جب بغداد کے بُرج پر ’خلیفہ کا سر‘ لٹکایا گیا: ہارون الرشید کے بیٹوں کی خانہ جنگی جس سے عباسی سلطنت کے زوال کی ابتدا ہوئی

بی بی سی اردو  |  Sep 25, 2025

سنہ 813 میں ایسا ہی ستمبر تھا جب چھٹے عباسی خلیفہ ابُو موسىٰ محمد بن ہارون الامينکو ان کے سوتیلے بھائی ابو العباس عبد اللہ بن ہارون المامون کی فوج نے قتل کر کے اُن کا سر اُنھی کے دارالخلافہ بغداد کے ایک بُرج پر لٹکا دیا۔

یہ خانہ جنگی جیتنے والے مامون اب ساتویں عباسی خلیفہ تھے۔

عباسی خلافت کا ابتدائی دور، خصوصاً ہارون الرشید (786–809) کی حکمرانی، اسلامی تاریخ کا ’سنہرا‘ دور سمجھا جاتا ہے جس میں ٹورنٹو یونیورسٹی سے منسلک تاریخ دان آدم علی کے مطابق خلافت مضبوط تھی اور سائنس، ادب، تہذیب اور فنونِ لطیفہ میں نمایاں ترقی ہوئی۔

ان کا پایۂ تخت بغداد اُس وقت دنیا کے بڑے اور دولت مند ترین شہروں میں شمار ہوتا تھا۔

مورخ ہیو کینیڈی کے مطابق ہارون کا زمانہ زیادہ مثبت اس لیے بھی دیکھا جاتا ہے کہ اس کے فوراً بعد خانہ جنگیوں، کشمکش اور زوال کے ایک طویل دور کا آغاز ہوا۔

لیکن ’خانہ جنگی کی جڑیں ہارون الرشید ہی کے طے کردہ جانشینی کے بندوبست اور عباسی خلافت کی داخلی سیاسی کشمکش میںتھیں۔‘

آدم علی اپنے ایک مضمون میں لکھتے ہیں کہ سنہ 802 میں ہارون اپنے بیٹوں امین، مامون اور قاسم کے ساتھ حج پر گئے اورتحریری معاہدے کے ذریعے کعبہ کے سامنے جانشینی کا باضابطہ اعلان کیا۔

’ہارون نے اپنی عرب النسل منکوحہ بیوی زبیدہ بنت جعفر(دوسرے عباسی خلیفہ منصور کی پوتی) سے اپنے بیٹےامین کو پہلا خلیفہ نامزد کیا اور بغداد اور عراق سمیت مغربی علاقوں کی حکمرانی ان کے سپردکی۔‘

وہ لکھتے ہیں کہ ’ان کے بعد خلافت، امین سے چھ ماہ بڑے ہارون الرشیدکی ایرانی کنیز مراجِلسے بیٹے، مامون کو ملنا تھی۔ انھیں خراسان کا حاکم بنایا گیا، جہاں کے خزانے اور فوجپراُن کا اختیار تھا اور امین کو مداخلت کی اجازت نہ تھی۔‘

’قاسم کو تیسرا ولی عہد اور شام اور بازنطینی سرحدی علاقوں کا خودمختار گورنر مقرر کیا گیا۔‘

Getty Imagesاس تصویر میں عباسی خلیفہ مامون بائیں جانب اور بازنطینی شہنشاہ تھیوفیلوس دائیں جانب دکھائے گئے ہیں۔

معاہدے کی شرائط کو مؤرخ طبری نے تفصیل سے بیان کیا ہے، مگر طیب الحبرینے کتاب ’دی ایمپائر ان عراق‘ میں لکھا ہے کہ ’امکان ہے کہ بعد کے مؤرخین، خصوصاً مامون کے حامی مورخین نے انھیں مسخ کر دیا ہو، خاص طور پر اس بات کے حوالے سے کہانھیں مشرقی صوبوں میں کس حد تک خودمختاری دی گئی تھی۔‘

آدم علی کے مطابق ’ظاہری طور پر ہارون گویا سلطنت کو بیٹوں میں تقسیم کر رہے تھے، مگر غالباً ان کا مقصد خانہ جنگی کو روکنا تھا۔‘

’وہ جانتے تھے کہ اتنی وسیع سلطنت کو ایک مرکز سے قابو میں رکھنا مشکل ہے اور ہر علاقے کے اپنے طاقت ور گروہ ہیں۔ امین کو عراق کی فوجی اشرافیہ (ابنا الدولہ یا ریاست کے بیٹے) کی حمایت حاصل تھی، جبکہ مامون کے پیچھے ایرانی وزیر خاندان برامکہ اور ان کے حامی کھڑے تھے۔ قاسم کو شام کے فوجی کمانڈر عبدالملک بن صالح کی سرپرستی حاصل تھی۔‘

