Getty Images
بگرام آج پھر طاقت کے بیانیوں کا مرکز ہے۔ 1950 کی دہائی میں افغانستان کے برف پوش پہاڑوں کے دامن میں سوویت یونین کے ہاتھوں تعمیر ہونے والافضائی اڈہ دو عالمی طاقتوں، یعنی سوویت یونین اور امریکہ کا فوجی مرکز بنا اور اب افغان وزارتِ دفاع کے زیرِ انتظامہے، مگر شمالی صوبے پروان کے اس مقام کی تاریخ صدیوں پرانی ہے۔
یاد رہے کہ افغانستان میں طالبان کی حکومت نے امریکہ کی جانب سے بگرام ایئر بیس کو دوبارہ اپنے کنٹرول میں لینے کے اعلان کو مسترد کرتے ہوئے کہا ہے کہ ایسے عزائم رکھنے والوں کو ’افغانستان کی تاریخ دیکھنی چاہیے۔‘
امریکہ کے اعلان کے بعد نہ صرف طالبان حکومت کی جانب سے جواب آیا ہے بلکہ چین کی جانب سے بھی سخت ردعمل سامنے آیا۔
لیکن بگرام کی اپنی تاریخ کیا ہے اور یہ علاقہ سکندر اعظم سے لے کر بابر تک حکمرانوں کی توجہ کا مرکز کیوں رہا؟
وسطی ایشیا، جنوبی ایشیا اور مشرقِ وسطیٰ کے سنگم پر، افغانستان کے دارالحکومت کابل سے تقریباً 60 کلومیٹر شمال میں ایک بلند سطح مرتفع پر پُرہیبت ہندوکش پہاڑوں کے دامن میں گِھرا بگرام کبھی سکندر یونانی کی فوجوں کا مرکز بنا اور کبھی کُشان بادشاہوں نے یہاں اپنا گرمائی دارالحکومت بسایا۔
بدھ خانقاہوں کی گھنٹیاں بھی یہاں بجتی رہیں اور پھر ساتویں صدی میں عربوںنے اس خطے کی روح بھیبدلی۔ قدیم شاہراہ ِ ریشمپر اس مرکزی تجارتی سنگم سے روم، ایران، ہند اور چین کے قافلے بھی گزرتے رہے۔
انسائکلوپیڈیا برٹینیکا میں لکھا ہے کہ شہر سکندریہ-کاپیسو بگرام، جو سکندر یونانی نے قائم کیا، رفتہ رفتہ ہندوستان کی مغربی تجارت کا سب سے اہم مرکز بن گیا۔
Getty Imagesپُرہیبت ہندوکش پہاڑوں کے دامن میں گِھرا بگرام کبھی سکندر یونانی کی فوجوں کا مرکز بنا
انسائکلوپیڈیا برٹینیکا کے مطابق ’یہاں سے نہ صرف سامانِ تجارت گزرتا تھا بلکہ افکار اور عقائد بھی۔ ہندوستان کے مذہبی تصورات، خصوصاً بدھ مت، اور وہ ادبی و فنکارانہ اسلوب جو گندھارا (موجودہ شمال مغربی پاکستان کی وادیِ کابل کے زیریں حصے میں، دریائے قندوز اور دریائے سندھ کے درمیان) اور متھرا (پنجاب، شمال مغربی ہندوستان) میں نشوونما پاتے تھے، انھی راستوں سے باختر پہنچے اور وہاں سے کبھی کشمیر، تبت اور چین تک اور کبھی سنکیانگ کے دور افتادہ صحرائی نخلستانی قصبوں تک جا پہنچے۔‘
وارک بال اوریاں گلاڈگارڈین نے ’آرکیالوجیکل گیزیٹیئر آف افغانستان‘ میں لکھا ہے کہ ’قدیم بدھ مت اور ہندو مجسموں کی صورت گری سے ظاہر ہوتا ہے کہ یہ شہر ابتدائی طور پر ہندوستانی نسل کے لوگوں کے زیرِ حکمرانی تھا، جو یا تو یہاں ہجرت کرکے آئے تھے یا پھر اُن ایرانی اقوام کے ساتھ گھل مل گئے تھے جو اس خطے میں داخل ہوئیں، جیسے باختر سے آنے والے کَمبوجا۔‘
