Getty Imagesایف آئی اے نے پاکستان فٹبال فیڈریشن سے گولڈن فٹبال ٹرائل کے الحاق کے لیٹر کی تصدیق کی تو انھوں نے آگاہ کیا کہ اس ضمن میں پیش کیے جانے والا لیٹر جعلی ہے
احمد (فرضی نام) اُس پاکستانی کلب کے ’فٹبال سکواڈ‘ کا حصہ تھے جو 15 جون کو سیالکوٹ انٹرنیشنل ایئرپورٹ سے بذریعہ پرواز جاپان کے کنسائی انٹرنیشل ایئرپورٹ پہنچا تھا۔
22 کھلاڑیوں پر مشتمل اِس سکواڈ کے تمام اراکین نے ’کلب یونیفارم‘ پہن رکھی تھی اور وہ خوش تھے کہ پاکستان سے تمام تر امیگریشن اور سکیورٹی کلیئرنس کے بعد وہ جاپان پہنچنے میں کامیاب رہے ہیں۔
اِن 22 کھلاڑیوں نے پاکستان میں امیگریشن حکام کو بتایا تھا کہ اُن کا تعلق ’گولڈن فٹبال ٹرائل‘ نامی کلب سے ہے اور یہ کہ وہ جاپان کے مختلف فٹبال کلبز کے ساتھ میچ کھیلیں گے اور پھر اُن کی وطن واپسی ہو جائے گی۔ ان افراد کے پاس جاپان کے ویزے بھی تھے۔
ریجنل ڈائریکٹر ایف آئی اے گوجرانوالہ محمد بن اشرف کے مطابق احمد نے اپنے بیان میں بتایا کہ وہ اور اُن کے ساتھ موجود تمام لڑکے 15 جون کو پنجاب کے ضلع سیالکوٹ کے انٹرنیشنل ائیرپورٹ سے نجی ایئرلائن کی فلائٹ نمبر ایف زیڈ 338 میں سوار ہوئے جہاں اُن کو معمول کی کلئیرنس کے بعد طیارے میں سوار ہونے کی اجازت مل گئی۔
احمد کے مطابق تمام لڑکے سپورٹس یونیفارم میں تھے اور خوش تھے کہ وہ اگلی منزل کی طرف جا رہے ہیں۔
محمد بن اشرف کے مطابق احمد نے بتایا کہ لڑکے جہاز میں بھی سیلفیاں بناتے رہے اور گپ شپ کرتے رہے مگر جب وہ جاپان کے کنسائی انٹرنیشل ائیرپورٹ (اوساکا) پہنچے تو امیگریشن حکام نے اس سکواڈ میں شامل تمام 22 لڑکوں کو دیگر مسافروں سے الگ کر لیا اور اُن سے نسبتا ’سختی سے پوچھ گچھ‘ کی اور تمام افراد سے فرداً فرداً علیحدہ کمروں میں انٹرویو کیے۔
احمد نے ایف آئی اے کو مزید بتایا کہ ’اس کے بعد جاپان امیگریشن کے عملے نے تمام لڑکوں کے پاسپورٹ لے لیے، سپورٹنگ دستاویزات اپنے پاس رکھ کر اُن کی تصدیق شروع کر دی، کچھ افسران فون کالز ملانے لگے اور کچھ نے کمپیوٹرز سے ہماری دستاویزات کی چیکنگ شروع کر دی۔ ہمیں الگ الگ کمروں میں بٹھا دیا گیا اور کہا گیا کہ آپ دستاویزات کی تصدیق کا عمل مکمل ہونے تک یہاں سے باہر نہیں جا سکتے۔‘
احمد نے ایف آئی اے حکام کو مزید بتایا کہ ’گزرتے وقت کے ساتھ ہمارے ساتھ امیگریشن عملے کا رویہ نسبتا سخت ہو چکا تھا۔ ہمارے ویزے لگوانے اور جاپان بھجوانے والے ایجنٹ نے کہا تھا کہ جس طرح آپ لوگوں کے ویزے اِن دستاویزات کی بنیاد پر آسانی سے لگ گئے ہیں، اِسی طرح آپ نے جاپان کے امیگریشن والوں کو یہ لیٹرز دکھانے ہیں، تو وہ آپ کو کلئیر کر کے ایئرپورٹ سے باہر نکلنے کی اجازے دے دیں گے لیکن یہاں تو معاملہ ہی الٹ چل رہا تھا۔‘
