قرض لاکھوں، پلاٹ ریٹ کروڑوں میں، ’میرا گھر‘ سکیم کتنی مفید؟

اردو نیوز  |  Oct 01, 2025

کراچی میں اپنے گھر کا خواب عام آدمی کے لیے روز بروز مشکل ہوتا جا رہا ہے۔ حکومت نے ’میرا گھر میرا آشیانہ‘ سکیم کے تحت کم آمدنی والے طبقے کو سہولت دینے کی کوشش کی ہے۔تاہم زمین اور تعمیراتی لاگت آسمان کو چُھو رہی ہے، تو ایسے میں قرض کی محدود رقم سے اپنا گھر بنانے کا خواب شرمندۂ تعمیر کرنا ممکن نہیں۔چنانچہ سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ جب 120 گز کے گھر کی قیمت عموماً ایک کروڑ روپے سے تجاوز کر جاتی ہے، تو 30 یا 35 لاکھ روپے کا قرض عام آدمی کی کس حد تک مدد کر سکتا ہے؟

صوبائی حکومت کی جانب سے پہلی بار گھر خریدنے والے افراد کو پانچ سے 20 سال کے لیے سبسڈی پر قرض فراہم کیا جائے گا۔ اس قرض پر مارک اپ عام شرحِِ سود سے کم رکھا گیا ہے۔اس پروگرام کے تحت ٹیئر 1 میں دو ملین روپے (تقریباً 20 لاکھ) تک کا قرض پانچ فی صد مارک اپ اور ٹیئر 2 میں ساڑھے تین ملین روپے (تقریباً 35 لاکھ) تک کا قرض آٹھ فی صد شرح سود کے ساتھ دیا جائے گا۔ادائیگی کی مدت پانچ سے 20 سال رکھی گئی ہے جب کہ پہلے 10 سال سبسڈی دی جائے گی۔ سکیم کے تحت ڈاؤن پیمنٹ صرف 10 فی صد ہے جب کہ باقی 90 فی صد رقم بینک فراہم کرے گا۔علاوہ ازیں بیواؤں، شہدا کے بچوں، خواجہ سرا کمیونٹی اور دیگر طبقات کے لیے الگ سکیمیں بھی رکھی گئی ہیں جن میں مارک اپ کی شرح مزید کم ہے۔شہریوں کی جانب سے یہ سوال کیا جا رہا ہے کہ کیا اس سکیم کے تحت حاصل کی جانے والی رقم سے کراچی شہر میں فلیٹ، مکان یا پلاٹ خریدنا ممکن ہے؟سکیم کا وعدہ اپنی جگہ مگر کراچی کی مارکیٹ کچھ اور ہی حقیقت بیان کرتی ہے۔ریئل اسٹیٹ ڈیلر باقر علی کے مطابق ’شہر کے مرکزی علاقوں جیسے گلشن اقبال، نارتھ ناظم آباد یا گلستان جوہر میں 80 اور 120 گز کے زیادہ تر مکانات کی قیمتیں ایک کروڑ سے اوپر ہی ہیں۔‘انہوں نے اردو نیوز کو بتایا کہ ’پلاٹ کی قیمت بھی 60 سے 70 لاکھ روپے سے شروع ہو کر ڈیڑھ کروڑ روپے تک پہنچ جاتی ہے۔‘

شہری سوال اٹھا رہے ہیں کہ ’کیا اس سکیم کی رقم سے کراچی میں فلیٹ، مکان یا پلاٹ خریدنا ممکن ہے؟‘ (فائل فوٹو: اے ایف پی)

’اس میں اگر تعمیراتی لاگت شامل کر لی جائے تو ایک چھوٹے گھر کی مجموعی قیمت بھی 30 سے 40 لاکھ روپے سے کم نہیں رہتی۔‘اس کا مطلب یہ ہے کہ سکیم کے تحت ملنے والا زیادہ سے زیادہ قرض بھی گھر خریدنے کے لیے ناکافی ہے، خاص طور پر اُن شہریوں کے لیے جو کراچی کے مرکزی یا ترقی یافتہ علاقوں میں رہائش چاہتے ہیں۔عام آدمی کی کہانیایک نجی کمپنی میں اکاؤنٹنٹ کی حیثیت سے کام کرنے والے فیصل احمد کہتے ہیں کہ ’میں نے سوچا تھا کہ حکومت کی سکیم سے فائدہ اٹھا کر اپنا گھر بناؤں گا لیکن شاید ایسا ممکن نہیں۔‘’جب میں نے بینک سے رابطہ کیا تو معلوم ہوا کہ مجھے زیادہ سے زیادہ 35 لاکھ روپے تک کا قرض مل سکتا ہے۔ کراچی میں تو صرف پلاٹ ہی ایک کروڑ روپے کا ہے۔ پھر میں گھر کیسے بنا سکتا ہوں؟‘اسی طرح شازیہ پروین جو ایک سکول ٹیچر ہیں، نے اردو نیوز سے بات کرتے ہوئے کہا کہ ’میں اور میرے شوہر دونوں ملازمت پیشہ ہیں۔ ہم چاہتے تھے کہ اپنے بچوں کے لیے ایک چھوٹا سا فلیٹ خریدیں۔‘

