سات اکتوبر حملوں کے بعد ایک یہودی خاندان نے اسرائیل منتقل ہونے کا فیصلہ کیا، لیکن دوسرا اسے چھوڑنے پر کیوں مجبور ہوا؟

بی بی سی اردو  |  Oct 07, 2025

BBCنوفر اور ایال ایودان کینیڈا منتقل ہو رہے ہیں

ایک خاندان کے لیے سات اکتوبر کو حماس کی قیادت میں ہونے والا حملہ اور اس کے بعد غزہ میں شروع ہونے والی جنگ نے ان کے ملک چھوڑنے کے فیصلے میں کلیدی کردار ادا کیا۔ جبکہ بیرونِ ملک مقیم ایک اور یہودی خاندان کے لیے یہ واقعات اور یہود مخالفت میں اضافہ ان کے اسرائیل واپس آنے کی خواہش کا سبب بنے۔ ان دونوں خاندانوں کے متضاد فیصلے ایسے وقت میں سامنے آئے جب اسرائیل کے مرکزی ادارہ برائے شماریات کے مطابق کافی لوگ ملک چھوڑ کر جا رہے ہیں۔

نوفر اور ایال ایودان کے مرکزی اسرائیل کے شہر رملا میں واقع فلیٹ میں ایک سامان منتقل کرنے والی کمپنی ان کا سامان بڑے بڑے گتے کے ڈبوں میں پیک کر ر ہی ہے۔ ان ڈبوں پر اوٹاوا، کینیڈا کا پتہ درج ہے۔

نوفر اپنی سات ماہ کی بیٹی شینا کو فیڈ کرواتے ہوئے کہتی ہیں کہ انھیں کوئی افسوس نہیں ہے۔ بہت سے دیگر یہودیوں کی طرح وہ بھی اس سارے عمل کے لیے ’نقل مکانی‘ کا لفظ استعمال کرتی ہیں جو اس امکان کو ظاہر کرتا ہے کہ وہ واپس آئیں گی۔ اس کے برعکس ملک ’چھوڑ کر جانا‘ ایک بھاری بھر کم اصطلاح ہے اور جس سے یہ تاثر مل سکتا ہے کہ وہ اپنی سرزمین سے منھ موڑ رہے ہیں۔

39 سالہ انگریزی کی استاد کہتی ہیں 2023 کے حماس کے اسرائیل پر حملے سے پہلے ہی وہ اور ان کے شوہر بیرونِ ملک منتقل ہونے کے بارے میں سوچ رہے تھے۔ اس حملے نے انھیں اپنا ذہن بنانے پر مجبور کیا اور انھیں یہ یقین دلایا کہ یہی صحیح وقت ہے۔

وہ کہتی ہیں، ’ہم اپنی فیملی، اپنی شینا کے لیے کچھ الگ چاہتے تھے۔‘

جیسے جیسے آخری ڈبے پیک ہو رہے ہیں، ایال جو کہ پیشے سے وکیل ہیں کہتے ہیں، ’ہم اپنے گھر کے آرام سے بڑھ کر کچھ سوچ رہے ہیں، ہم ایک پرسکون زندگی چاہتے ہیں۔‘

اپنے مستقبل کی منصوبہ بندی کرتے ہوئے انھوں نے کینیڈا کا دورہ کیا، جہاں پہلے سے ہی ان کے کئی دوست آباد ہیں اور جہاں انھیں نئی زبان سیکھنے کی ضرورت نہیں پڑے گی۔

BBCنوفر کہتی ہیں کہ انھیں لگتا ہے کہ اسرائیلی سیاست دان انھیں ’نظر انداز‘ کرتے ہیں۔

نوفر کہتی ہیں کہ انھیں اپنے یہودی اور صیہونی ہونے پر فخر ہے لیکن ان کی خواہش ہے کہ ان کی بیٹی کو ایک شخص کے طور پر جانا جائے نہ کہ محض یہودی کے طور پر۔