’ہارون نے ہر دھڑے کو مطمئن کرنے کی کوشش کی تاکہ خلافت میں توازن قائم رہے۔‘

ایلٹن ڈینیئل ’دی پولیٹیکل اینڈ سوشل ہسٹری آف خراسان‘ میں لکھتے ہیں کہ خراسانی اشرافیہ کی (موجودہ عراق کے علاقے میں رہنے والے) ابنا سے پرانی رقابت تھی جو خراسانی معاملات پر کنٹرول اور اس کی آمدنی بغداد بھیجنے پر مصر تھے۔

’یہ کشیدگی کچھ عرصے کے لیے اُس وقت کم ہوئی جب فضل بن یحییٰ کو 793 میں خراسان کا گورنر بنایا گیا۔ لیکن 796 میں جب ابنا کے علی بن عیسیٰکو گورنر مقرر کیا گیا تو سخت ٹیکسوں نے بغاوتوں کو جنم دیا، حتیٰ کہ ثمرقند کے گورنر رافع بن لیث نے علمِ بغاوت بلند کر دیا۔‘

وہ لکھتے ہیں کہ ’یہ بغاوت اتنی شدید تھی کہ ہارون الرشید خود مامون اور اپنے حاجباور وزیر فضل بن ربیع کے ساتھ 808 میں خراسان روانہ ہوئے۔ مامون کو فوج کا ایک حصہ دے کر مَرو بھیجا گیا، اور ہارون طوس میں مقیم ہوئے، جہاں 24 مارچ 809 کو اُن کی وفات ہو گئی۔‘

ہارون الرشید کی وفات کے بعد بغداد میں مقیم امین تخت نشین ہوئے، جبکہ مامون مَرو میں رہ گئے۔

قرطبہ کی لبنیٰ ’ایک غلام کنیز‘ جو اپنی ذہانت سے اموی خلیفہ کی قابلِ اعتماد مشیر بنیںسلطنت عثمانیہ: جب نئے سلطان نے ’روتے روتے اپنے 19 بھائی مروا دیے‘خلیفہ ہارون الرشید کی زندگی کی کہانی: کتنی حقیقت، کتنا افسانہ؟منگول آندھی، جس سے بغداد آج تک سنبھل نہیں پایا

کینیڈی ’دی پروفٹ اینڈ دی ایج آف کیلیفیٹس‘ میں لکھتے ہیں کہ ’امین نے مشرقی فوج اور خزانہ واپس بلا لیا، جس سے مامون عسکری طور پر کمزور ہو گئے اور انھوں نے اپنے وزیر فضل بن سہل پر انحصار کیا، جنھوں نے مقامی اشرافیہ کو ساتھ ملایا۔‘

تاہم جلد ہی 802 کا جانشینی معاہدہ ٹوٹ گیا، کیونکہ بغداد کے اثرورسوخ رکھنے والے عہدیدار خراسان اور اس کی آمدنی کو براہِ راست مرکز کے ماتحت لانے پر اصرار کر رہے تھے۔

کچھ جدید محققین اس تنازع کو عرب اور ایرانی عناصر کے ٹکراؤ کے طور پر بیان کرتے ہیں، جس کی علامتخلافت کے دونوں دعوے داروں کی مائیں تھیں۔

البتہ ایف گیبرئلی کی کتاب ’الامین‘ کے مطابق بلاشبہ ایران سے وابستہ مشرق نے زیادہ تر مامون کی حمایت کی، جبکہنہ امین شعوری طور پر ’عربیت‘ کے علمبردار تھے اور نہ ہی مامون کو محض ایرانی نسب کی وجہ سے تائید ملی۔

ایم رکایا نے بھی ’المامون‘ میں لکھا ہے کہ ’اصل وجہ یہ تھی کہ خراسانی اشرافیہ نے مامون میں اپنی نئی خودمختاری کے تحفظ اور مزید مراعات کی امید دیکھی، جسے وہ خود بھی مضبوطی سے پروان چڑھاتے رہے۔ تاہم یہ جھگڑا بنیادی طور پر ایک خاندانی اقتدار کی کشمکش تھی، جیسی منصور کے دور سے خلفا میں رائج رہی۔ خود ہارون بھی اپنے بھائی الہادی کے مختصر دور میں قید رہ چکے تھے۔‘