ماہرین کے مطابق ’اس سکیم سے عام آدمی کراچی جیسے بڑے شہر میں مکمل طور پر مستفید نہیں ہو سکتا‘ (فائل فوٹو: وِکی میڈیا)

ان مزید کا کہنا ہے کہ ’ہم نے بینک کی سکیم دیکھی، قسطیں تو قابلِ برداشت لگتی ہیں لیکن فلیٹ کی قیمت کم سے کم 65 لاکھ روپے ہے اور اتنی بڑی ڈاؤن پیمنٹ ہمارے پاس نہیں ہے۔‘ماہرین کی رائےریئل اسٹیٹ کے ماہر سید عدنان علی کے مطابق ’اس سکیم کا سب سے بڑا مسئلہ یہ ہے کہ قرض کی حد مارکیٹ ریٹ سے میل نہیں کھاتی۔‘’یہ سکیم چھوٹے شہروں یا مضافاتی علاقوں میں تو کارآمد ہو سکتی ہے جہاں زمین سستی ہے، لیکن کراچی جیسے بڑے شہر میں جہاں زمین کی قیمت بہت زیادہ ہے، عام آدمی اس سکیم سے مکمل طور پر مستفید نہیں ہو سکتا۔‘معاشی تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ ’حکومت نے قرض کی سہولت تو فراہم کی ہے مگر زمین اور تعمیراتی لاگت پر اِس کا کوئی کنٹرول نہیں۔‘ ’جب تک زمین کی قیمت کم نہیں ہوتی یا حکومت ڈویلپرز کے ساتھ شراکت داری کر کے کم قیمت رہائشی منصوبے نہیں لاتی، یہ سکیم محدود پیمانے پر ہی فائدہ دے سکے گی۔‘سید عدنان علی کے مطابق ’اِس کے باوجود کچھ عملی راستے ایسے ہیں جن سے عام شہری سکیم سے کچھ نہ کچھ فائدہ اٹھا سکتے ہیں۔‘

’حکومت ڈویلپرز کے ساتھ معاہدے کر کے کم قیمت یونٹس تعمیر کرنے کے لیے اقدامات کرے‘ (فائل فوٹو: اے ایف پی)

اُن کے مطابق ’ان میں کراچی کے مضافاتی علاقوں میں دو یا تین کمروں کے چھوٹے فلیٹ نسبتاً کم قیمت پر دستیاب ہیں۔ یہ سکیم ان فلیٹوں کے خریداروں کے لیے زیادہ موزوں ہے۔‘’علاوہ ازیں اگر کوئی پلاٹ خرید لے تو اس سکیم کے تحت تعمیر کے لیے قسطوں پر قرض لیا جا سکتا ہے۔ اس طرح گھر مرحلہ وار مکمل کیا جا سکتا ہے۔‘تعمیراتی شعبے سے وابستہ افراد کے مطابق ’اگر حکومت واقعی چاہتی ہے کہ عام آدمی کو فائدہ پہنچے تو چند اقدامات ناگزیر ہیں۔‘’حکومت ڈویلپرز کے ساتھ معاہدے کر کے کم قیمت یونٹس تعمیر کرنے کے لیے اقدامات کرے۔ اس کے ساتھ ہی مضافاتی علاقوں میں بنیادی سہولیات فراہم کی جائیں تاکہ وہاں لوگ سستا گھر خرید سکیں۔‘ان کا کہنا ہے کہ ’سب سے اہم یہ کہ قرض کی حد کو بڑھا کر مارکیٹ ریٹ کے قریب لایا جائے تاکہ کراچی جیسے بڑے شہروں کے رہائشی بھی اس سے فائدہ اٹھا سکیں۔‘حکومت کی سکیم یقیناً ایک مثبت قدم ہے۔ یہ عام شہریوں کے لیے اُمید کی کرن بھی ہے مگر کراچی جیسے شہر میں جہاں مکان اور پلاٹ کی قیمتیں سکیم کی حد سے کہیں زیادہ ہیں، اس سہولت کا اثر محدود ہو گا۔کراچی کے شہری کہتے ہیں کہ خواب اور حقیقت کے درمیان فی الحال طویل فاصلہ طے کرنا باقی ہے۔ یہ سکیم عام آدمی کے مسئلے کا مکمل حل نہیں، بلکہ صرف ایک جُزوی سہولت ہے۔شہری کہتے ہیں کہ ہمیں قرض تو شاید مل جائے مگر اس رقم سے گھر کی تعمیر ممکن نہیں۔

مزید خبریں

Disclaimer: Urduwire.com is only the source of Urdu Meta News (type of Google News) and display news on “as it is” based from leading Urdu news web based sources. If you are a general user or webmaster, and want to know how it works? Read More