’مجھے لگتا ہے کہ اسے اسرائیل سے زیادہ کینیڈا میں زندگی کے مواقع ملیں گے کیونکہ اسرائیل میں تو حکومت کی توجہ صرف قدامت پسندوں پر ہی ہے۔‘

ان کے خیال میں ’اسرائیل میں سیاستدان محنت کش افراد کے حق میں نہیں جو معیشت میں اپنا حصہ ڈالتے ہیں۔۔۔ ہم اکثریت میں ہیں، اور ہمیں لگتا ہے کہ ہم پر توجہ نہیں دی جاتی، ہم دکھائی نہیں دیتے۔‘

وہ وزیر اعظم نتن یاہو کی مخلوط حکومت کی طرف اشارہ کرتی ہیں جسے اسرائیل کی تاریخ کی سب سے سخت گیر اور مذہبی رجحانات رکھنے والی حکومت سمجھا جاتا ہے اور جس میں انتہائی دائیں بازو اور انتہائی قدامت پسند پارٹیوں کا پالیسی پر کافی اثرورسوخ ہے۔

کچھ اسرائیلیوں کا خیال ہے کہ اسرائیل میں رہنا ہمیشہ سے ہی مشکلات سے بھرا ہوا تھا۔

نوفر کہتی ہیں کہ سات اکتوبر سے قبل بھی انھیں اپنا مستقبل زیادہ تابناک نہیں دکھائی دیتا تھا۔ وہ کہتی ہیں کہ غزہ میں جنگ کے آغاز کے بعد سے زندگی مزید مشکل ہو گئی ہے۔

ان کا کہنا ہے کہ ہر مرتبہ راکٹ حملے کا سائرن بجتے ہی شیلٹر یا سیف روم کی جانب بھاگنا نارمل زندگی نہیں لگتی ’چاہے یہ ہفتے میں صرف ایک دفعہ ہی کیوں نہ ہو۔‘

’ایسی جنگ کے سائے میں بچوں کو پالنا کوئی نارمل زندگی نہیں اور اس کا کوئی اختتام نظر نہیں آتا۔ صرف ایک گھنٹہ قبل اشدود پر راکٹ فائر کیے گئے جو یہاں سے زیادہ دور نہیں۔ ہمارے ارد گرد بہت غم اور دکھ ہے۔‘

ان کا اشارہ غزہ جنگ کے آغاز کے بعد سے حماس اور دیگر شدت پسند تنظیموں کی جانب سے اسرائیلی شہروں پر راکٹ حملوں کی جانب تھا۔

غزہ کے معاملے میں منقسم اسرائیل: ’جنگ مکمل طور پر سیاسی ہو چکی ہے جو نتن یاہو کی بقا کے سوا کچھ نہیں‘حماس کی حق حکمرانی سے دستبرداری، اسرائیلی فوج کی مشروط واپسی اور قیامِ امن بورڈ: غزہ کے لیے نئے 20 نکاتی امن منصوبے میں کیا کہا گیا ہے؟’طے شدہ امن منصوبے میں ترامیم‘ یا ملک کی اندرونی سیاست اور دباؤ: پاکستان نے ٹرمپ کے غزہ منصوبے سے دوری کیوں اختیار کی؟غزہ میں امدادی مقامات کی سکیورٹی پر مامور اسلام مخالف ’امریکی بائیکر گینگ‘ جس کے ارکان خود کو ’صلیبی جنگجو‘ کہتے ہیں

ایال کو ڈر ہے کہ اسرائیلی معاشرہ دن بدن ’پر تشدد‘ ہوتا جا رہا ہے، اور یہ جنگ کے پہلے سے ہو رہا ہے۔

ان کا کہنا ہے کہ انھوں نے ’سڑکوں، عوامی مقامات، اپارٹمنٹ بلاکس‘ میں جارحانہ رویے دیکھے ہیں اور جنگ سے اس میں مزید ابتری آئی ہے۔

