Getty Images
انڈیا کی سپریم کورٹ نے مسلمانوں کی طرف سے 'اللہ کے نام پر' وقف کی گئی جائیدادوں سے متعلق نئے ترمیمی قانون میں اس شق کو معطل کر دیا ہے جس میں کہا گیا ہے کہ صرف وہی شخص اپنی املاک کو وقف کر سکتا ہے جو کم از کم پانچ برس سے ’پریکٹسنگ مسلمان‘ ہو۔
عدالت عظمی نے وقف ترمیی قانون کے خلاف دائر کی گئی مختلف درخواستوں پر سماعت کے بعد اپنا فیصلہ سناتے ہوئے کہا کہ جب تک حکومت پریکٹسنگ مسلمان کے تعین کی تشریح نہیں کرتی تب تک اس شق کا اطلاق نہیں ہو گا۔ عدالت عظمی نے اپنے اس فیصلے میں وقف بورڈ میں غیر مسلم ارکان کی تعداد بھی محدود کر دی ہے۔
وقف ترمیمی قانون پارلیمنٹ پاس ہونے اور صدر مملکت کی منظوری کے بعد گذشتہ مئی میں نافذ کیا گیا تھا۔ اسے ملک کے سرکردہ مسلم اداروں اور رہنماؤں نے سپریم کورٹ میں چیلنج کیا تھا۔
ان کا کہنا تھا اس قانون کی شقیں وقف کے انتظام کے حوالے سے مسلمانوں کے مذہبی حقوق کے مناقی ہیں اور اسے غیر آئینی قرار دیا جائے۔
سپریم کورٹ کے فیصلے میں کیا ہے؟
سپریم کورٹ کے چیف جسٹس بی آر گوائی اور جسٹس اے بی مسیح پر مشتمل بینچ نے اپنا فیصلہ سناتے ہوئے کہا کہ عدالت نے 1923 میں بنائے گئے قانون سے موجودہ قانون تک کی تاریخ کا مطالعہ کیا ہے اور ہر اس شق پر غور کیا جسے چیلنج کیا گیا ہے۔
عدالتی فیصلے میں کہا گیا کہ 'ہم اس نتیجے پر پہنچے ہیں کہ عرضی گزاروں نے تمام وقف قانون کو چیلنج نہیں کیا ہے۔ تاہم بعض شقوں جنھیں چیلنج کیا گیا ہے، ان میں قانونی تحفظ کی ضرورت ہے۔'
عدالت عظمی نے کہا کہ نئے وقف ترمیمی قانون کی مذکورہ شق اس وقت تک معطل رہے گی جب تک کہ حکومت اس سوال کے تعین کی تشریح کا کوئی ضابطہ اختیار نہیں کرتی کہ آیا کوئی شخص کم از کم پانچ برس سے اسلام کےطریقہ کار پر عمل کر رہا ہے یا نہیں۔
عدالت نے کہا کہ 'اس طرح کے ضابطے کی عدم موجودگی میں اس قانون کا غلط استعمال کیا جا سکتا ہے۔'
انڈیا کی مرکزی حکومت نے ملک کے وقف قانون میں بڑے پیمانے پر ترمیم کرنے کے بعد ایک نیا قانون منظور کیا تھا جس میں نہ صرف جائدادیں وقف کرنے کو مشروط کر دیا گیا تھا بلکہ اس کا بیشتر انتظام اور اختیار بھی حکومت کے تابع کر دیا گیا تھا۔
وقف کے انتظامات دیکھنے والے مرکزی اور ریاستی اداروں میں مسلمانوں کے ساتھ ساتھ نامزد غیر مسلم ارکان کو بھی شامل کیا گیا تھا۔
گذشتہ مئی میں جب یہ قانون نافذ کیا گیا تھا تو اس وقت حکومت نے کہا تھا کہ اس قانون کا مقصد وقف کی املاک کے لیے ایک بہتر اور شفاف نظام فراہم کرنا ہے۔
انڈیا میں وقف قوانین میں ترمیم: ’مقصد مسلمانوں سے جائیدادیں چھیننا ہے، بی جے پی کے پاس ہندو، مسلم کے سوا کچھ نہیں‘نذرانے وصول کرنے پر پابندی: انڈین حکومت کشمیر میں مزاروں کا کنٹرول کیوں حاصل کرنا چاہتی ہے؟’انسانیت مذہب سے بالاتر ہے‘: جب بچوں کی مدد کے لیے انڈیا میں مسلمان شہریوں نے ہندو شخص کی آخری رسومات ادا کیںانڈین انفلوئنسر جنھیں مسلمانوں کے خلاف مبینہ نفرت انگیزی پر گرفتار کیا گیا