گیبرئلی کے مطابق ’امین، جو سیاسی بصیرت سے محروم تھے، اپنے مشیر فضل بن ربیع کے اثر میں آ کر مامون کے خلاف اقدامات کرنے لگے۔‘

رکایا نے اسی مشیر کو تنازع کو ہوا دینے والا قرار دیا ہے۔

وہ لکھتے ہیں ’امین نے سب سے پہلے اپنے چھوٹے بھائی قاسم کو کنارے لگایا: پہلے جزیرہ کی گورنری چھینی، پھر جانشینی کے حق سے بھی محروم کر کے بغداد میں نظر بند کر دیا۔ صرف مامون ہی اس انجام سے بچے کیونکہ وہ مرکزِ خلافت سے دور مَرو میں مقیم تھے۔‘

سنہ 810 میں یہ اختلاف اس وقت شدت اختیار کر گیا جب امین نے اپنے بیٹے موسیٰ کو ولی عہد بنا دیا۔

Getty Imagesہارون الرشید اپنے مصاحبین کے ہمراہ خیمے میں (آئل پینٹنگ)

کینیڈی، رکایا اور ڈینئل کے مطابق اس کے بعد انھوں نے مامون کو بغداد بلانے کے لیے ایک وفد روانہ کیا، مگر مامون نے اپنی سلامتی کے خدشات کے پیش نظر آنے سے انکار کر دیا۔

اس انکار پر امین نے براہِ راست مداخلت شروع کر دی۔

کینیڈی، رکایا اور ڈینئل کے مطابق مامون کی جانب سے ابن اللیث کو معافی دینے پر اعتراض کیا، خراسان کے مغربی صوبوں کے گورنروں سے وفاداری کی علامت کے طور پر خراج طلب کیا، اور پھر بھائی سے مطالبہ کیا کہ وہ مغربی خراسان ان کے حوالے کرے، صوبے میں خلافت کے مالیاتی اور ڈاک افسر بھیجے جائیں اور خراسان کی آمدنی بغداد بھیجی جائے۔

کینیڈی، رکایا اور ڈینئل کے مطابق مامون، جو فوجی لحاظ سے کمزور اور محدود وسائل کے حامل تھے، ابتدا میں بھائی کے دباؤ کو ماننے پر تیار تھے۔ تاہم، ان کے وزیر فضل بن سہل نے انھیں اس سے باز رکھا اور اس بات پر زور دیا کہ وہ مقامی خراسانی اشرافیہ کی حمایت حاصل کریں، جو خلافت کی براہِ راست نگرانیسے پہلے ہی سخت نالاں تھے۔

الحبری لکھتے ہیں کہ ’ماموننے شعوری طور پر مقامی آبادی کی حمایت کو مضبوط بنانے کے لیے اقدامات کیے: ٹیکس کم کیے، ذاتی طور پر انصاف فراہم کیا، مقامی حکمرانوں کو مراعات دیں، اور لوگوں کے دل جیتنے کی کوشش کی۔ اس طرح وہ ایک ’سیاسی مقناطیس بن گئے۔‘

ڈینیئل کے مطابق انھوں نے نہ تو صوبہ چھوڑنے پر آمادگی ظاہر کی اور نہ ہی بغداد لوٹنے پر، بلکہ ان لوگوں کو اپنے گرد جمع کرنا شروع کیا جو بغداد کی مرکزیت کے مخالف تھے یا عباسی انقلاب کے بعد اقتدار اور دولت کی تقسیم سے محروم رہ گئے تھے۔

اپنے اپنے وزرا کے اثر میں، امین اور مامون نے ایسے اقدامات کیے جنھوں نے سیاسی ماحول کو مزید تقسیم کر دیا۔

رکایا، الحبری اور کینیڈی نے لکھا ہے کہ نومبر 810 میں مامون نے علامتی طور پر اپنے سکے جاری کیے اور جمعہ کے خطبے سے امین کا نام ہٹا دیا۔ اس کے جواب میں امین نے مامون اور المعتمد دونوں کو ولی عہدی کی فہرست سے نکال کر اپنے بیٹوں موسیٰ اور عبداللہ کو جانشین نامزد کر دیا۔

’مامون نے اس کے ردعمل میں خود کو ’امام‘ قرار دیا۔ یہ ایک مذہبی لقب تھا جو اگرچہ براہِ راست خلافت کو چیلنج نہیں کرتا تھا، مگر اس کے باوجود آزاد اتھارٹی کا اظہار کرتا تھا اور عباسیوں کی ابتدائی ہاشمی تحریک کی یاد دلاتا تھا جس نے انھیں اقتدار تک پہنچایا تھا۔‘