اسرائیلی بیورو برائے شماریات (سی بی ایس) کے مطابق، 2023 کے مقابلے میں 2024 میں سڑکوں پر ہونے والے حادثات میں ہونے والی اموات میں 22 فیصد اضافہ دیکھا گیا ہے۔ یروشلم سینٹر برائے سکیورٹی اور خارجہ امور (جے سی ایس ایف اے) نامی تھنک ٹینک کے مطابق، سات اکتوبر حملے کا اسرائیلی معاشرے پر گہرا جذباتی اثر پڑا ہے اور رویے بھی متاثر ہوئے ہیں۔

جون 2024 میں، اسرائیلی پارلیمان کی خواتین اور صنفی مساوات سے متعلق ایک کمیٹی کو بتایا گیا کہ جنگ کے آغاز کے بعد سے گھریلو تشدد کی رپورٹس میں بھی اضافہ ہوا ہے۔

BBCیروشلم سینٹر برائے سکیورٹی اور خارجہ امور (جے سی ایس ایف اے) نامی تھنک ٹینک کے مطابق، سات اکتوبر حملے کا اسرائیلی معاشرے پر گہرا جذباتی اثر پڑا ہے اور رویے بھی متاثر ہوئے ہیں۔

مڈرز آن دی فرنٹ نامی تنظیم نے کمیٹی کو بتایا کہ ایک ایسا شخص جو پوسٹ ٹراما کے ساتھ لوٹتا ہے تو اس سے اسرائیل میں پورے گھرانے پر اثر پڑتا ہے۔ ’بعض اوقات پرتشدد ردعمل کو دبایا جاتا ہے اور اس کا علاج نہیں کیا جاتا اور خواتین شکایت کرنے میں شرم محسوس کرتی ہیں۔‘

دوسری جانب، اکتوبر 2023 کے بعد انتہائی دائیں بازو سے تعلق رکھنے والے قومی سلامتی کے وزیر بن گویر بندوقیں رکھنے سے متعلق قوانین میں نرمی لائے اور اس کے نتیجے میں ہتھیاروں کے لائنسس کی درخواستوں میں اضافہ ہوا۔ اسرائیلی میڈیا کے مطابق، تب سے تقریباً چار لاکھ درخواستیں موصول ہوئی ہیں جن میں سے نصف سے زیادہ کو مشروط منظوری دی گئی ہے۔

جے سی ایس ایف اے کا شمار ان تنظیموں میں ہوتا جنھیں اس بات کا خدشہ ہے کہ سڑکوں پر ہتھیاروں کی بڑھتی ہوئی موجودگی گن وائلنس کو ہوا دے سکتی ہے۔

نوفر اور ایال بتاتے ہیں کہ اس کے علاوہ بھی دیگر عوامل ہیں جس نے ان کے فیصلے کو متاثر کیا ہے۔ ’روز مرہ کے اخراجات میں بھی اضافہ ہو گیا ہے، اور جنگ کے آغاز کے بعد سے ہمیں زیادہ ٹیکس دینا پڑ رہا ہے۔‘

BBCاسرئیل کے ادارہ برائے شماریات کے مطابق، 2023 سے 2024 سے دوران ملک چھوڑ کر جانے والوں کی تعداد اسرائیل منتقل ہونے والوں سے زیادہ تھی۔

2025 کے ابتدا میں بڑے فوڈ مینوفیکچررز نے قیمتوں میں اضافے کا اعلان کیا ہے۔ اگرچہ روز مرہ کے اخراجات میں اضافے کا مسئلہ دنیا بھر میں ہے، رواں سال اپریل میں صنعتی ممالک کے او ای سی ڈی کلب کی ایک رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ دیگر او ای سی ڈی ممالک کے مقابلے میں اسرائیل میں چیزوں کی قیمتیں سب سے زیادہ ہیں۔

اسرائیل میں جاری جنگ کے اخراجات کو پورا کرنے کے لیے ٹیکس میں اضافہ بھی کیا گیا ہے۔ جنوری 2025 میں ویلیو ایڈڈ ٹیکس (وی اے ٹی)کی شرح 17 فیصد سے بڑھا کر 18 کر دی گئی۔

