پاکستان انٹرنیشنل ایئرلائنز نے برطانیہ کی جانب سے تھرڈ کنٹری آپریٹر کی باضابطہ منظوری ملنے کے بعد اگلے ماہ سے فلائٹ آپریشن شروع کرنے کا فیصلہ کیا ہے۔بدھ کو پی آئی اے کے ترجمان کے بیان کے مطابق پہلے مرحلے میں مانچسٹر کی پروازیں چلائی جائیں گی اور اس کے بعد برمنگھم اور لندن بھی نیٹ ورک میں شامل کیا جائے گا۔
بیان کے مطابق گزشتہ روز برطانوی محکمہ ٹرانسپورٹ کی جانب سے باقاعدہ طور پر پی آئی اے کو آگاہ کر دیا گیا تھا جس کے نتیجے میں پی آئی اے نہ صرف مسافروں کے لیے براہ راست پروازیں آپریٹ کرے گا اور بلکہ کارگو سروس بھی شروع ہو جائے گی۔
اس پیش رفت کے بعد طویل عرصے بعد پی آئی اے کو یورپی اور برطانوی فضائی مارکیٹ تک دوبارہ رسائی حاصل ہو جائے گی۔
اس وقت دنیا بھر کی فضائی کمپنیوں کے لیے برطانیہ ایک بڑی منڈی کی حیثیت رکھتا ہے اور پی آئی اے کے لیے ان روٹس کی بحالی ایک نئے موقع کی صورت میں سامنے آ رہی ہے۔قومی ایئرلائن کے ترجمان عبداللہ خان کے مطابق برطانیہ کے ساتھ فضائی رابطے کی بحالی لاکھوں پاکستانی نژاد شہریوں کے لیے خوشخبری ہے جو براہ راست پروازوں کی عدم دستیابی کے باعث طویل عرصے سے مشکلات کا شکار تھے۔ماہرین کا ماننا ہے کہ برطانیہ کے روٹس پر واپسی پی آئی اے کے لیےکئی چیلنجز بھی موجود ہیں (فوٹو: اے ایف پی)ایوی ایشن ماہرین کا ماننا ہے کہ برطانیہ کے روٹس پر واپسی پی آئی اے کے لیے ایک بڑا موقع ضرور ہے لیکن اس کے ساتھ ساتھ کئی چیلنجز بھی موجود ہیں۔ ان میں سب سے نمایاں مسئلہ بیڑے میں شامل طیاروں کی کمی ہے۔ پی آئی اے کے پاس اس وقت محدود تعداد میں قابل استعمال طیارے ہیں، جبکہ جدید ایوی ایشن انڈسٹری میں مقابلے کے لیے جدید طیارے اور معیاری سروس کی فراہمی بنیادی ضرورت سمجھی جاتی ہے۔گذشتہ برسوں میں ایئرلائن مالی مشکلات، خسارے اور محدود وسائل کے باعث بحران کا شکار رہی ہے۔ خسارے کے بوجھ نے ایئرلائن کی سروس کو متاثر کیا اور بین الاقوامی پروازوں کا شیڈول بار بار متاثر ہوا۔ اب جبکہ برطانیہ کے روٹس کی بحالی قریب ہے، پی آئی اے کے لیے یہ ایک امتحان سے کم نہیں ہوگا۔ اسے نہ صرف عالمی ایوی ایشن مارکیٹ میں اپنی ساکھ بحال کرنی ہے بلکہ مسافروں کا اعتماد بھی دوبارہ حاصل کرنا ہوگا۔پی آئی اے گزشتہ چار برسوں سے یورپ اور برطانیہ کے لیے براہ راست پروازیں نہیں چلا سکی (فوٹو: اے ایف پی)واضح رہے کہ برطانیہ نے جولائی 2025 میں پاکستان کو ایئر سیفٹی لسٹ سے نکالنے کا فیصلہ کیا تھا۔ یہ فیصلہ پاکستان سول ایوی ایشن اتھارٹی اور ایئرلائنز کے لیے ایک بڑی کامیابی قرار دیا جا رہا ہے۔ اس کے نتیجے میں نہ صرف پی آئی اے بلکہ دیگر پاکستانی ایئرلائنز کو بھی مستقبل میں برطانیہ کے لیے پروازیں شروع کرنے کا موقع مل سکتا ہے، جس سے فضائی شعبے میں مسابقت بڑھے گی اور مسافروں کو بہتر سہولیات میسر آئیں گی۔یاد رہے کہ جولائی 2020 میں یورپی یونین ایوی ایشن سیفٹی ایجنسی نے سیفٹی خدشات اور لائسنسز کے اجرا میں بے ضابطگیوں کے وفاقی وزیر کے بیان کے بعد پی آئی اے کی یورپ اور برطانیہ کے لیے پروازوں پر پابندی عائد کی تھی۔اس فیصلے نے نہ صرف قومی ایئرلائن کو اربوں روپے کے نقصان سے دوچار کیا بلکہ ہزاروں پاکستانیوں کو بھی مشکلات کا سامنا کرنا پڑا جو ان روٹس پر سفر کے لیے براہ راست پروازوں کے منتظر رہتے تھے۔ اس پابندی کے باعث پی آئی اے گزشتہ چار برسوں سے یورپ اور برطانیہ کے لیے براہ راست پروازیں نہیں چلا سکی۔پی آئی اے کے لیے یہ موقع کسی امتحان سے کم نہیں کہ وہ کس طرح اپنی تاریخی حیثیت کو بحال کرتی ہے (فوٹو: اے ایف پی)تاہم حالیہ برسوں میں ایوی ایشن حکام اور پی آئی اے نے یورپی ریگولیٹری اداروں کے ساتھ تعاون بڑھایا اور حفاظتی اقدامات میں بہتری لائی۔اس کا نتیجہ یہ نکلا کہ پی آئی اے نے یورپ کے لیے اپنا فلائٹ آپریشن دوبارہ بحال کر دیا ہے اور فرانس کے لیے پروازوں کا آغاز ہو چکا ہے، جسے یورپی روٹس پر واپسی کی ایک بڑی کامیابی قرار دیا جا رہا ہے۔ماہرین کے مطابق اگر پی آئی اے بروقت اپنے بیڑے میں طیاروں کی شمولیت اور سروس کے معیار کو بہتر بنانے میں کامیاب ہو جائے تو برطانوی روٹس پر دوبارہ آپریشن ایئرلائن کے مالی استحکام اور عالمی ساکھ دونوں کے لیے فائدہ مند ثابت ہو سکتا ہے۔ بصورت دیگر، اسے سخت مسابقت کا سامنا کرنا پڑے گا کیونکہ خلیجی اور دیگر بین الاقوامی ایئرلائنز پاکستانی اور برطانوی مسافروں کی بڑی تعداد کو اپنی سروس کے ذریعے متوجہ کر رہی ہیں۔