خوبصورت سمندر، نیلا پانی اور سفید لباس میں ملبوس ایک کشتی پر پاکستانی اداکارہ عائشہ عمر موجود ہیں جو اپنا سفر مکمل کر کے ایک عالیشان گھر کے دروازے کے باہر رُکتی ہیں۔
اس دوازے کے پیچھے کیا نہیں ہے؟ یہ بالکل کسی بڑے بجٹ کی فلم کے سیٹ کی طرح کا مقام ہے جہاں سوئمنگ پول کے باہر ایک چھوٹے سے دروازے پر اردو میں لفظ ’عشق‘ لکھا ہوا ہے۔
عائشہ عمر خود اس شو، جس کا نام ’لازوال عشق‘ رکھا گیا ہے، کے ٹریلر میں کہہ رہی ہیں کہ یہ ایک ’رئیلٹی شو‘ ہے جہاں پاکستانی مرد اور خواتین ’سچے عشق کو تلاش‘ کریں گے۔
’یاد رکھیں یہ گھر سچی محبت کے لیے ہے۔‘
اس شو کا ٹریلر جاری ہوئے چار دن گزر چکے ہیں اور پاکستانی سوشل میڈیا پر نگاہ دوڑانے سے یہ معلوم ہوتا ہے کہ کچھ صارفین ’سچے عشق کی تلاش‘ کے اس طریقے سے کچھ زیادہ خوش نہیں۔
صرف یہی نہیں پاکستان میں میڈیا کے نگراں ادارے پیمرا نے بھی تصدیق کی ہے کہ اسے ’لازوال عشق‘ سے متعلق شکایات موصول ہوئی ہیں تاہم پیمرا کا کہنا ہے کہ یہ شو ادارے کے لائنسنس کے حامل کسی پلیٹ فارم پر نشر نہیں ہو رہا اور اس لیے پیمرا قوانین کا اطلاق بھی اس پر نہیں ہو گا۔
لیکن سوشل میڈیا پر اس پر تنقید کا سلسلہ اب بھی جاری ہے۔
ایک صارف نے لکھا کہ ’اسلامی جمہوریہ پاکستان کی حکومت کی سرپرستی میں اب عشق لڑانے کی سہولت دستیاب ہو گی۔‘
تاہم یہ صارف شاید یہ بات نظرانداز کر گئے کہ اس شو کا حکومت سے کوئی تعلق نہیں اور اسے ترکی کی ایک پروڈکشن کمپنی نے تیار کیا ہے۔
’عشق ابدی‘: محبت، تفریح یا شہرت کے حصول کا خطرناک جُوا’راہُل کی عاشقی سے ایم سی سٹین کی بندوق تک‘: سنسنی اور جھگڑوں سے بھرپور شو ’بگ باس‘ دو دہائیوں میں کیسے تبدیل ہوا؟’میری موسیقی جغرافیائی سیاست سے آزاد ہے‘: گلوکار بادشاہ پر پاکستانی سپانسرڈ شو میں پرفارم کرنے کا الزام ’ہمیں فقیر بنا دیا گیا ہے‘: پاکستانی ڈرامہ انڈسٹری جہاں ’چیک ملنے میں مہینوں لگ جاتے ہیں‘
ایک صارف نے اسے ’انتہائی بہیودہ پراجیکٹ‘ قرار دیا اور کہا کہ ’ذاتی زندگی میں جس کی جو مرضی کرے لیکن اگر کسی چیز کا اثر معاشرے پر پڑے گا یا بہیودگی کو عام کرنے کے لیے کوئی کام ہو گا تو اس پر ہم لازمی تنقید کریں گے۔‘
ایسا نہیں کہ اس شو پر صرف تنقید ہو رہی ہے، کچھ صارفین ایسے بھی ہیں جو اس کے دفاع میں بول رہے ہیں لیکن اس سے قبل یہ جاننا ضروری ہے کہ ’لازوال عشق‘ میں دکھایا کیا جائے گا؟
’سچے عشق کی تلاش‘
اس شو کے ٹریلر میں چند مردوں اور خواتین کو بھی دکھایا گیا ہے۔
پروگرام کے ٹریلر میں میزبان عائشہ عمر خود بتا رہی ہیں کہ ’سچے عشق کی تلاش کرتے یہ لوگ اپنا سارا وقت اس شاندار گھر میں گزاریں گے، جہاں ہر لمحہ کیمروں میں ریکارڈ کیا جائے گا۔‘
’رشتوں کے چیلنجنگ ٹیسٹ کے ذریعے (شو کے شرکا) ایک دوسرے کو بہتر طور پر جانیں گے۔ جیتنے والی جوڑی ایک عظیم الشان انعام جیتے گی۔‘
شو کا یہ فارمیٹ جانا پہچانا ہے اور اس طرز پر کئی ملکوں میں ایسے ہی شو بنائے گئے ہیں، جو پاکستان میں بھی مقبول رہے ہیں۔
اسسے پہلے ترکی میں ہی ’عشق ادوسی‘ کےنام سے برطانوی پروگرام ’لو آئی لینڈ‘ کا مقامی ورژن تیار ہوا تھا۔ اب ’لازوال عشق‘ اسی طرز پر دنیا بھر میں اردو سمجھنے والے ناظرین کے لیے بنایا گیا ہے۔