اس کے علاوہ پبلک سیکٹر کے ملازمین کی تنخواہوں میں بھی کمی کی گئی ہے تاہم انھیں کہا گیا ہے کہ یہ کٹوتی عارضی ہے۔ (اس کا نوفر اور ایال پر اثر نہیں پڑا ہے کیونکہ وہ نجی شعبوں سے منسلک ہیں۔)

ڈینی شیرر، جو نوفر اور ایال کے فلیٹ سے سامان منتقل کروانے کے عمل کی نگرانی کر رہے ہیں کہتے ہیں کہ سات اکتوبر کے حملے سے پہلے ہی انھوں نے نوٹ کیا تھا کہ لوگوں کے اسرائیل چھوڑ کر جانے میں اضافہ ہوا ہے۔

ان کے اندازے کے مطابق، ان کی کمپنی کو 2022 میں سالانہ تقریباً 400 کیسز ملا کرتے تھے جو 2023 کے وسط تک بڑھ کر 700 سے زائد ہو گئے تھے۔

وہ اس کو 2023 میں شروع ہونے والے عدالتی اصلاحات کے بحران سے جوڑتے ہیں اور جس کے نتیجے میں اُس سال بڑے پیمانے پر مظاہرے بھی ہوئے۔

وزیرِ اعظم نیتن یاہو کچھ اصلاحات نافذ کرنے میں بھی کامیاب رہے۔ ان اصلاحات کا مقصد عدالتی تقرریوں پر حکومت کو زیادہ کنٹرول دینا اور سپریم کورٹ کے قوانین کو ختم کرنے کی صلاحیت کو محدود کرنا تھا۔

ان اصلاحات کے حامیوں کا کہنا تھا کہ ججز سیاسی اور پالیسی فیصلوں میں ضرورت سے زیادہ مداخلت کر رہے تھے جبکہ ناقدین نے ان اصلاحات کو جمہوریت کے لیے خطرہ قرار دیا۔

ڈینی کا کہنا ہے کہ جن افراد کو انھوں نے بیرونِ ملک منتقل ہونے میں مدد کی ان میں سے بیشتر پیشہ ور افراد تھے جو آسٹریلیا، نیوزی لینڈ اور کینیڈا جانے کا رجحان رکھتے تھے۔

اسرائیل کی اِنوویشن اتھارٹی کا کہنا ہے کہ اسرائیل میں پہلی مرتبہ ہائی ٹیک ملازمین کی تعداد میں کمی واقع ہوئی ہے۔

اکتوبر 2023 سے جولائی 2024 کے دوران، تقریباً آٹھ ہزار 300 ہائی ٹیک ورکرز کم از کم ایک سال یا اس سے زائد عرصے کے لیے ملک سے باہر چلے گئے۔ یہ شعبے کی کُل افرادی قوت کا 2.1 فیصد ہے۔

اسرئیل کے ادارہ برائے شماریات کے مطابق، 2023 سے 2024 کے دوران ملک چھوڑ کر جانے والوں کی تعداد اسرائیل منتقل ہونے والوں سے زیادہ تھی۔

اس عرصے کے دوران 82 ہزار 700 افراد اسرائیل چھوڑ کر گئے جبکہ 60 ہزار ملک میں منتقل ہوئے۔

پروفیسر سرجیو ڈیلا پرگولا انسٹی ٹیوٹ فار جیوئش پالیسی ریسرچ میں یورپی یہودی ڈیموگرافی یونٹ کے چیئرمین ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ 77 سال قبل اسرائیل کے قیام کے بعد سے ایسا تیسری مرتبہ ہوا ہے۔

ان کا کہنا ہے کہ اس سے قبل 1950 اور 1980 کی دہائی میں ایسا ہوا تھا اور اس وقت اس کی وجوہات معاشی تھیں۔ لیکن اس بار وجوہات کا ایک مجموعہ ہے جس میں سکیورٹی، جنگ، اور معیشت بھی شامل ہے تاہم اس کے علاوہ بھی دیگر عوامل ہیں۔