ایف آئی اے افسر کے مطابق احمد نے بیان میں مزید کہا کہ ’پانچ سے چھ گھنٹوں کے بعد امیگریشن والوں نے ہمیں بتایا کہ ہم آپ کو جاپان میں داخلے کی اجازت نہیں دے سکتے اور واپس پاکستان ڈی پورٹ کر رہے ہیں۔ انھوں نے ہمارے پاسپورٹس اور تمام دستاویزات اگلی فلائٹ کے منیجر کے حوالے کیں اور ہمیں فلائٹ نمبر ایف زیڈ 337 کے ذریعے واپس پاکستان بھجوا دیا گیا۔‘
’ہمیں جاپان سے ڈی پورٹ کر کے واپس بھیج دیا گیا اور جب ہم ایئرپورٹ سے باہر نکلے تو ایف آئی اے کی ٹیم وہاں پہلے سے موجود تھی جنھوں نے ہمیں حراست میں لیا اور دفتر لا کر ہم سے پوچھ گچھ کی، تمام دستاویزات ضبط کیں اور ہمارے بیانات ریکارڈ کیے، جس کے بعد ہمیں گھروں کو واپس جانے کی اجازت ملی۔‘
ایئرلائن کی چیک شیٹس پر جاپان کے امیگریشن حکام نے تحریر کیا کہ ان تمام 22 افراد کو ’غلط بیانی، لو پروفائل اور دورے کے مقصد کی تصدیق نہیں ہو سکی‘ کی بنیاد پر ڈی پورٹ کیا گیا تھا۔
ایف آئی اے کا دعویٰ ہے کہ اس کے بعد ہونے والی تفتیش میں یہ سامنے آیا کہ یہ تمام افراد کھلاڑی نہیں تھے، اِن کے پاس موجود تمام تر دستاویزات (جن کی بنیاد پر ویزے حاصل کیے گئے تھے) جعلی تھیں اور یہ بھی کہ اِن میں سے ہر شخص سے مبینہ انسانی سمگلر نے جاپان پہنچانے کے عوض 40 لاکھ روپے وصول کیے تھے۔
ایف آئی اے کا مزید دعویٰ ہے کہ ان تمام افراد کو فٹبال اور اس کھیل سے متعلق بنیادی تربیت دی گئی تھی تاکہ وہ امیگریشن حکام کے سوالوں کا جواب دے سکیں۔
تفتیش میں کیا سامنے آیا؟
اس واقعے کی ایف آئی آر سرکار کی مدعیت میں ایف آئی اے میں مختلف دفعات کے تحت درج کی گئی۔
ایف آئی اے حکام کا کہنا ہے کہ مبینہ انسانی سمگلر کو گذشتہ روز گرفتار کر کے آج (17 ستمبر) کو مقامی عدالت میں پیش کیا گیا اور اس کے جسمانی ریمانڈ کی استدعا کی۔
عدالت نے ملزم کو چار روزہ جسمانی ریمانڈ پر ایف آئی اے حکام کے حوالے کر دیا ہے۔
’لندن روڈ‘: یورپی سیاحوں کے لیے پاکستان کا دروازہ سمجھی جانے والی سڑک جو ’ڈنکی روٹ‘ بن گئیلاہور سے بغیر پاسپورٹ اور ویزا سعودی عرب پہنچنے والے پاکستانی شہری کا ایئرلائن کے خلاف مقدمہبورڈنگ پاس کا معمہ: ’مجھے پرواز سے اترنے کے بعد بتایا گیا کہ میں اس طیارے میں سوار ہی نہیں ہوئی تھی‘پاکستان سے بیرون ممالک جانے والے بھکاریوں کے گروہ: ’یہاں روپے ملتے ہیں، سعودی عرب میں ریال میں بھیک ملتی ہے‘
