہ ہو سکتی ہے۔‘

انھوں نے 27 ستمبر کے جلسے کا ذکر خاص طور پر کیا اور کہا کہ اس جلسے میں لوگوں نے علی امین کو بات بھی نہیں کرنے دی تھی۔

پشاور میں 27 ستمبر کا جلسہ ان کے لیے کافی مشکلات پیدا کر گیا ہے۔ اس جلسے میں کارکنوں کی جانب سے جس طرح علی امین کی تقریر کے دوران ہنگامہ آرائی اور نعرہ بازی دیکھنے کو ملی اس سے لگ رہا تھا کہ کارکن بھی علی امین سے خوش نہیں ہیں۔

تاہم علی امین کا کہنا تھا کہ یہ ان کے خلاف ایک پلان تھا اور اپنے ایک ویڈیو پیغام میں انھوں نے عمران خان کی بہن علیمہ خان پر تنقید کی تھی۔ علی امین نے علیمہ خان کے بارے میں بیان عمران خان سے ملاقات کے بعد دیا تھا اور اس وقت وہ اڈیالہ جیل کے باہر صحافیوں سے بات چیت کیے بغیر چلے گئے تھے۔

Getty Imagesاپنے ایک ویڈیو پیغام میں علی امین نے عمران خان کی بہن علیمہ خان پر تنقید کی تھیاسٹیبلشمنٹ کی چھاپ؟

سینئیر صحافی اور تجزیہ کار علی اکبر کا کہنا ہے کہ ’علی امین پر سب سے بڑا الزام ان پر پُرو اسٹیبلشمنٹ کی چھاپ ہے۔ ان پر اعتراض ہے کہ وہ اسٹیبلشمنٹ کے ساتھ ملے ہوئے ہیں اور ان پر یہ الزام بھی ہے کہ وہ دونوں جانب کھیلتے ہیں، وہ عمران خان کی طرف بھی ہوتے ہیں اور ادھر وہ اسٹیبلشمنٹ کے بھی ساتھ ہوتے ہیں۔‘

وہ کہتے ہیں کہ ’اس کی مثال یہ ہے کہ جب بھی عمران خان کی رہائی کے لیے اسلام آباد کی طرف ریلیاں گئیں آخری لمحوں میں علی امین غائب ہو جاتے تھے۔‘

انھوں نے کہا کہ پی ٹی آئی کے لیے اس وقت عمران خان کی رہائی اہم ہے اور اب سہیل آفریدی سے توقع ہو گی کہ وہ اڈیالہ سے حکم آنے پر من و عن ان پر عمل درآمد کریں۔

اس بارے میں قاضی انور ایڈووکیٹ کا کہنا تھا کہ ’اگرچہ علی امین پر الزامات ہیں لیکن خیبر پختونخوا کی جغرافیائی پوزیشن ایسی ہے کہ اس میں جو بھی وزیر اعلیٰ آئے گا اسے فوج کے ساتھ تعلقات بہتر رکھنے ہوں گے۔ اس کی ایک وجہ خیبر پختونخوا کے ساتھ افغانستان کی سرحد ہے اور دوسرا قبائلی علاقوں کے حالات بہت اہم ہیں۔‘

امن و امان کی صورتحال

سیاسی جماعتوں کی جانب سے یہ نقطہ ہمیشہ اٹھایا گیا ہے کہ پی ٹی آئی کے وزیر اعلیٰ دیگر سرگرمیوں میں زیادہ شریک رہتے ہیں اور اپنے صوبے میں امن بحال کرنے میں ناکام رہے ہیں۔

ان پر یہ الزام بار بار عائد کیا جاتا رہا ہے کہ ان کے اپنے علاقے ڈیرہ اسماعیل خان، کلاچی، ٹانک، بنوں میں اس وقت بدامنی کی لہر پائی جاتی ہے اور وزیر اعلیٰ ہوتے ہوئے بھی وہ ان حالات پر قابو پانے میں ناکام رہے ہیں۔

قاضی انور ایڈووکیٹ کا کہنا تھا کہ ’آپ صوبے کے جنوبی اضلاع اور اوپر باجوڑ اور مہمند کو دیکھ لیں کیا صورتحال ہے، ہر طرف بدامنی نظر آتی ہے اور یہ ایک بڑی وجہ ہو سکتی ہے جس پر عمران خان نے علی امین کو اس عہدے سے ہٹانے کا فیصلہ کیا ہے۔‘