مسلم عرضی گزاروں نے عدالت سے درخواست کی تھی کہ مرکزی اور ریاستی وقف بورڈز میں صرف مسلم ارکان شامل کیے جائیں۔ ان کی یہ دلیل تھی کہ وقف ایک خالص مذہبی عمل ہے اور دیگر مذاہب کی طرح مسلمانوں کے مذہبی امور کی ذمہ داری صرف مسلمانوں کو ہی دی جائے۔
نئے ترمیمی قانون میں حکومت نے مسلمانوں کے ساتھ ساتھ غیر مسلم ارکان کی بھی شمولیت کا بھی انتظام کیا تھا۔
اب عدالت عظمی نے کہا ہے کہ اگرچہ وقف بورڈز میں غیر مسلموں کی شمولیت کی شق کو معطل نہیں کیا گیا لیکن ان کی تعداد محدود کرنے کا حکم دیا گیا ہے۔
عدالت عظمی نے کہا کہ مرکزی وقف کونسل کے 22 ارکان میں چار سے زیادہ غیر مسلم ارکان نہیں ہوں گے، اسی طرح ریاستی وقف بورڈز میں 11 میں سے 3 سے زیادہ غیر مسلم ارکان نامزد نہیں کیے جا سکتے۔
عدالت نے عرضی گزاروں کی یہ درخواست تسلیم نہیں کی کہ ریاستی بورڈز کے چیف ایگزیکٹیو آفیسر مسلم ہی ہوں گے۔ تاہم عدالت نے اپنے فیصلے میں کہا کہ جہاں تک ممکن ہو، اس عہدے کے لیے کسی مسلم افسر کو ہی مقرر کیا جائے۔
عدالت عظمی نے نئے قانون کی اس شق پر بھی روک لگا دی ہے جس میں کہا گیا تھا کہ وقف کی زمین پر حکومت سے کسی تنازعے کی صورت میں کلیکٹر کی رپورٹ آنے تک وہ مخصوص جائداد وقف کی ملکیت نہیں رہے گی۔
اس فیصلے میں قانون کی اس شق کو بھی معطل کر دیا گیا ہے جس میں کہا گیا ہے کہ 'اگر مقررہ افسر متنازع جائیداد کو سرکاری ملکیت کی جائیداد پاتا ہے تو وہ ریکارڈ میں مطلوبہ ترمیم کرے گا اور اس کے بارے میں ایک رپورٹ ریاستی حکومت کو پیش کرے گا۔
عدالت عظمی نے کہا کہ 'کلیکٹر کو ملکیت کا حق طے کرنے کا مجاز بنانا اختیارات کی تقسیم کے اصولوں کے منافی ہے۔ کیونکہ ایگزیکٹیو کو شہریوں کے حقوق کے تعین کی اجازت نہیں دی جا سکتی۔'
عدالت نے کہا کہ جب تک کسی متنازع وقف ملکیت کا حتمی فیصلہ ٹریبیونل اور ہائی کورٹ سے نہیں آ جاتا تب تک نہ وقف بورڈ کو اس جائیداد سے بے دخل کیا جا سکتا ہے اور نہ ہی رینیو ریکارڈ میں کوئی تبدیلی کی جا سکے گی۔
عدالت عظمی نے آثار قدیمہ اور دوسری تاریخی عمارتوں کو وقف کے دائرے میں لانے کے قانون کو ختم کیے جانے کی شق میں کوئی دخل نہیں دیا۔ مسلمانوں کا دعویٰ تھا کہ صرف مسلم ایسی عمارتوں کو وقف میں لینے کے مجاز ہیں۔ عدالت نے اس دلیل کو تسلیم نہیں کیا۔
انڈیا کی اپوزیشن جماعتوں نے سپریم کورٹ کے فیصلے پر خوشی کا اظہار کیا ہے۔
کانگریس پارٹی کے ترجمان جے رام رمیش نے ایک بیان میں کہا کہ 'سپریم کورٹ کا حکم اپوزیشن جماعتوں اور پارلیمانی کمیٹی کے ان ارکان کے لیے ایک بہت بڑی جیت ہے جنھوں نے اس قانون کے بارے میں اپنے تحفظات پیش کیے تھے۔'