’جب سکندر کے جانشین آپس میں برسرِ پیکار تھے، اُس وقت برصغیر کے شمالی حصے میں مَوریا سلطنت ابھر رہی تھی۔ اس سلطنت کے بانی چندرگپت موریا نے 305 قبل مسیح میں مقدونیہ کے سپہ سالار سیلیوکس اول کی قیادت میں آنے والے حملہ آور لشکر کا مقابلہ کیا۔ مختصر جنگ کے بعد ایک معاہدہ طے پایا جس کے تحت سیلیوکس نے گندھارا، اراخوسیہ (جس کا مرکز قدیم قندھار تھا) اور بگرام کے جنوب میں واقع علاقے (جو آج کے افغانستان کے انتہائی جنوب مشرقی حصے کے مساوی ہیں) مَوریا سلطنت کے حوالے کر دیے۔‘
’تقریباً 120 سالہ مَوریا دور میں جنوبی افغانستان میں بدھ مت کا تعارف ہوا، جو رفتہ رفتہ زرتشتیت اور مقامی قدیم مذاہب کے ساتھ ایک بڑا مذہب بن گیا۔ بگرام اورمیر زکہ سے موریا دور کے سکّے بھی دریافت ہوئے ہیں، جو اس خطے میں اُس زمانے کی تجارت یا انتظامی موجودگی کی نشاندہی کرتے ہیں۔‘
بعد میں اسے ’کاپیسا‘ کہا جانے لگا۔
بگرام ایئر بیس کی سیٹلائٹ تصاویر کا موازنہ: افغانستان میں دو سپر پاورز کا فوجی اڈہ جس پر ٹرمپ کے مطابق اب ’چین قابض ہے‘امریکہ بگرام فوجی اڈہ کیوں حاصل کرنا چاہتا ہے اور اس پر چین کو تشویش کیوں ہے؟غیرملکی افواج نے ’فوجی قوت کی علامت‘ بگرام ایئربیس خالی کر دیا، طالبان کا خیرمقدم’امریکی فوجی رات کی تاریکی میں بغیر بتائے بگرام فضائی اڈہ چھوڑ گئے‘Getty Imagesوارک بال اوریاں گلاڈگارڈین نے ’آرکیالوجیکل گیزیٹیئر آف افغانستان‘ میں لکھا ہے کہ قدیم بدھ مت اور ہندو مجسموں کی صورت گری سے ظاہر ہوتا ہے کہ یہ شہر ابتدائی طور پر ہندوستانی نسل کے لوگوں کے زیرِ حکمرانی تھا
گو کہ آج کے افغانستان کے ایک صوبے کا نام بھی اب کاپیسا ہے، کاپیسا شہر کا اوّلین حوالہ پانچویں صدی قبل مسیح کے ہندوستانی عالم پانِنی کی تحریروں میں ملتا ہے۔ وہ کاپیسیانا نامی شراب کا بھی ذکر کرتے ہیں جو اسی علاقے کی پیداوار تھی۔ کاپیسا کا نام انڈو-یونانی حکمران اپالودوتُس/یوکراتائڈز اور نیزک ہن کے سکّوں پر بھی ملتا ہے۔
بگرام کے گرد و نواح میں کاپیسا (آج کا بیگرام) کے آثار پائے جاتے ہیں۔
تاریخ دان ٹرِسٹن ہیوزلکھتے ہیں کہ ’یہ شہر قدیم سپر پاورز کی کئی یلغاروں کا گواہ رہا۔ یہاں فارسی آئے، پھر سکندر یونانی اور ان کے جانشین۔ لیکن کشانی سلطنت کے دور میں خوشحال اور قدیم بیگرام نے اپنا سنہری عہد دیکھا۔‘
عبدالواحد علیکوزئی نے ’اے کنسائزہسٹری آف افغانستان‘ میں لکھا ہے کہ یہاں پہلی سے چوتھی صدی عیسوی کے درمیان شمالی افغانستان سے لے کر شمال مغربی ہندوستان تک پھیلی کُشان سلطنت کا گرمیوں کا دارالحکومت تعمیر کیا گیا۔ اسےگریکو- باختر سلطنت کے دفاع میں کلیدی حیثیت حاصل تھی۔
’یہ شہر بلند فصیل اور برجوں سے مزیّن تھا، جبکہ اس کی مرکزی شاہراہ پر کُشان حکمرانوں کا شان دار محل قائم تھا جس میںکارخانے اور دکانیں تھیں۔ اس میں ہندوستان کے تراشیدہ ہاتھی دانت، ہندوستانی لاکھ کے صندوق، مصر اور روم کے شیشے، پلاسٹر کے نقش و نگار والے تختے اور شاہ راہ ِ ریشم کے راستے لائی گئی اشیا رکھی جاتی تھیں۔‘