ایف آئی اے ہیڈکوارٹر نے اس معاملہ کی باقاعدہ تحقیقات کا حکم دیا اور اس معاملے پر ہونے والی ابتدائی انکوائری رپورٹ میں کہا گیا کہ ’جعلی فٹبال ٹیم کے خلاف مزید تحقیقات کی جا رہی ہیں، جعلی ٹیم میں شامل لڑکوں کے اس معاملے میں کردار کا تعین دوران تفتیش کیا جائے گا اور قصوروار ثابت ہونے کی صورت میں انھیں بھی مقدمے میں نامزد کر دیا جائےگا۔ تمام لڑکوں کے پاسپورٹ ایف آئی اے نے تفتیش مکمل ہونے تک ضبط کر لیے ہیں۔‘
اس کیس میں درج ایف آئی آر کے مطابقتمام 22 لڑکوں کو سپورٹس یونیفارم میں سفر کروایا گیا اور ان کو سفر کروانے سے پہلے فٹبال کی بنیادی تربیت بھی دی گئی تھی۔
ایف آئی آر کے مطابق مبینہ انسانی سمگلر نے جاپان بھجوانے کے عوض تمام 22 لڑکوں سے فی کس 40 لاکھ روپے وصول کیے، جو مجموعی طور پر آٹھ کروڑ 80 لاکھ روپے بنتے ہیں۔
ایف آئی آر کے مطابق ایف آئی اے کی انکوائری میں یہ بات ثابت ہوئی کہ جو لڑکے ڈی پورٹ ہوئے ان کا فٹبال کے کھیل سے کسی طرح کوئی تعلق نہ تھا۔ مبینہ ایجنٹ نے ’گولڈن فٹبال ٹرائل‘ کے نام سے جعلی کلب بنایا اور اس کلب کا پاکستان فٹبال فیڈریشن کے ساتھ الحاق کا بھی جعلی لیٹر تیار کیا، جس کے بعد تمام لڑکوں کو فٹ بال ٹیم کے کھلاڑیوں کی طرح تربیت دی گئی اور جعلی دستاویزات کی بنیاد پر جاپان کی ایمبیسی سے لڑکوں کے ویزے لگوائے گئے۔
ایف آئی آر کے مطابق ملزم نے فٹ بال فیڈریشن کی جعلی رجسٹریشن دستاویزات بنائیں۔ جعلی دستاویزات کے مطابق ملزمان کے جاپان میں فٹبال میچز شیڈول تھے، ملزم نے پاکستانی وزارت خارجہ کے جعلی کاغذات بھی تیار کروائے۔ ان تمام افراد کے پاکستان واپس پہنچنے کے بعد جب ایف آئی اے نے پاکستان فٹبال فیڈریشن سے گولڈن فٹبال ٹرائل کے الحاق کے لیٹر کی تصدیق کی تو پاکستان فٹبال فیڈریشن نے اس کلب کے ساتھ الحاق سے انکار کیا اور آگاہ کیا کہ اس ضمن میں پیش کیے جانے والا لیٹر جعلی ہے۔
Getty Imagesتمام لڑکوں کے پاسپورٹ ایف آئی اے نے تفتیش مکمل ہونے تک ضبط کر لیے ہیں
ایف آئی آر کے مطابق اس کے بعد ایف آئی اے کی تفتیشی ٹیم نے جب اُس ٹریول ایجنسی کے مالک سے رابطہ قائم کیا جہاں سے جاپان جانے کےلیے تمام 22 افراد کی ٹکٹیں خریدی گئی تھیں تو انھوں نے بتایا کہ ان تمام لڑکوں کے لیے ٹکٹیں اس مقدمے میں نامزد مبینہ انسانی سمگلر نے ہی خریدی تھیں اور اس کے عوض ادائیگی بھی اسی ایک شخص نے کی تھی۔
ترجمان ایف آئی اے کے مطابق تفتیش میں یہ بات سامنے آئی کہ اس کیس میں نامزد ملزم اس سے پہلے یکم جنوری 2024 کو 17 نوجوانوں کو جعلی فٹبال ٹیم کا رُکن ظاہر کر کے جاپان بھجوا چکا ہے، جس میں ویزا حصول کے لیے جعلی پاکستان فٹبال فیڈریشن لیٹر اور وزارتِ خارجہ کا جعلی این او سی استعمال کیا گیا۔
