گاڑیاں اب سستی ہوں گی یا مہنگی؟ ایف بی آر نے کمرشل امپورٹ پر 40 فیصد ڈیوٹی لگا دی

اردو نیوز  |  Oct 03, 2025

فیڈرل بورڈ آف ریونیو (ایف بی آر) نے گذشتہ کئی ہفتوں سے زیرِ بحث رہنے کے بعد اب باضابطہ طور پر نوٹیفیکیشن جاری کرتے ہوئے استعمال شدہ گاڑیوں کی کمرشل درآمد کی اجازت دیتے ہوئے ان پر 40 فیصد ریگولیٹری ڈیوٹی بھی عائد کر دی ہے۔

یہ ڈیوٹی ان گاڑیوں پر لاگو ہوگی جو امپورٹ پالیسی آرڈر 2022 کے تحت مخصوص شرائط کے ساتھ درآمد کی جائیں گی۔

ایف بی آر نے اس اقدام کے تحت ایک طرف کمرشل گاڑیوں کی درآمد کے حوالے سے آٹوموبیل انڈسٹری کا مطالبہ تسلیم کیا ہے، جبکہ دوسری طرف درآمدات کو محدود کرنے اور غیرملکی زرمبادلہ کے بہاؤ پر قابو پانے کے لیے 40 فیصد ریگولیٹری ڈیوٹی بھی عائد کی ہے، جسے مرحلہ وار کم کیا جائے گا۔

زیرِنظر رپورٹ میں ہم یہ جاننے کی کوشش کریں گے کہ حکومت کا یہ فیصلہ پاکستان کی مقامی مارکیٹ پر کیا اثر ڈالے گا اور اس کے عام صارفین کے لیے کیا نقصانات یا فوائد ہو سکتے ہیں؟

آغاز میں یہ سمجھنا ضروری ہے کہ اس سے قبل پاکستان میں استعمال شدہ گاڑیوں کی کمرشل بنیادوں پر درآمد، یعنی کاروباری مقاصد کے لیے بڑی تعداد میں گاڑیاں منگوانا مکمل طور پر ممنوع تھی۔

اوورسیز پاکستانیوں کے لیے چند سکیمیں موجود تھیں جن میں پرسنل بیگیج سکیم، گفٹ سکیم اور ریزیڈنس ٹرانسفر سکیم شامل تھیں۔ ان سکیموں کے تحت اوورسیز پاکستانی اپنی ذاتی یا خاندانی استعمال کی گاڑی پاکستان لا سکتے تھے، لیکن انہیں بھی کمرشل بنیادوں پر بیچنے کی اجازت نہیں تھی۔

حکومت نے اب پہلی مرتبہ ملک میں ڈیلرز اور امپورٹرز کو بھی کمرشل بنیادوں پر استعمال شدہ گاڑیاں بیرون ملک سے درآمد کر کے پاکستان میں فروخت کرنے کی اجازت دے دی ہے۔ تاہم ساتھ ہی یہ شرط بھی عائد کر دی گئی ہے کہ ایسی گاڑیوں پر 40 فیصد ریگولیٹری ڈیوٹی لاگو ہوگی تاکہ درآمدات بے قابو نہ ہوں اور حکومت کو اضافی ریونیو بھی حاصل ہوتا رہے۔

استعمال شدہ گاڑیوں کی کمرشل درآمد سے کیا مراد ہے؟

میاں شعیب نے گاڑیوں کی امپورٹ پر 40 فیصد ریگولیٹری ڈیوٹی عائد کرنے کے فیصلے کو سمجھ سے بالاتر قرار دیا (فوٹو: اے ایف پی)استعمال شدہ گاڑیوں کی کمرشل درآمد سے مراد یہ ہے کہ بیرونِ ممالک میں پہلے سے چلنے والی (یوزڈ) گاڑیاں بڑی تعداد میں پاکستان منگوائی جائیں اور پھر یہاں مارکیٹ میں بیچ کر منافع کمایا جائے۔ یہ کاروبار عام طور پر گاڑیوں کے ڈیلرز یا درآمد کنندگان کرتے ہیں۔

پاکستان میں آٹو موبیل شعبے کے ماہر آل پاکستان کار ڈیلرز اینڈ امپورٹرز ایسوسی ایشن کے پیٹرن اِن چیف میاں شعیب احمد نے اس حوالے سے بات کرتے ہوئے کہا کہ ’یہ بنیادی طور پر ہماری کمیونٹی کا مطالبہ تھا کہ استعمال شدہ گاڑیاں کمرشل بنیادوں پر امپورٹ کرنے کی اجازت دی جائے۔‘ 

انہوں نے کہا کہ ’اس سے قبل اس کی اجازت نہیں تھی اور صرف اوورسیز پاکستانی ہی گاڑیاں منگوا سکتے تھے۔ بعد ازاں وہ یہ گاڑیاں کار ڈیلرز کو فروخت کر دیتے تھے اور شوروم والے انہیں عام شہریوں کو بیچتے تھے۔ یوں یہ سلسلہ بالواسطہ طور پر جاری تھا۔‘

انہوں نے حکومت کے اس اقدام کو خوش آئند قرار دیا، تاہم استعمال شدہ گاڑیوں کی امپورٹ پر 40 فیصد ریگولیٹری ڈیوٹی عائد کرنے کے فیصلے کو سمجھ سے بالاتر قرار دیا۔

اُنہوں نے بتایا  کہ جب لوگوں کو معلوم ہے کہ اگلے سال ریگولیٹری ڈیوٹی کم ہو جائے گی جس کے بعد مزید کمی ہوگی تو پھر کوئی بھی خریدار موجودہ شرح یعنی 40 فیصد میں بیرونِ ملک سے گاڑی کیوں منگوائے گا؟

میاں شعیب کے مطابق حکومت نے 40 فیصد ڈیوٹی عائد کر کے صارفین اور مارکیٹ دونوں کو کنفیوژن میں ڈال دیا ہے (فوٹو: پاک ویلز)میاں شعیب کا کہنا تھا کہ ’پاکستان میں پہلے ہی گاڑیوں پر 200 فیصد تک ڈیوٹی عائد ہے اور اب حکومت کے اس فیصلے کے بعد بھی استعمال شدہ کمرشل گاڑیوں کی مقامی مارکیٹ میں قیمت میں اضافہ ہوگا۔‘

اُنہوں نے اپنی گفتگو جاری رکھتے ہوئے مزید بتایا کہ ’حکومت نے ایک طرف کمرشل بنیادوں پر استعمال شدہ گاڑیوں کی اجازت تو دے دی ہے لیکن ساتھ ہی 40 فیصد ڈیوٹی عائد کر کے صارفین اور مارکیٹ دونوں کو کنفیوژن میں ڈال دیا ہے۔‘

 

مزید خبریں

Disclaimer: Urduwire.com is only the source of Urdu Meta News (type of Google News) and display news on “as it is” based from leading Urdu news web based sources. If you are a general user or webmaster, and want to know how it works? Read More