’دنیا بھر میں مشہور یہ ’بیگرام کا خزانہ‘ اُس عظیم تجارتی سرگرمی کی گواہی دیتا ہے جو کُشان سلطنت کے دور میں ہوتی تھی۔ کاپیسا کے زوال کے باوجود، ساسانی دور (تقریباً 241ء) میںشاہراہِ ریشم کے راستے لائے گئے سامان کو وہاں محفوظ پایا گیا۔‘
کُشان سلطنت کے بعد کے زمانوں میں، کاپیسا ایک ایسی سلطنت کا حصہ رہا جس پر ایک بدھ مت کشاتریہ بادشاہ حکمرانی کرتا تھا۔
Getty Imagesافغانستان میں طالبان کی حکومت نے امریکہ کی جانب سے بگرام ایئر بیس کو دوبارہ اپنے کنٹرول میں لینے کے اعلان کو مسترد کرتے ہوئے کہا ہے کہ ایسے عزائم رکھنے والوں کو ’افغانستان کی تاریخ دیکھنی چاہیے‘
چینی زائر ہیون سانگ نے 644ء میں یہاں کا سفر کیا اور لکھا کہ یہ بادشاہ دس قریبی ریاستوں پر بھی اقتدار رکھتا تھا۔ ہیون سانگ نے اس علاقے کے مشہور گھوڑوں کا بھی ذکر کیا، اور ساتھ ہی مختلف اناج، پھل اور ایکخوشبودار جڑ کی پیداوار کا حوالہ بھی دیا۔
جے۔ پی۔ رائے لاسٹی اور مالنی کی ادارت میں چھپی کتاب ’مغل انڈیا: آرٹ، کلچراینڈ ایمپائر‘ میں لکھا ہے کہ افغانستان اور ملحقہ پشتون خطے پر اسلامی فتوحات ساتویں صدی میں، ایران کی فتح کے فوراً بعد، شروع ہوئیں۔
رچرڈ نیلسن فرائے’انسائیکلوپیڈیا آف اسلام‘ میں لکھتے ہیں کہ1221ء میں صوبہ پروان، جس کا بگرام ایک حصہ ہے، اُس تاریخی معرکے کا میدان بنا جہاں حملہ آور منگول فوجیں، چنگیز خان کی قیادت میں، خوارزم شاہی سلطنت کے حکمران جلال الدین منگبرنی سے ٹکرائیں اور شکست سے دوچار ہوئیں۔
مغل انڈیا میں لکھا ہے کہ ’افغانستان کی مکمل اسلامی حیثیت غزنوی دور میں قائم ہوئی۔‘ اس کے بعد یہ خطہ تیموریوں اور مغلوں کے زیرِ نگیں رہا۔
کتاب ’مغل انڈیا‘ کے مطابق مانا جاتا ہے کہموجودہ قصبے کو قدیم شہر کی جگہ پر ظہیرالدین بابر نے بسایا۔ بابر کے سوانح عمری ’بابر نامہ‘ میں اُن کے 1519ء کے سفر کا ذکر ہے جس میں اُنھوں نے ہندو جوگیوں کی بستی کا تذکرہ کیا ہے، جو اُن کے لیے باعثِ کشش تھی۔
فرائے لکھتے ہیں کہ 1747ء میں احمد شاہ درانی نے پروان کو اپنی درانی سلطنت میں شامل کر لیا۔ بعد ازاں 1840ء میں پہلی اینگلو-افغان جنگ کے دوران میں پروان ایک اور بڑی لڑائی کا مرکز بنا، جہاں برطانوی افواج کو بھی شکست کا سامنا کرنا پڑا۔
Getty Images1840ء میں پہلی اینگلو-افغان جنگ کے دوران میں پروان ایک اور بڑی لڑائی کا مرکز بنا، جہاں برطانوی افواج کو بھی شکست کا سامنا کرنا پڑا
ہیوز کے مطابق چین، ہندوستان اور بحیرۂ روم کو ملانے والا یہ شہر قدیم زمانے کا ایک عظیم سنگم تھا۔ یوریشیا کے طول و عرض میں بنا ہوا سامان تجارت اور سفارت کے ذریعے اس قدیم شہر تک پہنچتا تھا۔ ایک خاص ذخیرہ اس ربط کی سب سے بہترین علامت ہے: بیگرام ہورڈ۔
’فرانسیسی ماہرینِ آثارِ قدیمہ نے یہ خزانہ دریافت کیا۔ ایک حیرت انگیز مجموعہ، جس میں مشرقی چین، برصغیر اور رومی بحیرۂ روم کی قدیم اشیا ایک ہی جگہ پر موجود تھیں۔‘
