بیرون ملک عارضی نکاح سے پیدا ہونے والے بچے جنھیں اپنی شناخت نہیں مل پاتی

بی بی سی اردو  |  Oct 03, 2025

انتباہ: اس تحریر کے بعض حصے قارئین کے لیے تکلیف کا باعث ہو سکتے ہیں۔

انھیں ’سووینیئر بچے‘ کہا جاتا ہے کیونکہ یہ اُن تارکینِ وطن کی اولادیں ہیں جو سفر کے دوران تعلقات کی بنا پر دنیا میں آئے۔ یہ انڈونیشیا میں والدین کی سرپرستی کے بغیر پروان چڑھے اور منفی سماجی رویوں کو برداشت کر رہے ہیں۔

ان بچوں کو شناخت سے متعلق دستاویزات ملنے میں بھی مشکلات کا سامنا ہے جس کی وجہ سے یہ سکول اور صحت عامہ کی سہولیات سے بھی مستفید نہیں ہو پاتے ہیں۔

انھیں معاشرے میں غربت، استحصال اور جلد شادیوں جیسے مسائل کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔

انڈونیشیا کے صوبے سندا جزیرے میں ہزاروں کی تعداد میں ’سووینیئر بچے‘ رہتے ہیں۔ انڈونیشیا میں بڑی تعداد میں بیرون ملک غیر قانونی سفر اسی جزیرےکے ذریعے ہوتا ہے۔

تنہائی میں پروان چڑھنا

23 سالہ آمنہ ان ’سووینیئر بچوں‘ میں سے ایک ہیں جنھیں اُن کی والدہ لمبوک جزیرے پر چھوڑ کر چلی گئیں۔

اُن کی والدہ ملازمت کی تلاش میں سعودی عرب گئی تھیں۔ وہاں انھوں نے پہلے پاکستان شہری اور پھر سعودی شہری کے ساتھ غیر رجسٹرڈ یا عارضی نکاح کیا۔ بچے کی پیدائش کے لیے وہ کچھ وقت کے لیے انڈونیشیا آئیں۔

آمنہ کی ماں نے جاتے ہوئے اپنے چھ بچوں کو مختلف رشتے داروں کے حوالے کر دیا۔

تارکین وطن کی معاونت کے لیے صوبائی کوآرڈینیٹر کا کہنا ہے کہ ’بہت سے انڈونیشین تارکین وطن بیرون ملک مشکل حالات کا سامنے کرتے ہیں اور اسی لیے وہ کوئی ساتھی ڈھونڈنے کے لیے شادیاں کرتے ہیں اور طلاقیں لیتے ہیں۔‘

انڈونیشیا میں عموماً ایسی شادیوں کے بعد پیدا ہونے والے بچے، جو اسلامی قوانین کے لحاظ سے جائز ہیں، لیکن اُن کا سرکاری ریکارڈ میں کوئی اندارجنہیں ہے انھیں ’سووینیئر بچے‘ کہا جاتا ہے۔

والدین کے بجائے رشتے داروں کے ہاں پرورش پانے آمنہ نے امتیازی رویوں کا سامنا کیا۔

وہ یاد کرتی ہے کہ مقامی افراد کیسے بتاتے تھے کہ ’آپ عرب ہیں۔ آپ کی سب بہنوں کے والدین مختلف ہیں۔‘

اس کی بڑی بہن، فاطمہ، سخت رویے یاد کرتے ہوئے کہتی ہیں کہ ’اگر ہماری ماں پیسے نہیں بھیجتی تھیں تو وہ ہم پر چیختے یا کبھی کبھی ہمیں مارتے تھے۔‘

کمر عمری میں شادی

رودات انسٹی ٹیوٹ کا کہنا ہے کہ ’سووینئر بچوں‘ سے منسلک معاشرتی رویوں کے سبب ان کی کم عمری میں شادی کا خطرہ بڑھ جاتا ہے۔

