کھلونا پستول، کپڑے میں لپٹا گیند اور 600 روپے: انڈین ایئر لائنز کے ہائی جیکرز جو رکنِ اسمبلی بنے

بی بی سی اردو  |  Dec 20, 2025

طیارے پر سوار دو نوجوان 20 دسمبر 1978 کی سرد شام انڈین ایئر لائنز کی پرواز 410 کی 15ویں قطار میں اپنی نشستوں سے اٹھ کر کاک پٹ کی طرف بڑھے تو نہ توکسی مسافر نے اُن پر کوئی توجہ دی اور نہ ہی جہاز کے عملے کو کچھ کھٹکا۔

کھٹکتا بھی کیسے کہ ایک نوجوان نے کاک پٹ میں جانے کی درخواست نہایت ’شائستگی‘ سے کی تھی۔

لکھنؤ کے راستے کلکتہ (کولکتہ) سے 126 مسافر اور چھ رکنی عملے کو لیے یہ پرواز 15 منٹ میں دلی کے پالم ہوائی اڈے پر اُترنے کو تھی جب منظر بدل گیا۔

’انڈیا ٹوڈے‘ کی رپورٹ کے مطابق ’شائستہ‘ نوجوانکی درخواست عملے کے جی وی ڈے نامی رُکن جہاز کے کپتان تک پہنچانے کے لیے کاک پٹ میں جانے ہی والے تھے کہ ایک نوجوان نے اندرا ٹھاکری نامی ایئر ہوسٹس (فضائی میزبان) کی کہنی پکڑ لی، جبکہ اُس کا ساتھی زبردستی کاک پٹ میں جانے کی کوشش کرنے لگا۔

’تاہم کاک پٹ کے مقناطیسی دروازے کا خودکار تالا بند ہو گیا جس پر دونوں نوجوانوں نے پورا زور دروازے پر ڈالا تو یہ کُھل گیا اور وہ اندر گُھس گئے۔‘

تب تک مسافروں اور عملے کو اندازہ ہو چکا تھا کہ کچھ گڑبڑ ہے۔

چند منٹ بعد جہاز کے کپتان کی آواز گونجی ’ہمیں اغوا کر لیا گیا ہے اور طیارہ پٹنہ جا رہا ہے۔‘ اس اعلان کے چند لمحوں بعد دوسرا اعلان ہوا کہ ’ہم وارانسی کی طرف جا رہے ہیں۔‘

’انڈیا ٹوڈے‘ نے کپتان کے حوالے سے لکھا کہ ان اعلانات سے پہلے کاک پٹ میں ہائی جیکرز اور پائلٹوں کے بیچ بہت بحث ہوئی۔

کپتان کے مطابق ’اُن احمقوں (ہائی جیکرز) کو یہ سمجھانا مشکل تھا کہ پرواز کی ایک حد ہوتی ہے جسے رینج کہتے ہیں۔ پہلے انھوں نے مطالبہ کیا کہ نیپال جایا جائے۔ جب میں نے، خصوصاً اُن دونوں میں سے زیادہ پاگل شخص کو جو بار بار میری کنپٹی پر پستول تان رہا تھا کو یہ بتایا کہ ہمارے پاس اتنا ایندھن نہیں، تو انھوں نے بنگلا دیش جانے کا مطالبہ کر دیا۔ میرا خیال ہے وہ سکول میں پڑھا گیا جغرافیے کا سبق بھول چکے تھے۔‘

اخبار کے مطابق بعدازاں مسلح اغوا کار کاک پٹ سے باہر نکلے اور پُرجوش انداز میں سابق وزیراعظم اندرا گاندھی کی گرفتاری اور مارچ 1977 کے انتخابات میں جیت کے بعد سے حکمران جماعت ’جنتا پارٹی‘ کی ’انتقامی ذہنیت‘ کی مذمت کی۔

یہ واقعہ پیش آنے سے محض ایک روز قبل ہی اندرا گاندھی کو گرفتار کر لیا گیا تھا۔

اندرا گاندھی کی گرفتاریGetty Imagesاندرا گاندھی کو سنہ 1978 میں چند دنوں کے لیے گرفتار کیا گیا تھا