رکایا، الحبری اور کینیڈی کے مطابق ’امین نے محض دو ماہ بعد، جنوری 811 میں علی بن عیسیٰ کو خراسان کا گورنر مقرر کیا، 40 ہزار کے غیر معمولی لشکر کی قیادت سونپی اور حکم دیا کہ مامون کو معزول کرکے بغداد لایا جائے۔ لیکن 3 جولائی 811 کی جنگ میں طاہر ابن الحسین کی قیادت میں خراسانیوں نے شاندار فتح حاصل کی۔ علی مارے گئے اور ان کی فوج شکست کھا کر مغرب کی سمت بھاگ نکلی۔‘

طاہر اب مغرب کی جانب بڑھےاور ہمدان کے قریب سخت معرکوں کے بعد عبدالرحمن بن جَبَلہ کی فوج کو بھی شکست دی، پھر سردیوں تک حلوان جا پہنچے۔

Getty Imagesاموی مسجدجو عباسی خلیفہ المامون کے دورِ حکومت میں تعمیر ہوئی

رکایا، الحبری اور کینیڈی کے مطابق امینکی عرب قبائل سے اتحاد کی کوششیں ناکام رہیں۔ مارچ 812 میں ابنا کے ایک دھڑے کے حسین بن علی نے بغداد میں ایک مختصر بغاوت کر دی اور مامون کو خلیفہ قرار دے دیا، مگر کچھ ہی عرصے بعد ابنا کے دوسرے دھڑوں نے جوابی بغاوت کر کے امین کو دوبارہ تخت پر بٹھا دیا۔ لیکن فضل بن ربیع، جو اس جنگ کے بڑے محرکین میں سے ایک تھے، نے نتیجہ اخذ کیا کہ امین کا معاملہ ختم ہو چکا ہے، اور انھوںنے درباری مناصب سے استعفیٰ دے دیا۔

اسی دوران میں مامون کو باضابطہ طور پر خلیفہ تسلیم کر لیا گیا اور فضل بن سہل کو ایک غیرمعمولی لقب ملا: ذوالریاستین (دو سربراہیاں رکھنے والا)، جو ان کے سول اور عسکری دونوں انتظامات پر مکمل اختیار کی علامت تھا۔

سنہ 812 کے موسم بہار میں، طاہر نے دوبارہ اپنی مہم کا آغاز کیا اور مختلف علاقوں پر قبضہ کرتے ہوئے مغرب سے بغداد کی سمت بڑھے، جبکہ حَرثَمہ مشرق سے آگے بڑھ رہے تھے۔

رکایا، الحبری اور کینیڈی نے لکھا ہے کہ اسی دوران میں امین کی اقتدار پر گرفت تیزی سے کمزور ہوتی گئی: موصل، ’مصر اور حجاز مامون کے حامیوں کے قبضے میں آ گئے، جبکہ شام، آرمینیا اور آذربیجان کے بیشتر علاقے مقامی عرب قبائلی سرداروں کے زیر اثر چلے گئے۔ جب طاہر کی فوج بغداد کے قریب پہنچی، تو امین اور ابنا کے درمیان دراڑ کھل کر سامنے آ گئی۔‘

رکایا، الحبری اور کینیڈی کے مطابق مایوس خلیفہ نے عوام سے مدد مانگی اور انھیں ہتھیار دے دیے۔ نتیجہ یہ ہوا کہ ابنا طاہر کے لشکر میں شامل ہونے لگے۔ اگست 812 میں جب طاہر کی فوج بغداد کے دروازوں پر پہنچی تو انھوںنے اپنا کیمپ حربیہ کے علاقے میں ڈالا جو ابنا کا گڑھ سمجھا جاتا تھا۔

تاریخ داں ہیو کینیڈی نے اس کے بعد ہونے والے محاصرے کو ’ابتدائی اسلامی معاشرت کی تاریخ میں تقریباً بے مثال واقعہ‘ قرار دیا۔

کینیڈی اور رکایا نے لکھا ہے کہ ’ستمبر 813 میں طاہر نے چند امیر شہریوں کو قائل کیا کہ وہ دجلہ پر قائم پُل توڑ ڈالیں، جن سے شہر کا بیرونی دنیا سے رابطہ تھا۔ اس سے مامون کے سپاہی مشرقی مضافات پر قابض ہو گئے۔ پھر انھوں نے آخری یلغار کی، جس میں امینگرفتار ہوئے اور طاہر کے حکم پر قتل کر دیے گئے۔‘