انھوں نے کہا کہ ’علی امین کے احکامات تو پولیس بھی نہیں مانتی تھی۔‘

’علی امین گنڈا پور کو عمران خان کی رہائی میں ناکامی اور ریاستی آپریشنز کی حمایت پر ہٹایا گیا‘

بدھ کی سہہ پہر اڈیالہ جیل کے باہر پی ٹی آئی کے سیکرٹری جنرل سلمان اکرم راجہ نے علی امین گنڈاپور کو وزارتِ اعلیٰ کے عہدے سے ہٹائے جانے کے متعلق کہا کہ ’یہ عمران خان کا سوچا سمجھا فیصلہ ہے لیکن اس کا محرک آج اورکزئی میں ہونے والا واقعہ بنا ہے۔‘

انھوں نے کہا کہ ’اورکزئی کے واقعے پر عمران خان بہت افسردہ ہیں اور کہا ہے کہ اب کوئی گنجائش نہیں بچی کہ میں تبدیلی نہ کروں۔‘ تاہم گذشتہ چند دنوں سے علی امین گنڈاپور اور علیمہ خان کے درمیان کشیدہ تعلقات بھی خبروں میں ہیں۔

سینئیر صحافی و تجزیہ کار عاصمہ شیرازی کا ماننا ہے کہ ’عمران خان نے علی امین گنڈا پور کو اپنی رہائی کا جو ٹاسک دیا تھا، اس میں ناکامی (مؤثر انداز میں احتجاج نہ کرنا) اور خیبرپختونخوا میں انٹیلیجنس کی بنیاد پر ہونے والے آپریشنز میں ریاست کے ساتھ کھڑے ہونا، یہ دو وجوہات بنی ہیں جن کی بنیاد پر عمران خان نے انھیں وزارت کے عہدے سے ہٹایا ہے۔‘

بی بی سی کی منزہ انوار سے بات کرتے ہوئے عاصمہ شیرازی کا کہنا تھا کہ عمران خان کے اکاؤنٹ سے دو تین بار ایسی ٹویٹس کی گئی کہ ’اس آپریشن سے ہمیں صوبے میں سیاسی طور پر نقصان پہنچانے کی کوشش کی جا رہی ہے، اس کا مطلب یہی ہے کہ ان انٹیلیجنس کی بنیاد پر ہونے والے آپریشنز میں علی امین گنڈا پور ریاست کے ساتھ کھڑے تھے۔‘

عاصمہ شیرازی کا کہنا تھا کہ ’علی امین کو ہٹانے کی باتیں گذشتہ تین مہینوں سے چل رہی تھیں اور انھوں (علی امین) نے عمران خان کی رہائی کے لیے 90 دن کا ٹارگٹ دیا، اس وقت ہی ایسی باتیں شروع ہو گئیں تھی کہ ’شاید عمران خان نے انھیں وزارت سے ہٹانے کا کہہ دیا ہے۔۔۔ اور انھیں وقت دیا گیا ہے اور اس کے بعد یہی لگ رہا تھا کہ جلد ان سے وزارتِ اعلیٰ لے لی جائے گی اور پھر وہی ہوا۔‘

ان کا مزید کہنا تھا کہ ’صرف یہ کہنا کہ اورکزئی میں جوانوں کی ہلاکتوں پر عمران خان کو افسوس ہوا ہے، اگر ایسا ہی ہے تو پھر وہ دہشت گردوں کی بھی مخالفت کرتے، ان سے مذاکرات کے بجائے آہنی ہاتھوں سے نمٹنے کی بات کرتے۔ لیکن وہ تو مستقل ان سے مذاکرات کی بات کر رہے ہیں اور آپریشن کی مخالفت کر رہے ہیں۔ جتنے مرضی جوان ہلاک ہوتے رہیں وہ یہی کہتے ہیں کہ ان کے خلاف کارروائیاں اور آپریشن نہ کریں۔‘