ولیم بارڈرز نے امریکی اخبار ’دی نیو یارک ٹائمز‘ کے لیے لکھا کہ انڈیا کی پارلیمان کے ایوانِ زیریں (لوک سبھا) نے سات دن کی ہنگامہ خیز بحث کے بعد اکثریتی ووٹ کے ذریعے اندرا گاندھی کو ایوان سے خارج کرتے ہوئے انھیں جاری اجلاس کی باقی مدت، جو محض چند دنوں پر مشتمل تھی، کے لیے جیل بھیج دیا۔

’مسز گاندھی پر الزامتھا کہ انھوں نے 1975 میں بطور وزیرِ اعظم اپنے بیٹے سنجے گاندھی کے کنٹرول میں چلنے والی ایک کمپنی ’ماروتی لمیٹڈ‘ کی تحقیقات کرنے والے سرکاری اہلکاروں کو ہراساں کیا تاکہ وہ اس کیس سے پیچھے ہٹ جائیں۔ سابق وزیرِ اعظم نے اس کارروائی کو ’انتقامی اور سیاسی محرکات پر مبنی‘ قرار دیا تھا۔‘

’پارلیمانی بحث کے دوران اندرا گاندھی کی حکومت کی قید و بند کی پالیسی، سینسرشپ اور آمرانہ طرزِ حکمرانی کا بار بار حوالہ دیا گیا لیکن انھوں نے معذرت کرنے کی اپیلوں کو مسترد کرتے ہوئے اپنی تقریر میں کہا کہ انھیں کسیبات کا پچھتاوا نہیں ہے۔‘

ولیم بارڈرز لکھتے ہیں کہ اندراگاندھی نے اجلاس کے اختتام پر گھر میں یا ’رات کے سناٹے میں گرفتار ہونے‘ کے بجائے اس بات پر اصرار کیا کہ انھیں پارلیمنٹ ہی سے گرفتار کیا جائے۔

’تین گھنٹے کے انتظار کے بعد گرفتاری کے وارنٹ لیے پولیس افسران اُن تک پہنچے۔ مسز گاندھی مسکراتے ہوئےلکڑی کی ایک بھاری میز پر چڑھ گئیں، ہاتھ ٹھوڑی کے نیچے جوڑے اور پھر نیچے اُتر آئیں۔ روانہ ہونے سے قبل انھوں نے ایک پرانے انگریزی گیت کے اشعار لکھے، جنھیں بعد ازاں اُن کے ایک حامی نے مجمعے میں پڑھ کر سُنایا:‘

’مجھے الوداع کہتے ہوئے میرے لیے نیک تمناؤں کی دعا کرنا

آنکھوں میں آنسو نہیں، ایک مسکراہٹ کے ساتھ

مجھے ایک ایسی مسکراہٹ دے جانا جو میری غیر موجودگی کے تمام عرصے میں میرے ساتھ رہے‘

’اگر چاہو تو مجھے گولی مار دو، میں بیت الخلا جا رہا ہوں‘

اندراگاندھی کی گرفتاری کی خبر پھیلتے ہی کئی علاقوں میں احتجاجی مظاہرے ہوئے۔ اُن کی سیاسی جماعت، کانگریس پارٹی کا ایک دھڑا جسے کانگریس-آئی (اندرا) کہا جاتا ہے، نے دھمکی دی کہ جب تک وہ جیل میں ہیں احتجاجی جلوسوں اور دھرنوں کا سلسلہ جاری رکھا جائے گا۔

لیکن خود کو یوتھ کانگریس (اندرا) کے رُکن قرار دینے والے ہائی جیکرز نے اندرا گاندھی کی رہائی کے لیے پورا جہاز ہی اغوا کر لیا۔

بعدازاں اِن اغوا کاروں کی شناخت 27 سالہ بھولا ناتھ پانڈے اور 28 سالہ دیویندر پانڈے کے طور پر ہوئی۔

اغواکاروں نے جہاز میں اعلان کیا کہ وہ ’گاندھی وادی‘ اور ’عدم تشدد‘ کے قائل ہیں اور مسافروں کو نقصان پہنچانے کا کوئی ارادہ نہیں رکھتے۔

’انڈیا ٹوڈے‘ نے لکھا کہ کئی مواقع ایسے آئے جب دونوں اغواکاروں پر آسانی سے قابو پایا جا سکتا تھا مگر مسافروں یا عملے کی طرف سے ایسی کوئی کوشش نہیں کی گئی۔

