بنگلہ دیش کی عبوری حکومت کے سربراہ محمد یونس نے کہا ہے کہ ڈھاکہ کے نئی دہلی کے ساتھ تعلقات اس لیے کشیدہ ہیں کیونکہ انڈیا کو گذشتہ برس کے طلبا احتجاج کے بعد سابق وزیراعظم شیخ حسینہ کی اقتدار سے بے دخلی پسند نہیں آئی۔این ڈی ٹی وی کے مطابق نیویارک میں اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی کے اجلاس کی سائیڈلائنز پر بات کرتے ہوئے محمد یونس نے کہا کہ ’ہمیں انڈیا کے ساتھ اس وقت مسائل کا سامنا ہے کیونکہ انہیں وہ پسند نہیں آیا جو طلبہ نے کیا۔‘انہوں نے انڈین میڈیا پر جعلی خبریں پھیلانے کا الزام بھی عائد کیا، جو ان کے مطابق دونوں ممالک کے درمیان کشیدگی میں اضافے کا باعث بن رہی ہیں۔
بنگلہ دیش کی عبوری حکومت کے سربراہ کا کہنا تھا کہ ’انڈیا سے بہت سی جعلی خبریں آ رہی ہیں، پروپیگنڈا کیا جا رہا ہے کہ یہ کوئی اسلام پسند تحریک ہے۔‘
محمد یونس نے یہ الزام بھی عائد کیا کہ انڈیا شیخ حسینہ کو پناہ دے رہا ہے، جس سے تعلقات مزید بگڑ رہے ہیں۔انہوں نے کہا کہ انڈیا حسینہ کی میزبانی کر رہا ہے، جنہوں نے مسائل پیدا کیے، اور یہی کشیدگی کی اصل وجہ ہے۔‘واضح رہے کہ اگست 2024 میں بنگلہ دیش میں طلبہ تحریک کے بعد سے انڈیا نے کئی مواقع پر بنگلہ دیش میں انڈیا مخالف بیانات اور اس کے شمال مشرقی علاقوں پر دعوؤں پر تشویش کا اظہار کیا ہے۔انڈیا نے اقلیتوں، خاص طور پر ہندوؤں پر بڑھتے حملوں پر بھی تحفظات ظاہر کیے، تاہم بنگلہ دیش کی عبوری انتظامیہ نے ان خدشات پر کوئی ٹھوس جواب نہیں دیا، جس سے دوطرفہ تعلقات مزید خراب ہو گئے ہیں۔سارک (جنوبی ایشیائی علاقائی تعاون کی تنظیم) کو دوبارہ فعال کرنے کے لیے اپنی کوششوں کے دوران محمد یونس نے ایک بار پھر انڈیا کو تنقید کا نشانہ بنایا اور کہا کہ ’سارک اس لیے کام نہیں کر رہا کیونکہ یہ ایک ملک کی سیاست میں فٹ نہیں بیٹھتا۔‘یہ بیان انہوں نے امریکی نمائندہ برائے جنوبی و وسطی ایشیا سرجیو گور اور انڈیا کے لیے نامزد امریکی سفیر سے ملاقات کے دوران دیا۔محمد یونس نے یہ الزام بھی عائد کیا کہ انڈیا شیخ حسینہ کو پناہ دے رہا ہے، جس سے تعلقات مزید بگڑ رہے ہیں۔ (فائل فوٹو: روئٹرز)محمد یونس نے کہا کہ بنگلہ دیش آسیان میں شمولیت میں دلچسپی رکھتا ہے تاکہ جنوب مشرقی ایشیائی معیشتوں کے ساتھ انضمام کے ذریعے ترقی کی رفتار کو تیز کیا جا سکے۔نیویارک میں گفتگو کے دوران محمد یونس نے یہ بھی واضح کیا کہ ان کی عبوری حکومت ملک میں فروری 2025 کے پہلے نصف میں آزاد، منصفانہ اور پرامن عام انتخابات کرانے کے لیے بھرپور تیاریاں کر رہی ہے، جس سے 12 کروڑ 60 لاکھ بنگلہ دیشی ووٹروں کو 15 برس بعد حقیقی جمہوری عمل میں حصہ لینے کی امید ملی ہے۔