بی بی سی اردو سے گفتگو کرتے ہوئے عائشہ عمر نے تصدیق کی ہے کہ ’لازوال عشق‘ کو ایک ترکش کمپنی نے بنایا۔
ان کا کہنا تھا کہ ’یہ شو یوٹیوب کے لیے بنایا گیا۔ یہ دراصل ایک ترکش شو ہے جسے بہت ساری زبانوں میں بنایا گیا ہے۔ عرب ناظرین کے لیے یہ شو عربی میں بنایا گیا تھا، فارسی میں بھی بنایا جا چکا ہے اور اب یہ اردو میں بھی بنایا جا رہا ہے۔‘
انھوں نے تصدیق کی کہ اس میں شامل شرکا بھی پاکستانی ہی ہیں۔
اس سے قبل پاکستان میں کئی ترکش ڈرامے اردو ترجمے کے ساتھ نشر ہوتے رہے ہیں تاہم ’لازوال عشق‘ کی میزبان عائشہ عمر سمجھتی ہیں کہ اس شو کو اردو میں ہی فلمایا جانا ضروری تھا کیونکہ پاکستان کا کلچر اور روایات مختلف ہیں۔
’ہمارے کلچر، روایات اور اصولوں کے دائرے میں رہ کر یہ شو بن رہا ہے۔ یہ ڈیٹنگ شو نہیں بلکہ یہ ابدی عشق کے بارے میں ہے، جو ہمارے کلچر میں شادی کہلاتا ہے۔‘
کیا پاکستان میں اس قسم کے پروگراموں پر پابندی ہونی چاہیے؟
جہاں کچھ لوگ ’لازوال عشق‘ پر تنقید کر رہے ہی تو وہیں کچھ صارفین کا کہنا ہے کہ ان پروگراموں کے نشر ہونے میں کوئی حرج نہیں۔
ایکس پر ایک صارف منیب قادر نے لکھا کہ ’لازوال عشق میں کچھ بھی غلط یا غیر اخلاقی نہیں۔ یہ یوٹیوب کا پروگرام ہے اور بالغ افراد کے لیے بنایا گیا ہے جو یہ فیصلہ خود کر سکتے ہیں کہ انھیں اسے دیکھنا ہے یا نہیں۔ ہم اپنی پسند پر اختیار رکھتے ہیں۔‘
ایکس پر ایک اور صارف نے لکھا کہ ’طلاق کی بڑھتی ہوئی شرح کو دیکھتے ہوئے یہ بہتر نہیں کہ لڑکا، لڑکی پہلے مل لیں، ایک دوسرے کو سمجھ لیں، نہیں سمجھ آئے تو چھوڑ دیں؟‘
فصیح باری خان معروف پاکستانی ڈرامہ رائٹر ہیں، جن کے مقبول ڈراموں میں ’برنس روڈ کی نیلوفر‘ اور ’قدوسی صاحب کی بیوہ‘ جیسے سپر ہٹ پروجیکٹس شامل ہیں ہیں۔
فصیح باری اب ٹی ویکے ساتھ اپنے یوٹیوب چینل ’کباڑ خانہ‘ اور ’میم کہانی‘ کے نام سے ایک اور یوٹیوب چینل پر ڈرامے بناتے ہیں۔
بی بی سی اردو سے بات کرتے ہوئے ان کا کہنا تھا کہ بطور لکھاری وہ یوٹیوب پر اپنے دل کی بات باآسانی کہہ سکتے ہیں۔
ان کا کہنا تھا کہ ’ایسے پلیٹ فارمز پر دیکھنے والوں کو خود فیصلہ کرنے دیں کہ انھیں کیا دیکھنا ہے۔‘
’کچھ ایسے حساس موضوعات ہوتے ہیں جن پر ہر لکھاری کا دل چاہتا ہے کہ وہ لکھے لیکن اس مواد کو ٹی وی پر نہیں چلایا جا سکتا۔‘
’لازوال عشق‘ کے حوالے سے بات کرتے ہوئے انھوں نے ایک سوال کرنے پر ہی اکتفا کیا کہ ’ہم ہر تجربے کے بعد اس قدر جذباتی کیوں ہو جاتے ہیں؟‘
ٹیلر سوئفٹ کی منگنی اور ’کروڑوں روپے‘ کی انگوٹھی: مشہور شخصیات پر بڑے ہیروں اور قدیم ڈیزائن کا سحر طاریوہ اداکار جو اپنے عروج پر امیتابھ بچن سے زیادہ فیس لیتے تھےعصمت چغتائی: فحاشی کے مقدمے کا سامنا کرنے والی بےباک ادیبہ جنھوں نے موت کے بعد بھی دنیا کو چونکا دیا’میری موسیقی جغرافیائی سیاست سے آزاد ہے‘: گلوکار بادشاہ پر پاکستانی سپانسرڈ شو میں پرفارم کرنے کا الزام ابتدا میں فلاپ قرار دی گئی فلم ’شعلے‘ جس کے رقص، رومانس اور کہانی کے مداح اسے بھولے نہیں بھول پاتے