ایک موقع پر اغوا کاروں نے مسافروں کو بیت الخلا استعمال کرنے سے روک دیا۔ اس طیارے پر سابق وزیرِ قانون اے کے سین بھی سوار تھے جو بیت الخلا کے لیے زیادہ انتظار نہ کر سکے اور چیخ پڑے کہ ’اگر چاہو تو مجھے گولی مار دو، میں بیت الخلا جا رہا ہوں۔‘

اسی دوران طیارہ وارانسی میں اُتر چکا تھا اور رن وے کے ایک کونے میں جا کر کھڑا ہو گیا تھا۔

اغوا کاروں نے اُتر پردیش کے وزیرِ اعلیٰ رام نریش یادو سے بات کرنے کا مطالبہ کیا۔ یادو سے رابطہ کیا گیا تو ابتدا میں انھوں نے انکار کیا مگر وزیرِ اعظمڈیسائی کی ہدایات کے بعد ریاستی حکومت کے سیسنا طیارے میں وارانسی کے لیے روانہ ہو گئے۔

اغوا کاروں نے طیارے کے وائرلیس کے ذریعے مقامیحکام کو بتایا کہ اُن کے چار مطالبات ہیں، جن میں سب سے اہماندرا گاندھی کی غیرمشروط رہائی ہے۔

وزیرِ اعلیٰ رام نریش یادو اور اغوا کاروں کے درمیان مذاکرات اس مطالبے سے شروع ہوئے کہ یادو خود طیارے میں آ کر اُن سے بات کریں۔ جواب میں یادو نے طیارے پر سوار غیر ملکی شہریوں اور خواتین مسافروں کی رہائی کا مطالبہ کر دیا۔

اسی دوران ایک مسافر ایس کے مودی نے طیارے کا پچھلا دروازہ کھول کر نیچے چھلانگ لگا دی، اور اندر موجود کسی کو خبر تک نہ ہوئی۔

21 دسمبر کو لوک سبھا کے اجلاس میں وزیر سیاحت و شہری ہوابازی پروشوتم کوشک نے واقعات کی ترتیب بیان کرتے ہوئے بتایا کہ ’ایس کے مودی، ایک ایئر ہوسٹس کی مدد سے طیارے سے نکلنے میں کامیاب ہوئے۔ طیارے سے نکلنے کے بعد مودی نے حکام کو بتایا کہ طیارے میں دو اغواکار ہیں جن میں سے ایک نے سفید پاجامہ اور کرتا اور دوسرے نے سفید دھوتی اور کرتا پہنے ہوئے ہیں۔ انھوں نے حکام کو یہ بھی بتایا کہ اغواکاروں کے پاس ہندی اور انگریزی میں چھپے پمفلٹ بھی ہیں جن میں ’قومی رہنما‘ کی رہائی کے مطالبات اور اپنے اقدام کی وسیع تشہیر کی اپیل درج ہے۔‘

’وزیر اعلیٰ سے بات چیت میں اغوا کاروں نے مطالبہ کیا کہ اندرا گاندھی کو فوری رہا کیا جائے، اُن کے خلاف تمام فوجداری مقدمات واپس لیے جائیں، جنتا پارٹی کی حکومت استعفیٰ دے اور آخر میں یہ کہ طیارہ واپس لکھنؤ جائے اور انھیں پریس سے ملنے کی اجازت دی جائے۔‘

’وزیر اعلیٰ نے پیشکش کی کہ اگر تمام مسافروں کو رہا کر دیا جائے تو وہ اغوا کاروں کو سرکاری طیارے میں لکھنؤ لے جائیں گے۔ اغوا کاروں نے ابتدا میں اس پیشکش کو مسترد کر دیا اور طیارے میں ایندھن بھرنے کا مطالبہ کیا۔ مرکزی کمیٹی نے وارانسی میں موجود مذاکرات کاروں کو ہدایت دی کہ طیارے میں ایندھن نہ بھرا جائے اور مذاکرات جاری رکھے جائیں۔‘