سنہ 1939 میں آثارِ قدیمہ کی کھدائی میں یہ ثابت ہوا کہ کاپیسا اس دور میں کاپیسیانا شراب کی تجارت کا مرکز تھا۔ یہاںبوتلیں، مچھلی کی شکل کے مٹکے اور پینے کے برتن دریافت ہوئے جو اس زمانے کی شراب کی تجارت کے عام لوازمات تھے۔ علاقے کے انگور اور شراب کا ذکر قدیم ہندوستانی ادب کی متعدد کتابوں میں بھی آتا ہے۔
قدیم دریافتوں کو اُس وقت کےنظامِ تقسیم کے تحت میوزے گیمیٹ (پیرس) اور قومی عجائب گھر کابل کے درمیان تقسیم کیا گیا۔ 1978 میں کابل میوزیم کے بند ہونے کے بعد ہاتھی دانت کی یہ اشیاء کہاں گئیں، اس بارے میں یقین نہ رہا اور 1990 کی دہائی میں ان میں سے کئی نوادرات لوٹ لیے گئے۔
رابرٹ جے مورگن نے اپنی کتاب ’آن دِس ڈے‘میں لکھا ہے کہ 22 اکتوبر 1996 کے ٹائمز آف لندن کی سرخی یوں چیخی: ’ہمیشہ کے لیے کھو گیا: ایک قوم کا ورثہ جو اس کے اپنے لوگوں نے لوٹ لیا۔‘
Getty Imagesہیوز کے مطابق چین، ہندوستان اور بحیرۂ روم کو ملانے والا یہ شہر قدیم زمانے کا ایک عظیم سنگم تھا
اخبار نے لکھا: ’افغانستان کا قومی میوزیم کابل میں ملبے کا ڈھیر ہے۔ کبھی یہاں دنیا کے سب سے عظیم کثیرالثقافتی قدیم نوادرات کا ذخیرہ تھا: فارسی، ہندوستانی، چینی، وسطی ایشیائی اور اس سے بھی آگے۔‘
’لیکن تہہ خانوں کو دھماکوں سے اڑا دیا گیا ، شوکیس توڑ ڈالے گئے، نوادرات لوٹے گئے اور فوری نقدی کے لیے انھیں دنیا بھر میں یہاں وہاں بیچ ڈالا گیا۔ راکٹوں نے میوزیم کی چھت کو چیر ڈالا، قدیم کانسی کے نوادرات کو ٹنوں ملبے تلے دفن کر دیا۔‘
’ماقبل تاریخ کے برتن یوں تھیلوں میں بھر دیے گئے جیسے کوئی سستی چینی مٹی کے برتن ہوں۔‘
’بیگرام کا ذخیرہ، جو بیسویں صدی کی سب سے بڑی آثارِ قدیمہ کی دریافتوں میں سے ایک تھا، غائب ہو گیا۔ قریباً 40,000 سکے، جو دنیا کے سب سے قدیم سکوں میں شمار ہوتے ہیں، غائب ہو گئے۔تابناک ماضی کو آج کے بے لگام حال نے برباد کر ڈالا۔ ایک قوم اپنی تاریخ سے محروم ہو گئی۔‘
پیٹر بیومونٹ نےاخبار دی گارڈین میں لکھا کہ سنہ 2004 میں ان میں سے کچھ گمشدہ اشیا دوبارہ برآمد ہوئیں، جبکہ 20 مزید نوادرات جو غیر قانونی طور پر قدیم نوادرات کے سوداگروں کے ذریعے فروخت کیے جا رہے تھے، بازیاب کر لیے گئے۔ برٹش میوزیم میں ان کی بحالی کے بعد انھیں 2011 میں نمائش کے لیے پیش کیا گیا۔
افغانستان میں سوویت فوج کے خلاف سٹنگر میزائل کا پہلا حملہ کرنے والے ’انجینیئر غفار‘ جنھیں امریکیوں نے راولپنڈی میں تربیت دیامریکہ بگرام فوجی اڈہ کیوں حاصل کرنا چاہتا ہے اور اس پر چین کو تشویش کیوں ہے؟آپریشن سائیکلون: جب امریکہ نے افغانستان میں ’طالبان‘ کو تیار کیابگرام ایئر بیس کی سیٹلائٹ تصاویر کا موازنہ: افغانستان میں دو سپر پاورز کا فوجی اڈہ جس پر ٹرمپ کے مطابق اب ’چین قابض ہے‘غیرملکی افواج نے ’فوجی قوت کی علامت‘ بگرام ایئربیس خالی کر دیا، طالبان کا خیرمقدم’امریکی فوجی رات کی تاریکی میں بغیر بتائے بگرام فضائی اڈہ چھوڑ گئے‘