انھوں نے کہا کہ عدالت کے اس فیصلے سے حکومت کی سازش اور ارادوں پر 'روک لگ گئی ہے۔'
دوسری جانب حکمراں بی جے پی نے کہا اس کے ذریعے بنایا گیا قانون جانچ کے عمل سے گزر رہا ہے۔ 'یہ ایک مثبت پیش قدمی ہے۔'
Getty Imagesوقف کیا ہے اور اس کے قانون میں ترمیم کیوں کی گئی؟
اپریل 2025 کے دوران انڈین پارلیمنٹ نے 'یونائیٹڈ وقف مینجمنٹ ایمپاورمنٹ، ایفیشنسی اینڈ ڈیولپمنٹ ایکٹ 1995' منظور کیا تھا۔ نیا بل 1995 کے وقف ایکٹ میں ترمیم کے لیے لایا گیا تھا۔
اس کے مطابق وہی شخص زمین عطیہ کر سکتا ہے جو مسلسل پانچ سال تک مسلمان رہا ہو اور عطیہ کی جانے والی جائیداد اس کی اپنی ملکیت ہو۔ جبکہ سروے کرانے کا حق وقف کمشنر کے بجائے کلیکٹر کو دیا گیا تھا۔
تاہم کئی مسلم تنظیموں نے اسے سپریم کورٹ میں چیلنج کیا تھا۔ وقف ترمیمی بل پر سپریم کورٹ کے وکیل فضل احمد ایوبی کا کہنا تھا کہ وقف اراضی حکومت کی نہیں بلکہ عطیہ کی گئی اراضی ہے جو لوگوں نے اپنی جائیداد سے دی کی تھی لیکن حکومت ایسا کر رہی ہے جیسے وقف نے سرکاری زمین پر قبضہ کر لیا ہو۔
لوک سبھا میں اس بل پر بحث کے دوران وزیر داخلہ امیت شاہ نے اپوزیشن پر الزام لگایا تھا اور کہا تھا کہ 'مجھے لگتا ہے کہ سیاسی وجوہات کی بنا پر ارکان کے ذہنوں میں بہت سی غلط فہمیاں ہیں اور انھیں پھیلانے کی کوشش کی جارہی ہے۔'
'کچھ لوگ یہ افواہیں پھیلا رہے ہیں کہ یہ ایکٹ مسلم کمیونٹی کے مذہبی حقوق اور املاک میں مداخلت کرے گا۔ یہ مکمل طور پر غلط ہے اور اقلیتوں کو خوفزدہ کرنے کی محض ایک سازش ہے تاکہ انھیں ووٹ بینک کے طور پر استعمال کیا جا سکے۔'
انڈیا میں عباتگاہوں، خانقاہوں اور مسلمانوں کی فلاح و بہبود کے لیے زمینیں اور املاک وقف کرنے کی روایت مسلم حکمرانوں کے دور سے ہی چلی آ رہی ہے۔
بادشاہوں کے دور میں نہ صرف حکمراں بلکہ صاحب حیثیت اور مخیر لوگ مسجدوں، خانقاہوں، امام بارگاہوں اور دیگر امور کے مصارف اور دیکھ بھال کے لیے اپنی جائیدادوں کا کچھ حصہ وقف کیا کرتے تھے۔ نوابوں کے عہد میں یہ سلسلہ اور بھی بڑھ گیا تھا۔
مسلمان اپنی جائیدیدیں اور املاک خدا کی راہ میں وقف کرنے کو ایک انتہائی نیک اور ثواب کا عمل سمجھتے تھے۔ بیشتر قبرستان کی زمینیں، درگاہیں، خانقاہیں ، امام بارگاہیں، مساجد اور مدرسے مسلمانوں کی وقف کی گئی زمینوں پر تعمیر کیے گئے ہیں۔
مسلمان صرف مکان ہی نہیں اپنی زرعی زمینیں اور باغات وغیرہ بھی وقف کیا کرتے تھے۔ آزادی کے بعد بھی انڈیا میں یہ سلسہ جاری رہا۔
