ملک بھر میں حالیہ سیلابی صورتِ حال کے دوران 28 اگست کی ایک صبح لاہور کے نواحی علاقے چوہنگ میں قائم خیمہ بستی میں ایک رضاکار کو اچانک کتے نے جسم کے تین حصوں پر کاٹا۔متاثرہ شہری سیلاب زدگان کو کھانا پہنچا رہے تھے تاہم کتے کو راستے میں دیکھا تو اس کے قریب جا پہنچے۔اس وقت ان کے ہاتھ میں روٹی کا ٹکڑا دیکھ کر کتا ان پر حملہ آور ہو گیا۔ آج یہ رضاکار میو ہسپتال میں زندگی اور موت کی جنگ لڑ رہے ہیں۔اگست کے وسط سے ہی ملک کے مختلف حصوں میں سیلابی صورتِ حال کا خدشہ بڑھتا جا رہا تھا۔خیبرپختونخوا کے بعد جب پنجاب میں پانی کی سطح بلند ہونا شروع ہوئی تو کئی رفاعی تنظیمیں متحرک ہو گئیں۔
الخدمت فاونڈیشن کے رضاکار بھی متاثرہ علاقوں میں جا کر لوگوں کی مدد کرتے رہے۔ 27 اگست کو پنجاب کے علاقے راجن پور سے ملک حامد نامی رضاکار نے بھی سیلاب متاثرین کی مدد کرنے والوں کی فہرست میں اپنا نام درج کروایا جنہیں متاثرین تک کھانا پہنچانے کی ذمہ داری سونپی گئی۔
سیلاب کے دوران الخدمت کے رضا کار متاثرہ افراد کو محفوظ مقام پر منتقل کر کے خیمہ بستی قائم کر چکے تھے جہاں وہ سٹور روم میں اپنی ذمہ داریاں ادا کرتے رہے۔ملک حامد نے یہ محسوس کیا کہ شاید ایک آوارہ کتا بھی متاثرین کے ساتھ سیلابی علاقے سے آیا ہے۔وہ صبح کے وقت جب اسے کھانا دینے گئے تو کتے نے انہیں کاٹ لیا۔چوہنگ خیمہ بستی کے انچارج ماجد علی نے اردو نیوز کو بتایا کہ ’حالیہ سیلاب سے متاثرہ افراد تک کھانا پہنچاتے ہوئے نوجوان رضاکار ملک حامد ایک آوارہ کتے کے حملے کا شکار ہو گئے۔‘وہ اس واقعے سے متعلق بتاتے ہیں کہ ’حامد نے بچنے کی پوری کوشش کی لیکن زخموں نے اسے ہسپتال کے بستر تک پہنچا دیا۔‘ملک حامد کا علاج چل رہا ہے تاہم حالت تسلی بخش نہیں ہے (فوٹو: اے ایف پی)ملک حامد راجن پور سے تعلق رکھتے ہیں اور تین بھائیوں میں سب سے چھوٹے ہیں۔ان کے والد قاری محمد اسماعیل خلیق تھے اور قرآن پاک پڑھاتے تھے۔2018 ان کی وفات کے بعد معاشی حالات خراب ہونے پر حامد میٹرک سے آگے آگے تعلیم جاری نہ رکھ سکے۔ان کی والدہ آج بھی محنت مزدوری کر کے گھر کا خرچ چلاتی ہیں۔ماجد علی نے بتایا کہ ’حامد خود واٹر فلٹریشن پلانٹ میں 24 ہزار روپے ماہانہ تنخواہ پر کام کرتے تھے۔ ان کے بڑے بھائی ٹیوشن پڑھاتے ہیں جبکہ دوسرے بھائی بھی معمولی سی نوکری کرتے ہیں۔‘’وہ 27 اگست سے الخدمت کے ساتھ رضاکار کے طور پر کام کر رہے تھے۔ انہیں نہ صرف انسانوں بلکہ جانوروں کی بھی فکر ہوتی۔ انہوں نے ایک بار 7 فٹ گہرے پانی سے ایک بوڑھی عورت کو نکالا اور ایک بکری کو ڈوبنے سے بچایا تھا۔‘ملک حامد سکول میں ماجد علی کے شاگرد بھی رہے ہیں۔ ان کے مطابق حامد فٹ بال کے ایک اچھے کھلاڑی بھی ہیں لیکن اس وقت ریبیز کا شکار ہو گئے ہیں۔