عاصمہ شیرازی کا کہنا تھا کہ ان کے خیال میں ’اورکزئی محرک نہیں بنا، وجہ یہی ہے کہ وہ سمجھتے ہیں کہ علی امین گنڈاپور آپریشن کے معاملے میں ریاست کے ساتھ کھڑے ہیں اور انھیں رہا کروانے میں ناکام رہے ہیں۔‘

اس سوال کے جواب میں کہ سہیل آفریدی صوبے میں دہشت گردی کے خلاف آپریشن کے معاملے پر کہاں کھڑے ہوں گے؟ کیا وہ وفاق کا ساتھ دیں گے؟

عاصمہ شیرازی، سلمان اکرم راجہ کے اس بیان کہ ’دہشت گردی کو ختم کرنے کا ایک ہی طریقہ ہے بیٹھ کر مذاکرات کریں، سہیل آفریدی وفاقی حکومت کی رہنمائی کریں گے اور اسے سمجھائیں گے‘ کا حوالہ دیتی ہوئے کہتی ہیں کہ ’اس کا مطلب یہی ہے کہ عمران خان نہیں چاہتے کہ سہیل آفریدی اس معاملے میں ریاست کے ساتھ مل کر آگے بڑھیں۔‘

وہ کہتی ہیں کہ ’صوبے میں آپریشن کا معاملہ ہو یا ان کی اپنی رہائی، عمران خان ان دونوں معاملات میں جارحانہ (یا سخت گیر) رویہ چاہتے ہیں جس پر سہیل آفریدی پہلے ہی عمل پیرا ہیں (وہ عسکری اداروں اور شخصیات کے خلاف جارحانہ رویے کے لیے جانے جاتے ہیں) اور شاید اسی لیے انھیں نامزد بھی کیا گیا ہے۔‘

عاصمہ شیرازی کہتی ہیں کہ ’اگر علی امین گنڈاپور جیسا شخص عمران خان کی رہائی کے معاملے میں صوبے میں پارٹی کو متحرک نہیں کر پایا تو سہیل آفریدی سے ایسی توقع رکھنا؟ اس کے امکانات کم نظر آتے ہیں۔‘

وزیرِ اعلیٰ علی امین گنڈاپور کو ہٹانے کا فیصلہ: ’سہیل آفریدی کا بڑا امتحان شروع، خیبرپختونخوا کی وزارت اعلیٰ پھولوں کی سیج نہیں‘علی امین گنڈا پور: کے پی ہاؤس میں ’پراسرار گمشدگی‘ سے خیبرپختونخوا اسمبلی کی ’سرپرائز انٹری‘ تک’پی ٹی آئی کو تقسیم کرنے میں علیمہ خان کا بنیادی کردار ہے‘: علی امین گنڈاپور اور عمران خان کی بہن آمنے سامنے کیوں؟علی امین گنڈاپور کی ’حکمت عملی‘ اور تحریک انصاف کا ڈی چوک احتجاج جو ’پارٹی کے لیے کئی سوال چھوڑ گیا‘

پشاور سے رُکن قومی اسمبلی منتخب ہونے والے پی ٹی آئی رہنما شیر علی ارباب، علی امین گنڈاپور کو وزارِتِ اعلیٰ سے ہٹائے جانے کی وجہ عمران خان کی سوچ پر عملدرآمد نہ کرنا سمجھتے ہیں۔

انھوں نے بی بی سی کے روحان احمد کو بتایا کہ ’مجھے لگتا ہے کہ علی امین خیبر پختونخوا میں انتظامی امور چلانے کے دوران عمران خان کی سوچ پر مکمل عملدر آمد نہیں کر سکے۔‘

انھوں نے مزید کہا کہ علی امین گنڈاپور ’فوجی آپریشنز روک نہیں سکے اور ان معاملات پر توجہ نہیں دے سکے جن پر ان کی توجہ درکار تھی۔‘

خِیال رہے پاکستان تحریک انصاف کی جانب سے عمران خان کی رہائی کے لیے مختلف اوقات میں تحریکیں شروع کی گئیں لیکن وہ کامیاب نہیں ہو سکیں۔

27 ستمبر کا جلسہ جماعت کی اعلی قیادت کی آنکھیں کھولنے کے لیے کافی تھا۔ اس جلسے میں عوام کی کم شرکت اور قیادت پر نعرہ بازی کے بعد قیادت کو بھی معلوم ہوگیا تھا کہ علی امین اب کسی طرح بھی بڑی تحریک شروع کرنے کے قابل نہیں رہے کیونکہ کارکنوں کا اب علی امین پر اعتبار نہیں رہا۔