ان کے خیال میں 2025 میں بھی یہ رجحان جاری رہے گا تاہم اس کے رفتار میں کمی آئے گی۔

BBCسمہا اپنے شوہر اور گھر والوں کے لیے کھانا پکا رہی ہیں۔

پروفیسر سرجیو ڈیلا پرگولا کا کہنا ہے کہ 2022 میں یوکرین پر روسی حملے کے بعد ان ممالک سے اسرائیل منتقل ہونے والوں کی تعداد میں اضافہ ہوا تھا کیونکہ کچھ لوگ جنگ سے بھاگنے کی کوشش کر رہے تھے جبکہ کچھ جبری بھرتیوں سے۔ لیکن اب اس کی رفتار میں بھی کمی آ رہی ہے۔

یہودیوں کی اسرائیل کی طرف ہجرت کو عالیہ کے نام سے جانا جاتا ہے۔ روحانی اور اقتصادی عوامل لوگوں کو اسرائیل منتقل ہونے پر راغب کرتے ہیں۔

کچھ لوگوں کے لیے سات اکتوبر کے حملے نے اسرائیل کو یہودیوں کے سب سے محفوظ ہونے کے تصور کو چیلنج کیا ہے۔ دیگر افراد کا کہنا ہے کہ سات اکتوبر کے حملوں اور اس کے بعد غزہ میں شروع ہونے والے جنگ کے بعد انھیں جس یہود مخالفت کا سامنا کرنا پڑا ہے اس نے انھیں اسرائیل منتقل ہونے پر مجبور کیا۔

غزہ سے تقریباً 12 میل شمال میں واقع اشکیلون میں سمہا دہن اپنے فلیٹ میں یہودی نئے سال روش ہشناہ کے موقع پر اپنے گھر والوں کے لیے روایتی کھانا تیار کر رہی ہیں۔

مینڈھے کا انتہائی صفائی سے کاٹا گیا آدھا سر برتن میں پک رہا ہے۔

’میں مانچسٹر میں اسے مچھلی کے سر کے ساتھ بناتی تھی لیکن یہاں میں نے مینڈھے کا سر استعمال کیا ہے۔ مجھے مچھلی کے سر کے ساتھ پسند ہے لیکن زبان کا ذائقہ بہت زبردست ہوتا ہے‘ یہ کہتے ہوئے انھوں نے اسے اپنے ہاتھ میں اٹھا لیا۔

ماضی میں، ان کی آٹھ بیٹیاں جشن منانے کے لیے مانچسٹر میں گھر کے باورچی خانے کی میز کے گرد جمع ہوتی تھیں۔ لیکن جب سمہا اور ان کے شوہر میر اگست 2024 میں اسرائیل منتقل ہوئے تو ان کی چار بیٹیاں ساتھ نہیں آئیں۔

سمہا اور ان کے شوپر سیفراڈک یہودی ہیں۔ یہ اصطلاح بحیرہ روم کے آس پاس کے مقامات بشمول سپین، پرتگال اور شمالی افریقہ کے یہودیوں کی اولادوں کے لیے استعمال ہوتی ہے۔

BBCسمہا کا کہنا ہے کہ وہ اور ان کے گھر والے مانچسٹر میں خود کو محفوظ نہیں سمجھتے تھے۔

سمہا فرانس میں پیدا ہوئی تھیں اور 1992 میں برطانیہ چلی گئیں۔ بعد میں انھوں نے میر سے شادی کی جنھوں نے 14 سال کی عمر میں اپنا آبائی علاقہ مراکش چھوڑ کر مانچسٹر میں یہودیوں کے ایک مذہبی سکول یشیو میں شمولیت اختیار کر لی تھی۔

میر ایک قصاب ہیں جو کوشر (یہودیوں کے مذہبی طریقے سے) جانور ذبح کرتے ہیں اور کام کی غرض سے باقاعدگی سے برطانیہ واپس جاتے ہیں۔ وہ اب بھی اسرائیل میں کام کرنے کے لیے لائسنس کے منتظر ہیں۔