پی آئی اے کا طیارہ اغوا کرنے کی کوشش کرنے والے ہائی جیکر 37 سال بعد رہا: عبدالمنان ’موزے میں پستول‘ لے جانے میں کیسے کامیاب ہوئے؟پی آئی اے طیارہ ہائی جیکنگ: جب ہائی جیکروں کو دھوکہ دینے کے لیے پاکستان کا حیدرآباد انڈیا کا بھوج بن گیاTWA85: تاریخ کی ایک طویل اور سنسنی خیز ہائی جیکنگگنگا ہائی جیکنگ: جب دو کشمیری نوجوان انڈین طیارہ اغوا کر کے لاہور لے آئے

’انڈیا ٹوڈے‘ نے لکھا کہ مذاکرات پوری رات جاری رہے اور وزیراعظم ڈیسائی کی خصوصی ہدایات پر وزیراعلیٰ یادو نے اغوا کاروں کے کسی مطالبے کو تسلیم کرنے سے انکار کیے رکھا۔

’صبح تقریباً چھ بجے مسافروں نے شکایت کی کہ طیارے کے اندر ناقابلِ برداشت گھٹن ہو گئی ہے جس پر اغوا کاروں نے پچھلے دروازے کھولنے کی اجازت دے دی۔‘

’اسی اثنا میں کپتان نے ہنگامی سلائیڈ کے ریلیز لیور کو کھینچ دیا۔ دروازوں سے سلائیڈ نیچے گرتے ہی چند مسافر بھاگے اور رن وے پر اُتر گئے، اور تھوڑی ہی دیر میں طیارے میں سوار تقریباً آدھے مسافر ان کے پیچھے اتر آئے اور بالآخر لگ بھگ 60 مسافر اُتر چکے تھے۔‘

’اسی وقت اغوا کاروں میں سے ایک کے والد وارانسی ہوائی اڈے پر پہنچ گئے اور وائرلیس کے ذریعے اپنے بیٹے سے بات کی۔ باپ کی آواز سُن کر دونوں نوجوان اندرا گاندھی کے حق میں نعرے لگاتے ہوئے طیارے سے باہر نکل آئے اور خود کو حکام کے حوالے کر دیا۔‘

انڈین ایکسپریس کے مطابق اغوا کا یہ ڈرامہ 13 گھنٹے جاری رہا۔ اغواکاروں نے ’دو کھلونا پستول اور ایک کرکٹ بال، جو سیاہ کپڑے میں لپٹی ہوئی تھی اور دستی بم جیسی دکھائی دیتی تھی، حکام کے حوالے کر دیے۔‘

’وہ بے نیازی سے اترے اور ’اندرا گاندھی زندہ باد‘ کے نعرے لگائے، جس کے بعد انھیں حراست میں لے لیا گیا۔‘

’تفتیش کے دوران دونوں نے دعویٰ کیا کہ اس کارروائی کے لیے انھیں کانگریس کے رہنماؤں سے رقم ملی تھی۔ انھوں نے سٹیٹ کانگریس (آئی) کمیٹی کے دو عہدیداروں کے نام لیے جنھوں نے مبینہ طور پر انھیں بالترتیب 400 اور 200 روپے دیے۔ اسی رقم میں سے 350 روپے خرچ کر کے انھوں نے لکھنؤ سے دلی کے ہوائی ٹکٹ خریدے۔‘

اس واقعے کے چند ہی دنوں بعد اندرا گاندھی کو جیل سے رہا کر دیا گیا، تاہم دونوں نوجوانوں کو طیارہ اغوا کیس میں لکھنؤ جیل میں نو ماہ اور 28 دن قید کا سامنا کرنا پڑا۔

چند ماہ بعد اندرا گاندھی مرکز میں دوبارہ اقتدار میں آ گئیں اور اغواکار، بھولا ناتھ اور دیویندر پانڈے،کے خلاف مقدمہ واپس لے لیا گیا۔

مولشری سیٹھ نے انڈین ایکسپریس میں لکھا کہ کانگریس نے بھولا ناتھ کو بلیا ضلع کی دوآبہ اسمبلی نشست سے ٹکٹ دیا۔ سنہ 1980 میں محض 27 برس کی عمر میں بھولا ناتھ پہلی بار ایم ایل اے منتخب ہوئے۔ سنہ 1989 میں انھوں نے اسی نشست سے دوبارہ کامیابی حاصل کی مگر اس کے بعد وہکوئی انتخاب نہ جیت سکے تاہم کانگریس نے انھیں متعدد تنظیمی عہدے دیے رکھے۔