اس جلسے کے بعد صوبائی سطح پر قیادت کی جانب سے علی امین کی کارکردگی پر سوال اٹھائے گئے تھے۔

پی ٹی آئی کی جانب سے عمران خان کی رہائی کے لیے 26 نومبر کی تحریک اس وقت ناکام ہوئی جب ڈی چوک پہنچ کر علی امین سمیت قائدین غائب ہو گئے تھے۔ اس ریلی کے دوران جماعت کے کارکن ہلاک اور زخمی ہوئے، کئی کو گرفتار کیا گیا اور چند ایسے بھی ہیں جو تاحال لاپتہ ہیں۔

اس سے پہلے جب کارکن ڈی چوک کے قریب پہنچے تو علی امین آخری لمحے غائب ہو گئے تھے جس کے بعد انھوں نے دعویٰ کیا کہ وہ بارہ اضلاع سے ہوتے ہوئے اگلے روز پشاور پہنچنے ہیں۔

اس کے بعد جماعت کوئی بڑی تحریک شروع نہیں کر سکی ہے۔

اس بارے میں علی امین کا کہنا تھا کہ ’ایسی تحریکوں کے دوران جب کارکنوں پر گولیاں برسائی جارہی ہوں تو وہ اپنے کارکنوں کو مرنے کے لیے نہیں لے جا سکتے۔‘

کیا نئے وزیر اعلیٰ کا انتخاب آسان ہو گا؟

پشاور میں اس بارے میں قیاس آرائیاں کی جا رہی ہیں۔تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ مخصوص نشستیں حزب اختلاف کو ملنے کے بعد پی ٹی آئی کے لیے اکثریت ثابت کرنا مشکل ہو سکتا ہے ۔

قاضی انور ایڈووکیٹ کا کہنا ہے کہ ’استعفیٰ گورنر کو بھیجنے اور منظوری کے بعد گورنر خیبر پختونخوا اسمبلی کا اجلاس طلب کریں گے جس میں علی امین کی حکومت تحلیل اور نئے انتخابات کا شیڈول دیں گے۔‘

علی اکبر کا کہنا ہے کہ ’پی ٹی آئی کے لیے یہ ایک مشکل مرحلہ ہو گا کیونکہ اس وقت پی ٹی آئی کے اراکین کی تعداد 92 ہے جن میں 28 سے 30 اراکین آزاد طور پر منتخب ہوئے ہیںجبکہ حزب اختلاف کے اراکین کی تعداد 52 ہے۔‘

’حکومت سازی کے لیے پی ٹی آئی کو 73 اراکین کی حمایت درکار ہو گی۔ اگر آزاد اراکین پی ٹی آئی کا ساتھ دیتے ہیں تو ایسے میں کوئی مشکل نہیں ہو گی لیکن اگر حزب ِ اختلاف کے اراکین ان آزاد اراکین کو اپنے ساتھ ملا لیتے ہیں یا ان میں سے 22 بھی اپوزیشن کی حمایت کرتے ہیں تو صورتحال تبدیل ہو سکتی ہے اور پی ٹی آئی کو بڑا سرپرائز بھی مل سکتا ہے۔‘

نامزد وزیر اعلیٰ سہیل آفریدی کون ہیں؟

خیبر پختونخوا کے نامزد وزیر اعلی سہیل آفریدی پاکستان تحریک انصاف کے ایک نظریاتی کارکن ہیں اور جماعت کی طلبا تنظیم آئی ایس ایف سے اپنی سیاست کا آعاز کرنے والے نوجوان آج وزیر اعلی نامزد ہوئے ہیں۔

سہیل آفریدی کا تعلق ضلع خیبر سے ہے۔ وہ صوبائی اسمبلی کے حلقہ پی کے 71 سے بھاری اکثریت سے کامیاب ہوئے ہیں۔ انھوں نے اکنامکس میں گریجویشن کی ہے اور جرنلزم میں ڈپلومہ بھی کیا ہے۔