سمہا پہلے مانچسٹر میں بطور ’ڈولا‘ رضاکار کام کرتی تھیں۔ ڈولا حمل اور پیدائش کے دوران حاملہ خاتون اور ان کے گھر والوں کو مدد فراہم کرتی ہیں۔ انھیں امید ہے کہ وہ اسرائیل میں بھی پیشہ ورانہ طور پر یہ کام جاری رکھ پائیں گی۔

میر اپنے اسرائیل آنے کے بارے میں کہتے ہیں کہ ’یہ ایک ایسا اقدام ہے جو ہم ہمیشہ سے کرنا چاہتے تھے لیکن ہم اپنی بڑی بیٹیوں کی تعلیم مکمل ہونے کا انتظار کر رہے تھے۔‘

سمہا کہتی ہیں کہ سات اکتوبر سے قبل ہی یہود مخالفت شروع ہو گئی تھی لیکن اس حملے کے بعد سے اس میں اضافہ ہوا ہے۔

ان کا کہنا ہے کہ ان کی برادری میں مردوں نے باہر جاتے ہوئے سر پر کپہ (یہودی ٹوپی) پہننا چھوڑ دی تھی اور انھیں اور ان کی بیٹیوں کو رات کے وقت باہر جاتے ڈر لگتا تھا۔

وہ کہتی ہیں ’جب میں نے لوگوں کو ’آزاد فلسطین‘ کے پوسٹرز اٹھائے دیکھتی ہوں تو مجھے خطرہ محسوس ہوتا ہے کیونکہ میں نہیں جانتی کہ اس کا ان کے لیے کیا مطلب ہے، وہ اس پر کیسے عمل کریں گے۔‘ انھوں نے بتایا کہ ان کی برادری میں کسی نے یہودیوں کو جارحانہ انداز میں دھمکیاں دیتے سنا تھا۔

ان کا کہنا ہے کہ انھوں نے بالآخر اس وقت اسرائیل منتقل ہونے کا حتمی فیصلہ لیا جب ایک روز ان کی بیٹی روتے ہوئے گھر آئی کیونکہ آزاد فلسطین کی شرٹ پہنے ایک شخص نے اسے گھور کر دیکھا۔ تاہم یہ واضح نہیں کہ آیا وہ شخص جانتا تھا کہ ان کی بیٹی یہودی ہے۔

مانچسٹر میں یہودی عبادت گاہ کے باہر حالیہ حملہ ان کے پرانے گھر سے تھوڑی ہی دوری پر ہوا تھا۔ وہ کہتی ہیں کہ ہلاک ہونے والے مردوں میں سے ایک اس سپر مارکیٹ کا باقاعدہ گاہک تھا جہاں وہ کام کرتی تھی۔

Reutersدو اکتوبر کو مانچسٹر میں یہودی عبادت گاہ پر حملے میں دو یہودی مرد مارے گئے تھے۔

سمہا کا خیال ہے کہ اسرائیل یہودیوں کو اس سطح کی حفاظت اور تحفظ فراہم کرتا ہے جو انھیں دنیا میں کہیں بھی میسر نہیں۔

وہ کہتی ہیں کہ ’میں رات کے کسی بھی وقت بغیر کسی خوف کے باہر جا سکتی ہوں۔ ہمیشہ مسلح سپاہی اور شہری موجود ہوتے ہیں جو کچھ بھی ہونے کی صورت میں آپ کی حفاظت کر سکتے ہیں۔‘

لیکن ایک جنگ زدہ ملک میں رہنے کے بارے میں ان کا کیا خیال ہے جہاں 7 اکتوبر 2023 کو حماس کے عسکریت پسندوں اور دیگر مسلح دھڑوں نے تقریباً 1200 اسرائیلیوں کو ہلاک کیا اور 251 کو یرغمال بنا لیا؟