کم عمری میں شادی کے حوالے سے انڈونیشیا دنیا میں چوتھے نمبر پر ہے اور ملک سنڈا جزائر میں اس کی شرح سب سے زیادہ ہے۔

اپنے رشتہ داروںکے ناروارویوں سے تنگ آ کر فاطمہ نے تعلیم چھوڑ دی تاکہ چھوٹے بہن بھائیوں کی پرورش کر سکیں اور 15 سال کی عمر میں اُن کی شادی ہو گئی۔

وہ کہتی ہیں کہ 'شادی کرنا بہتر تھا کم سے کم کوئی خیال رکھنا والا تو ہے۔'

ماہرین کا کہنا ہے کہ اکثر کم عمری میں ہونے والی شادی علیحدگی پر ختم ہوتی ہیں۔

فاطمہ کے ساتھ بھی ایسا ہی ہوا ہے، 25 سال کی عمر تک فاطمہ کے تین بار رجسٹرڈ نکاح ہوئے اور اُن کے دو بچے ہیں۔

انڈونیشیا کے قانون کے مطابق شادی کی کم سے کم عمر 19 سال ہے اور اس سے کم عمر میں شادی کرنا بچوں سے جنسی جرائم کے زمرے میں آتا ہے جس کی سزا نو سال قید اور جرمانہ ہے لیکن اس قانون پر عمل دارآمد نہ ہونے کے برابر ہے۔

کمر عمری میں شادی سے متعلق قانون موجود ہونے کے باوجود والدین کو بچوں کی شادیوں کے لیے خصوصی اجازت لینا ہوتی ہے لیکن اکثر اجازت کے بغیر یہ شادیاں ہو جاتی ہیں لیکن اُن کا اندراج نہیں ہوتا ہے۔

کرسٹوفر کولمبس کے ناجائز بیٹے کی غیر معمولی زندگیروہنگیا جائیں تو جائیں کہاں؟’جنسی تشدد کا شکار روہنگیا خواتین‘’روہنگیا کے خلاف آپریشن ’نسل کشی کی واضح مثال‘ ہے‘کم عمر حاملہ لڑکیاں

ان کم عمر دلہنوں میں شادی کے بعد حمل کے دوران پچیدگی ہونے کے خطرات بڑھ جاتے ہیں۔

اقوام متحدہ کے ادارہبرائے پاپولیشن فنڈکا کہنا ہے کہ کم عمر ماؤں میں ہائی بلڈ پریشر، بچے کی پیدائش کے بعد ہونے والے انفیکشنز کی وجہ سے پیچیدگیوں کا خطرہ زیادہ ہوتا ہے۔

قبل از وقت بچوں کی پیدائش کے سبب کم وزن والے بچوں کی شرح اموات بھی زیادہ ہے۔

آمنہ نے بھی 16 سال کی عمر میں بچہ پیدا کیا جو وقت سے پہلے ہو گیا اور صرف دو ماہ زندہ رہا۔

وہ یاد کرتی ہیں کہ بچے کی موت نے کیسے اُن کی ازوجی زندگی کو متاثر کیونکہ ان کے شوہر کا رویہ اسواقعے کے بعد 'جارحانہ' ہو گیا تھا۔

تعلیم یا ہنر کے بغیر آمنہ کے پاس بہت محدود مواقع ہیں۔

مقامی این جی او کا کہنا ہے کہ 'ان بچوں کو مقامی افراد ملازمت پر رکھنے کے لیے تیار نہیں ہیں۔'

آمنہ نے کچھ ماہ جکارتہ میں گھریلو ملازم کے طور پر کام کیا لیکن چھ ماہ بعد یہ ملازمت بھی ختم ہو گئی۔ 19 سال کی عمر میں وہ غیر قانونی ذریعے سے ملازمت کے لیے سعودی عرب گئیں جہاں انھوں نے مزید مشکل حالات برداشت کیے اور کئی بار 'خودکشی' کرنے کا سوچا۔