مسلمان انفرادی طور پر اپنی املاک اور جائیداد کا کچھ حصہ مذہبی امور کے لیے وقف کرتے آئے ہیں۔ ان کی دیکھ بھال کے لیے وقف کا قانون بنایا گیا تھا جس کے تحت مختلف ریاستوں میں وقف بورڈ تشکیل دیے گئے تھے۔ ان میں حکومت کے نامزد ارکان کے علاوہ سرکردہ مسلم شحصیات، دانشور، مذہبی رہنما اور علما وغیرہ کو شامل کیا جاتا تھا۔ بورڈ کے کم وبیش سبھی ارکان مسلم ہی ہوتے تھے۔
وقف ایکٹ میں دو طرح کی جائیداد کا ذکر ہے۔ پہلا وقف اللہ کے نام پر ہے، یعنی ایسی جائیداد جو اللہ کے لیے وقف کی گئی ہو اور جس پر میراث کا کوئی حق باقی نہ ہو۔
وقف کی دوسری قسم میں ایسی وقف جائیداد ہے جس کی دیکھ بھال ورثا کریں گے۔
اس دوسری قسم کے وقف سے متعلق نئے بل میں انتظام کیا گیا ہے۔ اس سے خواتین کا وراثت کا حق نہیں چھیننا چاہیے۔
ایک بار جب ایسی عطیہ کی گئی جائیداد وقف کے کھاتے میں آجائے تو ضلع کلکٹر اسے بیوہ خواتین یا ایسے بچوں کی بہبود کے لیے استعمال کر سکے گا جن کے والدین نہیں۔
وقف کوئی بھی منقولہ یا غیر منقولہ جائیداد ہے جو کسی بھی شخص کی طرف سے اللہ کے نام پر یا مذہبی یا خیراتی مقاصد کے لیے عطیہ کی جاتی ہے۔
یہ جائیداد فلاح و بہبود کے لیے معاشرے کی ملکیت بن جاتی ہے اور اللہ کے سوا کوئی اس کا مالک نہیں ہے اور نہ ہی ہو سکتا ہے۔
Getty Imagesوقف کے پاس کتنی زمین ہے؟
سرکاری اعداد و شمار کے مطابق، وقف کے پاس تقریباً 9.4 لاکھ ایکڑ اراضی ہے۔
اگر ہم اس کا موازنہ وزارت دفاع اور ریلوے سے کریں تو یہ وقف اراضی کے معاملے میں انڈیا میں تیسرے نمبر پر ہے۔
وزارت دفاع کے پاس 17.95 لاکھ ایکڑ اراضی ہے جبکہ ریلوے کے پاس تقریباً 12 لاکھ ایکڑ اراضی ہے۔
اتنی زمین کا رقبہ کچھ ریاستوں اور مرکز کے زیر انتظام علاقوں سے زیادہ ہے اور کل رقبہ 9.14 لاکھ ایکڑ (3702 مربع کلومیٹر) ہے۔
دارالحکومت دہلی کا کل رقبہ 3.66 لاکھ ایکڑ (1484 مربع کلومیٹر) ہے۔
دادرا نگر حویلی کا مرکزی علاقہ 1.21 لاکھ ایکڑ پر پھیلا ہوا ہے، جبکہ چندی گڑھ کا رقبہ تقریباً 28000 ایکڑ ہے۔
شیعہ مذہبی رہنما کلبِ جواد کے مطابق وقف جائیداد کسی کی ذاتی ملکیت نہیں ہے۔
وہ سوال کرتے ہیں کہ اس کا اطلاق کہیں اور کیوں نہیں ہوتا۔
وہ کہتے ہیں، 'کئی مندروں میں سونے کے ذخائر ہیں، اگر یہ سونا ریزرو بینک میں چلا جائے تو ڈالر کی قیمت روپے کے برابر ہو جائے گی۔ کیا حکومت ایسا کام کر سکتی ہے؟'
انڈیا میں وقف قوانین میں ترمیم: ’مقصد مسلمانوں سے جائیدادیں چھیننا ہے، بی جے پی کے پاس ہندو، مسلم کے سوا کچھ نہیں‘نذرانے وصول کرنے پر پابندی: انڈین حکومت کشمیر میں مزاروں کا کنٹرول کیوں حاصل کرنا چاہتی ہے؟مسجد کے لیے مجوزہ زمین پر مسلمانوں کو اعتراض کیوں؟مسلمان نہیں سکھ ہیں اس درگاہ کے خادمسات بہنوں کی درگاہ جہاں آج بھی خواتین منتیں لے کر آتی ہیںگاجی شاہ کی درگاہ پر ذہنی مریضوں کی بھیڑانڈین انفلوئنسر جنھیں مسلمانوں کے خلاف مبینہ نفرت انگیزی پر گرفتار کیا گیا