ان کا نیا گھر غزہ سے صرف چند میل کے فاصلے پر ہے جہاں حماس کے زیر انتظام وزارت صحت کے اعداد و شمار کے مطابق، سات اکتوبر کے حملے کے بعد اسرائیلی حملوں میں 66,000 سے زیادہ افراد ہلاک ہو چکے ہیں۔

وہ بنا کسی ہچکچاہٹ کے جواب دیتی ہیں کہ ’مجھے فکر نہیں۔ مجھے ڈر نہیں لگتا، میں یہاں محفوظ محسوس کرتی ہوں۔‘

جب سمہا سے پوچھا گیا کہ ان کا ان اسرائیلیوں کے متعلق کیا خیال ہے جو جنگ کے باعث ملک چھوڑ کر چلے گئے ہیں تو ان کا کہنا تھا: ’مجھے معلوم ہے کہ کچھ لوگ ملک چھوڑ کر گئے ہیں کیونکہ وہ زیادہ پیسہ کمانا چاہتے ہیں یا محفوظ محسوس نہیں کرتے لیکن میں ان سے متفق نہیں۔‘

’جب راکٹ حملے کے سائرن بجتے ہیں، ہم پانی اٹھا کر شیلٹر میں چلے جاتے ہیں اور فون پر اپڈیٹس دیکھتے رہتے ہیں اور جیسے ہی الارم ختم ہوتا ہے، باہر آ جاتے ہیں۔‘

وہ کہتی ہیں کہ وہ اسرائیل کی مقروض محسوس کرتی ہیں اور انھیں اپنی بیٹیوں کو غزہ یا کسی اور جگہ فرنٹ لائن پر بھیجے جانے پر کوئی اعتراض نہیں۔

ان کے دو بھائیوں نے کئی ماہ تک اسرائیلی فوج میں خدمات سرانجام دی ہیں۔ ’یہ اسرائیل میں ہماری یہودی شناخت کے ساتھ جڑنے کا حصہ ہے۔‘

وہ تسلیم کرتی ہیں کہ انھیں اپنی مانچسٹر کی زندگی کے کچھ چیزیں یاد آتی ہیں جیسے کہ ان کے دوست، بیٹیاں، پوتے، پوتیاں، اور بڑا گھر۔

اگرچہ انھوں نے اسرائیل کو اپنے گھر کے طور پر منتخب کیا ہے لیکن وہ کہتی ہیں کہ وہ اب بھی خود کو مانچسٹر کی شہری محسوس کرتی ہیں اور ان کے شوہر خود کو مراکشی محسوس کرتے ہیں۔

تاہم وہ کہتی ہیں ’لیکن مجھے کوئی پچھتاوا نہیں ہے۔‘

ٹرمپ کی دوستی اور نتن یاہو کی مشکل: امن معاہدے سے جان چھڑانا اسرائیلی وزیراعظم کو کتنا مہنگا پڑ سکتا ہے؟’طے شدہ امن منصوبے میں ترامیم‘ یا ملک کی اندرونی سیاست اور دباؤ: پاکستان نے ٹرمپ کے غزہ منصوبے سے دوری کیوں اختیار کی؟کیا حماس غزہ کی جنگ میں اپنا وجود قائم رکھ پائے گی؟’خطرہ محسوس ہو تو پہلے گولی چلاؤ سوال بعد میں کرو‘: غزہ میں امداد تقسیم کرنے والی تنظیم کے سابق ملازم نے بی بی سی کو کیا بتایا؟غزہ میں مرنے والوں کے لواحقین جو اپنے پیاروں کے آخری الفاظ دل سے لگائے زندہ ہیں: ’میں جواب نہ بھی دوں تو پھر بھی مجھ سے بات کرنا‘نڈھال بدن، ہاتھوں پر چھالے اور خوراک کی قلت: غزہ کے ہسپتال میں لاغر اور خوفزدہ بچوں کی کہانی
مزید خبریں

Disclaimer: Urduwire.com is only the source of Urdu Meta News (type of Google News) and display news on “as it is” based from leading Urdu news web based sources. If you are a general user or webmaster, and want to know how it works? Read More