شبلی نعمانی نے اپنی کتاب ’المامون‘ میں لکھا ہے کہ امین کو جب گرفتار کرکے لایا گیا تو ان کے بدن پر کوئی لباس نہیں تھا اور محض ایک پاجامہ پہنا ہوا تھا۔ سر پر ایک عمامہ اور کاندھے پر ایک بوسیدہ سی چادر تھی اور انھوں نے عمامہ سے اپنا چہرہ چھپا لیا تھا۔

’آدھی رات گزری ہو گی کہ چند اہل عجم ننگی تلواریں لیے آئے۔ ایک شخص نے تلوار سر پر ماری۔ نزاکت غضب ناک جراٗت سے بدل گئی، دلیرانہ انداز میں آگے بڑھے۔ یہ دیکھ کر گروہ کا گروہ دفعتاً ٹوٹپڑا۔ ایک شخص نے کمر پر تلوار ماری اور پھر سب نے مل کر پچھاڑا اور الٹی طرف سے ذبح کیا۔‘

’طاہر کے پاس سر لائے تو اس نے حکم دیا کہ اسے ایک برج پر لٹکا دیا جائے۔ پورا بغداد یہ عبرت انگیز تماشا دیکھنے آیا، طاہر یہ کہہ کر لوگوں سے اپنی کارروائی کی داد چاہتا تھا کہ ’یہ خلیفہ معزول کا سر ہے۔‘‘

طاہر کو اگرچہ منظرِ عام سے ہٹا کر رقہ میں ایک غیر اہم عہدہ دے دیا گیا، لیکن خلیفہ امین کے قتل نے عباسی خلافت کی ساکھ پر گہرا داغ چھوڑا۔ ایلٹن ڈینیئل کے الفاظ میں: ’اسسے وہ تقدس ٹوٹگیا جو عباسی خلفا کی ذات کے گرد قائم تھا؛ پہلی مرتبہ ایک عباسی خلیفہ کو باغی رعایا نے ذلیل کر کے قتل کیا تھا۔‘

آدم علی لکھتے ہیں کہ اگرچہ 813 کے موسمِ خزاں تک مامون کے مخالفین شکست کھا چکے تھے، بغداد ان کے قبضے میں آ گیا تھا، الامین قتل ہو چکے تھے اور مامونخلیفہ بن گئےتھے، پھر بھی جنگ ختم نہ ہوئی۔

’یہ لڑائی مزید چھ برس جاری رہی، جس نے خلافت کے قلب کو ناقابلِ تلافی معاشی اور انتظامی نقصانات پہنچائے اور عباسی اقتدار کی کمزوری کو تیز تر کر دیا۔ یہی کمزوری بالآخر مختلف علاقوں میں نیم خودمختار اور مکمل طور پر آزاد مقامی سلطنتوں کے عروج کا باعث بنی۔ دسویں اور گیارھویں صدی تک بعض ایسی سلطنتیں، جیسے بویہی اور سلجوقی، اس نہج تک پہنچ گئیں کہ بغداد میں موجود خلفا کو اپنی کٹھ پتلی بنا کر قابو میں کر لیا، جو سیاسی طور پر بے اثر اور محض علامتی حیثیت تک محدود رہ گئے۔‘

مامون الرشید کے نام سے مشہور، مامون نے 833 میں اپنی وفات تک حکومت کی۔

الحبری کے مطابق رفتہ رفتہ صوبے خلافت سے نام کی وفاداری ظاہر کرنے لگے مگر عملاً آزاد حکمران بن گئے۔ یہی بعد کے عباسی دور کی اصل پہچان بنی۔

خلیفہ ہارون الرشید کی زندگی کی کہانی: کتنی حقیقت، کتنا افسانہ؟قرطبہ کی لبنیٰ ’ایک غلام کنیز‘ جو اپنی ذہانت سے اموی خلیفہ کی قابلِ اعتماد مشیر بنیںمنگول آندھی، جس سے بغداد آج تک سنبھل نہیں پایاسلطنت عثمانیہ: جب نئے سلطان نے ’روتے روتے اپنے 19 بھائی مروا دیے‘سلطنتِ عثمانیہ: تین براعظموں کے سلطانجب یورپ کھالوں پر لکھتا تھا اور مسلمان دانشوروں نے وہاں کاغذ متعارف کروایا
مزید خبریں

Disclaimer: Urduwire.com is only the source of Urdu Meta News (type of Google News) and display news on “as it is” based from leading Urdu news web based sources. If you are a general user or webmaster, and want to know how it works? Read More