اس کیس کے تفتیشی افسر نے عدالت کو بتایا کہ ملزم سے گروہ میں شامل دیگر افراد کے بارے پوچھ گچھ کی جانی ہے، اس کے علاوہ ملزم نے لڑکوں کو بیرون ملک بھجوانے کےلیے جو جعلی دستاویزات تیار کیں وہ پرنٹنگ مشین اور میٹریل برآمد کیا جانا ہے جبکہ رقم کی برآمدگی بھی باقی ہے جس پر عدالت نے ملزم کو چار روزہ جسمانی ریمانڈ دے دیا۔
ریجنل ڈائریکٹر ایف آئی اے گوجرانوالہ محمد بن اشرف نے بتایا کہ ڈی پورٹ ہونے والے تمام لڑکوں کے بیانات ریکارڈ کیے جا رہے ہیں اور انھیں ریکارڈ کا حصہ بنایا جا رہا ہے۔ انھوں نے کہا کہ تفتیش اور بیانات ریکارڈ کرنے کے بعد مزید ملزمان کو اس کیس میں نامزد کیا جا سکتا ہے۔
’کشتی الٹنے کے واقعات کے بعد جعلی دستاویزات کا دھندہ شروع ہو گیا‘
انسانی سمگلنگ کے کیسوں پر گہری نظر رکھنے والے صحافی اقبال مرزا کہتے ہیں کہ انسانی سمگلرز نے زمینی راستوں پر سختی اور سمندری راستوں پر جان جانے کے بڑھتے ہوئے واقعات کے بعد نیا طریقہ واردات تلاش کر لیا ہے جس کے تحت اب لوگوں کو جعلی دستاویزات پر بیرون ممالک بھجوایا جانے لگا ہے۔
وہ کہتے ہیں کہ گذشتہ دو سال میں کشتی الٹنے کے متعدد واقعات میں وسطی پنجاب کے سینکڑوں لڑکے جانیں گنوا بیٹھے ہیں اور سرکاری اداروں نے بھی اس سلسلے میں کافی پکڑ دھکڑ کی، شاید یہی وجہ ہے کہ جعلی دستاویزات کا کام اب تیز ہو گیا۔
انھوں نے کہا کہ ’گوجرانوالہ میں باڈی بلڈنگ، فن پہلوانی اور ویٹ لفٹنگ کے کھیل مقبول ہیں لیکن ان کھیلوں کی آڑ میں کبھی انسانی سمگلنگ کا کوئی کیس رپورٹ نہیں ہوا اور ان کھیلوں کی فیڈریشنز اس بارے کافی سخت موقف رکھتی ہیں اور کھلاڑیوں کی بین الاقوامی مقابلوں میں شرکت سے پہلے ٹرائلز کا سخت مرحلہ ہوتا ہے۔‘
’تاہم فٹبال کلب کے نام پر لڑکوں کو جاپان بھجوایا جانا ایک چونکا دینے والا معاملہ ہے جس کی تفتیش کی جانی چاہیے اور تمام کرداروں کو کیفر کردار تک پہنچایا جانا چاہیے کیونکہ اس میں ملک کی عزت اور وقار دائو پر لگ جاتی ہے۔‘
’گرین ہیل‘: وہ خطرناک راستہ جو ڈنکی لگا کر امریکہ پہنچنے والوں کے لیے موت کا گھاٹ ثابت ہوا’لندن روڈ‘: یورپی سیاحوں کے لیے پاکستان کا دروازہ سمجھی جانے والی سڑک جو ’ڈنکی روٹ‘ بن گئیڈنکی: ’امریکہ جانے کے لیے 33 لاکھ روپے ضائع کیے، زمین بیچ دی اور کئی ماہ جیل میں گزارے لیکن اب اپنے ملک میں رہنا چاہتا ہوں‘لاہور سے بغیر پاسپورٹ اور ویزا سعودی عرب پہنچنے والے پاکستانی شہری کا ایئرلائن کے خلاف مقدمہبورڈنگ پاس کا معمہ: ’مجھے پرواز سے اترنے کے بعد بتایا گیا کہ میں اس طیارے میں سوار ہی نہیں ہوئی تھی‘پاکستان سے بیرون ممالک جانے والے بھکاریوں کے گروہ: ’یہاں روپے ملتے ہیں، سعودی عرب میں ریال میں بھیک ملتی ہے‘