اس واقعے کے بعد الخدمت نے فوری طور پر حامد کے علاج کا بندوبست کیا۔ انہیں میو ہسپتال لاہور منتقل کیا گیا جہاں ڈاکٹرز اور ہسپتال انتظامیہ بھرپور تعاون کر رہی ہے۔ایگزیکٹیو ڈائریکٹر الخدمت لاہور مغیث قریشی کا کہنا ہے کہ ’حامد کی حالت کبھی بہتر اور کبھی نازک ہو جاتی ہے لیکن ڈاکٹرز کی رپورٹس حوصلہ افزا ہیں۔‘وہ حامد کی حالت سے متعلق بتاتے ہیں کہ ’حامد کی صحت یابی کے لیے سب دعا گو ہیں اور الخدمت ان کے علاج کی مکمل ذمہ داری اٹھا رہی ہے۔ تنظیم نے نہ صرف طبی امداد فراہم کی بلکہ حامد کے اہل خانہ کو مالی، سماجی اور اخلاقی مدد بھی فراہم کی۔ ہمیں جاپان، جرمنی اور دنیا کے کئی دیگر ممالک سے بھی فون کالز آرہی ہیں۔ یہ وہ لوگ ہیں جو حامد کے علاج کے لیے فکر مند ہیں۔‘ماہرین کے مطابق باؤلے یا پاگل کتے میں ریبیز وائرس موجود ہوتا ہے جس سے انسان کی موت واقع ہوسکتی ہے (فوٹو: اے ایف پی)ملک حامد کو اب تک حکومتی سطح پر کوئی خاطر خواہ تعاون نہیں ملا۔ راجن پور سے تعلق رکھنے والے صوبائی وزیر معدنیات سردار شیر علی خان گورچانی نے مدد کی یقین دہانی کرائی تھی لیکن تاحال کوئی عملی قدم نہیں اٹھایا گیا۔ماجد علی نے اپیل کی ہے کہ حکومت اس معاملے میں سنجیدگی دکھائے کیونکہ کچھ ضروری ٹیسٹ لاہور میں نہیں ہو رہے جس کے لیے انہوں نے سی ایم ایچ راولپنڈی سے رابطہ کیا ہے۔اس وقت سوشل میڈیا پر ملک حامد کی کئی ویڈیوز مختلف دعوؤں کے ساتھ وائرل ہیں۔ اس حوالے سے ماجد علی نے درخواست کی ہے کہ حامد کی صحت سے متعلق بغیر تصدیق کے کوئی دعویٰ نہ کیا جائے۔ آج ڈاکٹرز انہیں ریبیز کے انجیکشن لگا رہے ہیں لیکن ان کی صحت بحال نہیں ہوئی۔ پاکستان بھر سے لوگ انہیں مختلف ٹوٹکے بھی بتا رہے ہیں تاہم ان کا علاج میڈیکل ڈاکٹرز ہی کر رہے ہیں۔‘اس حوالے سے اردو نیوز نے طبی اور نفسیاتی ماہرین سے بات کی ہے تاکہ باؤلے کتوں کے کاٹنے سے متعلق جو غیر روایتی باتیں مشہور ہیں ان کے بارے میں درست معلومات حاصل کی جا سکیں۔ماہرین کے مطابق باؤلے یا پاگل کتے میں ریبیز وائرس موجود ہوتا ہے جس سے انسان کی موت واقع ہوسکتی ہے۔نارتھ ویسٹ جنرل ہسپتال پشاور کے ڈاکٹر حامد اختر کا کہنا ہے کہ ان کے پاس آئی سی یو میں اکثر ایسے مریض لائے جاتے ہیں۔ پاگل کتے میں ریبیز وائرس موجود ہونے کا خدشہ ہوتا ہے۔ یہ وائرس گائے، بھینس، چمگادڑ، لومڑی وغیرہ میں بھی پایا جاتا ہے۔ماجد علی کی جانب سے حکومت سے علاج میں مدد کی اپیل کی گئی ہے (فوٹو: سکرین شاٹ)ان کے مطابق ’کتوں میں یہ وائرس ایک کتے کے دوسرے کتے کو کاٹنے سے پھیلتا ہے۔ یوں اگر پاگل کتا جب کسی انسان کو کاٹتا ہے تو وہ اپنے جراثیم ان میں منتقل کر دیتا ہے۔ یہ وائرس کتوں کے لعاب میں پایا جاتا ہے۔