انھوں نے بتایا کہ 'وہ ہمیں بہت مارتے تھے۔'

وہ بتاتی ہیں کہ انڈونیشیا واپس پہنچنے پر انھیں پتہ چلا وہ رقم جو انھوں نہ بھجوائی تھی وہ بھی چوری ہو گئی ہے۔

’جب میں گھر آئی تو میرے پاس کچھ بھی نہیں تھا‘

رودات انسٹی ٹیوٹ کا کہنا ہے کہ سب کیسز کی یہی کہانی ہے۔

رودات انسٹی ٹیوٹ سے وابستہ زہران آفریدی کا کہنا ہے کہ جنھیں رقم بھجوائی جاتی ہے اُن خاندانوں کی زندگی اکثر مشکل ہوتی ہے، کیوں کہ یہاں کام تلاش کرنا مشکل ہے۔ بہت سے لوگ بے روزگار ہیں۔'

تاہم، مختلف این جی اوز کی فنڈنگ کی بدولت حالات کچھ بہتر ہوئے ہیں۔

گذشتہ سال سے حکومت نے مشرقی لومبوک میں رہنے والے تقریباً تمام ’سووینئر بچوں‘ کو شناختی دستاویزات فراہم کی ہیں، جس سے ان کی سکول اور طبی دیکھ بھال تک رسائی ممکن ہوئی۔

اس کے باوجود ایذا رسانی اور انھیں نکالنے کا عمل جاری ہے۔

ایک این جی او کارکن ترموازی کہتے ہیں: ’ان بچوں سے متعلق منفی خیالات اب بھی موجود ہیں؛ اسے آہستہ آہستہ ختم کیا جا رہا ہے۔‘

ایسٹی، چھوٹی بہن، نے سکول چھوڑ دیا اور 14 سال کی عمر میں شادی کر لی۔ اس کا ایک بیٹا تھا، لیکن بعد میں وہ اپنے شوہر سے الگ ہو گئی۔

اپنی ضروریات کو پورا کرنے اور اپنے بیٹے کا پیٹ پالنے کے کے لیے اُنھوں نے جدوجہد کی اور ایک کباڑ خانے میں کام کیا۔

رودات انسٹی ٹیوٹ نے متنبہ کیا ہے کہ یہ چکر اکثر دہرایا جاتا ہے، جس میں بہت سے ’سووینئر بچے‘ تارکین وطن کارکن بن جاتے ہیں اور انہی مشکلات میں واپس آتے ہیں۔

آمنہ، فاطمہ اور ایسٹی اس چکر کو توڑنا چاہتی ہیں۔

آمنہ اپنے بیٹے کی پرورش کے لیے اپنے مہاجر شوہر کی آمدنی پر انحصار کرتی ہیں۔ ایسٹی نے ہجرت نہ کرنے کا فیصلہ کیا ہے، کیونکہ وہ اپنے بیٹے کی پرورش خود کرنا چاہتی ہے۔

وہ کہتے ہیں: ’یہ میرے جیسے بچوں کے لیے شرم کی بات ہے، جو اس شیطانی دائرے میں رہیں گے۔‘

روہنگیا مسلمانوں کا دردماں کے پیٹ میں ہی فروخت ہو جانے والے بچے: انڈونیشیا جہاں ایک سال سے بھی کم عُمر بچے کروڑوں میں سمگل ہوتے ہیںایک ماں کی ایسی مجبوری کہ وہ بچے کو چند ہزار روپوں میں بیچنے پر آمادہ ہوگئینیروبی کی بلیک مارکیٹ جہاں بچوں کو 300 پاؤنڈ میں بیچا جا رہا ہے
مزید خبریں

Disclaimer: Urduwire.com is only the source of Urdu Meta News (type of Google News) and display news on “as it is” based from leading Urdu news web based sources. If you are a general user or webmaster, and want to know how it works? Read More