فلپائن میں سیلاب روکنے کے منصوبوں میں بڑے پیمانے پر کرپشن اور بھاری کمیشن وصول کرنے والے قانون سازوں اور دیگر اعلیٰ عہدے داروں کے خلاف ہزاروں افراد سڑکوں پر نکل آئے ہیں۔امریکی خبر رساں ادارے ایسوسی ایٹڈ پریس(اے پی) کے مطابق اتوار کو ہزاروں مظاہرین فلپائن کے دارالحکومت منیلا کی سڑکوں پر ارکان اسمبلی، بعض حکام اور کاروباری افراد کے کرپشن اسکینڈل کے خلاف مظاہرے میں شریک ہوئے۔حکومت کی جانب سے پولیس فورسز اور فوج کو کسی بھی قسم کے تشدد کے خدشے کے پیش نظر الرٹ کر دیا گیا۔اس کے بعد ہزاروں پولیس اہلکاروں کو تاریخی منیلا پارک اور دارالحکومت کے علاقے میں مرکزی ای ڈی ایس اے ہائی وے کے قریب یادگارِ جمہوریت کے مقام پر احتجاج کو محفوظ بنانے کے لیے تعینات کیا گیا۔دوسری جانب امریکہ اور آسٹریلیا کے سفارت خانوں نے اپنے شہریوں کو حفاظتی تدابیر کے طور پر ان مظاہروں سے دور رہنے کی ہدایت کی۔اے پی کے مطابق منیلا کی جانب احتجاجی مارچ کرنے والے مظاہرین کا ایک گروپ فلپائن کے جھنڈے لہرا رہا تھا اور انہوں نے ایک بینر اٹھایا ہوا تھا جس پر لکھا تھا ’اب بس، بہت ہو گیا، انہیں جیل میں ڈالو۔‘یہ مظاہرین اس میگا سکینڈل میں ملوث تمام افراد کے فوری احتساب کا مطالبہ کر رہے تھے۔منیلا میں مظاہرے میں شریک ایک طالب علم کارکن آلتھیا ٹرینیڈاڈ نے ایسوسی ایٹڈ پریس کو بتایا کہ ’مجھے افسوس ہے کہ ہم غربت میں ڈوبے ہوئے ہیں اور اپنے گھر، اپنی زندگیاں اور اپنا مستقبل کھو دیتے ہیں جبکہ وہ ہمارے ٹیکسوں سے بڑی دولت سمیٹتے ہیں جو ان کی لگژری گاڑیوں، غیرملکی دوروں اور بڑی کاروباری ڈیلز کے لیے خرچ ہوتے ہیں۔‘انہوں نے کہا کہ ’ہم ایسا نظام چاہتے ہیں جہاں لوگوں کا استحصال نہ ہو۔‘آلتھیا ٹرینیڈاڈ بلکان میں رہتی ہیں جو منیلا کے شمال میں ایک سیلاب زدہ صوبہ ہے جہاں حکام کے مطابق زیادہ تر سیلاب کنٹرول منصوبوں کی یا تو ناقص یا سے سے موجود ہی نہ ہونے سے متعلق سے تحقیقات ہو رہی ہیں۔فلپائن کی کیتھولک بشپ کانفرنس کے سربراہ ورجیلیو ڈیوڈ نے کہا ہے کہ ’ہمارا مقصد عدم استحکام نہیں بلکہ جمہوریت کو مضبوط کرنا ہے۔‘مظاہرین اس میگا سکینڈل میں ملوث تمام افراد کے فوری احتساب کا مطالبہ کر رہے تھے (فائل فوٹو: اے ایف پی)انہوں نے عوام سے پرامن احتجاج اور احتساب کا مطالبہ کرنے کی اپیل کی۔ان مظاہروں کے منتظمین کا کہنا تھا کہ مظاہرین بدعنوان حکام، قانون سازوں اور تعمیراتی کمپنیوں کے مالکان کے ساتھ ساتھ اس نظام کی مذمت پر توجہ مرکوز کریں گے جو بڑے پیمانے پر کرپشن کی اجازت دیتا ہے لیکن وہ صدر فرڈینینڈ مارکوس جونیئر سے استعفے کا مطالبہ نہیں کریں گے۔مارکوس جونیئر نے سب سے پہلے جولائی میں اپنے سالانہ سٹیٹ آف دی نیشن خطاب میں سیلاب کنٹرول کرپشن سکینڈل کو اجاگر کیا تھا۔بعد میں انہوں نے ایک آزاد کمیشن قائم کیا تاکہ ان نو ہزار 855 سیلاب کنٹرول منصوبوں میں بے ضابطگیوں کی تحقیقات کی جا سکے جن کی مالیت 545 ارب پیسوس (یعنی95 ارب ڈالر) سے زیادہ ہے اور جو ان کے عہدہ سنبھالنے کے بعد سے شروع کیے جانے تھے۔انہوں نے کرپشن کے حجم کو ’خوفناک‘ قرار دیا اور اپنے پبلک ورکس سیکریٹری کا استعفیٰ قبول کر لیا تھا۔فلپائن میں عوامی غم و غصہ اس وقت بھڑک اٹھا جب کئی تعمیراتی کمپنیوں کے مالک اور سیلاب کنٹرول منصوبوں کے منافع بخش ٹھیکے حاصل کرنے والے ایک امیر جوڑے نے میڈیا انٹرویوز میں اپنی درجنوں یورپی اور امریکی لگژری کاریں اور ایس یو ویز دکھائیں۔اس بیڑے میں ایک برطانوی لگژری کار بھی شامل تھی جس کی قیمت 42 ملین پیسوس (سات لاکھ 37 ہزار ڈالر) تھی جس کے بارے میں انہوں نے کہا کہ انہوں نے یہ اس لیے خریدی کیونکہ اس کے ساتھ مفت چھتری ملتی تھی۔