‘ڈاکٹر حامد اختر کے مطابق انسان اس وائرس کے لیے درمیانہ ہوسٹ ہے یعنی انسان میں براہِ راست یہ وائرس نہیں پایا جاتا بلکہ کسی کتے یا اس وائرس سے متاثرہ جانور کے کاٹنے سے یہ وائرس اس میں منتقل ہوتا ہے۔انہوں نے کہا کہ ’انسان کسی انسان کو نہیں کاٹ سکتا اور اگر کسی ایک کیس میں ایسا ہو بھی جائے تو یہ وائرس انسانوں میں اس طرح نہیں پھیل سکتا کیونکہ یہ وائرس متاثرہ جانور کے لعاب میں ہوتا ہے۔‘چنانچہ سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ اگر اس وائرس سے متاثرہ کوئی جانور کسی انسان کو کاٹ لے تو کیا کیا جائے؟اس حوالے سے ڈاکٹر حامد اختر بتاتے ہیں کہ ’کتا پاگل ہے یا نہیں؟ اس سوچ میں پڑنے کی بجائے ہسپتال کا رخ کرنا چاہیے۔ سب سے پہلے تو بہتے پانی سے زخم کو 15 سے 20 منٹ تک دھوئیں جس سے افاقہ ہو سکتا ہے۔ بعدازاں ڈاکٹرز یہ غور کریں گے کہ کتا پاگل تھا یا نہیں یعنی وہ ریبیز وائرس سے متاثر تھا یا نہیں؟ دھونے کے بعد زخم پر کوئی پٹی یا کپڑا رکھنے سے بھی گریز کیا جائے۔‘ملک حامد سیلاب آنے کے بعد راجن پور سے رضاکار کے طور پر لاہور پہنچے تھے (فائل فوٹو: اردو نیوز)کاٹنے والا کتا اگر ریبیز وائرس سے متاثر ہو تو اس کے لیے علاج کی کئی صورتیں موجود ہیں۔انہوں نے کہا کہ ’ایسے کیسز میں ویکسین لگائی جاتی ہے۔ ایک مہینے میں مختلف پیٹرن پر پانچ ٹیکوں کا کورس کروایا جاتا ہے جو ڈاکٹرز تجویز کرتے ہیں۔ ویکسین کے ساتھ ساتھ ریبیز امیونوگلوبیولین آر آئی جی لگوانا بھی ضروری ہے۔ ہر کتے کے کاٹنے سے یہ وائرس نہیں پھیلتا لیکن خدشہ موجود ہوتا ہے۔‘رفاہ انٹرنیشنل یونیورسٹی لاہور کیمپس میں انسٹیٹیوٹ آف کلینیکل اینڈ پروفیشنل سائیکالوجی کی سربراہ عروج ارشد بتاتی ہیں کہ ’جب کسی انسان کو کتا کاٹتا ہے تو اس کی نفسیات مختلف عوامل پر منحصر ہوتی ہے، جن میں اس کے تجربات، خوف، اور صورتحال کی نوعیت شامل ہوتی ہے۔ ’کتے کے کاٹنے کے بعد انسان میں شدید خوف اور اضطراب پیدا ہو سکتا ہے۔ وہ کتے کی شکل، آواز، یا اس کے حملے کے طریقے کے بارے میں بار بار سوچ سکتا ہے، جس سے اس کی ذہنی حالت متاثر ہو سکتی ہے۔‘عروج ارشد کے مطابق ’جب کوئی شخص ذہنی یا جذباتی طور پر زخمی ہو تو وہ اکثر اپنے آس پاس کے لوگوں کے لیے مشکل پیدا کرتا ہے۔‘ریبیز سے متاثرہ انسانوں کے لیے طبی میدان میں ماہرین موثر علاج کی کوشش کر رہے ہیں تاہم کسی بھی کتے کے کاٹنے یا حملے سے متاثرہ افراد ذہنی دباؤ کا شکار رہتے ہیں۔ ایسے افراد کے لیے نفسیاتی علاج موجود ہے۔اس حوالے سے عروج ارشد بتاتی ہیں کہ ’ذہنی یا جذباتی طور پر زخمی افراد کو دوبارہ تندرست کیا جا سکتا ہے لیکن یہ ایک طویل عمل ہے۔ ماہر نفسیات یا تھراپسٹ ایسے مریضوں کا علاج کاگنیٹیو بیہیوریل تھیراپی یا موومنٹ ڈی سینسٹائزیشن اینڈ ری پروسینگ کے ذریعے کرتے ہیں۔