سہیل آفریدی کی عمر 35 سال ہے اور جماعت کے رہنماؤں کے مطابق وہ 2008-2009 سے پاکستان تحریک انصاف کا حصہ ہیں۔ زمانہ طالبعلمی میں انصاف سٹوڈنٹ فیڈیریشن کے صوبائی صدر بنے اور اس کے بعد مرکزی صدر بنے، اسی طرح وہ انصاف یوتھ ونگ کے صوبائی صدر اور بعد میں مرکزی صدر منتخب ہوئے تھے۔

انھوں نے بلدیاتی انتخابات میں حصہ لیا تھا لیکن کامیاب نہیں ہوئے تھے۔ گذشتہ سال جنرل انتخابات میں انھوں نے اپنے ضلع خیبر سے صوبائی اسمبلی کی نشست پر انتخاب میں حصہ لیا اور کامیاب ہوئے تھے۔

وزارت اعلیٰ کی نامزدگی سے پہلے وہ صوبائی حکومت میں وزیر اعلیٰ کے معاون خصوصی برائے سی اینڈ ڈبلیو تھے اور حال ہی میں انھیں وزیر تعلیم مقرر کیا گیا تھا۔

پاکستان تحریک انصاف کے جلسوں اور صوبائی اسمبلی میں ان کو شعلہ بیانمقرر سمجھا جاتا ہے۔

سہیل آفریدی کی تیراہ میں بم دھماکوں میں ہلاکتوں کے واقعہ کے بعد صوبائی اسمبلی میں تقریر ہو یا اس سے پہلے مخصوص نشستوں پر دیگر جماعتوں کے نمائندوں کی نامزدگی ہو، ان کی تقاریر سوشل میڈیا پر کافی وائرل ہوئی ہیں۔

سینیئر صحافی اور تجزیہ کار علی اکبر نے کہا کہ ’اس وقت تحریک انصاف میں سے چند ایک نوجوان اراکین اسمبلی میں آئے ہیں جن میں سہیل آفریدی کے ساتھ مینا خان آفریدی اور دیگر شامل ہیں جو زیادہ متحرک رہے ہیں۔‘

وہ کہتے ہیں کہ ’سہیل آفریدی کی شخصیت بہترین رہی ہے اور عمران خان کو بھی ایسی شخصیت ہی چاہیے جنھیں وہ جو احکامات دیں تو وہ ان پر عمل درآمد کریں۔‘

تجزیہ کاروں کے مطابق اس وقت پاکستان تحریک انصاف میں گروہ بندی ہے، ایک طرف صوبائی صدر جنید اکبر، عاطف خان اور ان کے ساتھی جبکہ دوسری جانبعلی امین اور ان کے ساتھی ہیں۔ ایسے میں سہیل آفریدی کا انتخاب ایسا ہے کہ وہ دونوں گروپس کے لیے قابلِ قبول ہوں گے۔

وزیرِ اعلیٰ علی امین گنڈاپور کو ہٹانے کا فیصلہ: ’سہیل آفریدی کا بڑا امتحان شروع، خیبرپختونخوا کی وزارت اعلیٰ پھولوں کی سیج نہیں‘علی امین گنڈا پور: کے پی ہاؤس میں ’پراسرار گمشدگی‘ سے خیبرپختونخوا اسمبلی کی ’سرپرائز انٹری‘ تکعلی امین گنڈاپور کی ’حکمت عملی‘ اور تحریک انصاف کا ڈی چوک احتجاج جو ’پارٹی کے لیے کئی سوال چھوڑ گیا‘’یہ ویڈیو لنک ٹرائل نہیں، واٹس ایپ ٹرائل ہے‘: جی ایچ کیو حملہ کیس میں عمران خان کی پیشی کے دوران کیا ہوا؟عمران خان کی بہن پر انڈہ پھینکنے کا واقعہ: ’سیاست میں اس طرح کے واقعات کی گنجائش نہیں ہے‘پی ٹی آئی میں اندرونی اختلافات: کیا واقعی معاملات ’مائنس عمران خان‘ تک پہنچ چکے ہیں؟
مزید خبریں

Disclaimer: Urduwire.com is only the source of Urdu Meta News (type of Google News) and display news on “as it is” based from leading Urdu news web based sources. If you are a general user or webmaster, and want to know how it works? Read More