دیویندر پانڈے انڈین نیشنل کانگریس کے ٹکٹ پر جے سنگھ پور قانون ساز اسمبلی حلقے سے دو مرتبہ رکنِ اسمبلی (ایم ایل اے) منتخب ہوئے۔ وہ انڈین نیشنل کانگریس کے اتر پردیش کے ریاستی جنرل سیکریٹری بھی رہے۔

ہائی جیکنگ یا ’سکائی جوکنگ‘

اپنی کتاب ’انڈین ایئرپورٹس (شاکنگ گراونڈرییلٹیز)‘ میں کرشن آر واڈھوانی نے دیویندر ناتھ پانڈے کے حوالے سے لکھاہے کہ ’یہ تو دیوانگی تھی، گاندھی خاندان کے لیے دیوانگی کی حد تک سپردگی تھی۔‘

وہ مزید کہتے ہیں کہ ’اُس زمانے میں طیارہ اغوا کو جرم ہی نہیں سمجھا جاتا تھا۔‘ اے سوریا پرکاش نے لوک سبھا مباحث کے حوالے سے اپنے ایک تحقیقی مضمون میں لکھا ہے کہ 23 دسمبر کو لوک سبھا میں اس واقعےپر شدید بحث ہوئی۔

’دیگر جماعتوں کے اراکینِ پارلیمان نے ہائی جیکنگ کی مذمت کی تاہم آر وی وینکٹ رمن (جو بعد میں صدرِ انڈیابنے) اور وسنت ستھے سمیت کانگریس کے سرکردہ رہنماؤں نے اپنے کارکنان کے رویے کو درست ثابت کرنے کی کوشش کی اور ہائی جیکنگ کو محض ایک مذاق قرار دیا۔‘

وینکٹ رمن کے مطابق ’جب خبر آئی تو ملک میں غصہ تھا، مگر بعد میں پتا چلا کہ یہ صرف کھلونا پستول اور کرکٹ بال تھا، تو یہ سال کا مذاق بن گیا۔‘

پرکاش کے مطابق وسنت ستھے نے کہا کہ وہ ہائی جیکرز کے عمل کا دفاع نہیں کر رہے، مگر یہ سمجھ نہیں آتا کہ اسے ہائی جیکنگ کہا جائے یا ’سکائی جوکنگ‘۔ اُن کے مطابق یہ گمراہ نوجوانوں کی شرارت تھی کیونکہ انھوں نے کرکٹ بال اور کھلونا پستول استعمال کیا۔

وہ لکھتے ہیں کہ وزیرِ اعظم مرارجی ڈیسائی نے ہائی جیکنگ کو معمولی قرار دینے والے کانگریسی اراکین کو آڑے ہاتھوں لیا۔

’انھوں نے کہا کہ اگر پائلٹس گھبرا جاتے تو بڑا سانحہ ہو سکتا تھا۔ انھوں نے واضح کیا کہ کھلونا پستول ہو یا کرکٹ بال، پائلٹ خطرہ مول نہیں لے سکتے تھے۔‘

پی آئی اے کا طیارہ اغوا کرنے کی کوشش کرنے والے ہائی جیکر 37 سال بعد رہا: عبدالمنان ’موزے میں پستول‘ لے جانے میں کیسے کامیاب ہوئے؟پی آئی اے طیارہ ہائی جیکنگ: جب ہائی جیکروں کو دھوکہ دینے کے لیے پاکستان کا حیدرآباد انڈیا کا بھوج بن گیاقندھار ہائی جیکنگ: انڈین ایئرلائنز کی پرواز 814 قندھار کیسے پہنچی اور پھر کیا ہواTWA85: تاریخ کی ایک طویل اور سنسنی خیز ہائی جیکنگگنگا ہائی جیکنگ: جب دو کشمیری نوجوان انڈین طیارہ اغوا کر کے لاہور لے آئے
مزید خبریں

Disclaimer: Urduwire.com is only the source of Urdu Meta News (type of Google News) and display news on “as it is” based from leading Urdu news web based sources. If you are a general user or webmaster, and want to know how it works? Read More